سنہری مسرت کا دن
یومِ تکبیر نے ہمیں احساسِ تفاخر سے بھی سرشار کیا ہے اور اِس یومِ سعید نے ہمیں عالمِ اسلام میں ممتازترین مقام سے بھی...
بھارت کے ہاتھوں پاکستان کے دولخت ہونے کے تقریباً28برس بعد،28مئی1998ء کو پاکستان کو پہلی حقیقی اور قومی خوشی ملی۔اُس روز وزیرِاعظم محمد نوازشریف کی قیادت میں پاکستان نے بلوچستان کے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا پر عیاں کردیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان نے نہایت کم وسائل کے باوصف،کانٹے سے کہوٹے تک کا جوکامیاب سفر طے کیاتھا،اٹھائیس مئی1998ء کو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی آنکھوں سے خوشی کی آبشاریں بہہ نکلیں۔اُس دن کو''یومِ تکبیر'' کے شاندار نام سے پکاراگیا۔آج ہم جب کہ خوشی اور انبساط سے یہ دن ایک بار پھر منارہے ہیں،مزید مسرت کی بات یہ ہے کہ محمدنوازشریف ایک بار پھر ہمارے درمیان موجود ہیں اور 14سال بعد منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کے چیف ایگزیکٹوکی کرسی پر بیٹھنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
یہ تاریخ کا جبر ہے یا محض حسنِ اتفاق کہ جس حکمران نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادیں رکھی،وہ ایک فوجی حکمران کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکایاگیا اور جس منتخب حکمران نے ایٹم بم کے دھماکے کرکے پاکستان کو باقاعدہ عالمی ایٹمی کلب میں شامل کیا،وہ بھی ایک فوجی حکمران ہی کے ہاتھوں بے عزت اور جلاوطن کیاگیا۔دونوں فوجی حکمرانوں کے یہ دونوں سنگین اقدامات ذاتی انتقام کا شاخسانہ تھے۔اِسے پوری فوج کا اجتماعی فعل قراردینے والے دراصل تغافل سے کام لے رہے ہیں۔
یومِ تکبیرمنانا دراصل اللہ کی کبیریائی بیان کرنا ہے۔یومِ تکبیر کے حوالے سے میڈیا میں تذکرہ دراصل خالقِ کائنات کاشکرادا کرنا ہے، اللہ کے سامنے سرجھکانے کا دوسرا نام جس نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ بے پناہ توانائی کے ماخذ پرقابوپالیں۔یہ وہ دن ہے جس نے ہم سب کو دفاعی لحاظ سے احساسِ محرومی سے نجات دلائی اور قوم کو یک گونہ یقین بھی ملا کہ ہم اپنے دشمن کے مقابل پوری طاقت سے،برابری کی سطح پر کھڑا ہوسکتے ہیں،آزمائش کے لمحات میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکالمہ کرسکتے ہیں۔
یومِ تکبیر نے ہمیں احساسِ تفاخر سے بھی سرشار کیا ہے اور اِس یومِ سعید نے ہمیں عالمِ اسلام میں ممتازترین مقام سے بھی سرفراز کیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک ایسے ہیں جو معاشی اعتبار سے پاکستان سے کہیں زیادہ طاقتور اور خوشحال ہیں لیکن خدا کے فضل سے وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت کے حوالے سے جو منفرد حیثیت حاصل ہوئی،وہ کسی اور مسلمان ملک کا مقدر نہ بن سکی۔ایسی نعمت پر کیا،ہم سب کو بطورِ شکراپنے خدا کے حضور سربسجدہ نہیں ہوجانا چاہیے؟لاریب،یہ ہمارا اللہ ہے جس نے اِس ملک کے خاص بندوں کو یہ توفیق بخشی کہ وہ جوہری طاقت کے حصول میں کامرانیاں حاصل کرسکیں۔
سوال یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے پاکستان ایسے کمزورملک کو ایٹمی طاقت بننا چاہیے تھا؟پاکستان ایسا ملک ہے جو آج اپنے اٹھارہ کروڑ عوام کو بجلی فراہم کرسکتا ہے نہ پانی،جو بجلی کے بحران میں اِس بُری طرح گھرا ہے کہ اُس کے تمام صنعتی شہر تقریباً منجمدہوچکے ہیں،پاکستان جس کا بال بال عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے،جس کا خزانہ حکمرانوں کی لُوٹ مار سے تقریباً خالی پڑا ہے، یہ ملک جو اپنے ہی ہم مذہبوں کی خونریز دہشت گردیوں کا شکار ہے اور اُن کے سامنے بے بسی کی تصویربنا ہوا ہے،کیا اِسے ایٹم بم بنانے کا مہنگاشوق پالنا چاہیے تھا؟ اور اِسے امریکا اور مغربی طاقتوں کی مستقل دشمنی مول لینی چاہیے تھی؟ ہمارا جواب ہے:اِن تمام حقائق کے باوجود اور اِن خامیوں کی موجودگی میں پاکستان کو ایٹم بم بنانا چاہیے تھا۔
جس ملک کو بھارت ایسے مکار اور منافق ملک کی ہمسائیگی حاصل ہو اور اِس سے کوئی مفر بھی نہ ہوتو اُسے ہمہ وقت کے خوف سے نجات حاصل کرنے اور اپنی قومی بقا کے لیے،سردھڑ کی بازی لگا کر جوہری طاقت بننے کی تمام کوششیں کرنی چاہئیں تھیں۔ہمیں کل بھی اِس پر یقین تھا اور آج بھی حق الیقین ہے۔بدقسمتی سے ہمیں اپنے ملک کے اندر ہی بعض ایسے ناہنجار عناصر کا سامنا ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف ایٹم بم کا علامتی جنازہ نکالا،ہمارے ہاں ایسے بھی دانشور ہیں (ازقسم پروفیسر ہودبھائی اور سلمان احمد وغیرہ) جنہوں نے عملی طور پر ایٹمی پاکستان کی زبردست مخالفت کی اور اُن کی حرکتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ہمیں ایسے افراد اور پاکستانی ایٹم بم کے خلاف دلوں میں عناد رکھنے والی بعض پاکستانی این جی اوز سے متصادم ہوئے بغیر آگے بڑھنا ہے اور اپنی جان کی بازی لگا کر ایٹمی پاکستان اور اپنے جُملہ ایٹمی اثاثوں کا تحفظ بھی کرنا ہے۔
بھارت، جس نے پاکستان کے خلاف مسلسل گھناؤنی سازشیں کرکے پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالا تھا،اب بھی وطن عزیز کے خلاف اپنے نفرت انگیز پراجیکٹوں کی تکمیل میں لگا ہے۔ایسے میں تو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں میں اضافہ اور بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔آج جب ہم یومِ تکبیر کی 15ویں ''سالگرہ'' منارہے ہیں،ہمیں ہود بھائی ایسے عناصر کو بالکل فراموش کردینا چاہیے کہ نقادوں کی تنقید آگے بڑھنے میں ہمارے لیے مہمیزثابت ہوتی ہے۔کیا ہم محض دنیا کی نظروں میں ''اچھااچھا'' ثابت کرنے کے لیے اپنے جوہری اثاثوں سے دستکش ہوجائیں؟بخدا،ایساہرگز نہ ہوگا۔
آج جب ہمیں ایک طرف بھارت کی سازشوں کا سامنا ہے،دوسری جانب افغانستان میں بیٹھی امریکی افواج کی شرارتوں نے ہمیں دِق کررکھا ہے اور تیسری طرف افغانستان کے راستے بھارت کی بلوچستان میں شرانگیز کارستانیاں جاری ہیں،خیال آتا ہے کہ پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دینے والوں نے بروقت نہایت شاندار اور مستحسن فیصلہ کیا۔اگرچہ ہمیں اِس سلسلے میں عالمی مغلظات بھی تسلسل سے ملتی رہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ ہمارے محسن سائنسدانوں کی جُملہ کوششوں کا نتیجہ مثبت نکلا۔
اِس کا انت28مئی 1998ء تھا جب پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی دھماکے کرکے دنیا پر اپنی دھاک بٹھادی۔یہی یومِ تکبیر تھا۔اِس دھماکے کی دھمک سے عالمِ اسلام کے ہر ایک فرد کا دل مسرت سے دھڑکا اوراِس کے مقابل دشمنانِ پاکستان کے دل مایوسی میں بیٹھ گئے۔آج تک حریفانِ پاکستان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہے اور حلیفانِ پاکستان ایٹمی پاکستان پر فخرکررہے ہیں۔
یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہمیں یہ بنیادی حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کسی ایک فرد کا ہاتھ نہیں ہے۔اگر اِس سلسلے میں کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو اُسے اپنے خیالات پر نظرِثانی فرمانی چاہیے۔ایسا فخریہ دعویٰ کرنے والوں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ جب جنگِ عظیم دوم میں امریکا نے ''مین ہیٹن پراجیکٹ'' کے تحت پہلا ہلاکت خیز ایٹم بم بنایاتھا تواِس پراجیکٹ کی تکمیل میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد نے اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا ودیعت کردہ کردارادا کیاتھا۔
امریکا کے اِس پہلے ایٹم بم کا نام FAT MAN تھا جسے امریکا نے جاپان کے بے گناہ شہریوں پر گرا کر لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکتے میں موت کے گھاٹ اتاردیاتھا اور آج تک اِس جُرمِ عظیم کے ارتکاب پر اُس نے جاپانیوں سے معذرت کی ہے نہ کسی قسم کی شرمندگی کااظہار ہی کیا ہے۔پہلے امریکی ایٹم بم بنانے کا سہرا بلاشبہ امریکی ایٹمی سائنسدان اوپن ہائمر کے سرباندھا جاتاہے مگر اُس کے ساتھ ساتھ جنرل لیزلی گروو،ہانس باتھ،لیؤ سسلرڈ، انریکوفری، جان فان نیومین،ایڈورڈ ٹیلر،سٹیزلا اور لوئی الوارز کاکردار فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
پاکستان کے اوّلین ایٹم بم بنانے میں محسنِ پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا بنیادی کردار مسلّمہ ہے لیکن ڈاکٹر ثمرمند مبارک صاحب کا کردار بھی اُن کے برابر ہے بلکہ بعض معاملات میں اُن سے زیادہ کہ یہ ثمرمند صاحب ہیں جن کی مساعی جمیلہ سے پاکستان ایٹمی میزائل بنانے میں ظفریاب ہوا۔یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہمیں ذوالفقارعلی بھٹوشہید،افواجِ پاکستان،غلام اسحاق خان اور محترمہ بے نظیربھٹو شہید کے عزم وہمت،رازداری اور کمٹمنٹ کو پوری محبت واکرام سے یاد رکھنا چاہیے۔
یہی زندہ اقوام کا شعار رہا ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو کسی بھی سیاسی وگروہی تعصبات سے بالاتر رہ کر خوشی خوشی یاد کرتی رہتی ہیں۔آج یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہم ایک بار پھر جنابِ محمد نوازشریف سے بلند توقعات وابستہ کررہے ہیں۔انھوں نے گزشتہ دو باروزیرِاعظم بن کر جہاں وطنِ عزیز کو موٹروے کاشاندار تحفہ پیش کیا اور نہایت جرات سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا،وہیں آج ہم اُن سے اُمید لگاتے ہیں کہ وہ آج پاکستان کو درپیش دو بڑے بحرانوں سے نجات دلائیں گے۔قوم پُرامید ہے کہ جنابِ نوازشریف پاکستان کو بجلی کی عدم دست یابی سے بھی نجات دلائیں گے اور پاکستان کے شدید معاشی بحران کا بھی کوئی اطمینان بخش حل جلد ہی نکال لیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان نے نہایت کم وسائل کے باوصف،کانٹے سے کہوٹے تک کا جوکامیاب سفر طے کیاتھا،اٹھائیس مئی1998ء کو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی آنکھوں سے خوشی کی آبشاریں بہہ نکلیں۔اُس دن کو''یومِ تکبیر'' کے شاندار نام سے پکاراگیا۔آج ہم جب کہ خوشی اور انبساط سے یہ دن ایک بار پھر منارہے ہیں،مزید مسرت کی بات یہ ہے کہ محمدنوازشریف ایک بار پھر ہمارے درمیان موجود ہیں اور 14سال بعد منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کے چیف ایگزیکٹوکی کرسی پر بیٹھنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔
یہ تاریخ کا جبر ہے یا محض حسنِ اتفاق کہ جس حکمران نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادیں رکھی،وہ ایک فوجی حکمران کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکایاگیا اور جس منتخب حکمران نے ایٹم بم کے دھماکے کرکے پاکستان کو باقاعدہ عالمی ایٹمی کلب میں شامل کیا،وہ بھی ایک فوجی حکمران ہی کے ہاتھوں بے عزت اور جلاوطن کیاگیا۔دونوں فوجی حکمرانوں کے یہ دونوں سنگین اقدامات ذاتی انتقام کا شاخسانہ تھے۔اِسے پوری فوج کا اجتماعی فعل قراردینے والے دراصل تغافل سے کام لے رہے ہیں۔
یومِ تکبیرمنانا دراصل اللہ کی کبیریائی بیان کرنا ہے۔یومِ تکبیر کے حوالے سے میڈیا میں تذکرہ دراصل خالقِ کائنات کاشکرادا کرنا ہے، اللہ کے سامنے سرجھکانے کا دوسرا نام جس نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ بے پناہ توانائی کے ماخذ پرقابوپالیں۔یہ وہ دن ہے جس نے ہم سب کو دفاعی لحاظ سے احساسِ محرومی سے نجات دلائی اور قوم کو یک گونہ یقین بھی ملا کہ ہم اپنے دشمن کے مقابل پوری طاقت سے،برابری کی سطح پر کھڑا ہوسکتے ہیں،آزمائش کے لمحات میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکالمہ کرسکتے ہیں۔
یومِ تکبیر نے ہمیں احساسِ تفاخر سے بھی سرشار کیا ہے اور اِس یومِ سعید نے ہمیں عالمِ اسلام میں ممتازترین مقام سے بھی سرفراز کیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک ایسے ہیں جو معاشی اعتبار سے پاکستان سے کہیں زیادہ طاقتور اور خوشحال ہیں لیکن خدا کے فضل سے وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت کے حوالے سے جو منفرد حیثیت حاصل ہوئی،وہ کسی اور مسلمان ملک کا مقدر نہ بن سکی۔ایسی نعمت پر کیا،ہم سب کو بطورِ شکراپنے خدا کے حضور سربسجدہ نہیں ہوجانا چاہیے؟لاریب،یہ ہمارا اللہ ہے جس نے اِس ملک کے خاص بندوں کو یہ توفیق بخشی کہ وہ جوہری طاقت کے حصول میں کامرانیاں حاصل کرسکیں۔
سوال یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے پاکستان ایسے کمزورملک کو ایٹمی طاقت بننا چاہیے تھا؟پاکستان ایسا ملک ہے جو آج اپنے اٹھارہ کروڑ عوام کو بجلی فراہم کرسکتا ہے نہ پانی،جو بجلی کے بحران میں اِس بُری طرح گھرا ہے کہ اُس کے تمام صنعتی شہر تقریباً منجمدہوچکے ہیں،پاکستان جس کا بال بال عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے،جس کا خزانہ حکمرانوں کی لُوٹ مار سے تقریباً خالی پڑا ہے، یہ ملک جو اپنے ہی ہم مذہبوں کی خونریز دہشت گردیوں کا شکار ہے اور اُن کے سامنے بے بسی کی تصویربنا ہوا ہے،کیا اِسے ایٹم بم بنانے کا مہنگاشوق پالنا چاہیے تھا؟ اور اِسے امریکا اور مغربی طاقتوں کی مستقل دشمنی مول لینی چاہیے تھی؟ ہمارا جواب ہے:اِن تمام حقائق کے باوجود اور اِن خامیوں کی موجودگی میں پاکستان کو ایٹم بم بنانا چاہیے تھا۔
جس ملک کو بھارت ایسے مکار اور منافق ملک کی ہمسائیگی حاصل ہو اور اِس سے کوئی مفر بھی نہ ہوتو اُسے ہمہ وقت کے خوف سے نجات حاصل کرنے اور اپنی قومی بقا کے لیے،سردھڑ کی بازی لگا کر جوہری طاقت بننے کی تمام کوششیں کرنی چاہئیں تھیں۔ہمیں کل بھی اِس پر یقین تھا اور آج بھی حق الیقین ہے۔بدقسمتی سے ہمیں اپنے ملک کے اندر ہی بعض ایسے ناہنجار عناصر کا سامنا ہے جنہوں نے پاکستان کے خلاف ایٹم بم کا علامتی جنازہ نکالا،ہمارے ہاں ایسے بھی دانشور ہیں (ازقسم پروفیسر ہودبھائی اور سلمان احمد وغیرہ) جنہوں نے عملی طور پر ایٹمی پاکستان کی زبردست مخالفت کی اور اُن کی حرکتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ہمیں ایسے افراد اور پاکستانی ایٹم بم کے خلاف دلوں میں عناد رکھنے والی بعض پاکستانی این جی اوز سے متصادم ہوئے بغیر آگے بڑھنا ہے اور اپنی جان کی بازی لگا کر ایٹمی پاکستان اور اپنے جُملہ ایٹمی اثاثوں کا تحفظ بھی کرنا ہے۔
بھارت، جس نے پاکستان کے خلاف مسلسل گھناؤنی سازشیں کرکے پاکستان کا ایک بازو کاٹ ڈالا تھا،اب بھی وطن عزیز کے خلاف اپنے نفرت انگیز پراجیکٹوں کی تکمیل میں لگا ہے۔ایسے میں تو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں میں اضافہ اور بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔آج جب ہم یومِ تکبیر کی 15ویں ''سالگرہ'' منارہے ہیں،ہمیں ہود بھائی ایسے عناصر کو بالکل فراموش کردینا چاہیے کہ نقادوں کی تنقید آگے بڑھنے میں ہمارے لیے مہمیزثابت ہوتی ہے۔کیا ہم محض دنیا کی نظروں میں ''اچھااچھا'' ثابت کرنے کے لیے اپنے جوہری اثاثوں سے دستکش ہوجائیں؟بخدا،ایساہرگز نہ ہوگا۔
آج جب ہمیں ایک طرف بھارت کی سازشوں کا سامنا ہے،دوسری جانب افغانستان میں بیٹھی امریکی افواج کی شرارتوں نے ہمیں دِق کررکھا ہے اور تیسری طرف افغانستان کے راستے بھارت کی بلوچستان میں شرانگیز کارستانیاں جاری ہیں،خیال آتا ہے کہ پاکستان کو ایٹم بم کا تحفہ دینے والوں نے بروقت نہایت شاندار اور مستحسن فیصلہ کیا۔اگرچہ ہمیں اِس سلسلے میں عالمی مغلظات بھی تسلسل سے ملتی رہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ ہمارے محسن سائنسدانوں کی جُملہ کوششوں کا نتیجہ مثبت نکلا۔
اِس کا انت28مئی 1998ء تھا جب پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی دھماکے کرکے دنیا پر اپنی دھاک بٹھادی۔یہی یومِ تکبیر تھا۔اِس دھماکے کی دھمک سے عالمِ اسلام کے ہر ایک فرد کا دل مسرت سے دھڑکا اوراِس کے مقابل دشمنانِ پاکستان کے دل مایوسی میں بیٹھ گئے۔آج تک حریفانِ پاکستان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہے اور حلیفانِ پاکستان ایٹمی پاکستان پر فخرکررہے ہیں۔
یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہمیں یہ بنیادی حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں کسی ایک فرد کا ہاتھ نہیں ہے۔اگر اِس سلسلے میں کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو اُسے اپنے خیالات پر نظرِثانی فرمانی چاہیے۔ایسا فخریہ دعویٰ کرنے والوں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ جب جنگِ عظیم دوم میں امریکا نے ''مین ہیٹن پراجیکٹ'' کے تحت پہلا ہلاکت خیز ایٹم بم بنایاتھا تواِس پراجیکٹ کی تکمیل میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد نے اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا ودیعت کردہ کردارادا کیاتھا۔
امریکا کے اِس پہلے ایٹم بم کا نام FAT MAN تھا جسے امریکا نے جاپان کے بے گناہ شہریوں پر گرا کر لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکتے میں موت کے گھاٹ اتاردیاتھا اور آج تک اِس جُرمِ عظیم کے ارتکاب پر اُس نے جاپانیوں سے معذرت کی ہے نہ کسی قسم کی شرمندگی کااظہار ہی کیا ہے۔پہلے امریکی ایٹم بم بنانے کا سہرا بلاشبہ امریکی ایٹمی سائنسدان اوپن ہائمر کے سرباندھا جاتاہے مگر اُس کے ساتھ ساتھ جنرل لیزلی گروو،ہانس باتھ،لیؤ سسلرڈ، انریکوفری، جان فان نیومین،ایڈورڈ ٹیلر،سٹیزلا اور لوئی الوارز کاکردار فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
پاکستان کے اوّلین ایٹم بم بنانے میں محسنِ پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا بنیادی کردار مسلّمہ ہے لیکن ڈاکٹر ثمرمند مبارک صاحب کا کردار بھی اُن کے برابر ہے بلکہ بعض معاملات میں اُن سے زیادہ کہ یہ ثمرمند صاحب ہیں جن کی مساعی جمیلہ سے پاکستان ایٹمی میزائل بنانے میں ظفریاب ہوا۔یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہمیں ذوالفقارعلی بھٹوشہید،افواجِ پاکستان،غلام اسحاق خان اور محترمہ بے نظیربھٹو شہید کے عزم وہمت،رازداری اور کمٹمنٹ کو پوری محبت واکرام سے یاد رکھنا چاہیے۔
یہی زندہ اقوام کا شعار رہا ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو کسی بھی سیاسی وگروہی تعصبات سے بالاتر رہ کر خوشی خوشی یاد کرتی رہتی ہیں۔آج یومِ تکبیر مناتے ہوئے ہم ایک بار پھر جنابِ محمد نوازشریف سے بلند توقعات وابستہ کررہے ہیں۔انھوں نے گزشتہ دو باروزیرِاعظم بن کر جہاں وطنِ عزیز کو موٹروے کاشاندار تحفہ پیش کیا اور نہایت جرات سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا،وہیں آج ہم اُن سے اُمید لگاتے ہیں کہ وہ آج پاکستان کو درپیش دو بڑے بحرانوں سے نجات دلائیں گے۔قوم پُرامید ہے کہ جنابِ نوازشریف پاکستان کو بجلی کی عدم دست یابی سے بھی نجات دلائیں گے اور پاکستان کے شدید معاشی بحران کا بھی کوئی اطمینان بخش حل جلد ہی نکال لیں گے۔