پاک امریکا تعلقات میں بھی تبدیلی ضروری
امریکا پاکستان کو امداد اور قرض دیتا ہے، سخت سے سخت شرائط عائد کرتا ہے، تو وہ کیونکر پاکستان کی تعریف کرے گا؟
آپ کو یقیناً وہ الفاظ یاد ہوں گے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت خاص ٹیلی فون کرکے کہے، جب وہ متنازع انتخابات میں صدر بنے، اور سب کام باتیں چھوڑ کر جھٹ اپنی سب سے فیورٹ پرسنلٹی کو فون کیا، اور ایسی تعریفیں کیں کہ بس آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
وہ فیورٹ پرسنلٹی کوئی اور نہیں، وہ ہیں۔ دا ون اینڈ اونلی 'میاں نواز شریف!'
ہاں! یہ اور بات ہے کہ امریکا یا اس وقت کے نومنتخب صدر کی جانب سے اس بیان اور تعریفی کلمات کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔ ارے یاد نہیں آرہا، یا کچھ مسنگ ہے تو بتائے دیتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد وزیراعظم پاکستان کو ٹیلی فون کیا، اورکہا:
''تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے آپ جو بھی کردار چاہتے ہیں وہ ادا کرنے پر تیار ہوں۔ وزیراعظم نوازشریف بہترین ساکھ رکھتے ہیں اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کے اثرات ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں شاندار ملک (پاکستان) کے بہترین لوگوں سے ملنا اور خوبصورت مقامات کا دورہ کرنا پسند کروں گا۔''
وزیراعظم نوازشریف! آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں، جسے کافی عرصے سے جانتا ہوں۔ آپ کا ملک (پاکستان) بہت حیران کن ہے، اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ 20 جنوری کو میرے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھی جب چاہیں آپ فون کر سکتے ہیں۔''
ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت میں ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہاربھی کیا۔
چشمِ بددُور! کیا بات تھی سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی۔ جو حکومت پاکستان میں کرتے تھے اور نوکری دبئی کی۔ اور جائیدادیں تو پوچھیں مت، پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی آگے پیچھے پھرتا تھا کیا شاہانہ انداز تھے، مودی ہو یا ٹرمپ، ہر اک ملنے کا خواہشمند۔ ملنے کی خواہش بھی ایسی کہ دنیا سے چھپ چھپا کر راتوں کے اندھیروں میں ملاقاتیں ہوتیں، معاہدے ہوتے، اور کیا کیا باتیں ہوتیں یہ تو خود ان کی بیگمات کو بھی نہیں پتہ، سیکیورٹی انچارج اور وزارت خارجہ و داخلہ تو درکنار۔ اک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی ہوا۔ ساتھ کھانے بھی کھائے گئے، اور عوام کو دکھانے کے لیے یہ سب اک دوسرے کے دشمن اور قرض دار۔ سوچیں ذرا! سپر پاور امریکا کا صدر خود فون کرکے کہہ رہا ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کی چاہ ہے۔
بس صاحب! افسوس تو اس بات کا ہے کہ قواعد و ضوابط آڑے نہ آتے تو نوازشریف کے ہوتے سمے پاکستان بھی سپر پاور بن چکا ہوتا۔ بلکہ پاکستان چاند یا مریخ پر نہیں، امریکا پہنچ چکا ہوتا، اتنے اونچے وچار تھے جناب قائد ن لیگ کے۔
ویسے ایک سیدھی سی بات ہے، جذبہ بین الاقوامی تعلقات سے لبریز اس وقت کے وزیراعظم کی ٹیم نے سفارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی، قانون کے تحت ٹیلی فون پر ہونے والی بات کا صرف لب لباب پیش کیا جاتا ہے، تفصیلی بیان نہیں دیا جاتا۔ پریس ریلیز میں کہیں بھی دوسرے رہنما کی بات کو من وعن بیان نہیں کیا جاتا، نہ ہی اس کے نام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس وقت پرائم منسٹر ہاؤس کے کرتا دھرتاؤں نے آنکھ بند کرکے بس جی حضوری کی اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی۔
اب سوچیں ذرا! امریکا، پاکستان کو امداد اور قرض دیتا ہے، سود میں اضافہ کرتا ہے، سخت سے سخت شرائط عائد کرتا ہے، تو وہ کیونکر پاکستان کی تعریف کرے گا؟امریکا، انتظامیہ اور اس کا صدر تو ہر وقت پاکستان کو ڈومور کہتا ہے، اب تو امداد میں کٹوتی بھی کردی ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان میں وہ کون سی خوبیاں تھیں جو صرف ٹرمپ کو ہی نظر آرہی تھیں۔ کسی اور کو نہیں؟ نواز حکومت نے ملک میں ایسی کون سی دودھ کی نہریں بہا دیں جو صرف امریکا کو ہی سیراب کررہی تھیں، پاکستان کو نہیں؟
سابق وزیراعظم نوازشریف کا امریکی صدر ٹرمپ سے کوئی پرانا یارانہ تونہیں تھا، مودی اور جندال کی طرح؟
امریکی سیاسی تجزیہ کار وں کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی اہم، سنجیدہ، پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس سے ایسا بیان جاری ہونا حیران کن تھا۔ اسی طرح جب سفارتی سطح پر ٹیلی فونک گفتگو کی جاتی ہے تو 3 سے 4 نکات کو جامع الفاظ میں بیان کرکے گفتگو ختم کردی جاتی ہے۔ کوئی ایسا نکتہ نہیں چھوڑا جاتا جس کے باعث دوسرے ملک سے سفارتی تعلقات میں دراڑ آئے۔
سب باتوں میں اہم بات یہ بھی تھی کہ سابق وزیراعظم صاحب نے اس وقت کے نومنتخب امریکی صدر کو خود فون کیا تھا۔ باقی تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل یا بعد میں کسی پاکستانی وزیراعظم کو امریکی صدر کے ساتھ ون آن ون ملاقات کرتے دیکھا نہ سنا۔ اس کے برعکس من موہن ہوں، واجپائی یا مودی ناشتے کی چائے پر امریکی صدر سے ملاقات پکی، جھپیاں اور پپیاں الگ۔
اب تک تو وزیراعظم پاکستان کو سیکرٹری خارجہ یا خالی پیلی کے اہم عہدیداروں سے ملاقات پر ہی ٹرخایا جاتا رہا ہے۔
تبدیلی کی ہوا چلی۔ نئے وزیراعظم آئے۔ غیر ملکی امور کو دیکھنے پرکھنے اور جوابدہی کےلیے وزیرخارجہ لگا دیےگئے۔ بزی بی وزیراعظم نے جھٹ پٹ کابینہ کے معاملات طے کیے اور کفایت شعاری پر لگ گئے۔ اب جن کے کھاتوں میں کمی آئی ان کو تیلی لگی ہے، شورمچانا شروع، ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں اور سال بھر کا حساب مانگ رہے ہیں۔
صاحب! تبدیلی پلک جھپکتے نہیں آتی، مسلسل کوشش کرنی پڑتی ہے، ہاں نئی نئی وزارتیں سنبھالنے والے بچگانہ حرکات ضرور کررہے ہیں۔ پرانے سیاسی کھلاڑی بڑے معاملات میں اچھی تبدیلی دیکھنے کے بجائے ان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں؛ اور کچھ وزارت نہ ملنے پر 'میراجی' بن گئے ہیں۔ الٹی سیدھی باتوں سے میڈیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔
نومنتخب وزیراعظم کو مبارکبادوں کے فون آئے تو ان میں اک کال امریکی وزیرخارجہ پومپیو کی بھی تھی۔ تہنیتی پیغام وصول کرتے ہوئے پاکستانی سیکرٹری خارجہ بھی درمیان میں تھیں، جنھوں نے وزیراعظم پاکستان اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونگ گفتگو کے پوائنٹس بھی نوٹ کیے، تاکہ ٹرانسکرپٹ جاری کیا جاسکے۔ اس سے قبل ہی امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کچھ ایسے جملے بھی شامل کیے گئے جن میں کوئی صداقت نہیں تھی، پاکستان کے دفترخارجہ نے اس بیان کا نوٹس لیا اور تردید کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قراردیا۔
لیکن یہاں حق سچ کا ساتھ دینے کے بجائے حکومت نہ ملنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے، اور اپنوں پر طعن و تشنیع شروع کردی، اپنی باری میں سُن بٹا سناٹا لوگوں نے بھی تبدیلی کے علمبرداروں کومشورے دیے، جن کے مشورے میاں صیب کو لے ڈوبے۔ وہ اب دوسروں کو مشورے دے رہے ہیں، اللہ خیر ہی کرے!
کہتے ہیں، ''وزیراعظم عمران خان کو پومپیو کی ٹیلیفون کال نہیں لینی چاہیے تھی۔ عمران خان کو نائب صدر پینس یا صدر ٹرمپ سے بات کرنی چاہیے تھی، یہ قومی وقار اور غیرت کا معاملہ ہے۔ نئے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارکباد کا فون وزیرخارجہ پومپیو کا آتا ہے، جبکہ پرانے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارکباد کا فون امریکی صدر کرتا تھا۔''
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنی سیاسی بالیدگی کا ثبوت دیا اور کہا کہ 'امریکی وزیرخارجہ کا بیان ناقابل قبول ہے، وزیراعظم کے ساتھ اختلاف ضرور ہے، مگر امریکی وزیرخارجہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ وزیراعظم کو ڈومور کہے۔'
خیر اب بات کا بتنگڑ نہ بنے، اس لیے دفتر خارجہ سے بیان آیا ہے کہ اس تنازعے پر مزید بات نہیں ہوگی۔ اب ہمیں سیاسی طور پر آگے بڑھنا ہے، کام کرنا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ آج (5 ستمبر کو) پاکستان کا دورہ کریں گے اور نئی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
اہم بات یہ کہ 73 ویں جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم شرکت نہیں کریں گے۔ بلکہ 27 ستمبر سے شروع ہونے والے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے، گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کریں گے، حکومت کی خارجہ پالیسی، خطے کی صورتحال اور ملکی سیکیورٹی کے علاوہ کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وہ فیورٹ پرسنلٹی کوئی اور نہیں، وہ ہیں۔ دا ون اینڈ اونلی 'میاں نواز شریف!'
ہاں! یہ اور بات ہے کہ امریکا یا اس وقت کے نومنتخب صدر کی جانب سے اس بیان اور تعریفی کلمات کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔ ارے یاد نہیں آرہا، یا کچھ مسنگ ہے تو بتائے دیتے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد وزیراعظم پاکستان کو ٹیلی فون کیا، اورکہا:
''تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے آپ جو بھی کردار چاہتے ہیں وہ ادا کرنے پر تیار ہوں۔ وزیراعظم نوازشریف بہترین ساکھ رکھتے ہیں اور زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کے اثرات ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ میں شاندار ملک (پاکستان) کے بہترین لوگوں سے ملنا اور خوبصورت مقامات کا دورہ کرنا پسند کروں گا۔''
وزیراعظم نوازشریف! آپ سے بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں، جسے کافی عرصے سے جانتا ہوں۔ آپ کا ملک (پاکستان) بہت حیران کن ہے، اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ 20 جنوری کو میرے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے بھی جب چاہیں آپ فون کر سکتے ہیں۔''
ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت میں ان سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہاربھی کیا۔
٭ ٭ ٭ ٭
چشمِ بددُور! کیا بات تھی سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی۔ جو حکومت پاکستان میں کرتے تھے اور نوکری دبئی کی۔ اور جائیدادیں تو پوچھیں مت، پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی آگے پیچھے پھرتا تھا کیا شاہانہ انداز تھے، مودی ہو یا ٹرمپ، ہر اک ملنے کا خواہشمند۔ ملنے کی خواہش بھی ایسی کہ دنیا سے چھپ چھپا کر راتوں کے اندھیروں میں ملاقاتیں ہوتیں، معاہدے ہوتے، اور کیا کیا باتیں ہوتیں یہ تو خود ان کی بیگمات کو بھی نہیں پتہ، سیکیورٹی انچارج اور وزارت خارجہ و داخلہ تو درکنار۔ اک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی ہوا۔ ساتھ کھانے بھی کھائے گئے، اور عوام کو دکھانے کے لیے یہ سب اک دوسرے کے دشمن اور قرض دار۔ سوچیں ذرا! سپر پاور امریکا کا صدر خود فون کرکے کہہ رہا ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کی چاہ ہے۔
بس صاحب! افسوس تو اس بات کا ہے کہ قواعد و ضوابط آڑے نہ آتے تو نوازشریف کے ہوتے سمے پاکستان بھی سپر پاور بن چکا ہوتا۔ بلکہ پاکستان چاند یا مریخ پر نہیں، امریکا پہنچ چکا ہوتا، اتنے اونچے وچار تھے جناب قائد ن لیگ کے۔
ویسے ایک سیدھی سی بات ہے، جذبہ بین الاقوامی تعلقات سے لبریز اس وقت کے وزیراعظم کی ٹیم نے سفارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی، قانون کے تحت ٹیلی فون پر ہونے والی بات کا صرف لب لباب پیش کیا جاتا ہے، تفصیلی بیان نہیں دیا جاتا۔ پریس ریلیز میں کہیں بھی دوسرے رہنما کی بات کو من وعن بیان نہیں کیا جاتا، نہ ہی اس کے نام کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس وقت پرائم منسٹر ہاؤس کے کرتا دھرتاؤں نے آنکھ بند کرکے بس جی حضوری کی اور اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی۔
اب سوچیں ذرا! امریکا، پاکستان کو امداد اور قرض دیتا ہے، سود میں اضافہ کرتا ہے، سخت سے سخت شرائط عائد کرتا ہے، تو وہ کیونکر پاکستان کی تعریف کرے گا؟امریکا، انتظامیہ اور اس کا صدر تو ہر وقت پاکستان کو ڈومور کہتا ہے، اب تو امداد میں کٹوتی بھی کردی ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان میں وہ کون سی خوبیاں تھیں جو صرف ٹرمپ کو ہی نظر آرہی تھیں۔ کسی اور کو نہیں؟ نواز حکومت نے ملک میں ایسی کون سی دودھ کی نہریں بہا دیں جو صرف امریکا کو ہی سیراب کررہی تھیں، پاکستان کو نہیں؟
سابق وزیراعظم نوازشریف کا امریکی صدر ٹرمپ سے کوئی پرانا یارانہ تونہیں تھا، مودی اور جندال کی طرح؟
امریکی سیاسی تجزیہ کار وں کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی اہم، سنجیدہ، پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس سے ایسا بیان جاری ہونا حیران کن تھا۔ اسی طرح جب سفارتی سطح پر ٹیلی فونک گفتگو کی جاتی ہے تو 3 سے 4 نکات کو جامع الفاظ میں بیان کرکے گفتگو ختم کردی جاتی ہے۔ کوئی ایسا نکتہ نہیں چھوڑا جاتا جس کے باعث دوسرے ملک سے سفارتی تعلقات میں دراڑ آئے۔
سب باتوں میں اہم بات یہ بھی تھی کہ سابق وزیراعظم صاحب نے اس وقت کے نومنتخب امریکی صدر کو خود فون کیا تھا۔ باقی تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل یا بعد میں کسی پاکستانی وزیراعظم کو امریکی صدر کے ساتھ ون آن ون ملاقات کرتے دیکھا نہ سنا۔ اس کے برعکس من موہن ہوں، واجپائی یا مودی ناشتے کی چائے پر امریکی صدر سے ملاقات پکی، جھپیاں اور پپیاں الگ۔
اب تک تو وزیراعظم پاکستان کو سیکرٹری خارجہ یا خالی پیلی کے اہم عہدیداروں سے ملاقات پر ہی ٹرخایا جاتا رہا ہے۔
تبدیلی کی ہوا چلی۔ نئے وزیراعظم آئے۔ غیر ملکی امور کو دیکھنے پرکھنے اور جوابدہی کےلیے وزیرخارجہ لگا دیےگئے۔ بزی بی وزیراعظم نے جھٹ پٹ کابینہ کے معاملات طے کیے اور کفایت شعاری پر لگ گئے۔ اب جن کے کھاتوں میں کمی آئی ان کو تیلی لگی ہے، شورمچانا شروع، ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں اور سال بھر کا حساب مانگ رہے ہیں۔
صاحب! تبدیلی پلک جھپکتے نہیں آتی، مسلسل کوشش کرنی پڑتی ہے، ہاں نئی نئی وزارتیں سنبھالنے والے بچگانہ حرکات ضرور کررہے ہیں۔ پرانے سیاسی کھلاڑی بڑے معاملات میں اچھی تبدیلی دیکھنے کے بجائے ان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں؛ اور کچھ وزارت نہ ملنے پر 'میراجی' بن گئے ہیں۔ الٹی سیدھی باتوں سے میڈیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔
نومنتخب وزیراعظم کو مبارکبادوں کے فون آئے تو ان میں اک کال امریکی وزیرخارجہ پومپیو کی بھی تھی۔ تہنیتی پیغام وصول کرتے ہوئے پاکستانی سیکرٹری خارجہ بھی درمیان میں تھیں، جنھوں نے وزیراعظم پاکستان اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونگ گفتگو کے پوائنٹس بھی نوٹ کیے، تاکہ ٹرانسکرپٹ جاری کیا جاسکے۔ اس سے قبل ہی امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کچھ ایسے جملے بھی شامل کیے گئے جن میں کوئی صداقت نہیں تھی، پاکستان کے دفترخارجہ نے اس بیان کا نوٹس لیا اور تردید کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قراردیا۔
لیکن یہاں حق سچ کا ساتھ دینے کے بجائے حکومت نہ ملنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے، اور اپنوں پر طعن و تشنیع شروع کردی، اپنی باری میں سُن بٹا سناٹا لوگوں نے بھی تبدیلی کے علمبرداروں کومشورے دیے، جن کے مشورے میاں صیب کو لے ڈوبے۔ وہ اب دوسروں کو مشورے دے رہے ہیں، اللہ خیر ہی کرے!
کہتے ہیں، ''وزیراعظم عمران خان کو پومپیو کی ٹیلیفون کال نہیں لینی چاہیے تھی۔ عمران خان کو نائب صدر پینس یا صدر ٹرمپ سے بات کرنی چاہیے تھی، یہ قومی وقار اور غیرت کا معاملہ ہے۔ نئے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارکباد کا فون وزیرخارجہ پومپیو کا آتا ہے، جبکہ پرانے پاکستان میں وزیراعظم کو مبارکباد کا فون امریکی صدر کرتا تھا۔''
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنی سیاسی بالیدگی کا ثبوت دیا اور کہا کہ 'امریکی وزیرخارجہ کا بیان ناقابل قبول ہے، وزیراعظم کے ساتھ اختلاف ضرور ہے، مگر امریکی وزیرخارجہ کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ وزیراعظم کو ڈومور کہے۔'
خیر اب بات کا بتنگڑ نہ بنے، اس لیے دفتر خارجہ سے بیان آیا ہے کہ اس تنازعے پر مزید بات نہیں ہوگی۔ اب ہمیں سیاسی طور پر آگے بڑھنا ہے، کام کرنا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ آج (5 ستمبر کو) پاکستان کا دورہ کریں گے اور نئی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
اہم بات یہ کہ 73 ویں جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم شرکت نہیں کریں گے۔ بلکہ 27 ستمبر سے شروع ہونے والے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے، گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کریں گے، حکومت کی خارجہ پالیسی، خطے کی صورتحال اور ملکی سیکیورٹی کے علاوہ کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔