شراب برآمدگی کو جیل و ڈسٹرکٹ پولیس نے پراسرار بنا دیا

دونوں ایک دوسرے پرذمے داری ڈال رہے ہیں، عملہ تلاشی لیتا توصورتحال مختلف ہوتی۔

 میڈیکل بورڈ بھی قائم کرنے پر غور، تین روز بعد افسران سے باز پرس سوالیہ نشان بن گئی۔ فوٹو : فائل

شرجیل میمن کے کمرے سے شراب برآمد ہونے کے معاملے کوجیل پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس نے پیچیدہ اور پراسراربنادیا۔

یکم ستمبر کی صبح چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ضیا الدین اسپتال میں سب جیل قرار دیے جانے والے کمرے پر چھاپہ مارا جہاں پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن زیر علاج تھے، ان کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں جس کے بعد یکم ستمبر کی شب واقعے جیل پولیس کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مجاہد خان کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر 398/18 بجرم دفعہ 4 امتناع منشیات آرڈیننس کے تحت درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق دو بوتلوں کا ذکر کیا گیا جس میں سے ایک بوتل میں 2 انچ شراب اور دوسرے میں شہد بتایا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر لیبارٹری ٹیسٹ میں شراب کی بجائے شہد اور زیتون نکل آیا ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جیل پولیس نے کس بنیاد پر مقدمے میں شراب کا ذکرکیا تھا ، جب لیبارٹری ٹیسٹ میں شراب ہی نہیں نکلی تو اب ایف آئی آر قانونی طور پر کمزور ہوتی نظر آرہی ہے جس کا براہ راست فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔


قانون کے مطابق سب جیل میں جیل پولیس کے افسران و اہلکار تعینات ہوتے ہیں اور وہ وہاں آنے جانے والے تمام افراد اور سامان کی تلاشی بھی لے سکتے ہیں لیکن ڈی آئی جی جیل ناصر آفتاب کی جانب سے تعینات کردہ عملے نے وہاں نہ آنے جانے والوں کی ہی کبھی مکمل تلاشی لی اور نہ ہی کبھی لائے جانے والے سامان کو چیک کیا۔

ستم ظریفی تو یہ تھی کہ ڈی آئی جی نے بھی کبھی عملے سے کوئی بازپرس نہ کی جس کے باعث شرجیل میمن کے کمرے میں کون کون کیا کیا لے جاتا رہا کچھ پتہ نہیں چل سکا،اگر ناصر آفتاب ذمے داری کا مظاہرہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی ۔

گزشتہ روز مقدمے میں دفعہ 201 کا اضافہ کرتے ہوئے جیل پولیس اور کورٹ پولیس کے ملازمین کو شامل تفتیش کیا گیا ہے ، واقعے کے تین روز بعد جیل پولیس کے افسران سے باز پرس خود ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اس پورے معاملے پر میڈیکل بورڈ قائم کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ تمام معاملہ شفاف ہو اور تفتیش کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پرآگے بڑھایا جاسکے۔
Load Next Story