بڑے پردے پرراج کرنے والے کہاں
بھارت میں موجود، پاکستان میں غائب۔
قیام پاکستان سے پہلے تک یہ پورا خطہ ہندوستان کے نام سے جانا جاتا تھا مگرجونہی مسلمانوں کی جانب سے ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کی تحریک چلائی گئی توپھر1947ء کوہمارا پاک وطن وجود میں آیا۔
آزادی کے اس سفرمیں لاکھوں لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہیں لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے بے گھرہونے کے ساتھ ساتھ بہت سا مالی نقصان بھی برداشت کیا۔ مگرجونہی ایک آزاد وطن پاکستان میں انہوں نے اپنی زندگی کا نیا سفرشروع کیا توکسی کویہ معلوم نہ تھا کہ انہیں کامیابی ملے گی یا نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود سب لوگ اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے لگے۔
زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری سے وابستہ فنکاروں، ہدایتکاروں، رائٹروں، فلمسازوں اورتکنیکاروں نے بھی ایک نئی شروعات کی ۔ مسائل بے پناہ تھے لیکن ان کے جذبے کسی سے کم نہ تھے۔ ہرکوئی اپنے کام میں کچھ کمال کردکھانے کی دھن میں سوار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد جوفلمی سفر شروع ہوا ، اس سے وابستہ ہونے والے لوگوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پراس کوکامیابی کی راہ پرگامزن کردیا۔ کسی نے عمدہ کہانی لکھی تو کسی نے سچے سروں سے دھن بنائی، کسی نے ڈائریکشن میں کمال دکھایا توکسی نے سیٹ سجائے۔
لیکن ان تمام لوگوں کی محنت کوبڑے پردے پرلانے والے فنکاروں نے جب اپنی صلاحیتوں کا ہنردکھایا تواس کا نتیجہ فلم نگری کی کامیابی کی شکل میں دکھائی دینے لگا۔ ایک طرف پاکستانی فلمیں لوگوںکی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں اوردوسری جانب بھارتی۔ حالانکہ وسائل بہت کم تھے لیکن مقابلہ سخت اورکانٹے دارتھا۔ ایسے میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دورختم ہوا اورسلورسکرین پرشوخ رنگوں سے سجی فلمیں لگنے لگیں۔ اس دورکے فنکاروں نے اس رنگین دنیا کواپنی دلفریب اداکاری کے ساتھ اوربھی رنگین بنادیا۔
فلموں کی کہانیاں، ڈائیلاگ اورگیت لوگوں کی زبان پرتھے۔ دوسری جانب فنکاروں کے چاہنے والوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا۔ کوئی ان کے ملبوسات کوکاپی کرتا توکوئی ہیئرسٹائل کو۔ بس یوں کہئے کہ فنکارہی سب کے آئیڈیل بننے لگے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان اوربھارت میں فنکاروںکوکیا مقام حاصل تھا۔
ویسے تویہ بات 70ء اور80ء کی دہائی کی ہے جب لوگوں کی سب سے پسندیدہ اورسستی ترین تفریح فلم ہوا کرتی تھی۔ جب فلمی ستارے کہیں سڑک پردکھائی دیتے یا سینما گھرپہنچتے توان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا۔ رش اتنا ہوتا کہ ٹریفک کا نظام دھرم بھرم ہوجایا کرتا۔ یہی نہیں فنکاروں کے گھروں کے باہرملنے والوں کا رش لگا رہتا تھا۔ یہ تمام وہ باتیں ہیں، جن سے ایک فلمی ستارے کے سٹارڈم کا اندازہ لگایا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ بالی وڈ میں آج بھی امیتابھ بچن، جیا بہادری، وحیدہ رحمان، ہیما مالنی، رجنی کانت، زرینہ وہاب، دھرمیندر، ریکھا ، ہیلن، نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی، رشی کپور، ڈمپل کپاڈیا، نیتوسنگھ، شرمیلا ٹیگور، امریتا سنگھ، جیکی شیروف، مادھوری، انیل کپور اورکملا حسن سمیت بہت سے فنکار اپنی جوانی کے گزرنے کے باوجود آج بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ بالی وڈ والے یہ بات جانتے ہیں کہ ان کے یہ عظیم فنکارآج ہیرویا ہیروئن کے کردار تونہیں کرسکتے لیکن ان میں جو ٹیلنٹ ہے، اس کواگراستعمال میں نہ لایا جائے تویہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ دیکھا جائے تو آج کی نوجوان نسل کے پسندیدہ فنکار تو کوئی اورہیں لیکن اس کے باوجود بالی وڈ میں اپنے سینئرزکوعزت دینے کے ساتھ ساتھ کام کروانے کا جوسلسلہ جاری ہے، وہ واقعی ہی قابل ستائش ہے۔
دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان فلم انڈسٹری کی تویہاں ''گنگا الٹی بہہ رہی ہے''۔ ہمارے عظیم فنکارجن میں فلمسٹار ندیم، زیبا بیگم، اعجاز درانی، سنگیتا، شاہد، بابرہ شریف، غلام محی الدین، نشوبیگم، مصطفیٰ قریشی، بہاربیگم، علی اعجاز، نغمہ، زریں پنا ، دیبا ، انجمن، دردانہ رحمان، نیلی، ریما اورصائمہ سمیت بہت سے فنکارایسے ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمرفلم کے نام کی اورایسے انمول کردارنبھائے کہ ان کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ عظیم فنکار ہیں جن کی اداکاری اورڈائیلاگ ڈلیوری کے بالی وڈ والے بھی پرستار ہیں۔ مگربدقسمتی دیکھئے کہ آج کے جدید دورمیں جہاں بالی وڈ دنیا کی دوسری فلم انڈسٹری بن چکی ہے اوروہاں پربننے والی فلمیں بیک وقت 100سے زائد ممالک میں نمائش کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
وہاں پرآج بھی اپنے سینئر فنکاروں کی عمر اورفنی قد کے اعتبارسے انہیں کردار دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے بدقسمتی کہہ لیں یا سازش، ماضی کے عظیم فنکاروں کو اس طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ اس کی کوئی بدترین مثال نہیں ملتی۔ ہمارے عظیم فنکارمختلف شعبوں میں کام توکررہے ہیں لیکن انہیں وہ کام نہیں دیا جارہا جس میں ان کی اصل مہارت ہے۔ اوروہ کام کوئی اورنہیں فلم ہی ہے۔ آج کے جدید دورمیں بننے والی فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز توبن رہی ہیں لیکن ان میں فلم کا وہ انگ نمایاں نہیں ہوپارہا، جس کو شائقین دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری عمل یہی ہے کہ ان باصلاحیت فنکاروں، تکنیکاروںکوبھی اپنی ٹیم کا حصہ بنایا جائے جواصل میں فلمسازی کے عمل کوسمجھتے اوراس میں مہارت رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے فلم کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کوپاکستان فلم انڈسٹری کا نیا دورکہا جائے توغلط نہ ہوگا لیکن اس نئے دورمیں اپنے سینئرز کوتنہا چھوڑنا یا ان کی صلاحیتوںکا اعتراف نہ کرنا ہمارے نزدیک توجرم ہے۔ کیونکہ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہری دور میں جن فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کے بل پرفلم اور سینما کوعوام کے سب سے قریب کیا، وہ واقعی ہی عظیم لوگ ہیں۔ مگرہمارے ہاں ان 'انمول رتنوں' کی قدر کرنے کی بجائے ان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ شاید خود کام کی ڈیمانڈ کریں گے۔
یقین جانیے کہ بہت سے فنکاراس آس کے ساتھ دنیا سے چلے گئے کہ انہیں عزت اوراحترام کے ساتھ بالکل اسی طرح کام ملے گا، جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں فنکاروں کودیا جارہا ہے۔ لیکن نوجوان فلم میکرز اس بات کودھیان میں نہیں رکھتے کہ آج وہ نوجوان ہیںاور کل انہیں بھی سینئرہونا ہے۔ اگرآج وہ اپنے سینئرز کی عزت نہیں کرینگے اوران کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کریں گے تومستقبل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ یہ توقانون قدرت بھی ہے۔ آج جس طرح عظیم فنکاروں کی 'کہکشاں' تنہائی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے۔
اسی طرح یہ لوگ بھی تنہائی کی زندگی بسرکرتے دکھائی دیں گے۔ ایسی صورتحال کے آنے سے پہلے ہی نوجوان فنکاروں، فلم میکرز، پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں اور رائٹروں کو' ہوش کے ناخن ' لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ عوام کے پسندیدہ ترین فنکاروں کودوبارہ سے سلورسکرین کا حصہ بنائیں اوران کووہی مقام دیں، جس کے وہ حقدار ہیں۔
اگرآج یہ سلسلہ شروع ہوگیا توہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کا سب سے مثبت پہلوہوگا۔ کیونکہ آج بھی ماضی کے عظیم فنکاروں پاکستان فلم انڈسٹری کووہی مقام دلانے کی خواہش رکھتے ہیں، جوماضی میں اس شعبے کے پاس تھا۔ آج پاکستان میں فلم سے وابستہ فنکاروںکو وہ مقام حاصل نہیں ہے ، جوکبھی ہوا کرتا تھا، لیکن ذرا سے ڈائریکشن درست کرنے سے یہ سب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ''انا'' کے جال سے باہرنکل کرکچھ اچھا کرنے کی سوچیں اوراپنے سینئرزکوساتھ لے کرقدم بڑھائیں ، سب بہترہوگا اورجو انڈسٹری آج آگے بڑھنے کیلئے کوشاں ہے، وہ ترقی کے افق پرچمکتی دمکتی دکھائی دے گی۔
آزادی کے اس سفرمیں لاکھوں لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہیں لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے بے گھرہونے کے ساتھ ساتھ بہت سا مالی نقصان بھی برداشت کیا۔ مگرجونہی ایک آزاد وطن پاکستان میں انہوں نے اپنی زندگی کا نیا سفرشروع کیا توکسی کویہ معلوم نہ تھا کہ انہیں کامیابی ملے گی یا نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود سب لوگ اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے لگے۔
زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح فلم انڈسٹری سے وابستہ فنکاروں، ہدایتکاروں، رائٹروں، فلمسازوں اورتکنیکاروں نے بھی ایک نئی شروعات کی ۔ مسائل بے پناہ تھے لیکن ان کے جذبے کسی سے کم نہ تھے۔ ہرکوئی اپنے کام میں کچھ کمال کردکھانے کی دھن میں سوار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد جوفلمی سفر شروع ہوا ، اس سے وابستہ ہونے والے لوگوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پراس کوکامیابی کی راہ پرگامزن کردیا۔ کسی نے عمدہ کہانی لکھی تو کسی نے سچے سروں سے دھن بنائی، کسی نے ڈائریکشن میں کمال دکھایا توکسی نے سیٹ سجائے۔
لیکن ان تمام لوگوں کی محنت کوبڑے پردے پرلانے والے فنکاروں نے جب اپنی صلاحیتوں کا ہنردکھایا تواس کا نتیجہ فلم نگری کی کامیابی کی شکل میں دکھائی دینے لگا۔ ایک طرف پاکستانی فلمیں لوگوںکی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں اوردوسری جانب بھارتی۔ حالانکہ وسائل بہت کم تھے لیکن مقابلہ سخت اورکانٹے دارتھا۔ ایسے میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دورختم ہوا اورسلورسکرین پرشوخ رنگوں سے سجی فلمیں لگنے لگیں۔ اس دورکے فنکاروں نے اس رنگین دنیا کواپنی دلفریب اداکاری کے ساتھ اوربھی رنگین بنادیا۔
فلموں کی کہانیاں، ڈائیلاگ اورگیت لوگوں کی زبان پرتھے۔ دوسری جانب فنکاروں کے چاہنے والوں کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا۔ کوئی ان کے ملبوسات کوکاپی کرتا توکوئی ہیئرسٹائل کو۔ بس یوں کہئے کہ فنکارہی سب کے آئیڈیل بننے لگے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان اوربھارت میں فنکاروںکوکیا مقام حاصل تھا۔
ویسے تویہ بات 70ء اور80ء کی دہائی کی ہے جب لوگوں کی سب سے پسندیدہ اورسستی ترین تفریح فلم ہوا کرتی تھی۔ جب فلمی ستارے کہیں سڑک پردکھائی دیتے یا سینما گھرپہنچتے توان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لوگوں کا ہجوم لگ جاتا۔ رش اتنا ہوتا کہ ٹریفک کا نظام دھرم بھرم ہوجایا کرتا۔ یہی نہیں فنکاروں کے گھروں کے باہرملنے والوں کا رش لگا رہتا تھا۔ یہ تمام وہ باتیں ہیں، جن سے ایک فلمی ستارے کے سٹارڈم کا اندازہ لگایا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ بالی وڈ میں آج بھی امیتابھ بچن، جیا بہادری، وحیدہ رحمان، ہیما مالنی، رجنی کانت، زرینہ وہاب، دھرمیندر، ریکھا ، ہیلن، نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی، رشی کپور، ڈمپل کپاڈیا، نیتوسنگھ، شرمیلا ٹیگور، امریتا سنگھ، جیکی شیروف، مادھوری، انیل کپور اورکملا حسن سمیت بہت سے فنکار اپنی جوانی کے گزرنے کے باوجود آج بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ بالی وڈ والے یہ بات جانتے ہیں کہ ان کے یہ عظیم فنکارآج ہیرویا ہیروئن کے کردار تونہیں کرسکتے لیکن ان میں جو ٹیلنٹ ہے، اس کواگراستعمال میں نہ لایا جائے تویہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ دیکھا جائے تو آج کی نوجوان نسل کے پسندیدہ فنکار تو کوئی اورہیں لیکن اس کے باوجود بالی وڈ میں اپنے سینئرزکوعزت دینے کے ساتھ ساتھ کام کروانے کا جوسلسلہ جاری ہے، وہ واقعی ہی قابل ستائش ہے۔
دوسری جانب اگرہم بات کریں پاکستان فلم انڈسٹری کی تویہاں ''گنگا الٹی بہہ رہی ہے''۔ ہمارے عظیم فنکارجن میں فلمسٹار ندیم، زیبا بیگم، اعجاز درانی، سنگیتا، شاہد، بابرہ شریف، غلام محی الدین، نشوبیگم، مصطفیٰ قریشی، بہاربیگم، علی اعجاز، نغمہ، زریں پنا ، دیبا ، انجمن، دردانہ رحمان، نیلی، ریما اورصائمہ سمیت بہت سے فنکارایسے ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمرفلم کے نام کی اورایسے انمول کردارنبھائے کہ ان کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ عظیم فنکار ہیں جن کی اداکاری اورڈائیلاگ ڈلیوری کے بالی وڈ والے بھی پرستار ہیں۔ مگربدقسمتی دیکھئے کہ آج کے جدید دورمیں جہاں بالی وڈ دنیا کی دوسری فلم انڈسٹری بن چکی ہے اوروہاں پربننے والی فلمیں بیک وقت 100سے زائد ممالک میں نمائش کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
وہاں پرآج بھی اپنے سینئر فنکاروں کی عمر اورفنی قد کے اعتبارسے انہیں کردار دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے بدقسمتی کہہ لیں یا سازش، ماضی کے عظیم فنکاروں کو اس طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ اس کی کوئی بدترین مثال نہیں ملتی۔ ہمارے عظیم فنکارمختلف شعبوں میں کام توکررہے ہیں لیکن انہیں وہ کام نہیں دیا جارہا جس میں ان کی اصل مہارت ہے۔ اوروہ کام کوئی اورنہیں فلم ہی ہے۔ آج کے جدید دورمیں بننے والی فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز توبن رہی ہیں لیکن ان میں فلم کا وہ انگ نمایاں نہیں ہوپارہا، جس کو شائقین دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری عمل یہی ہے کہ ان باصلاحیت فنکاروں، تکنیکاروںکوبھی اپنی ٹیم کا حصہ بنایا جائے جواصل میں فلمسازی کے عمل کوسمجھتے اوراس میں مہارت رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے فلم کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دور کوپاکستان فلم انڈسٹری کا نیا دورکہا جائے توغلط نہ ہوگا لیکن اس نئے دورمیں اپنے سینئرز کوتنہا چھوڑنا یا ان کی صلاحیتوںکا اعتراف نہ کرنا ہمارے نزدیک توجرم ہے۔ کیونکہ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہری دور میں جن فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کے بل پرفلم اور سینما کوعوام کے سب سے قریب کیا، وہ واقعی ہی عظیم لوگ ہیں۔ مگرہمارے ہاں ان 'انمول رتنوں' کی قدر کرنے کی بجائے ان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ شاید خود کام کی ڈیمانڈ کریں گے۔
یقین جانیے کہ بہت سے فنکاراس آس کے ساتھ دنیا سے چلے گئے کہ انہیں عزت اوراحترام کے ساتھ بالکل اسی طرح کام ملے گا، جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں فنکاروں کودیا جارہا ہے۔ لیکن نوجوان فلم میکرز اس بات کودھیان میں نہیں رکھتے کہ آج وہ نوجوان ہیںاور کل انہیں بھی سینئرہونا ہے۔ اگرآج وہ اپنے سینئرز کی عزت نہیں کرینگے اوران کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کریں گے تومستقبل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ یہ توقانون قدرت بھی ہے۔ آج جس طرح عظیم فنکاروں کی 'کہکشاں' تنہائی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے۔
اسی طرح یہ لوگ بھی تنہائی کی زندگی بسرکرتے دکھائی دیں گے۔ ایسی صورتحال کے آنے سے پہلے ہی نوجوان فنکاروں، فلم میکرز، پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں اور رائٹروں کو' ہوش کے ناخن ' لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ عوام کے پسندیدہ ترین فنکاروں کودوبارہ سے سلورسکرین کا حصہ بنائیں اوران کووہی مقام دیں، جس کے وہ حقدار ہیں۔
اگرآج یہ سلسلہ شروع ہوگیا توہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کا سب سے مثبت پہلوہوگا۔ کیونکہ آج بھی ماضی کے عظیم فنکاروں پاکستان فلم انڈسٹری کووہی مقام دلانے کی خواہش رکھتے ہیں، جوماضی میں اس شعبے کے پاس تھا۔ آج پاکستان میں فلم سے وابستہ فنکاروںکو وہ مقام حاصل نہیں ہے ، جوکبھی ہوا کرتا تھا، لیکن ذرا سے ڈائریکشن درست کرنے سے یہ سب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ''انا'' کے جال سے باہرنکل کرکچھ اچھا کرنے کی سوچیں اوراپنے سینئرزکوساتھ لے کرقدم بڑھائیں ، سب بہترہوگا اورجو انڈسٹری آج آگے بڑھنے کیلئے کوشاں ہے، وہ ترقی کے افق پرچمکتی دمکتی دکھائی دے گی۔