بیوروکریسی میں تبادلے وفاق اور سندھ حکومت میں کشیدگی
دونوں ر ہنماؤں سے وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کار کے بارے میں سوالات ہوئے۔
وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہو گیا ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے مشاورت کے بغیر وفاقی کیڈر کے 6 افسروں کی خدمات دیگر صوبوں کے حوالے کر دی ہیں۔ یہ افسران 10 سالوں سے زائد عرصے سے سندھ میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔ یہ کشیدگی کیا رخ اختیار کرتی ہے، یہ مستقبل قریب کی سیاست کا اہم سوال ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ اس کے بھی کراچی سمیت سندھ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔
گزشتہ ہفتے سندھ سے 6 افسروں کے ہونے ہونے والے تبادلے کا معاملہ اگرچہ بہت اہم تھا لیکن دیگر دو معاملات خبروں میں زیادہ زیر بحث رہے۔ ایک معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا ایک نجی اسپتال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کا اچانک دورہ سے متعلق ہے ۔
نجی اسپتال میں پیپلز پارٹی کے اسیر رہنما شرجیل انعام میمن زیر علاج تھے جبکہ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں منی لانڈرنگ کیس کے دو اہم ملزمان حسین لوائی اور انور مجید زیر علاج ہیں۔ نجی اسپتال میں چیف جسٹس کے دورے کے دوران شرجیل انعام میمن کے کمرے سے دو بوتلیں برآمد ہوئیں ، جن میں پیپلز پارٹی کے مطابق شراب نہیں تھی۔
اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جبکہ شرجیل میمن کا الکحل ٹیسٹ بھی کرایا گیا ۔ اس ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق شرجیل میمن کے خون میں الکحل نہیں پایا گیا ۔ شرجیل میمن کو نجی اسپتال سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔
دوسرا معاملہ بجلی کے تاروں سے کرنٹ لگنے کے باعث دو بچوں کے بازو ضائع ہونے سے متعلق ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل حکومت سندھ کے کئی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسپتال میں زیر علاج بچے عمر کی عیادت کی اور ایسے واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ کے الیکٹرک پر اس حوالے سے بہت تنقید ہو رہی ہے ۔ سندھ کابینہ نے کے الیکٹرک کو ہدایت کی ہے کہ وہ بجلی کے لٹکتے ہوئے تمام تار ہٹا دے ۔ سیاسی رہنما ؤں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان بچوں کے مصنوعی بازو لگوانے کے اخراجات کے الیکٹرک برداشت کرے اور ساری زندگی بچوں کی کفالت کرے ۔ کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی کی لوڈشیدنگ ، زائد بلنگ اور دیگر معاملات پر بھی ہر طرف سے شدید ردعمل آرہا ہے ۔
سندھ سے 6 افسروں کے تبادلوں کا معاملہ ایسا ہے، جو وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کار کے بارے میں اندازے قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ جن 6 افسروں کی خدمات دیگر صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں ، ان میں اقبال حسین درانی ( سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کے داماد ) ، سید آصف حیدر شاہ ( موجودہ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کے بہنوئی ) ، سید علی ممتاز زیدی اور دیگر شامل ہیں ۔
سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان افسروں کے تبادلوں سے قبل مشاورت ہونی چاہئے تھی کیونکہ 1993 ء میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کے مشترکہ اجلاس میں افسران کے تبادلوں، تقرریوں کے حوالے سے دیگر پالیسی نافذ کی گئی تھی، جس کے تحت وفاقی کیڈر کے افسروں کے تبادلے و تقرریاں متعلقہ صوبائی حکومت کی مشاورت سے ہو سکیں گی ۔ سندھ حکومت کے بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے انتظامی امور میں گورنر سندھ کا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے حکومت سندھ کے بااعتماد افسروں کو ہٹانے اور اپنی مرضی کے افسر لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اس طرح نہ صرف سندھ کے انتظامی امور بلکہ سیاسی امور میں بھی زیادہ عمل دخل حاصل کر سکتی ہے ۔ سندھ کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کے معاملے پر بھی وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین تعلقات میں جلد کھچاؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی سندھ کے نئے گورنر عمران اسماعیل بہت زیادہ سرگرم ہیں اور ان کی سرگرمیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں گے۔ اگلے روز کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے عرس کی اختتامی تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ دونوں موجود تھے ۔
دونوں ر ہنماؤں سے وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کار کے بارے میں سوالات ہوئے۔ دونوں رہنماؤں کے جوابات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اختلافات بھی ہیں اور کھچاؤ بھی ہے لیکن دونوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کی ترقی کے لیے دونوں مل کر کام کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تنازعات مزید نمایاں ہوں گے ۔ صرف پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ایک دوسرے کی سیاسی حریف نہیں ہیں بلکہ وفاقی حکومت کی دو اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان بھی سیاسی کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے ۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ اس کے بھی کراچی سمیت سندھ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔
گزشتہ ہفتے سندھ سے 6 افسروں کے ہونے ہونے والے تبادلے کا معاملہ اگرچہ بہت اہم تھا لیکن دیگر دو معاملات خبروں میں زیادہ زیر بحث رہے۔ ایک معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا ایک نجی اسپتال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کا اچانک دورہ سے متعلق ہے ۔
نجی اسپتال میں پیپلز پارٹی کے اسیر رہنما شرجیل انعام میمن زیر علاج تھے جبکہ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں منی لانڈرنگ کیس کے دو اہم ملزمان حسین لوائی اور انور مجید زیر علاج ہیں۔ نجی اسپتال میں چیف جسٹس کے دورے کے دوران شرجیل انعام میمن کے کمرے سے دو بوتلیں برآمد ہوئیں ، جن میں پیپلز پارٹی کے مطابق شراب نہیں تھی۔
اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جبکہ شرجیل میمن کا الکحل ٹیسٹ بھی کرایا گیا ۔ اس ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق شرجیل میمن کے خون میں الکحل نہیں پایا گیا ۔ شرجیل میمن کو نجی اسپتال سے جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔
دوسرا معاملہ بجلی کے تاروں سے کرنٹ لگنے کے باعث دو بچوں کے بازو ضائع ہونے سے متعلق ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل حکومت سندھ کے کئی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسپتال میں زیر علاج بچے عمر کی عیادت کی اور ایسے واقعات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔ کے الیکٹرک پر اس حوالے سے بہت تنقید ہو رہی ہے ۔ سندھ کابینہ نے کے الیکٹرک کو ہدایت کی ہے کہ وہ بجلی کے لٹکتے ہوئے تمام تار ہٹا دے ۔ سیاسی رہنما ؤں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان بچوں کے مصنوعی بازو لگوانے کے اخراجات کے الیکٹرک برداشت کرے اور ساری زندگی بچوں کی کفالت کرے ۔ کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی کی لوڈشیدنگ ، زائد بلنگ اور دیگر معاملات پر بھی ہر طرف سے شدید ردعمل آرہا ہے ۔
سندھ سے 6 افسروں کے تبادلوں کا معاملہ ایسا ہے، جو وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کار کے بارے میں اندازے قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ جن 6 افسروں کی خدمات دیگر صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں ، ان میں اقبال حسین درانی ( سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کے داماد ) ، سید آصف حیدر شاہ ( موجودہ وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کے بہنوئی ) ، سید علی ممتاز زیدی اور دیگر شامل ہیں ۔
سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان افسروں کے تبادلوں سے قبل مشاورت ہونی چاہئے تھی کیونکہ 1993 ء میں اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کے مشترکہ اجلاس میں افسران کے تبادلوں، تقرریوں کے حوالے سے دیگر پالیسی نافذ کی گئی تھی، جس کے تحت وفاقی کیڈر کے افسروں کے تبادلے و تقرریاں متعلقہ صوبائی حکومت کی مشاورت سے ہو سکیں گی ۔ سندھ حکومت کے بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے انتظامی امور میں گورنر سندھ کا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے حکومت سندھ کے بااعتماد افسروں کو ہٹانے اور اپنی مرضی کے افسر لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اس طرح نہ صرف سندھ کے انتظامی امور بلکہ سیاسی امور میں بھی زیادہ عمل دخل حاصل کر سکتی ہے ۔ سندھ کے چیف سیکرٹری اور آئی جی کے معاملے پر بھی وفاقی اور سندھ حکومت کے مابین تعلقات میں جلد کھچاؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی سندھ کے نئے گورنر عمران اسماعیل بہت زیادہ سرگرم ہیں اور ان کی سرگرمیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں گے۔ اگلے روز کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے عرس کی اختتامی تقریب میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ دونوں موجود تھے ۔
دونوں ر ہنماؤں سے وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کار کے بارے میں سوالات ہوئے۔ دونوں رہنماؤں کے جوابات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اختلافات بھی ہیں اور کھچاؤ بھی ہے لیکن دونوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کی ترقی کے لیے دونوں مل کر کام کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تنازعات مزید نمایاں ہوں گے ۔ صرف پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ایک دوسرے کی سیاسی حریف نہیں ہیں بلکہ وفاقی حکومت کی دو اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان بھی سیاسی کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے ۔