ڈاکٹر عارف الرحمن علوی 13ویں صدر پاکستان
امیدِ واثق ہے کہ نومنتخب صدر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر قوم کے بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں گے۔
جناب عارف علوی پاکستان کے تیرھویں صدر ہیں، یہ ملک کے آٹھویں سویلین صدر ہیں۔
یادرہے کہ پاکستانی تاریخ میں پانچ فوجی صدور بھی ہوگزرے ہیں۔ پاکستان کا صدر وفاق کا سربراہ ہوتا ہے، وہ افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف بھی ہوتاہے۔ پارلیمانی نظام میں یہ غیر انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کی نصحیت پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدرپاکستان کا مملکت کے امور میں کیا کردار ہوتا ہے، کیا وہ محض ایک نمائشی عہدہ رکھتے ہیں یا پھر انھیں کچھ اختیارات بھی حاصل ہیں؟
سن 1973ء میں منظور ہونے والا آئین صدرمملکت کے اختیارات کے باب میں اپنی دفعہ 45 میں یوں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ صدر کو کسی عدالت ، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لئے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاہم یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صدرمملکت یہ اختیارات ازخود استعمال نہیں کرسکتے، صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی تحلیل اور معافی نامہ جاری کرنے میں ان کا محدود کردار ہے، اسمبلی کو تحلیل کرنے یا کسی مجرم کو معاف کرنے کے صدارتی اختیارات وزیر اعظم اور کابینہ کی تجویز سے مشروط ہیں۔
اسی طرح دفعہ 46کے مطابق وزیراعظم صدرمملکت کو بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی کے ان تمام معاملات اور تمام قانونی تجاویز پر جو وفاقی حکومت مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہو، سے آگاہ رکھے گا۔ صدرمملکت کسی بھی معاملے پر وزیراعظم کو مشورہ دے سکتے ہیں، کسی نامناسب معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں جس قسم کے حالات ہیں وہاں اگرصدرمملکت کسی معاملے پر ناراض یا شدید اختلاف ظاہر کریں گے تو وہ حکومت کو کسی اقدام پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں، بصورت دیگر وہ خود گھرچلے جائیں گے یا بھیج دئیے جائیں گے۔
اس تناظر میں کہاجاسکتاہے کہ پاکستان میں اس وقت صدر کے اختیارات اتنے ہی ہیں جتنے برطانیہ کی ملکہ اور بھارت کے صدر کے ہیں۔برطانوی ملکہ کے بارے میں بھی کہاجاتاہے کہ وہ مسلح افواج کے سربراہان سمیت برطانیہ کے تمام کلیدی عہدوں پر افراد کو مقرر کرتی ہیں تاہم وزیراعظم کی تجویز ہی کی منظوری دیتی ہے۔ اسی طرح بھارتی صدر بھی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، وہ ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ کا باضابطہ سربراہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھارتی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے۔ وہاں جو فردبھی صدر کے منصب پر فائز ہوتاہے، اپنے آپ کو بالکل غیرسیاسی کرلیتاہے۔ وہ اپنے قول وفعل سے ثابت کرتاہے کہ وہ قوم کا باپ ہے، یہی وجہ ہے کہ قوم کے ہرشعبے میں اس کا مکمل احترام دیکھنے کو ملتاہے۔
پارلیمانی نظام میں صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کے بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ صدرمنتخب ہوتے ہی اپنی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے اور پھر صدق دل سے پوری قوم کا بزرگ بنے۔ اس کے لئے سب سیاسی گروہ برابر ہوں، چاہے وہ صدارتی انتخاب کے وقت یا اس سے پہلے اس کے مخالف تھے یا موافق۔ صدرمملکت نامزد ہونے کے بعد سردار فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی اور ممنون حسین مسلم لیگ ن کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ البتہ آصف علی زرداری نے صدرمملکت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کی سربراہی کا منصب اپنے پاس رکھا۔
اگرچہ ان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے شور بھی مچایا کہ انھوں نے دو ٹوپیاں پہن رکھی ہیں، اس معاملے پر بعض لوگوں نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا تاہم وہ آصف علی زرداری کو سیاسی ٹوپی اتارنے پر مجبور نہ کرسکے۔
نومنتخب صدرمملکت جناب عارف علوی تیسری مثال ہوں گے جو صدرمنتخب ہوکر پارٹی سے الگ ہوجائیں گے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاتھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد تمام پارٹی عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ ان کے بقول:''میں سب کاصدر رہوں گا پارٹی کانہیں اور خاموش صدر بھی نہیں ہوںگا۔'' ان کا کہناتھا:''کامیابی کے بعد آئین کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے مسائل کے حل کیلیے بھرپور کوشش کروں گا، ملک میں یکجہتی کوفروغ دینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے سمیت ملک کے اہم معاملات میں اپنا کردار ادا کروں گا''۔
ڈاکٹرعارف علوی نے صدرمنتخب ہونے کے بعد بھی اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں اور امید ہے کہ وہ بہترانداز میں صدر کے عہدے پر کام کریں گے۔ ان کا کہناتھا:''آج منتخب ہونے کے بعد صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ساری قوم کا صدر ہوں ،میری جہاں ضرورت پڑے گی میں حاضر ہوں گا،کوشش کروں گا ہر غریب کے پاس چھت،روٹی اور کپڑا ہو،ہر آدمی کی دہلیز تک انصاف جانا چاہیے، مریضوں کا علاج ہونا چاہیے،جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں انہیں اسکولوں میں ہونا چاہیے۔
کوشش ہوگی ہر بے روزگار کو روزگار فراہم ہو''۔ ان کے یہ خیالات بھی ظاہرکرتے ہیں کہ وہ ایوان صدر میں بیٹھ کر محض دستخط کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ قوم کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں حکومت کی رہنمائی کریں گے، تجاویز اور مشاورت سے نوازیں گے۔ نومنتخب صدر بھی وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے کی عملی طور پر حمایت کرتے ہیں، ان کا کہناہے کہ وہ ایوان صدر میں رہنے کے بجائے پارلیمنٹ لاجز میں رہائش اختیار کریں گے۔ اگر وہ اپنے مذکورہ بالا عزائم کو عملی جامہ پہناسکیں تو وہ ایک پاکستانی تاریخ میں ایک ایسے صدر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے اہم اختیارات نہ ہونے کے باوجود ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
یادرہے کہ پاکستانی تاریخ میں پانچ فوجی صدور بھی ہوگزرے ہیں۔ پاکستان کا صدر وفاق کا سربراہ ہوتا ہے، وہ افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف بھی ہوتاہے۔ پارلیمانی نظام میں یہ غیر انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کی نصحیت پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدرپاکستان کا مملکت کے امور میں کیا کردار ہوتا ہے، کیا وہ محض ایک نمائشی عہدہ رکھتے ہیں یا پھر انھیں کچھ اختیارات بھی حاصل ہیں؟
سن 1973ء میں منظور ہونے والا آئین صدرمملکت کے اختیارات کے باب میں اپنی دفعہ 45 میں یوں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ صدر کو کسی عدالت ، ٹریبونل یا دیگر ہئیت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لئے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے، اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاہم یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صدرمملکت یہ اختیارات ازخود استعمال نہیں کرسکتے، صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی تحلیل اور معافی نامہ جاری کرنے میں ان کا محدود کردار ہے، اسمبلی کو تحلیل کرنے یا کسی مجرم کو معاف کرنے کے صدارتی اختیارات وزیر اعظم اور کابینہ کی تجویز سے مشروط ہیں۔
اسی طرح دفعہ 46کے مطابق وزیراعظم صدرمملکت کو بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی کے ان تمام معاملات اور تمام قانونی تجاویز پر جو وفاقی حکومت مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہو، سے آگاہ رکھے گا۔ صدرمملکت کسی بھی معاملے پر وزیراعظم کو مشورہ دے سکتے ہیں، کسی نامناسب معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں جس قسم کے حالات ہیں وہاں اگرصدرمملکت کسی معاملے پر ناراض یا شدید اختلاف ظاہر کریں گے تو وہ حکومت کو کسی اقدام پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں، بصورت دیگر وہ خود گھرچلے جائیں گے یا بھیج دئیے جائیں گے۔
اس تناظر میں کہاجاسکتاہے کہ پاکستان میں اس وقت صدر کے اختیارات اتنے ہی ہیں جتنے برطانیہ کی ملکہ اور بھارت کے صدر کے ہیں۔برطانوی ملکہ کے بارے میں بھی کہاجاتاہے کہ وہ مسلح افواج کے سربراہان سمیت برطانیہ کے تمام کلیدی عہدوں پر افراد کو مقرر کرتی ہیں تاہم وزیراعظم کی تجویز ہی کی منظوری دیتی ہے۔ اسی طرح بھارتی صدر بھی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، وہ ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ کا باضابطہ سربراہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھارتی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے۔ وہاں جو فردبھی صدر کے منصب پر فائز ہوتاہے، اپنے آپ کو بالکل غیرسیاسی کرلیتاہے۔ وہ اپنے قول وفعل سے ثابت کرتاہے کہ وہ قوم کا باپ ہے، یہی وجہ ہے کہ قوم کے ہرشعبے میں اس کا مکمل احترام دیکھنے کو ملتاہے۔
پارلیمانی نظام میں صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کے بزرگ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ صدرمنتخب ہوتے ہی اپنی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے اور پھر صدق دل سے پوری قوم کا بزرگ بنے۔ اس کے لئے سب سیاسی گروہ برابر ہوں، چاہے وہ صدارتی انتخاب کے وقت یا اس سے پہلے اس کے مخالف تھے یا موافق۔ صدرمملکت نامزد ہونے کے بعد سردار فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی اور ممنون حسین مسلم لیگ ن کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ البتہ آصف علی زرداری نے صدرمملکت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کی سربراہی کا منصب اپنے پاس رکھا۔
اگرچہ ان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے شور بھی مچایا کہ انھوں نے دو ٹوپیاں پہن رکھی ہیں، اس معاملے پر بعض لوگوں نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا تاہم وہ آصف علی زرداری کو سیاسی ٹوپی اتارنے پر مجبور نہ کرسکے۔
نومنتخب صدرمملکت جناب عارف علوی تیسری مثال ہوں گے جو صدرمنتخب ہوکر پارٹی سے الگ ہوجائیں گے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاتھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد تمام پارٹی عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ ان کے بقول:''میں سب کاصدر رہوں گا پارٹی کانہیں اور خاموش صدر بھی نہیں ہوںگا۔'' ان کا کہناتھا:''کامیابی کے بعد آئین کے دائرہ کارمیں رہتے ہوئے مسائل کے حل کیلیے بھرپور کوشش کروں گا، ملک میں یکجہتی کوفروغ دینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے سمیت ملک کے اہم معاملات میں اپنا کردار ادا کروں گا''۔
ڈاکٹرعارف علوی نے صدرمنتخب ہونے کے بعد بھی اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہیں اور امید ہے کہ وہ بہترانداز میں صدر کے عہدے پر کام کریں گے۔ ان کا کہناتھا:''آج منتخب ہونے کے بعد صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ساری قوم کا صدر ہوں ،میری جہاں ضرورت پڑے گی میں حاضر ہوں گا،کوشش کروں گا ہر غریب کے پاس چھت،روٹی اور کپڑا ہو،ہر آدمی کی دہلیز تک انصاف جانا چاہیے، مریضوں کا علاج ہونا چاہیے،جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں انہیں اسکولوں میں ہونا چاہیے۔
کوشش ہوگی ہر بے روزگار کو روزگار فراہم ہو''۔ ان کے یہ خیالات بھی ظاہرکرتے ہیں کہ وہ ایوان صدر میں بیٹھ کر محض دستخط کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ قوم کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں حکومت کی رہنمائی کریں گے، تجاویز اور مشاورت سے نوازیں گے۔ نومنتخب صدر بھی وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے کی عملی طور پر حمایت کرتے ہیں، ان کا کہناہے کہ وہ ایوان صدر میں رہنے کے بجائے پارلیمنٹ لاجز میں رہائش اختیار کریں گے۔ اگر وہ اپنے مذکورہ بالا عزائم کو عملی جامہ پہناسکیں تو وہ ایک پاکستانی تاریخ میں ایک ایسے صدر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے اہم اختیارات نہ ہونے کے باوجود ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔