شام دور حاضر کا سب سے بڑا مقتل
’’اسے چھوڑ دو۔۔۔ مارنا ہے تو مجھے ماردو، میرے جسم کی بوٹی بوٹی کردو، مگر یہ ظلم مت کرو۔ دیکھو، میرے بچوں کا کیاقصورہے۔
''اسے چھوڑ دو۔۔۔ مارنا ہے تو مجھے ماردو، میرے جسم کی بوٹی بوٹی کردو، مگر یہ ظلم مت کرو۔ دیکھو، میرے بچوں کا کیا قصور ہے۔ یہ تو معصوم ہیں۔۔۔ ارے سن رہے ہو۔۔۔ کوئی ہے، اے اﷲ! تیرے پیارے نبیؐ کی اُمت پر اتنا ظلم۔
دیکھو میرا معصوم بیٹا اور میری دو سالہ بیٹی کس طرح ڈر کے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں۔ ان کی نظروں کے سامنے دس بچوں کو زندہ جلادیا گیا ہے۔ اب یہ ظالم میرے بچوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کوئی تو روکو انھیں۔ خدا کا غضب نازل ہوگا تم پر۔ وہ کس طرح فریاد کررہے ہیں، بابا ہمیں بچالو، یہ منظر میرے سامنے سے ہٹتا کیوں نہیں۔ اور میرے سامنے ہی میرے دونوں بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ ان کے جسم ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے۔ وہ ابھی تو میرے سامنے کھیل رہے تھے۔ میں کیوں بچ گیا۔ میری بیوی کو میرے سامنے ذبح کردیا گیا۔ اپنے بچوں کو اپنے سامنے جلتا دیکھ کر ویسے بھی وہ زندہ کب رہی تھی۔ کسی کو نہیں چھوڑا ظالموں نے۔''
ترکی کی سرحد پر قائم امدادی کیمپ میں اٹھائیس سالہ نوجوان کی آہ و زاری دل کو چیر کر رکھ دینے والی بپتا وہاں موجود ہر شخص کی آنکھ نم کر رہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک زخمی ہے، وہ نوجوان بھی، پندرہ دن پہلے گولیاں اس کے بازو اور گردن کے آرپار ہوگئی تھیں، مگر اب اس کے زخم بھرنے لگے ہیں۔
کیمپ میں فرائض انجام دینے والا ڈاکٹر پرامید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائے گا، لیکن اس کی دماغی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہ بے ہوش رہتا ہے اور جب جب ہوش میں آتا ہے تو اس کا بین اور چیخیں دل دہلا دیتی ہیں۔ وہ اپنے گاؤں کا واحد فرد ہے جو اس دن ہونے والی یلغار میں زندہ بچ گیا، باقی سارا گاؤں اس روز قبرستان بن گیا۔ وہ دن اس گاؤں کے لیے روز قیامت تھا، ہر طرف پھول سے بچوں کی جلی ہوئی لاشیں بکھری تھیں۔ ایک چند ماہ کی بچی کو آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ ایک بچہ جس کی آنکھیں بھی نہیں کھلی تھیں، کو ماں کا پیٹ چیر کر نکالا گیا پھر اس کا روئی سا جسم دہکتے انگاروں پر پھینک دیا گیا۔
آنکھ کو پانی اور دل کو خون کرتے یہ مناظر ''شام'' کی سرزمین پر جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں۔ بشارالاسد کی آمریت کے خلاف جاری مزاحمت کچلنے کے لیے حکمراں ٹولہ ظلم وستم کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ملک کی اکثریت بشارالاسد کی مخالف ہے، اس لیے شامی فوج کو ''دشمن'' کی کھوج نہیں لگانی پڑتی۔ وہ عموماً ایک ہی طریقہ استعمال کرتی ہے۔
کسی بستی پر ہلہ بولا جاتا ہے، سب باسیوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے اور پھر موت ان کا مقدر کردی جاتی ہے۔ اس دن بھی یہی کچھ ہوا۔ پہلے بچوں کو الگ کیا گیا، جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی، انھیں ان کے ماں باپ کے سامنے جلادیا گیا۔ کچھ کو چھریوں سے ذبح کیا گیا۔ عورتوں میں سے کسی کا گلا کاٹ دیا گیا اور کسی کو بھڑکتے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔ آخر میں اپنے بچوں، بیویوں، ماؤں بہنوں کو بے بسی سے موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر ادھ موئے ہوجانے والے مردوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔
یہ مناظر لکھتے ہوئے میری روح کانپ رہی ہے، قلم لرز رہا ہے۔ ہاتھوں سے جان نکلی جارہی ہے، تو سوچیے! جن پر یہ سب گزر رہی ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ دل کو دہلاتے یہ مناظر خبروں اور تصاویر کی صورت ہم تک پہنچ رہے ہیں مگر ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا یوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ یہ بے اعتنائی کس لیے؟ ظلم تو ظلم ہوتا ہے اس کا کوئی مذہب، فرقہ یا مسلک نہیں ہوتا۔
بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں سوا لاکھ کے قریب شہری قتل کیے جاچکے ہیں۔ شام کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس لحاظ سے شام میں ہر ماہ اوسطاً چار سے پانچ ہزار افراد کی جان لی گئی ہے، یعنی ہر روز 100شامیوں کو موت کی وادی میں اتارا جارہا ہے۔
شام میں دنیا کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے، جہاں ظلم کا سلسلہ بوسنیا، فلسطین اور کشمیر سے کہیں آگے نکل گیا ہے، مگر ایک دو ممالک کو چھوڑ کر عالم اسلام خاموش ہے۔ شام میں قیامت برپا ہے، ایسی قیامت کہ جس پر امت کے ہر فرد کو کم از کم احتجاج کرنا چاہیے، مگر سب لب بستہ ہیں۔
یہ کیسی لڑائی ہے، کیسی جنگ ہے، جس میں عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے اور ایک جگہ جمع کرکے ان پر فائر کھول دیا جاتا ہے۔ لوگوں پر بھیانک تشدد کرتے ہوئے ان کے اعضا الگ کردیے جاتے ہیں۔ آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کردیا جاتا ہے۔ زندہ جلادیا جاتا ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔
بشارالاسد کے سرپرست ملک کی طرف سے اسلحے کی کھیپ کی کھیپ اور ''رضاکاروں'' کی بڑی تعداد میں شام آمد نے خوں ریزی کے عمل کے حجم اور شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اسلحے کی کھیپ عراق کی فضا سے ہوتی ہوئی اس کے ہمسائے شام پہنچتی ہے۔ دوسری طرف اسد حکومت سے برسرپیکار گروہوں کے پاس شامی فوج سے لوٹا ہوا اسلحہ ہے۔ قتل عام کے حالیہ واقعات شام کے ساحلی قصبوں ''بائیدہ'' اور ''راس البنیہہ'' میں ہوئے، جہاں 322 لاشیں ملی ہیں۔ اس قتل عام پر عرب دنیا کے معروف دانشور و مصنف اور شامی حکومت کے پرجوش حامی بسام القادی بھی چیخ اٹھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ شام میں بے گناہ افراد کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال پر حکومت کے حامی بھی سکتے میں ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد بشارالاسد کی مخالف ہوگئی ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ان شامی مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں جنھیں حکومت کے مظالم نے ترک وطن پر مجبور کردیا ہے۔
یہ کسی فرقے کی جنگ نہیں، یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان معرکہ ہے، غاصب و جابر حکمراں اور عوام کے درمیان لڑائی ہے، جس میں نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا اور سفاکی کی نئی کہانیاں رقم کی جارہی ہیں۔ بشارالاسد کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی اس کا ساتھ دے رہا ہے، کوئی صرف مذمت کی رسم ادا کررہا ہے اور کوئی چپ چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ رہا ہے۔ یوں اس ظلم میں سب شریک ہیں۔
دیکھو میرا معصوم بیٹا اور میری دو سالہ بیٹی کس طرح ڈر کے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہیں۔ ان کی نظروں کے سامنے دس بچوں کو زندہ جلادیا گیا ہے۔ اب یہ ظالم میرے بچوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کوئی تو روکو انھیں۔ خدا کا غضب نازل ہوگا تم پر۔ وہ کس طرح فریاد کررہے ہیں، بابا ہمیں بچالو، یہ منظر میرے سامنے سے ہٹتا کیوں نہیں۔ اور میرے سامنے ہی میرے دونوں بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ ان کے جسم ایک دوسرے سے چپکے ہوئے تھے۔ وہ ابھی تو میرے سامنے کھیل رہے تھے۔ میں کیوں بچ گیا۔ میری بیوی کو میرے سامنے ذبح کردیا گیا۔ اپنے بچوں کو اپنے سامنے جلتا دیکھ کر ویسے بھی وہ زندہ کب رہی تھی۔ کسی کو نہیں چھوڑا ظالموں نے۔''
ترکی کی سرحد پر قائم امدادی کیمپ میں اٹھائیس سالہ نوجوان کی آہ و زاری دل کو چیر کر رکھ دینے والی بپتا وہاں موجود ہر شخص کی آنکھ نم کر رہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک زخمی ہے، وہ نوجوان بھی، پندرہ دن پہلے گولیاں اس کے بازو اور گردن کے آرپار ہوگئی تھیں، مگر اب اس کے زخم بھرنے لگے ہیں۔
کیمپ میں فرائض انجام دینے والا ڈاکٹر پرامید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائے گا، لیکن اس کی دماغی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہ بے ہوش رہتا ہے اور جب جب ہوش میں آتا ہے تو اس کا بین اور چیخیں دل دہلا دیتی ہیں۔ وہ اپنے گاؤں کا واحد فرد ہے جو اس دن ہونے والی یلغار میں زندہ بچ گیا، باقی سارا گاؤں اس روز قبرستان بن گیا۔ وہ دن اس گاؤں کے لیے روز قیامت تھا، ہر طرف پھول سے بچوں کی جلی ہوئی لاشیں بکھری تھیں۔ ایک چند ماہ کی بچی کو آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ ایک بچہ جس کی آنکھیں بھی نہیں کھلی تھیں، کو ماں کا پیٹ چیر کر نکالا گیا پھر اس کا روئی سا جسم دہکتے انگاروں پر پھینک دیا گیا۔
آنکھ کو پانی اور دل کو خون کرتے یہ مناظر ''شام'' کی سرزمین پر جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں۔ بشارالاسد کی آمریت کے خلاف جاری مزاحمت کچلنے کے لیے حکمراں ٹولہ ظلم وستم کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ملک کی اکثریت بشارالاسد کی مخالف ہے، اس لیے شامی فوج کو ''دشمن'' کی کھوج نہیں لگانی پڑتی۔ وہ عموماً ایک ہی طریقہ استعمال کرتی ہے۔
کسی بستی پر ہلہ بولا جاتا ہے، سب باسیوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے اور پھر موت ان کا مقدر کردی جاتی ہے۔ اس دن بھی یہی کچھ ہوا۔ پہلے بچوں کو الگ کیا گیا، جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی، انھیں ان کے ماں باپ کے سامنے جلادیا گیا۔ کچھ کو چھریوں سے ذبح کیا گیا۔ عورتوں میں سے کسی کا گلا کاٹ دیا گیا اور کسی کو بھڑکتے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔ آخر میں اپنے بچوں، بیویوں، ماؤں بہنوں کو بے بسی سے موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر ادھ موئے ہوجانے والے مردوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔
یہ مناظر لکھتے ہوئے میری روح کانپ رہی ہے، قلم لرز رہا ہے۔ ہاتھوں سے جان نکلی جارہی ہے، تو سوچیے! جن پر یہ سب گزر رہی ہے ان کا کیا حال ہوگا۔ دل کو دہلاتے یہ مناظر خبروں اور تصاویر کی صورت ہم تک پہنچ رہے ہیں مگر ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا یوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ یہ بے اعتنائی کس لیے؟ ظلم تو ظلم ہوتا ہے اس کا کوئی مذہب، فرقہ یا مسلک نہیں ہوتا۔
بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں سوا لاکھ کے قریب شہری قتل کیے جاچکے ہیں۔ شام کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس لحاظ سے شام میں ہر ماہ اوسطاً چار سے پانچ ہزار افراد کی جان لی گئی ہے، یعنی ہر روز 100شامیوں کو موت کی وادی میں اتارا جارہا ہے۔
شام میں دنیا کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے، جہاں ظلم کا سلسلہ بوسنیا، فلسطین اور کشمیر سے کہیں آگے نکل گیا ہے، مگر ایک دو ممالک کو چھوڑ کر عالم اسلام خاموش ہے۔ شام میں قیامت برپا ہے، ایسی قیامت کہ جس پر امت کے ہر فرد کو کم از کم احتجاج کرنا چاہیے، مگر سب لب بستہ ہیں۔
یہ کیسی لڑائی ہے، کیسی جنگ ہے، جس میں عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے اور ایک جگہ جمع کرکے ان پر فائر کھول دیا جاتا ہے۔ لوگوں پر بھیانک تشدد کرتے ہوئے ان کے اعضا الگ کردیے جاتے ہیں۔ آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔ جانوروں کی طرح ذبح کردیا جاتا ہے۔ زندہ جلادیا جاتا ہے۔ ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔
بشارالاسد کے سرپرست ملک کی طرف سے اسلحے کی کھیپ کی کھیپ اور ''رضاکاروں'' کی بڑی تعداد میں شام آمد نے خوں ریزی کے عمل کے حجم اور شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اسلحے کی کھیپ عراق کی فضا سے ہوتی ہوئی اس کے ہمسائے شام پہنچتی ہے۔ دوسری طرف اسد حکومت سے برسرپیکار گروہوں کے پاس شامی فوج سے لوٹا ہوا اسلحہ ہے۔ قتل عام کے حالیہ واقعات شام کے ساحلی قصبوں ''بائیدہ'' اور ''راس البنیہہ'' میں ہوئے، جہاں 322 لاشیں ملی ہیں۔ اس قتل عام پر عرب دنیا کے معروف دانشور و مصنف اور شامی حکومت کے پرجوش حامی بسام القادی بھی چیخ اٹھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ شام میں بے گناہ افراد کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال پر حکومت کے حامی بھی سکتے میں ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد بشارالاسد کی مخالف ہوگئی ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ان شامی مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں جنھیں حکومت کے مظالم نے ترک وطن پر مجبور کردیا ہے۔
یہ کسی فرقے کی جنگ نہیں، یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان معرکہ ہے، غاصب و جابر حکمراں اور عوام کے درمیان لڑائی ہے، جس میں نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا اور سفاکی کی نئی کہانیاں رقم کی جارہی ہیں۔ بشارالاسد کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی اس کا ساتھ دے رہا ہے، کوئی صرف مذمت کی رسم ادا کررہا ہے اور کوئی چپ چاپ خون بہتے اور جسم جلتے دیکھ رہا ہے۔ یوں اس ظلم میں سب شریک ہیں۔