دیہات میں تعلیم نسواں نظر انداز کیوں
میڈیا ، سول سوسائٹی اور فلاحی تنظیمیں مسئلے کے حل پر مزید توجہ دیں
ارض پاک کے تعلیمی منظر نامے پر نگاہ ڈالتے ہی اُس تنزلی و ابتری کو دیکھا جا سکتا ہے جس کے سبب روشن پاکستان کا خواب صرف خواب ہی رہے گا اور اس کی تعبیر کبھی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ ملک کے ایک دو بڑے اور میٹروپولیٹن شہروں کو چھوڑ کر مجموعی صورت حال کو قابل اطمینان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی طرز سماج کا تصور دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ طبقاتی و معاشی عدم توازن اور طاقت کے بل پر دیہات میں بھی شہروں کی طرح عام آدمی اور قدیم تہذیب و ثقافت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ مسائل نے دونوں جگہ آبادکاروں کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے۔ قلم اس جملے کو لکھتے ہوئے بار بار رُک رہا ہے، لیکن میرے لکھنے یا نہ لکھنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔
نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ''ہمارا ملک اب ترقی پذیر ملکوں سے نکل کر پسماندہ ملکوں کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔'' ملکی آبادی کا بیش تر حصہ دیہات پر مشتمل ہے اور وہاں کے گھمبیر مسائل سے کون ذی شعور آگاہ نہیں ۔ یہ حقیقت اس وقت زیادہ توجہ طلب اور دل سوز ہو جاتی ہے جب اعداد و شمار بتا رہے ہوں کہ ملک میں52 فیصد سے زائد آبادی خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ٹھوس اور مثبت، اثرات کی حامل تعلیمی پالیسی ہمارا مقدر نہ بن سکی، جب کہ ہمارے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے کئی ممالک اپنی ٹھوس تعلیمی منصوبہ بندی کی بدولت آج تعلیم کے بین الاقوامی منظر نامے پر نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایک جمہوری ملک میں تعلیم کے حصول کے لیے مناسب وسائل کی موجودگی ہر شہری کا بنیادی حق اور حکومت کی اولین ذمے داری ہے لیکن ہمارے ہاں معاملات بالکل اس کے برعکس ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت میں ملک کی آبادی کے اکثریتی حصے یعنی خواتین اور بچوں کی تعلیم کے لیے عملی اقدامات اور ملک کی ترقی میں ان کے فعال کردار سے استفادے کے لیے کوئی مثبت لائحہ عمل کا تعین ہی نہیں ہوا۔
اگرچہ شہروں میں بسنے والی خواتین کو کچھ تعلیمی سہولتیں اور مواقع ضرور حاصل ہیں لیکن ان پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔
ایک طرف خواتین کو با اختیار بنانے کے خوش کن نعرے اور سرکاری دعوے ہیں تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں صنفی بنیاد پر تقسیم، تعلیمی و پیشہ ورانہ اداروں میں ''امتیازی'' پالیسیاں اور طرز عمل ہے۔ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک روشن مثال ہے جس نے طالبات کی جانب سے دائر درخواست میں ''صنفی'' بنیاد پر تقسیم کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے صرف ''میرٹ'' کو اصول قرار دیا ہے۔ کاش! اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد ممکن ہوسکے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کی تعلیم، پورے خاندان کو خواندہ بنانے کے مترادف ہے۔
نوبت یہ ہے کہ آج بھی بالخصوص ہماری دیہی طالبات انتہائی نا مساعد حالات میں حصول علم کے لیے کوشاں ہیں، جو قابل تحسین ہونے کے ساتھ ہی ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ہاں دیہات میں اول تو تعلیم کا تصور ہی محال ہے اور پھر سیکنڈری تا اعلیٰ تعلیم آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے۔ اسکولوں کی حالت زار اپنی جگہ مگر اس سوچ کا کیا کیا جائے جو آج بھی عورت کو محکوم اور مظلوم دیکھنے میں اپنی بقاء سمجھتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے جو ماحول درکار ہوتا ہے اس کا احساس پسماندہ علاقوں میں جنم ہی نہیں لے سکا۔
اس کے باوجود ذرائع ابلاغ نے تعلیم نسواں کے لیے جو کوششیں کی ہیں، ان کے مثبت نتائج ضرور سامنے آرہے ہیں۔ حکومت بھی بیدار ہوئی ہے۔ کچھ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی آگے بڑھا ہے جو کسی حد تک خوش آئند ہے، لیکن مجموعی طور پر جو صورت حال ہے ہم اب بھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دے سکتے۔ ایک دیہی طالبہ اپنے مخصوص سماجی زندگی کی وجہ سے اب بھی وہ تعلیمی آزادی نہیں رکھتی جو شہری طالبات کو میسر ہے۔
تعلیمی اداروں کی کمی اور اسکولوں کے دور دراز علاقوں میں ہونے کی وجہ سے والدین چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد خصوصاً بچیوں کو پڑھانے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسرا المیہ ہمارے دیہی علاقوں میں خواتین اساتذہ کی کمی کے سبب بھی قدامت پسند لوگ مرد اساتذہ سے درس لینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ کالجوں میں اگرچہ صورت حال کچھ مختلف ہے لیکن ان کالجوں کی تعداد ہمارے دیہات میں ہے ہی کتنی؟ جس کا براہ راست نقصان ملک کی ترقی کو ہو رہا ہے۔
مانا کہ دیہی تعلیمی نظام عضو معطل نہیں ہے لیکن بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کار گر بھی نہیں۔ حصول علم صرف اس عمل کا نام نہیں ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے بعد فرد روزگار حاصل کرے بلکہ اس کے تقاضے اس سے بڑھ کر ہیں۔ دیہی عورت تعلیم کے بہتر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے آج سماجی، معاشی، خانگی، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے جن مسائل سے دو چار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دیہاتی خواتین کو ہر سطح پر جس طرح دبا کر اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے وہ ایک افسوس ناک قومی المیہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہات میں اپنے بھرپور ذرائع اور وسائل استعمال کرتے ہوئے تعلیم نسواں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مثبت عملی پیش رفت کرے۔
اس کے ساتھ ہی سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور تنظیمیں بھی بشمول ذرائع ابلاغ اس قومی ضرورت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ایک جامع نصاب مرتب کیا جائے جس کی اساس پاکستانی اور مقاصد میں فکر وشعور کی بالیدگی کے ساتھ طالبات کو ہنر مند اور متحرک بنانا شامل ہو۔ ساتھ ہی طبقاتی استحصال کے خاتمے کے لیے بھی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دیہی طالبات کا احساس محرومی دور کیا جاسکے۔ اگر ارباب اختیار نے فوری طورپر اب بھی اس جانب توجہ نہ دی تو یہ ناقابل تلافی اور مجرمانہ اقدام ہوگا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی طرز سماج کا تصور دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ طبقاتی و معاشی عدم توازن اور طاقت کے بل پر دیہات میں بھی شہروں کی طرح عام آدمی اور قدیم تہذیب و ثقافت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ مسائل نے دونوں جگہ آبادکاروں کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے۔ قلم اس جملے کو لکھتے ہوئے بار بار رُک رہا ہے، لیکن میرے لکھنے یا نہ لکھنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔
نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ''ہمارا ملک اب ترقی پذیر ملکوں سے نکل کر پسماندہ ملکوں کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔'' ملکی آبادی کا بیش تر حصہ دیہات پر مشتمل ہے اور وہاں کے گھمبیر مسائل سے کون ذی شعور آگاہ نہیں ۔ یہ حقیقت اس وقت زیادہ توجہ طلب اور دل سوز ہو جاتی ہے جب اعداد و شمار بتا رہے ہوں کہ ملک میں52 فیصد سے زائد آبادی خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ٹھوس اور مثبت، اثرات کی حامل تعلیمی پالیسی ہمارا مقدر نہ بن سکی، جب کہ ہمارے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے کئی ممالک اپنی ٹھوس تعلیمی منصوبہ بندی کی بدولت آج تعلیم کے بین الاقوامی منظر نامے پر نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ایک جمہوری ملک میں تعلیم کے حصول کے لیے مناسب وسائل کی موجودگی ہر شہری کا بنیادی حق اور حکومت کی اولین ذمے داری ہے لیکن ہمارے ہاں معاملات بالکل اس کے برعکس ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت میں ملک کی آبادی کے اکثریتی حصے یعنی خواتین اور بچوں کی تعلیم کے لیے عملی اقدامات اور ملک کی ترقی میں ان کے فعال کردار سے استفادے کے لیے کوئی مثبت لائحہ عمل کا تعین ہی نہیں ہوا۔
اگرچہ شہروں میں بسنے والی خواتین کو کچھ تعلیمی سہولتیں اور مواقع ضرور حاصل ہیں لیکن ان پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔
ایک طرف خواتین کو با اختیار بنانے کے خوش کن نعرے اور سرکاری دعوے ہیں تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں صنفی بنیاد پر تقسیم، تعلیمی و پیشہ ورانہ اداروں میں ''امتیازی'' پالیسیاں اور طرز عمل ہے۔ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک روشن مثال ہے جس نے طالبات کی جانب سے دائر درخواست میں ''صنفی'' بنیاد پر تقسیم کو غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے صرف ''میرٹ'' کو اصول قرار دیا ہے۔ کاش! اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل درآمد ممکن ہوسکے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کی تعلیم، پورے خاندان کو خواندہ بنانے کے مترادف ہے۔
نوبت یہ ہے کہ آج بھی بالخصوص ہماری دیہی طالبات انتہائی نا مساعد حالات میں حصول علم کے لیے کوشاں ہیں، جو قابل تحسین ہونے کے ساتھ ہی ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ہاں دیہات میں اول تو تعلیم کا تصور ہی محال ہے اور پھر سیکنڈری تا اعلیٰ تعلیم آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے۔ اسکولوں کی حالت زار اپنی جگہ مگر اس سوچ کا کیا کیا جائے جو آج بھی عورت کو محکوم اور مظلوم دیکھنے میں اپنی بقاء سمجھتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے جو ماحول درکار ہوتا ہے اس کا احساس پسماندہ علاقوں میں جنم ہی نہیں لے سکا۔
اس کے باوجود ذرائع ابلاغ نے تعلیم نسواں کے لیے جو کوششیں کی ہیں، ان کے مثبت نتائج ضرور سامنے آرہے ہیں۔ حکومت بھی بیدار ہوئی ہے۔ کچھ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی آگے بڑھا ہے جو کسی حد تک خوش آئند ہے، لیکن مجموعی طور پر جو صورت حال ہے ہم اب بھی اسے تسلی بخش قرار نہیں دے سکتے۔ ایک دیہی طالبہ اپنے مخصوص سماجی زندگی کی وجہ سے اب بھی وہ تعلیمی آزادی نہیں رکھتی جو شہری طالبات کو میسر ہے۔
تعلیمی اداروں کی کمی اور اسکولوں کے دور دراز علاقوں میں ہونے کی وجہ سے والدین چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد خصوصاً بچیوں کو پڑھانے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسرا المیہ ہمارے دیہی علاقوں میں خواتین اساتذہ کی کمی کے سبب بھی قدامت پسند لوگ مرد اساتذہ سے درس لینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ کالجوں میں اگرچہ صورت حال کچھ مختلف ہے لیکن ان کالجوں کی تعداد ہمارے دیہات میں ہے ہی کتنی؟ جس کا براہ راست نقصان ملک کی ترقی کو ہو رہا ہے۔
مانا کہ دیہی تعلیمی نظام عضو معطل نہیں ہے لیکن بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کار گر بھی نہیں۔ حصول علم صرف اس عمل کا نام نہیں ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے بعد فرد روزگار حاصل کرے بلکہ اس کے تقاضے اس سے بڑھ کر ہیں۔ دیہی عورت تعلیم کے بہتر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے آج سماجی، معاشی، خانگی، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے جن مسائل سے دو چار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دیہاتی خواتین کو ہر سطح پر جس طرح دبا کر اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے وہ ایک افسوس ناک قومی المیہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہات میں اپنے بھرپور ذرائع اور وسائل استعمال کرتے ہوئے تعلیم نسواں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مثبت عملی پیش رفت کرے۔
اس کے ساتھ ہی سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور تنظیمیں بھی بشمول ذرائع ابلاغ اس قومی ضرورت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ایک جامع نصاب مرتب کیا جائے جس کی اساس پاکستانی اور مقاصد میں فکر وشعور کی بالیدگی کے ساتھ طالبات کو ہنر مند اور متحرک بنانا شامل ہو۔ ساتھ ہی طبقاتی استحصال کے خاتمے کے لیے بھی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دیہی طالبات کا احساس محرومی دور کیا جاسکے۔ اگر ارباب اختیار نے فوری طورپر اب بھی اس جانب توجہ نہ دی تو یہ ناقابل تلافی اور مجرمانہ اقدام ہوگا۔