گڈگورننس اور ڈلیور
ہمارے محترم دوست جمہوریت کی ناکامی کی ذمے داری گڈ کے بجائے بیڈ گورننس اور ڈلیور نہ کرنے پر ڈالتے ہیں۔
وہماری زمینی اور صنعتی اشرافیہ اور اس کے اتحادی 65سال سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں اس لیے کامیاب رہے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں وہ گیدڑ سنگھی ہے جس کا نام ہے انتخابات۔ اگرچہ ان کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے کبھی کبھی اس کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے لیکن جلد ہی یہ سلسلہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے جسے جمہوریت کی بحالی کا نام دیا جاتا ہے۔
کمال یہ ہے کہ جمہوریت کو اس قدر برگزیدہ اور مقدس بنادیا گیا ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو یا تو انارکسسٹ کا خطاب ملتا ہے یا پھر اسے فاترالعقل کا نام دیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ اس جمہوریت کو برگزیدہ اور مقدس بنانے اور ثابت کرنے میں مڈل کلاس کے وہ دانشور اور قلمکار پیش پیش رہتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انقلاب کے داعی اور رہنما ہوتے ہیں۔
ان حضرات کے خلوص اور ایمانداری پر تو شک نہیں لیکن یہ لوگ اپنے خلوص اور ایمانداری کو ایک ایسے نظام کو مستحکم کرنے میں استعمال کر رہے ہیں جس کی سرشت، جس کا مقصد ہی طبقاتی استحصال ہے۔ ہمارے یہ بھائی عموماً اس فراڈ جمہوریت کی خرابی کی ذمے داری دو لفظوں پر ڈالتے ہیں گڈ گورننس اور ڈلیور۔ جمہوری دانشوری میں یہ دو لفظ اس کثرت سے استعمال ہوتے ہیں کہ عام آدمی ان دو لفظوں ہی کو جمہوریت سمجھنے لگتا ہے۔
ہمارے محترم دوست جمہوریت کی ناکامی کی ذمے داری گڈ کے بجائے بیڈ گورننس اور ڈلیور نہ کرنے پر ڈالتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بادی النظر میں جمہوریت کی کامیابی یا ناکامی کی ذمے داری ان دو لفظوں یا اصطلاحوں پر آتی ہو لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت گڈ گورننس کا مظاہرہ کرتی ہے یا ڈلیور کرتی ہے تو اس گڈگورننس اور ڈلیور کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ مثلاً اس وقت ہمارا ملک مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ جیسے عذابوں میں گرفتار ہے، ہماری سابقہ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے نہ گڈگورننس کا مظاہرہ کیا نہ عوام کو ڈلیور کیا اس وجہ سے ہمارا ملک ان عذابوں کا شکار ہوگیا جن کا ہم نے اوپر مختصراً ذکر کیا ہے۔
اب ذرا جمہوریت کی دوسری اصطلاح ''ڈلیور'' کی طرف آئیے، ڈلیور کا مطلب عوام کے مسائل کا حل لیا جاتا ہے۔ جب کوئی دانشور کہتا ہے کہ حکومت نے ڈلیور نہیں کیا تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کم نہیں کی، گیس، بجلی کی قلت کم نہیں کی، بے روزگاری کم نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس اصطلاح کے ذریعے دانستہ یا نادانستہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی لے پالک جمہوریت کے مکروہ چہرے پر پردہ ڈال جاتا ہے۔
فرض کرلیں اگر کوئی حکومت مہنگائی کو تو کم کرتی ہے، بے روزگاری میں کمی لاتی ہے اور کسی طرح گیس بجلی کی قلت میں کمی لاتی ہے توہمارا دانشور ایسی حکومت کو بلاتوقف گڈگورننس کا خطاب دیتا ہے اور اس کے ساتھ خوشی میں پھولتے ہوئے یہ فتویٰ بھی صادر کردیتا ہے کہ حکومت نے ڈلیور کیا ہے۔ یعنی مہنگائی، بے روزگاری، گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ کارنامے کو جمہوریت کی کامیابی کا نام دے کر ان اصل حقائق کو چھپایا جاتا ہے جو اس نظام کے وہ مظالم ہیں جو اس وقت تک باقی رہیں گے جب تک یہ نظام باقی ہے۔
دنیا کی اصل لڑائی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کا وہ 98 فیصد حصہ جو انسانی ضرورتوں کی اشیاء اپنی محنت سے تخلیق کرتا ہے، وہ بھوک، افلاس، بیماری، جہل، محکومی، مجبوری کا شکار کیوں ہے اور ایک چھوٹی سی اقلیت اس 98 فیصد اکثریت کی محنت پر اپنی دنیا کو جنت کیوں بنائے ہوئے ہے؟ ایک کسان دن رات محنت کرکے اجناس، پھلوں، سبزیوں کے ڈھیر لگاتا ہے، وہ کیوں اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء سے محروم ہے پھر اسے کمی کہہ کر ذلیل کیوں کیا جاتا ہے جب کہ کسان کی محنت پر معزز کہلانے والے زمیندار کو کمی کا درجہ ملنا چاہیے۔
ایک مزدور اپنی محنت سے اتنی دولت پیدا کرتا ہے کہ مالک نئی نئی ملیں، نئے نئے کارخانے بناتا چلا جاتا ہے پھر مزدور دو وقت کی روٹی کا کیوں محتاج رہتا ہے اور معاشرے کا حقیر فرد کیوں کہلاتا ہے؟ یہ وہ سوال نہیں جن کا جواب جمہوریت دے سکتی ہے، نہ گڈ گورننس اور ڈلیوری میں ان کا جواب ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہ چند برائیاں ہیں جنھیں گڈگورننس اور ڈلیور کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور خود جمہوریت کے چہرے کے کوڑھ کا عالم یہ ہے کہ جوڑ توڑ،بے ایمانیاں، مفاد پرستیاں، دھاندلیاں منتخب نمایندوں کی خریدوفروخت اس کے چہرے کو مکروہ بنادیتی ہیں۔
ان سارے بدنما حقائق کے باوجود آج کے انسان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور ہے کیونکہ اسے یہی سمجھایا گیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کی دنیا میں جمہوریت کے علاوہ کوئی ایسا سیاسی نظام موجود نہیں جسے اپنایا جاسکے، یہ ایک مجبوری ہے لیکن اگر کوئی اس نظام کو سیاست کا حرف آخر بناکر عوام کو اس عفریت کے سامنے سر جھکانے کا سبق پڑھاتا ہے تو نہ وہ دانشور ہے نہ وہ عالم ہے نہ وہ عوام کا دوست ہے۔
جب وہ جمہوریت کو آج کی دنیا کی ناگزیر ضرورت کہتا ہے تو اس کی دانشورانہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو یہ بتائے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اپنے نظام کے تحفظ کے لیے تخلیق کیا ہے اور یہ نظام انھیں وہ حقوق، وہ اختیار، وہ خوشحال زندگی اور وہ مقام نہیں دلا سکتا جس کے وہ حقدار ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی دانش، دنیا کی فکر، دنیا کا فلسفہ جمہوریت کی سرحدوں پر پہنچ کر مفلوج ہوگیا ہے، اس نے خوب سے خوب تر کی تلاش کا کام چھوڑ دیا ہے، اگر تلاش کا کام جاری رہتا تو جمہوریت کا کوئی ایسا نظام ڈھونڈا جاسکتا تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ کے بجائے عوام کا، عوام کے حقوق، عوام کی توقیر کا محافظ ہوتا اور دانشوروں کو گڈ گورننس اور ڈلیور کے صحراؤں میں نہ بھٹکنا پڑتا؟ گڈ گورننس اور ڈلیور کرنے کا مطلب عوام کو ریلیف فراہم کرنا لیا جاتا ہے کسی قسم کی ریلیف سے عوام کو نہ طبقاتی استحصال سے نجات ملتی ہے نہ معاشی اور سماجی ناانصافیوں سے۔ہماری جمہوریت دراصل عوام کو اپنے حقوق کی جدوجہد سے روکنے اور طبقاتی مظالم کے خلاف بغاوت سے روکنے کا کام انجام دیتی ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم پہلے سرمایہ دارانہ نظام کی ماہیت کو سمجھیں ویسے تو یہ نظام اس قدر پرپیچ، اس قدر پرفریب ہے کہ اس کی ان خصوصیات کے جائزے کے لیے کتابیں درکار ہیں لیکن اگر ہم اس نظام کی ستم گریوں کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نظام نے انسانوں کو 2/98 میں تقسیم کر رکھا ہے یہ نظام 98 فیصد کی محنت پر پھلتا پھولتا ہے لیکن ان 98 فیصد عوام کی محنت سے تشکیل پانے والی دولت کے 80 فیصد حصے پر خود قبضہ کرلیتا ہے اور 20 فیصد دولت 98 فیصد غریبوں کی طرف اس طرح اچھال دیتا ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے 98 فیصد ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں اور جمہوریت کا کام ان 98 فیصد کو امید کے سہارے یعنی بہتر مستقبل کی امید کے سہارے باغی بننے سے روکنا ہے۔
اب گڈ گورننس اور ڈلیور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے دانشورں کا زور عموماً گڈگورننس پر ہوتا ہے وہ بیڈ گورننس یعنی بری حکومت ہی کو ان ساری برائیوں کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً پچھلے پانچ برسوں سے عوام جن بدترین مسائل کا شکار ہیں جن میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ وغیرہ۔ یہ سارے عذاب بیڈ گورننس کی وجہ سے پیدا ہوئے لیکن ان مفکرین کی نظر ان حقائق پر نہیں جاتی کہ مہنگائی کا اصل محرک بے لگام منافع ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہے۔
بے روزگاری سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی جز ہے اگر یہ پسماندہ ملکوں میں زیادہ ہے تو ترقی یافتہ ملکوں میں کم ہے، لیکن ہے ضرور۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ گیس بجلی کی قلت سے ہوا، بجلی گیس کی قلت کی دو وجوہات نظر آتی ہیں ایک یہ کہ بجلی گیس کی قلت پر قابو پانے کی ذمے داری جن افراد، جن اداروں کو دی گئی انھوں نے اپنی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے اربوں روپوں کی کرپشن کی اور کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ لیکن اس کا الزام بیڈ گورننس پر آتا ہے ان ساری خرابیوں کی دوسری وجہ ہماری جمہوریت ہے جس پر دو فیصد والی کلاس کا قبضہ ہے۔
کمال یہ ہے کہ جمہوریت کو اس قدر برگزیدہ اور مقدس بنادیا گیا ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو یا تو انارکسسٹ کا خطاب ملتا ہے یا پھر اسے فاترالعقل کا نام دیا جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ اس جمہوریت کو برگزیدہ اور مقدس بنانے اور ثابت کرنے میں مڈل کلاس کے وہ دانشور اور قلمکار پیش پیش رہتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انقلاب کے داعی اور رہنما ہوتے ہیں۔
ان حضرات کے خلوص اور ایمانداری پر تو شک نہیں لیکن یہ لوگ اپنے خلوص اور ایمانداری کو ایک ایسے نظام کو مستحکم کرنے میں استعمال کر رہے ہیں جس کی سرشت، جس کا مقصد ہی طبقاتی استحصال ہے۔ ہمارے یہ بھائی عموماً اس فراڈ جمہوریت کی خرابی کی ذمے داری دو لفظوں پر ڈالتے ہیں گڈ گورننس اور ڈلیور۔ جمہوری دانشوری میں یہ دو لفظ اس کثرت سے استعمال ہوتے ہیں کہ عام آدمی ان دو لفظوں ہی کو جمہوریت سمجھنے لگتا ہے۔
ہمارے محترم دوست جمہوریت کی ناکامی کی ذمے داری گڈ کے بجائے بیڈ گورننس اور ڈلیور نہ کرنے پر ڈالتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بادی النظر میں جمہوریت کی کامیابی یا ناکامی کی ذمے داری ان دو لفظوں یا اصطلاحوں پر آتی ہو لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت گڈ گورننس کا مظاہرہ کرتی ہے یا ڈلیور کرتی ہے تو اس گڈگورننس اور ڈلیور کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ مثلاً اس وقت ہمارا ملک مہنگائی، بے روزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ جیسے عذابوں میں گرفتار ہے، ہماری سابقہ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے نہ گڈگورننس کا مظاہرہ کیا نہ عوام کو ڈلیور کیا اس وجہ سے ہمارا ملک ان عذابوں کا شکار ہوگیا جن کا ہم نے اوپر مختصراً ذکر کیا ہے۔
اب ذرا جمہوریت کی دوسری اصطلاح ''ڈلیور'' کی طرف آئیے، ڈلیور کا مطلب عوام کے مسائل کا حل لیا جاتا ہے۔ جب کوئی دانشور کہتا ہے کہ حکومت نے ڈلیور نہیں کیا تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کم نہیں کی، گیس، بجلی کی قلت کم نہیں کی، بے روزگاری کم نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس اصطلاح کے ذریعے دانستہ یا نادانستہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی لے پالک جمہوریت کے مکروہ چہرے پر پردہ ڈال جاتا ہے۔
فرض کرلیں اگر کوئی حکومت مہنگائی کو تو کم کرتی ہے، بے روزگاری میں کمی لاتی ہے اور کسی طرح گیس بجلی کی قلت میں کمی لاتی ہے توہمارا دانشور ایسی حکومت کو بلاتوقف گڈگورننس کا خطاب دیتا ہے اور اس کے ساتھ خوشی میں پھولتے ہوئے یہ فتویٰ بھی صادر کردیتا ہے کہ حکومت نے ڈلیور کیا ہے۔ یعنی مہنگائی، بے روزگاری، گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہ کارنامے کو جمہوریت کی کامیابی کا نام دے کر ان اصل حقائق کو چھپایا جاتا ہے جو اس نظام کے وہ مظالم ہیں جو اس وقت تک باقی رہیں گے جب تک یہ نظام باقی ہے۔
دنیا کی اصل لڑائی، اصل مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کا وہ 98 فیصد حصہ جو انسانی ضرورتوں کی اشیاء اپنی محنت سے تخلیق کرتا ہے، وہ بھوک، افلاس، بیماری، جہل، محکومی، مجبوری کا شکار کیوں ہے اور ایک چھوٹی سی اقلیت اس 98 فیصد اکثریت کی محنت پر اپنی دنیا کو جنت کیوں بنائے ہوئے ہے؟ ایک کسان دن رات محنت کرکے اجناس، پھلوں، سبزیوں کے ڈھیر لگاتا ہے، وہ کیوں اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء سے محروم ہے پھر اسے کمی کہہ کر ذلیل کیوں کیا جاتا ہے جب کہ کسان کی محنت پر معزز کہلانے والے زمیندار کو کمی کا درجہ ملنا چاہیے۔
ایک مزدور اپنی محنت سے اتنی دولت پیدا کرتا ہے کہ مالک نئی نئی ملیں، نئے نئے کارخانے بناتا چلا جاتا ہے پھر مزدور دو وقت کی روٹی کا کیوں محتاج رہتا ہے اور معاشرے کا حقیر فرد کیوں کہلاتا ہے؟ یہ وہ سوال نہیں جن کا جواب جمہوریت دے سکتی ہے، نہ گڈ گورننس اور ڈلیوری میں ان کا جواب ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہ چند برائیاں ہیں جنھیں گڈگورننس اور ڈلیور کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور خود جمہوریت کے چہرے کے کوڑھ کا عالم یہ ہے کہ جوڑ توڑ،بے ایمانیاں، مفاد پرستیاں، دھاندلیاں منتخب نمایندوں کی خریدوفروخت اس کے چہرے کو مکروہ بنادیتی ہیں۔
ان سارے بدنما حقائق کے باوجود آج کے انسان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور ہے کیونکہ اسے یہی سمجھایا گیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کی دنیا میں جمہوریت کے علاوہ کوئی ایسا سیاسی نظام موجود نہیں جسے اپنایا جاسکے، یہ ایک مجبوری ہے لیکن اگر کوئی اس نظام کو سیاست کا حرف آخر بناکر عوام کو اس عفریت کے سامنے سر جھکانے کا سبق پڑھاتا ہے تو نہ وہ دانشور ہے نہ وہ عالم ہے نہ وہ عوام کا دوست ہے۔
جب وہ جمہوریت کو آج کی دنیا کی ناگزیر ضرورت کہتا ہے تو اس کی دانشورانہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو یہ بتائے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے اپنے نظام کے تحفظ کے لیے تخلیق کیا ہے اور یہ نظام انھیں وہ حقوق، وہ اختیار، وہ خوشحال زندگی اور وہ مقام نہیں دلا سکتا جس کے وہ حقدار ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی دانش، دنیا کی فکر، دنیا کا فلسفہ جمہوریت کی سرحدوں پر پہنچ کر مفلوج ہوگیا ہے، اس نے خوب سے خوب تر کی تلاش کا کام چھوڑ دیا ہے، اگر تلاش کا کام جاری رہتا تو جمہوریت کا کوئی ایسا نظام ڈھونڈا جاسکتا تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ کے بجائے عوام کا، عوام کے حقوق، عوام کی توقیر کا محافظ ہوتا اور دانشوروں کو گڈ گورننس اور ڈلیور کے صحراؤں میں نہ بھٹکنا پڑتا؟ گڈ گورننس اور ڈلیور کرنے کا مطلب عوام کو ریلیف فراہم کرنا لیا جاتا ہے کسی قسم کی ریلیف سے عوام کو نہ طبقاتی استحصال سے نجات ملتی ہے نہ معاشی اور سماجی ناانصافیوں سے۔ہماری جمہوریت دراصل عوام کو اپنے حقوق کی جدوجہد سے روکنے اور طبقاتی مظالم کے خلاف بغاوت سے روکنے کا کام انجام دیتی ہے۔
اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم پہلے سرمایہ دارانہ نظام کی ماہیت کو سمجھیں ویسے تو یہ نظام اس قدر پرپیچ، اس قدر پرفریب ہے کہ اس کی ان خصوصیات کے جائزے کے لیے کتابیں درکار ہیں لیکن اگر ہم اس نظام کی ستم گریوں کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نظام نے انسانوں کو 2/98 میں تقسیم کر رکھا ہے یہ نظام 98 فیصد کی محنت پر پھلتا پھولتا ہے لیکن ان 98 فیصد عوام کی محنت سے تشکیل پانے والی دولت کے 80 فیصد حصے پر خود قبضہ کرلیتا ہے اور 20 فیصد دولت 98 فیصد غریبوں کی طرف اس طرح اچھال دیتا ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے 98 فیصد ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑپڑتے ہیں اور جمہوریت کا کام ان 98 فیصد کو امید کے سہارے یعنی بہتر مستقبل کی امید کے سہارے باغی بننے سے روکنا ہے۔
اب گڈ گورننس اور ڈلیور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہمارے دانشورں کا زور عموماً گڈگورننس پر ہوتا ہے وہ بیڈ گورننس یعنی بری حکومت ہی کو ان ساری برائیوں کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً پچھلے پانچ برسوں سے عوام جن بدترین مسائل کا شکار ہیں جن میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ وغیرہ۔ یہ سارے عذاب بیڈ گورننس کی وجہ سے پیدا ہوئے لیکن ان مفکرین کی نظر ان حقائق پر نہیں جاتی کہ مہنگائی کا اصل محرک بے لگام منافع ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہے۔
بے روزگاری سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی جز ہے اگر یہ پسماندہ ملکوں میں زیادہ ہے تو ترقی یافتہ ملکوں میں کم ہے، لیکن ہے ضرور۔ ہمارے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ گیس بجلی کی قلت سے ہوا، بجلی گیس کی قلت کی دو وجوہات نظر آتی ہیں ایک یہ کہ بجلی گیس کی قلت پر قابو پانے کی ذمے داری جن افراد، جن اداروں کو دی گئی انھوں نے اپنی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے اربوں روپوں کی کرپشن کی اور کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ لیکن اس کا الزام بیڈ گورننس پر آتا ہے ان ساری خرابیوں کی دوسری وجہ ہماری جمہوریت ہے جس پر دو فیصد والی کلاس کا قبضہ ہے۔