پشتو کو سنسکرت بنانے کی کوشش

تو زبان کے ماہرین، منورین اور دانشورین کو پتہ چلا تھا کہ پشتو رسم الخط سے کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔

barq@email.com

ہم تو خیر وہاں مو جود نہیں تھے کیونکہ ابھی ہم اس مقام تک نہیں پہنچے ہیں کہ اس قسم کے سرکاری، ادبی، علمی اور ہائی لیول کی تقریبات کے لیے کوالی فائی کر سکیں جو سرکاری ادارے اپنے بجٹ اور فنڈز کو متوازن کرنے کے لیے برپا کرتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس تقریب سعید کا سرکاری یا اخباری نام کیا تھا ۔

عام طور پر سنا ہے کہ '' کانفرنس '' نام ہو اکرتے ہیں لیکن ذرا زیادہ ہائی وولٹیج کی ہو تو اسے سیمینار بھی کہا جاتا ہے بلکہ ایک نیا کام بھی سننے میں آتا ہے، ورکشاپ ۔ اب ہم نے جب دیکھا نہیں تو کیسے بتا سکتے ہیں کہ کانفرنس کیا ہوتی ہے، سیمینار کسے کہتے ہیں اور ورکشاپ میں کس قسم کا شاپ ورک ہوتا ہے ۔

کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے

ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں

بہر حال انھی میں سے کوئی نہ کوئی چیز تو ہوگی جو پچھلے دنوں بمقام باڑہ گلی منعقد ہوئی۔ باڑہ گلی میں پشاور یونیورسٹی کا ایک کیمپس پرانے وقتوں کا ہے، معلوم نہیں کہ انگریز یا دوسرے لوگ وہا ں کیا کرتے ہوں گے لیکن آج کل سنا ہے یونیورسٹی والے وہاں اپنے سال بھر کی ''تھکان'' اتارتے ہیں جو انھیں طلباء کو مزید جاہل بناتے بناتے لاحق ہو جاتی ہے اورکھبی کبھی یونیورسٹی کے کسی ادارے کے پاس باوجود کچھ فنڈز وغیرہ کے سر پلس ہونے کا خطرہ ہو تو ان '' چیزوں '' میں سے کوئی '' چیز '' وہاں بربادکر لیتے ہیں۔ منتخب روزگار قسم کے علما، فضلا، ڈاکٹرز پروفیسرز اور سبجیکٹ ماہرین اپنے مخصوص مقالوں سے لوگوں کو محو خواب کرنے کا کام کرتے ہیں۔

چنانچہ ہماری مدر اکیڈمی یا ''ایک آدمی'' جس سے ہم نے علم تحقیق میں کسب فیض کیا ہوا ہے اس نے بھی ایک ایسی چیز وہاں برپا کی ۔آوٹ سائیڈر ہونے کی وجہ سے ہم تو اس میں ''ان '' ہونے کے لیے کوالیفائی نہ کر پائے لیکن اتنی سن گن ملی ہے کہ پشتو زبان کے ماہرین، منورین اور دانشورین کو پتہ چلا تھا کہ پشتو رسم الخط سے کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ پشتو پڑھنے لگے ہیں، ظاہر ہے کہ بڑی تشویشناک چیز تھی ۔


کیا یہ علماء، فضلاء، ڈاکٹرز، اسکالرز ، دانشور اس لیے اتنی بڑی بڑی ڈگریاں لیے پھرتے ہیں کہ عام لوگ بھی پشتو پڑھ اور سمجھ سکیں، اگر ایسا ہے اور ایسا ہوا ہے تو کل کلاں کو ہر کوئی منہ اٹھا کر پشتو پڑھنے اور سمجھنے لگے گا حالانکہ گذشتہ پچاس ساٹھ سال سے ان علماء، فضلاء، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور اسکالروں نے نہایت محنت سے پشتو کو سنسکرت کا ہم پلا بنا یا ہوا ہے کہ صرف برھمن اسے پڑھ اور سمجھ سکیں اور عامیوں کے ہاتھوں اس کی عصمت تار تار نہ ہو۔

سنسکرت کے بارے میں تو ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اسے صرف ایک آدمی '' پانینی ''نے عوام کے منہ سے نکال کر خواص کی خاص الخاص زبان بنایا تھا لیکن پشتو کو اس مقام پر پہنچانے کے لیے افغانستان اور خیبر پشتون خوا کے بہت سارے ڈگری ہولڈر ڈاکٹروں، پروفیسروں، اسکالروں اور دانا دانشوروں نے مل کر بڑی محنت کی ہے اور اب کہیں جا کر اس مقام پر پہنچایا تھا کہ بچے دور سے دیکھ کر ہی چلانے لگتے تھے کہ پاگل عورت پاگل عورت کیونکہ اس کی نہ کوئی '' کل '' سیدھی چھوڑی گئی تھی اور نہ ہی حلیہ دیکھنے لائق چھوڑا گیا ۔ اس سے زیادہ علمی کمال اور ہو بھی کیا سکتا ہے کہ بچے خود اپنی ماں کو پہنچاننے سے انکار کرکے اسے پگلی یا ڈائن یاچڑیل سمجھنے لگیں ۔

کئی سال پہلے بھی ایک کوشش دونوں ملکوں کے علماء،فضلاء، دانشوروں، اسکالروں اور کالروں نے کی تھی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے کچھ حروف کو مزید سینگیں، کان اور دمیں لگا کر درست کر دیا گیا تھا ۔ لیکن لوگ بھی بڑے بدمعاش ہیں ، اسے پڑھنے اور سمجھنے کے طریقے نکال لیے چنانچہ ضروری ہو گیا تھا کہ اسے دوبارہ کچھ جوڑا، توڑا، مروڑا اور نچوڑا جائے ۔

ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا ورنہ ہمارے پاس کچھ نہایت ہی بہترین تجاویز تھیں جسے اپنا کر پشتو کو مکمل طور پر جنات بلکہ ابلیس کی زبان بنایا جا سکتا ہے ۔

مثلاً الف کے اگر تین سینگ اوپر نیچے لگا دیے جائیں تو ''1''کی ایک ہو جائے گا ب کو درمیان میں ایک موڑے دے کر یا دو آنکھیں لگا کر بھب بنایا جا سکتا ہے۔ م کو ایک لمبی دم لگا کر اس کے ساتھ چھاج باندھا جا سکتا ہے یوں ''م''فی الحال چار '' ی '' ہیں، انھیں بھی دم یا کان یا سینگیں لگا کر درست کیا جاسکتا تھا ۔ تاکہ '' پشتو '' میں لکھی ہوئی کوئی چیز دیکھ کر ہی بندہ ڈر جائے۔

خیر ہماری تجاویز ہوتیں تو کچھ اور بات ہوتی لیکن اب بھی ہم نے فہرست میں جن نامی گرامی ڈاکٹروں، پروفیسروں اور اسکالروں کے نام دیکھے ہیں، وہ کچھ نہ کچھ '' تو ضرور کر گئے ہوں گے کیونکہ ہمیں باوثوق ذرایع سے پتہ چلا ہے کہ آج کل ڈاکٹرز، پروفیسرز، علامہ، عمامہ اور علماء و فضلاء کو ڈگری تب دی جاتی ہے جب بدلے میں وہ اپنی عقل بطور فیس جمع کروا دیتے ہیں ۔جووہ نچلی تعلیمی مراحل سے کسی نہ کسی طرح بچا کر لائے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ انھوں نے پشتو رسم الخط کو یقینًا ایسا بنایا ہوگا کہ ان کے علاوہ مطلب یہ کہ کوئی نان ڈگری ہو لڈر اسے ہر گز پڑھ نہیں پائے گا ، یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ ڈگری ہولڈروں کے علاوہ ہر عامی امی پشتو پڑھنے اور سمجھنے لگے ۔ اسے غالباً اردو میں ''لکھے خدا پڑھے موسیٰ'' بھی کہتے ہیں ۔
Load Next Story