پاکستان کی خارجہ پالیسی اور نواز شریف کا کردار
نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں ایک انڈین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کاخلاصہ...
نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں ایک انڈین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کا خلاصہ پیش کردیا تھا۔ بلاشبہ اس کا ایک مقصد بیرونی مقتدر قوتوں کو یہ باور کرانا بھی تھا کہ اگر انھیں حکومت مل گئی تو وہ کس قسم کی خارجہ پالیسی تشکیل دیں گے۔ نواز شریف کی خارجہ پالیسی میں بنیادی نقطہ پڑوسی ممالک خصوصاً بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ہے۔ اس سے قبل کے دور حکومت میں بھی نواز شریف نے بھارت کے ساتھ اچھے مراسم قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور عملی اقدامات کرتے ہوئے پاک بھارت بس سروس بھی شروع کی تھی، جس سے ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کی عوام کو سفری سہولت میسر آئی تھی۔
آج ایک مرتبہ پھر نواز شریف نئے عزم کے ساتھ دوبارہ وہی سفر شروع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بلاشبہ نواز شریف نے بھارت کے علاوہ افغانستان، چین اور امریکا وغیرہ سے بھی اچھے تعلقات قائم رکھنے اور مستقبل کی خارجہ حکمت عملی کا کھل کر اظہار کیا ہے اور ان ممالک کے ساتھ دوطرفہ معاہدات کرنے کی بھی تیاری ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ایک عرصہ قبل ہی عالمی سطح پر ملکوں کے مابین تجارتی و دیگر نوعیت کے تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور سرحدی لکیروں کو بے معنی کرنے کی بھی بات چلی آرہی ہے جس کے پس پشت درحقیقت سرمایہ دارانہ عالمی مفاد کارفرما ہے۔ اسی سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ کے باعث بین الاقوامی سطح پر سرحدی لکیریں کمزور ہوکر ممالک اور قومیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں تاہم یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے گٹھ جوڑ کے باعث ہورہا ہے۔ اقوام عالم کو ایک دوسرے کے قریب ضرور آنا چاہیے تاہم اس پروسیس میں عوام کا نقصان نہیں فائدہ ہونا چاہیے۔
نواز شریف کی خارجہ پالیسی سے متعلق ذرائع ابلاغ پر اس وقت بہت کچھ آرہا ہے، تاہم راقم یہاں چند اہم پہلوؤں پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہے جو کہ ذرائع ابلاغ پر ابھی نمایاں طور پر نہیں آئے یا نظروں سے اوجھل ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان بٹے ہوئے خاندانوں کا ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ویزے اور سفری سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث انتہائی کرب کا وقت گزار رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے خصوصی اقدامات ہونے چاہئیں مثلاً ویزے کا حصول خواہ بھارتی مسلمانوں کے لیے ہو یا پاکستانیوں کے لیے انتہائی دشوار بزار اور دقت طلب ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے دونوں ممالک اپنے ہاں بڑے بڑے شہروں میں ویزے جاری کرنے کی سہولت فراہم کریں، نیز ویزے کے حصول کا طریقہ کار انتہائی سہل، آسان اور کم سے کم وقت میں مراحل طے کرنے کا بنایا جائے۔ اس سلسلے میں خواتین، بزرگوں کو اور ادیبوں و شاعروں کو خصوصی رعایت فراہم کی جائے کیونکہ ان سے کسی بھی قسم کے خطرے کی توقع کرنا عبث ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ صرف چند مخصوص افراد کو ایک دوسرے کے ممالک میں دورے نہ کرائیں جائیں بلکہ دونوں اطراف کے ان لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں جو اپنے خاندان کے افراد سے ملنے کو طویل عرصے سے ترس رہے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں ہیں۔
اسی طرح دونوں ممالک میں قیدیوں کے معاملات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جو لوگ محض شک و شبے اور بلاوجہ کی اناپرستی والی خارجہ پالیسی کا شکار ہیں انھیں فوراً رہا کرکے وطن جانے کی اجازت دی جائے۔
جامعہ کراچی کے ڈاکٹر خلیل چشتی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جو بھارت اپنے عزیزوں سے ملنے گئے تھے مگر وہاں کسی جھگڑے کی جگہ پر موجود ہونے کے باعث اپنے اوپر قتل کا الزام (زبردستی) لگوا بیٹھے اور ایک سائنس و تحقیقی اور جامعہ کے استاد ہونے کے باوجود بھارتی جیل میں 18 سال گزار دیے۔ بھارتی و پاکستانی سول سوسائٹیز کی کوششوں کے بعد انھیں ضمانت پر رہائی ملی تو وہ پاکستان اپنے گھر والوں سے ملنے آئے۔ ایسے واقعات کسی بھی ملک کے لیے باعث ندامت ہوتے ہیں خاص کر کسی ایسے ملک کے لیے جو اپنے آپ کو سیکولر کہلاتا ہو۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کو دیرینہ تعلقات قائم کرنے کے لیے قیدیوں کے معاملات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ اس سے جڑا ہوا ایک اور اہم مسئلہ ان ملزمان کا بھی ہے کہ جن پر دہشتگردی کے الزامات لگاکر جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور انھیں مقدمات کا سامنا ہے۔ گجرات میں ٹرین جلانے سمیت بے شمار معاملات ایسے ہیں کہ جن کے الزامات بھارت کے مسلمان شہریوں پر بھی عائد کردیے گئے ہیں اور یہ سلسلہ رکا نہیں۔ خود بھارت کے ریٹائرڈ جسٹس ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے اوپر غیر حقیقی الزامات لگاکر حقائق کو چھپایا جارہا ہے اور انتہا پسند ہندو جو ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں۔ خود بھارت کے غیر جانبدار ذرائع اس بات کو کئی بار پیش کرچکے ہیں کہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے الزام مسلمانوں پر ڈالنے کی روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بھارتی انٹیلی جنس کے افسر ہمینت کرکرے اپنی رپورٹ میں یہ سازش بے نقاب کرچکے ہیں کہ کس طرح حاضر فوجی افسران انتہاپسند ہندوؤں کو دھماکا خیز مواد فراہم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں جاری مظالم بھی بند کیے جانا ضروری ہیں۔ چنانچہ دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات کے لیے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک ختم کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
اس طرح بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ محصورین پاکستانیوں کا مسئلہ 1971 سے تاحال پاکستانی حکومت کے مثبت ردعمل کا منتظر ہے۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایک دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے محصورین کی آبادکاری کے لیے پنجاب میں مکانات تعمیر کیے تھے۔ اس مرتبہ پھر نواز شریف ان محصورین کو پاکستان لاکر پنجاب میں آبادکاری کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکتے ہیں، اس عمل سے ان کا ووٹ بینک بھی یقیناً بڑھے گا۔
واضح رہے کہ یہ وہ محصورین ہیں جنہوں نے 1971 میں بھارتی فوج کے مشرقی پاکستان میں آپریشن پر علیحدگی پسندوں کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور نتیجے میں علیحدگی پسندوں کے مظالم کا نشانہ بھی بنے تھے۔ نیز بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے آج تک انھوں نے بنگلہ دیشی شہریت کو ٹھکراکر پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک اور اہم ترین مسئلہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا بھی ہے۔ انھوں نے بھی بھارتی سازش کے خلاف پاکستان بچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی تھی جس کی بناء پر علیحدگی پسند نظریات کا گروپ آج بھی انھیں غدار اور مجرم تصور کرتا ہے اور آج بھی ان پر زمین تنگ کرنے کے تمام حربے استعمال کررہا ہے۔
دسمبر 2008 میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان قوتوں کے خلاف جنھوں نے 1970 کے انتخابات کے بعد پاکستان کے حق میں کام کیا، خاص طور پر نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا۔ اب آئینی ترمیم کرکے جماعت اسلامی سمیت دیگر قوتوں کو پابندی لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی کے سینئر رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے جس پر بنگلہ دیش میں سخت احتجاج بھی ہورہا ہے۔
مختصراً یہ کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ایک عجب قسم کی صورتحال ایک عرصے سے جاری ہے کہ جس میں پاکستان کی حامی اور مسلم نظریات رکھنے والی دائیں بازو کی قوتوں کو نہ نظر آنے والے قوتوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کو دل سے تسلیم نہ کرنے کے باعث ان تینوں ممالک کے درمیان یا باالفاظ دیگر ان دو ممالک کے ساتھ پاکستان کے بہتر تعلقات قائم ہونے میں روکاٹیں پیدا ہو رہی ہیں، قدر ت نے یہ موقع نواز شریف کو دیا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو ختم کر نے میں ایک بہتر کردار ادا کریں۔
آج ایک مرتبہ پھر نواز شریف نئے عزم کے ساتھ دوبارہ وہی سفر شروع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بلاشبہ نواز شریف نے بھارت کے علاوہ افغانستان، چین اور امریکا وغیرہ سے بھی اچھے تعلقات قائم رکھنے اور مستقبل کی خارجہ حکمت عملی کا کھل کر اظہار کیا ہے اور ان ممالک کے ساتھ دوطرفہ معاہدات کرنے کی بھی تیاری ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ایک عرصہ قبل ہی عالمی سطح پر ملکوں کے مابین تجارتی و دیگر نوعیت کے تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور سرحدی لکیروں کو بے معنی کرنے کی بھی بات چلی آرہی ہے جس کے پس پشت درحقیقت سرمایہ دارانہ عالمی مفاد کارفرما ہے۔ اسی سرمایہ دارانہ گٹھ جوڑ کے باعث بین الاقوامی سطح پر سرحدی لکیریں کمزور ہوکر ممالک اور قومیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں تاہم یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے گٹھ جوڑ کے باعث ہورہا ہے۔ اقوام عالم کو ایک دوسرے کے قریب ضرور آنا چاہیے تاہم اس پروسیس میں عوام کا نقصان نہیں فائدہ ہونا چاہیے۔
نواز شریف کی خارجہ پالیسی سے متعلق ذرائع ابلاغ پر اس وقت بہت کچھ آرہا ہے، تاہم راقم یہاں چند اہم پہلوؤں پر توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہے جو کہ ذرائع ابلاغ پر ابھی نمایاں طور پر نہیں آئے یا نظروں سے اوجھل ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان بٹے ہوئے خاندانوں کا ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ویزے اور سفری سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث انتہائی کرب کا وقت گزار رہے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے خصوصی اقدامات ہونے چاہئیں مثلاً ویزے کا حصول خواہ بھارتی مسلمانوں کے لیے ہو یا پاکستانیوں کے لیے انتہائی دشوار بزار اور دقت طلب ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے دونوں ممالک اپنے ہاں بڑے بڑے شہروں میں ویزے جاری کرنے کی سہولت فراہم کریں، نیز ویزے کے حصول کا طریقہ کار انتہائی سہل، آسان اور کم سے کم وقت میں مراحل طے کرنے کا بنایا جائے۔ اس سلسلے میں خواتین، بزرگوں کو اور ادیبوں و شاعروں کو خصوصی رعایت فراہم کی جائے کیونکہ ان سے کسی بھی قسم کے خطرے کی توقع کرنا عبث ہے۔ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ صرف چند مخصوص افراد کو ایک دوسرے کے ممالک میں دورے نہ کرائیں جائیں بلکہ دونوں اطراف کے ان لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں جو اپنے خاندان کے افراد سے ملنے کو طویل عرصے سے ترس رہے ہیں اور ان میں سے اکثر اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں ہیں۔
اسی طرح دونوں ممالک میں قیدیوں کے معاملات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جو لوگ محض شک و شبے اور بلاوجہ کی اناپرستی والی خارجہ پالیسی کا شکار ہیں انھیں فوراً رہا کرکے وطن جانے کی اجازت دی جائے۔
جامعہ کراچی کے ڈاکٹر خلیل چشتی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جو بھارت اپنے عزیزوں سے ملنے گئے تھے مگر وہاں کسی جھگڑے کی جگہ پر موجود ہونے کے باعث اپنے اوپر قتل کا الزام (زبردستی) لگوا بیٹھے اور ایک سائنس و تحقیقی اور جامعہ کے استاد ہونے کے باوجود بھارتی جیل میں 18 سال گزار دیے۔ بھارتی و پاکستانی سول سوسائٹیز کی کوششوں کے بعد انھیں ضمانت پر رہائی ملی تو وہ پاکستان اپنے گھر والوں سے ملنے آئے۔ ایسے واقعات کسی بھی ملک کے لیے باعث ندامت ہوتے ہیں خاص کر کسی ایسے ملک کے لیے جو اپنے آپ کو سیکولر کہلاتا ہو۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کو دیرینہ تعلقات قائم کرنے کے لیے قیدیوں کے معاملات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ اس سے جڑا ہوا ایک اور اہم مسئلہ ان ملزمان کا بھی ہے کہ جن پر دہشتگردی کے الزامات لگاکر جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور انھیں مقدمات کا سامنا ہے۔ گجرات میں ٹرین جلانے سمیت بے شمار معاملات ایسے ہیں کہ جن کے الزامات بھارت کے مسلمان شہریوں پر بھی عائد کردیے گئے ہیں اور یہ سلسلہ رکا نہیں۔ خود بھارت کے ریٹائرڈ جسٹس ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے اوپر غیر حقیقی الزامات لگاکر حقائق کو چھپایا جارہا ہے اور انتہا پسند ہندو جو ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں۔ خود بھارت کے غیر جانبدار ذرائع اس بات کو کئی بار پیش کرچکے ہیں کہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے الزام مسلمانوں پر ڈالنے کی روش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بھارتی انٹیلی جنس کے افسر ہمینت کرکرے اپنی رپورٹ میں یہ سازش بے نقاب کرچکے ہیں کہ کس طرح حاضر فوجی افسران انتہاپسند ہندوؤں کو دھماکا خیز مواد فراہم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں جاری مظالم بھی بند کیے جانا ضروری ہیں۔ چنانچہ دونوں ملکوں کے مابین بہتر تعلقات کے لیے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک ختم کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
اس طرح بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم اور بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ محصورین پاکستانیوں کا مسئلہ 1971 سے تاحال پاکستانی حکومت کے مثبت ردعمل کا منتظر ہے۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایک دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے محصورین کی آبادکاری کے لیے پنجاب میں مکانات تعمیر کیے تھے۔ اس مرتبہ پھر نواز شریف ان محصورین کو پاکستان لاکر پنجاب میں آبادکاری کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکتے ہیں، اس عمل سے ان کا ووٹ بینک بھی یقیناً بڑھے گا۔
واضح رہے کہ یہ وہ محصورین ہیں جنہوں نے 1971 میں بھارتی فوج کے مشرقی پاکستان میں آپریشن پر علیحدگی پسندوں کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور نتیجے میں علیحدگی پسندوں کے مظالم کا نشانہ بھی بنے تھے۔ نیز بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے آج تک انھوں نے بنگلہ دیشی شہریت کو ٹھکراکر پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک اور اہم ترین مسئلہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا بھی ہے۔ انھوں نے بھی بھارتی سازش کے خلاف پاکستان بچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی تھی جس کی بناء پر علیحدگی پسند نظریات کا گروپ آج بھی انھیں غدار اور مجرم تصور کرتا ہے اور آج بھی ان پر زمین تنگ کرنے کے تمام حربے استعمال کررہا ہے۔
دسمبر 2008 میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان قوتوں کے خلاف جنھوں نے 1970 کے انتخابات کے بعد پاکستان کے حق میں کام کیا، خاص طور پر نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا۔ اب آئینی ترمیم کرکے جماعت اسلامی سمیت دیگر قوتوں کو پابندی لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی کے سینئر رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے جس پر بنگلہ دیش میں سخت احتجاج بھی ہورہا ہے۔
مختصراً یہ کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ایک عجب قسم کی صورتحال ایک عرصے سے جاری ہے کہ جس میں پاکستان کی حامی اور مسلم نظریات رکھنے والی دائیں بازو کی قوتوں کو نہ نظر آنے والے قوتوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کو دل سے تسلیم نہ کرنے کے باعث ان تینوں ممالک کے درمیان یا باالفاظ دیگر ان دو ممالک کے ساتھ پاکستان کے بہتر تعلقات قائم ہونے میں روکاٹیں پیدا ہو رہی ہیں، قدر ت نے یہ موقع نواز شریف کو دیا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو ختم کر نے میں ایک بہتر کردار ادا کریں۔