جوہری دھماکوں کے بعد اب اقتصادی دھماکا کرنا ہوگا

لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن ہے اور یہی نوازشریف کا اصل امتحان ہے

لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن ہے اور یہی نوازشریف کا اصل امتحان ہے فوٹو: فائل

SUKKUR:
مئی کا مہینہ نواز شریف کیلیے ہمیشہ خوش قسمت رہا ہے۔

آج سے 15 سال قبل جب وہ وزیراعظم تھے تو انھوں نے 28 مئی کو 6 ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو ایٹمی قوت بنا دیا، ابھی دو ہفتے قبل ہی11 مئی کو ان کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور وہ ریکارڈ تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بننے والے ہیں، البتہ اب پاکستان کو کسی ایٹم بم کی نہیں بلکہ اقتصادی بم کی ضرورت ہے، بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں نوازشریف نے چھ ایٹمی دھماکے کردیے تھے، حالانکہ ان پر بہت زیادہ عالمی دباؤ تھا کہ دھماکے نہ کریں ۔

لیکن انھوں نے 28 مئی کو بٹن دبا دیا، اس دن کو یوم تکبیر کے طورپر منایا جاتا ہے، تب پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا، لیکن دوسری ایٹمی قوتوں کے برعکس پاکستان اقتصادی لحاظ سے کمزور ترین ملک تھا، ان دلیرانہ اقدامات کے پندرہ ماہ بعد ہی نوازشریف کی حکومت کا جنرل (ر) پرویزمشرف نے تختہ الٹ دیا، اسی آمر نے بعد میں ایٹم بم کے بانی ڈاکٹر عبدلقدیر کر قید بھی کر دیا، اس حوالے سے پاکستان ایک دلچسپ ملک ہے جہاں جوہری پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔

عالمی دباؤ میں آ کر ڈاکٹر قدیر سے جوہری پھیلاؤ میں ملوث ہونے کا اعتراف کرایا گیا، ایٹمی دھماکے کرنیوالے وزیراعظم نواز شریف کو نہ صرف جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ جلاوطنی پر مجور کیا گیا، ایٹمی پاکستان کو آج توانائی بحران سمیت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، توانائی بحران کیوجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، مزید براں عسکریت پسندی اورانتہا پسندی نے سر اٹھا رکھا ہے جس سے غیرملکی سرمایہ کاری رک چکی ہے حتیٰ کہ ملکی تاجروں ، صنعتکاروں کو اغواء برائے تاوان کی دھمکیاں ملتی ہیں۔


جوہری پاکستان غیرملکی جارحیت سے تو بچ گیا ہے اور روائتی جنگ کے خطرات بھی کم ہو گئے ہیں لیکن آج پاکستان کوجن خطرات کا سامنا ہے وہ نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں، ملک آج اندرونی طور پر بہت کمزور ہو چکا ہے، ملک کے ایک حصے میں شورش ہے تو دوسرے حصے میں عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے، نواز شریف نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے چینی وزیراعظم سے سول جوہری معاہدے کی بات کی، تاہم چینی وزیر اعظم نے کیا جواب دیا یہ ابھی واضح نہیں، بلوچستان اور خیبرپختون خوا اور فاٹا کے لوگ آتش فشاں پر بیٹھے ہیں جبکہ کراچی میں عملی طور پر کوئی حکومت نہیں ہے، صورتحال دن بدن بدترین ہوتی جا رہی ہے لہذا آج کا پاکستان 1998 سے بہت مختلف ہے جب نواز شریف نے پاکستان کو جوہری طاقت بنایا تھا۔



1998 میں نوازشریف کے پاس اسمبلی میں دوتہائی اکثریت تھی آ ج جب وہ ایٹم بم دھماکوں کی پندرھویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ان کے پاس اسمبلی میں سادہ اکثریت ہے، مسلم لیگ ن اگرچہ انتخابات میں فتح کا جشن قومی اسمبلی میں ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ پر منانا چاہتی تھی تاہم اجلاس بلانے میں غیرضروری تاخیر نے اسے مایوس کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس اب یکم جون کو ہو رہا ہے جبکہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف پانچ جون کو اٹھائیں گے، سندھ اسمبلی کا اجلاس 29 مئی کو طلب کیا گیا ہے ، یہ وہ دن ہے۔

جب 1988 میں سابق صدر ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کرکے قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ دی تھیں، آج یوم تکبیر کی تقریب میں نوازشریف پاکستان کی آئندہ کی جوہری پالیسی اور بھارت کو دوستی کی پیشکش کے حوالے سے اہم بیان دے سکتے ہیں، طاقتور نواز شریف طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرکے مضبوط فیصلہ لے چکے ہیں، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اقتصادی ترقی کا تعلق اندرونی امن سے ہے، قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں 182 ارکان کے ساتھ اور پھر اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کی طرف سے تعاون کی پیشکش کے بعد نواز شریف ایٹمی پاکستان کو ایک اقتصادی طاقت یا پھر اپنی خواہش کے مطابق ایشین ٹائیگر بنا سکتے ہیں، ایٹم بم نے پاکستان کو غیرملکی جارحیت سے بچایا۔

جبکہ اقتصادی بم پاکستانیوںکو بچا سکتا ہے، یہ اقتصادی بم ہی ہے جو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکتا ہے اور وہ امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں، جوہری پاکستان کے عوام کو دن کا چین ہے نہ رات کا آرام ،کیونکہ اٹھارہ سے بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے اور میاں نواز شریف کا یہی اصل امتحان ہے، مئی نوازشریف کیلئے اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق نے ان کی جو حکومت برطرف کی تھی 26 مئی 1993کو سپریم کورٹ نے برطرفی کا صدارتی حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی حکومت بحال کردی تاہم وہ ایسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے صدر اسحاق کے ساتھ خود بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کر گئے ۔
Load Next Story