ہمارے نئے حکمران خوش آمدید

ہم مسلمانوں کی ایک بری عادت ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں حکمرانی اور حکمرانوں کا سوال سامنے آتا ہے تو ہمیں اپنی تاریخ یاد۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

ہم مسلمانوں کی ایک بری عادت ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں حکمرانی اور حکمرانوں کا سوال سامنے آتا ہے تو ہمیں اپنی تاریخ یاد آ جاتی ہے، خواہ یہ تاریخ کسی مولوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں گا کر ہی کیوں نہ سنا دی ہو۔ ہم اسے اپنے حکمرانوں پر نافذ کرنے سے باز نہیں آتے۔ ان دنوں ہمارے ہاں نئے حکمران کی آمد آمد ہے اور اس موقع پر ہمیں ایسی نئی اور پرانی تاریخ یاد آ رہی ہے۔ محمد علی جناح جنھیں ہم نے پاکستان کی قیادت بخوشی سونپ دی تھی اور یہاں تک کہ اسے ایک ثواب تک سمجھ لیا تھا، ان کی جُز رسی اور قومی خزانے کے احترام کے بے شمار واقعات ابھی کل کی تاریخ کا حصہ ہیں۔

انھوں نے کابینہ کے اجلاس میں معزز وزراء کو چائے پلانے سے انکار کر دیا تھا کہ کیا یہ اتنے غریب ہیں کہ گھر سے چائے پی کر نہیں آ سکتے۔ اس جدی پشتی رئیس شخص نے اپنی ذات پر قومی خزانے کی ایک پائی تک خرچ نہ کی۔ ان کی بہن ہر وقت سرکاری اخراجات پر نظر رکھتی تھیں۔ ایک بار دستر خوان پر چار سیب دکھائی دیے تو اے ڈی سی کانپنے لگے چنانچہ یہی ہوا کہ محترمہ جناح نے پوچھ لیا کہ مہمان تو تین تھے، یہ چوتھا سیب کس کے لیے ہے اور تو اور بدنام زمانہ ملک غلام محمد جو تحفے تحائف بھیجنے کے شائق تھے، تحفوں کی پیکنگ اور ڈاک ٹکٹ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔

ایک بار دیکھا کہ ان کا ٹیکس کچھ کم لگایا گیا ہے، اس پر انھوں نے متعلقہ افسر کو ڈانٹ پلائی، دوسرے سال ٹیکس کچھ زیادہ ہے تو فوراً زیادہ ٹیکس کا ری فنڈ لے لیا۔ جمعہ کے دن سوٹ نہیں پاجامہ اور شلوار پہنتے تھے، اوپر شیروانی۔ دفتر سے بارہ بجے اٹھ جاتے، وضو کرتے اور باہر برآمدے میں نماز کے لیے صفیں بچھ جاتیں اور غلام محمد مالیوں چپڑاسیوں کے درمیان آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے۔ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی بہت باتیں ہیں جو چھپائی گئی ہیں تاکہ یہ آنے والوں کے لیے روائت نہ بن جائیں اور ان کی خلاف ورزی ایک اخلاقی جرم نہ ٹھہرے۔

کس کو معلوم نہیں کہ ایک اور بدنام سکندر مرزا حکومت سے معزول ہوا تو گزر بسر کے لیے لندن میں نوکری کرتا رہا۔ ہمارے آج کے اقتدار سے معزول ہونے والوں کے حالات معلوم کریں، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے ان 'معزول' حکمرانوں کے حالات خود بھی سنیں اور شرماتے جائیں اور ہمیں بھی شرمائیں۔ پاکستان خلافت اسلامیہ و عثمانیہ کے اختتام کے چند برس بعد قائم ہوا، اس خلافت نے آخری دنوں میں کوئی بڑی عمدہ روایات تو نہ چھوڑیں، ایک نام چھوڑ دیا جس کی تاریخ ناقابل فراموش تھی۔

اس خلافت کی ابتداء جن ہستیوں نے رکھی اور حکمرانی کی انسانی تاریخ کی مثالی روایات کی ابتدا کی ان میں خلفائے راشدین شامل تھے اور ان کے پیروکار عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ اور پھر صدیوں بعد کی نئی تاریخ کے محمد علی جناح تھے۔ اسلامی حکمرانی کی روایات قائم کرنے والے حضرت عمر بن خطاب کا ایک معمول تھا کہ حضرت کبھی کبھار اپنے گورنروں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے۔ ایک بارخبر ملی کہ گورنر ابو موسی اشعری نے دروازے پر پردہ لٹکا لیا ہے اور دربان بھی رکھ لیا ہے، فوراً پہنچے ، یہ سب دیکھا اور گورنر موصوف کو ساتھ لیتے آئے۔


بیت المال سے چند بکریاں لیں اور ان کی دیکھ بھال اس سابق گورنر کے سپرد کر دی، پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس جگہ گئے جہاں ان کا گورنر بکریاں چرایا کرتا تھا۔ وہ اس چرواہے سے ملے اور باتوں باتوں میں کہا کہ ہم یہی چرواہے تھے کہ اسلام اور حضور پاک نے ہمیں دین کا مالک بنا دیا۔ گورنر یہ سنتے رہے اور روتے رہے، اس پر حضرت عمر نے کہا کہ جاؤ اب گورنری کرو لیکن مسلمانوں کو اپنے سے دور نہ کر ہم سب بھائی ہیں۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے وہ بحال تو ہو گئے لیکن پھر نے بحالی کا حق ادا کر دیا۔

حضرت عمرؓ اپنی برابر کی شخصیت حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے ملنے گئے جو اپنے مفتوحہ علاقوں کے گورنر تھے۔ شام،لبنان، فلسطین اور اردن' اسلامی مملکت کے یہ سرسبز اور خوشحال ترین علاقے تھے اور حضرت عمرؓ کا خیال تھا کہ ابو عبیدہ یہاں عیش کرتے ہوں گے۔ دن بھر ملاقات جاری رہی، شام کو کہا کہ چلو گھر چلتے ہیں ،کچھ آرام کر لیں چنانچہ ابو عبیدہ اپنے مہمان کو لے کر گھر کی طرف چلے، بہت دور نکل گئے تو مہمان نے پوچھا، تمہارا گھر کہاں ہے؟ وہ سامنے ہے۔ حضرت عمر چپ رہے مگر اس مکان کو گھر کون کہہ سکتا ہے۔

بالآخر وہ کٹیا میں داخل ہوئے، سرکنڈہ اور کچی دیواروں کے اس گورنر ہاؤس میں صرف ایک جائے نماز رکھی تھی۔ بتایا گیا کہ رات کو اسی جائے نماز پر سو جاتا ہوں۔ پیاس لگی تو چھت کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک پیالہ اتارا جس میں پانی تھا، وہ مہمان کو پیش کیا اور بتایا کہ پڑوس میں ایک بڑھیا ہے جو مجھے دو تین دن کا کھانا بنا کر دے جاتی ہے، روٹیاں خشک ہو جائیں تو میں اس پیالے میں بھگو لیتا ہوں، گھر کا اتنا سامان ہی میرے لیے کافی ہے، حضرت عمرؓ یہ سن کر رونے لگے تو ابو عبیدہ نے کہا، عمر میں نے تم سے کہا تھا کہ میرے گھر چلو گے تو آنکھیں نچوڑنا پڑیں گی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ دنیا کی ریل پیل نے ہم سب کو بدل دیا، مگر تم رسول پاک کے زمانے میں جیسے تھے اب بھی ویسے ہی ہو۔

ہماری شاندار تاریخ ایسے شاندار واقعیات سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے دنیا سے مرعوب مسلمان حکمرانوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ وہ لوگ تو کسی دوسرے دور کے تربیت یافتہ تھے، اب ہم ایسے کیسے ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس مبارک دور کے صدیوں بعد بھی دنیا کو حیرت زدہ کرتے رہے۔ آپ محمد علی جناح کی ذاتی زندگی میں ان کی احتیاط اور جزرسی کے نمونے دیکھئے اور حکومتی خزانے کے حفاظت کے نمونے دیکھئے، حیرت ہوتی ہے کہ یہ تو کل کی بات ہے، پرانے زمانوں کی نہیں۔

یہ مجھے اسی لیے یاد آیا کہ کوئی نیا بجٹ بن رہا ہے جس میں ایوان صدر اور وزیراعظم کے لیے کروڑوں روپے مخصوص کیے جانے والے ہیں جس قوم کے بچے بسوں میں جا کر مر رہے ہوں، اس قوم پر اللہ کا فضل کیسے ہو گا اور کیوں ہو گا۔ یا باری تعالیٰ ہم بے گناہ عوام کو معاف فرما۔
Load Next Story