وزیراعظم عمران خان امتحاں اوربھی ہیں
اب وزیراعظم عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ عوام کے سامنے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں؟
تبدیلی کا نعرہ لے کرپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس سفر کا آغاز بائیس سال پہلے کیا تھا، وہ اس کی منزل کے سنگ میل پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف ملک میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور ملک کے وزیراعظم اس وقت عمران خان ہیں۔ وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کیلئے جو جتن عمران خان نے کیے اور عوام کی حمایت کے حصول کیلئے جو وعدے کیے، اب عمران خان کیلئے عہد وفا کرنے کے اصل امتحان کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
حکومت سے باہر رہ کر کسی پر بھی تنقید کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد دوسروں کی تنقید برداشت بھی کرنا پڑتی ہے۔ کسی حکمران نے کیا خوب کہا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے دور کے ڈھول سہانے۔ یعنی باہر سے تو حکومت کرنا آسان لگتا ہے لیکن جب حکومت سنبھالی جاتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ پانی کی گہرائی تب ہی معلوم ہوتی ہے جب پانی میں اترا جاتا ہے۔ عمران خان نے گہرے اور وسیع احاطے والے پانی میں اترنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اب وہ اس پانی میں اتر چکے ہیں۔
عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کئی معلومات کا ذکر کیا اور قوم کو سخت فیصلوں کیلئے تیار رہنے کیلئے الرٹ کر دیا۔ یہ سخت فیصلے کس حوالے سے ہوں گے؟ چونکہ عوام کو سیاسی حوالے سے سخت فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام تو چاہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو، مہینے بعد اس کے بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بل کم آئیں، بے روزگار نوجوان اس انتظار میں ہیں کہ انہیں نوکریاں ملیں، وہ والدین جو پیسے نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے ان کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں، وہ غریب بیمار افراد جو اپنا علاج نہیں کرا سکتے ان کا علاج ہو، اور جب شہری سرکاری دفاتر میں کام کیلئے جائیں تو ٹال مٹول اور آزار دینے کی روایت ختم ہو اور کام کے بدلے رشوت کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
تحریک انصاف نے جب مخالف سیاسی جماعتوں کو شکست دی تو اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس دوران سوشل میڈیا پر انڈین فلم ''نائک'' کا ایک کلپ چلایا گیا جس میں انیل کپور تمام روایتی سیاستدانوں کو شکست دیتا ہے تو مخالف سیاستدان انیل کپور کے خلاف اکٹھ کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ کلپ چلانے والوں نے اس سے اگلے سین کے کلپ نہیں چلائے کہ انیل کپور معاشرے میں بگاڑ کو کس طرح سدھارتا ہے، کس طرح کرپشن پر قابو پانے کیلئے وہ بھیس بدل کر سرکاری افسران کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرتا ہے اور کس طرح عوامی شکایات سن کر ان کا آزالہ کرتا ہے۔ بہرحال یہ فلمی سین ہیں، حقیقت میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن معاشرے میں پھیلی ناسور جیسی ان موذی بیماریوں کو ختم تو کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جو قابل ستائش ہیں، جیسے اخراجات کم کرنے کیلئے انہوں نے مہمانوں کی خاطر تواضع چائے پانی سے کی، بھاری بھرکم اخراجات والے کھانے بند کرادیئے، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں اضافی گاڑیوں کو نیلام کرنے کا حکم دے دیا، اور وزیراعظم کے ذاتی ملازمین کو بھی کم کر دیا۔ لیکن حکومت کو ان اقدامات سے قبل یہ بتانا چاہیے تھا کہ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کا ماہانہ خرچہ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کتنا تھا؟ اور پھر ایک ماہ بعد بتاتے کہ ان اخراجات پر کتنا قابو پایا گیا۔ ایک وزیر، مشیر، وزیرمملکت کا خرچہ پہلے کتنا تھا؟ اور اس خرچے کو کتنا کم کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ اعلان تو کیا گیا ہے کہ سرکاری افسران مہنگی گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے، تو کیا یہ حکم وزارء پر بھی لاگو ہوگا؟ اخراجات کم کرنے کیلئے کیا کابینہ ارکان اپنا علاج ذاتی خرچے سے کرائیں گے؟ وزیراعظم عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ سرکاری ٹھیکوں کی نیلامی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کیونکہ ماضی میں خیبرپختونخوا میں ایک وزیر کو اس بنیاد پر وزارت سے فارغ کردیا گیا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیدار کی این جی او سے معاہدہ کرنے انکار کردیا تھا۔
عمران خان نے معیشت کی بہتری کیلئے اقتصادی کونسل تشکیل دے دی ہے جس میں سات ارکان سرکاری اور 11 کا تعلق نجی شعبے سے ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی کونسل کے شرکاء پر کتنا خرچہ آئے گا؟ اور اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچےگا؟ ماضی کی حکومت کی جانب سے کیے گئے ایسے اقدامات کو پی ٹی آئی تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان کی کابینہ یا پارلیمنٹ میں کوئی ایسے قابل افراد نہیں جو ملکی معشیت کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
عمران خان نے ٹی وی اینکرز سے ملاقات کے دوران تین ماہ کا وقت مانگا ہے کہ تین ماہ میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ تبدیلی کے نام پر ہی عوام نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا اور انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر تخت اسلام آباد تک پہنچایا گیا۔ اب وزیراعظم عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ عوام کے سامنے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکومت سے باہر رہ کر کسی پر بھی تنقید کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد دوسروں کی تنقید برداشت بھی کرنا پڑتی ہے۔ کسی حکمران نے کیا خوب کہا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے دور کے ڈھول سہانے۔ یعنی باہر سے تو حکومت کرنا آسان لگتا ہے لیکن جب حکومت سنبھالی جاتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ پانی کی گہرائی تب ہی معلوم ہوتی ہے جب پانی میں اترا جاتا ہے۔ عمران خان نے گہرے اور وسیع احاطے والے پانی میں اترنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اب وہ اس پانی میں اتر چکے ہیں۔
عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کئی معلومات کا ذکر کیا اور قوم کو سخت فیصلوں کیلئے تیار رہنے کیلئے الرٹ کر دیا۔ یہ سخت فیصلے کس حوالے سے ہوں گے؟ چونکہ عوام کو سیاسی حوالے سے سخت فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں۔ عوام تو چاہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو، مہینے بعد اس کے بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بل کم آئیں، بے روزگار نوجوان اس انتظار میں ہیں کہ انہیں نوکریاں ملیں، وہ والدین جو پیسے نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے ان کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں، وہ غریب بیمار افراد جو اپنا علاج نہیں کرا سکتے ان کا علاج ہو، اور جب شہری سرکاری دفاتر میں کام کیلئے جائیں تو ٹال مٹول اور آزار دینے کی روایت ختم ہو اور کام کے بدلے رشوت کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
تحریک انصاف نے جب مخالف سیاسی جماعتوں کو شکست دی تو اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ اس دوران سوشل میڈیا پر انڈین فلم ''نائک'' کا ایک کلپ چلایا گیا جس میں انیل کپور تمام روایتی سیاستدانوں کو شکست دیتا ہے تو مخالف سیاستدان انیل کپور کے خلاف اکٹھ کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ کلپ چلانے والوں نے اس سے اگلے سین کے کلپ نہیں چلائے کہ انیل کپور معاشرے میں بگاڑ کو کس طرح سدھارتا ہے، کس طرح کرپشن پر قابو پانے کیلئے وہ بھیس بدل کر سرکاری افسران کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرتا ہے اور کس طرح عوامی شکایات سن کر ان کا آزالہ کرتا ہے۔ بہرحال یہ فلمی سین ہیں، حقیقت میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لیکن معاشرے میں پھیلی ناسور جیسی ان موذی بیماریوں کو ختم تو کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جو قابل ستائش ہیں، جیسے اخراجات کم کرنے کیلئے انہوں نے مہمانوں کی خاطر تواضع چائے پانی سے کی، بھاری بھرکم اخراجات والے کھانے بند کرادیئے، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں اضافی گاڑیوں کو نیلام کرنے کا حکم دے دیا، اور وزیراعظم کے ذاتی ملازمین کو بھی کم کر دیا۔ لیکن حکومت کو ان اقدامات سے قبل یہ بتانا چاہیے تھا کہ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کا ماہانہ خرچہ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کتنا تھا؟ اور پھر ایک ماہ بعد بتاتے کہ ان اخراجات پر کتنا قابو پایا گیا۔ ایک وزیر، مشیر، وزیرمملکت کا خرچہ پہلے کتنا تھا؟ اور اس خرچے کو کتنا کم کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ اعلان تو کیا گیا ہے کہ سرکاری افسران مہنگی گاڑیاں استعمال نہیں کریں گے، تو کیا یہ حکم وزارء پر بھی لاگو ہوگا؟ اخراجات کم کرنے کیلئے کیا کابینہ ارکان اپنا علاج ذاتی خرچے سے کرائیں گے؟ وزیراعظم عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ سرکاری ٹھیکوں کی نیلامی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کیونکہ ماضی میں خیبرپختونخوا میں ایک وزیر کو اس بنیاد پر وزارت سے فارغ کردیا گیا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیدار کی این جی او سے معاہدہ کرنے انکار کردیا تھا۔
عمران خان نے معیشت کی بہتری کیلئے اقتصادی کونسل تشکیل دے دی ہے جس میں سات ارکان سرکاری اور 11 کا تعلق نجی شعبے سے ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اقتصادی کونسل کے شرکاء پر کتنا خرچہ آئے گا؟ اور اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچےگا؟ ماضی کی حکومت کی جانب سے کیے گئے ایسے اقدامات کو پی ٹی آئی تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان کی کابینہ یا پارلیمنٹ میں کوئی ایسے قابل افراد نہیں جو ملکی معشیت کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔
عمران خان نے ٹی وی اینکرز سے ملاقات کے دوران تین ماہ کا وقت مانگا ہے کہ تین ماہ میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ تبدیلی کے نام پر ہی عوام نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا اور انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر تخت اسلام آباد تک پہنچایا گیا۔ اب وزیراعظم عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ عوام کے سامنے کس طرح سرخرو ہوتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔