’’ہالوکاسٹ‘‘ سے گستاخانہ مواد تک

ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال دلایا جائے گا اور ہم مشتعل ہو کر ایک بار پھر ’’مغرب‘‘ پر چڑھ دوڑیں گے۔

ali.dhillon@ymail.com

آج صدر کا الیکشن بھی ہوگیا اور یقینا عارف علوی مبارکباد کے مستحق ہوں گے،میرا آج کا کالم تو یقیناً انھی پر بنتا تھا مگر ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہونے کے بعد ہم اپنے تئیں ''جشن ''منا کر خاموش ہوگئے ہیں اوراس بات کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا مگرہم اس کو ماضی کا حصہ بنا کر بھول بیٹھے ہیں۔ اب ہوگا یہ کہ کچھ دن بعد دوبارہ یہ مسئلہ سر اُٹھائے گا۔ ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال دلایا جائے گا اور ہم مشتعل ہو کر ایک بار پھر ''مغرب'' پر چڑھ دوڑیں گے۔

مغرب پھر انھیں منسوخ کرے گا اور ہم پھر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ ہم فوراً Reactکرتے ہیں، اُن کا مقصد پورا ہوتا ہے اور ہم پھر اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ مغرب میں کوئی ایک شیطان شخص اپنی ویب سائٹ کی تشہیر کے لیے متنازعہ ایشو اُٹھاتا ہے اور چند ڈالر تشہیر پر لگا کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتا ہے تو ہم اس ''لنک'' کو کھولتے ہیں، اور ''مذمت'' کر کے آگے پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں ہر شخص اُس ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پیج کو کلک کرتا ہے یا کمنٹ خواہ گالیوں ہی کی شکل میں کیوں نہ ہوں کر چکا ہوتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویب سائٹ پوری دنیا کے سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہے ۔ اور ویب سائٹ بنانے والا دولت کمانا شروع کردیتا ہے۔ ایسے کسی بھی مواد کو روکنے کے لیے یا تو اس پوسٹ کو اپنی وال سے ڈیلیٹ کریں یا Hide کر دیں تو میرے خیال میں ہم اس تشہیری مہم کا حصہ بننے سے بچ سکتے ہیں۔

اس کالم میں ہالو کاسٹ کا ذکر میں اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل یہ بھی بحث چھڑ چکی ہے کہ ہالوکاسٹ کی ''افسانوی''حقیقت کو آشکار کرکے یہودیوں سے بدلہ لیا جائے۔ وہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے ہیں جب کہ ہم محض مفروضوں اور افواہوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اُن کی منصوبہ بندی اور عالمی سطح پر گرپ دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں ذاتی تجربے سے آگاہ کرتا چلوں کہ گزشتہ روز جب میں نے ہالوکاسٹ کے حوالے ''گوگل'' سے معلومات لینا چاہی تو اسی وقت میرے لیپ ٹاپ پر گوگل نے غلط ٹریفکنگ کے ''جرم'' میں کسی بھی قسم کی سرچ کرنے پر پابندی عائد کردی۔

خاصی تگ و دو کے بعد جب کچھ حاصل نہ ہوا تو مجھے دوسرے سرچ انجن سے خدمات مستعار لینا پڑیں۔ خیر اگر ہم ہالوکاسٹ کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہودیوں کے دعوے کے مطابق دوسری جنگ عظیم (1939ء سے 1945ء) کے دوران 60 لاکھ یہودیوں کو ہٹلر نے گیس چیمبر میں ڈال کر ہلاک کردیا۔ جسے تاریخ میں ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جب کہ یہودیوں کے اس دعوے کی مخالفت میں بھی محققین کی تحقیق موجود ہے۔ متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کردیے گئے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے۔


برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ''میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے ناقابل یقین واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔''

اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی۔ دوسری جانب ہولوکاسٹ کے حوالے سے اسرائیل کی پارلیمنٹ حکومت کو یہ اختیار دے چکی ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں کریمینل ہیٹ کے طور پر مانگ سکتی ہے۔

گرفتار کرسکتی ہے، سزا دے سکتی ہے۔عالمی برادری نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے سخت سے سخت تر قوانین بنا دیے، اب اگر چند لاکھ یہودی اپنی مضبوط لابی کی بنا پر یورپ کے بڑے ممالک میں قانون سازی کروا سکتے ہیں تو مسلمان ایسی قانون سازی کیوں نہیں کروا سکتے۔ آسٹریا، بیلجیئم، جمہوریہ چیک، اسرائیل، لکسمبرگ، پولینڈ، پرتگال سویٹزرلینڈ، فرانس اور جرمنی وغیرہ وہ ممالک ہیں جہاں قوانین کے تحت ہولوکاسٹ پر نظرثانی اور تحقیق ایک جرم ہے۔ یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ پر شک کے اظہار یا اس کے وقوع پذیر ہونے سے انکار کو قابل نفرت سمجھا جاتا ہے۔تو ایسا ہی قانون اسلام کے لیے کیوں نہیں بن سکتا؟

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیائی جنگ سے ہم پر فورتھ کیٹگری کی جنگ مسلط کی جارہی ہے جس سے ہمارے جذبات کو ابھارنے اور انھیں اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ شام، لبنان، عراق اور افغانستان اسی جنگ میں جل رہے ہیں۔ ہم تعلیم اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر آئی ہر آواز کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ مجبوری یہ ہے کہ ہمارے پاس وہ سسٹم ہی موجود نہیں جو ان بڑے سوشل میڈیائی نیٹ ورکس کو فلٹر کر کے عوام کے سامنے رکھ سکے۔

بہرحال اس کا حل یہی ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوکر مغربی حکومت کو قائل کریں اور اسلام مخالف مواد شایع کرنے پر پابندی لگوائیں اور ایسا مواد شایع کرنے والوں کے لیے بھاری جرمانے اور قید کا قانون منظور کرائیں۔ اس کے لیے ضرورت صرف سچے دل سے لابنگ کرنے کی ہے، اگر ایسا ہوجائے تو مغربی ممالک قوانین بنانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
Load Next Story