کارگل کا شیر کیپٹن کرنل شیر خان
دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر کیپٹن کرنل شیر خان کو نشانِ حیدر عطا کیا گیا اور وہ زندہ جاوید ہوگئے
بیسویں صدی بستر مرگ پر اپنے آخری ماہ و سال گن رہی تھی۔ اس صدی نے دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ تاریخ عالم نے پہلی بار عالمی جنگوں کا سامنا کیا اور جدیدیت کا عالمی مشاہدہ کیا، انسانیت کو برہنہ پا دیکھا۔ اسی صدی میں خوفناک ہتھیاروں نے زمین کے سینے کو چیرنا شروع کیا۔ یہ صدی جہاں دنیا کی ہولناکیوں اور مصائب کی چشم دید گواہ تھی وہیں یہ بوڑھی صدی وفا و ہجر کی مثال بننے والوں پر رشک کرتی رہی۔ ابھی بیسویں صدی کی کچھ سانسیں باقی تھیں لیکن قدرت اُسے اپنے کچھ اور شاہکار دکھانا چاہتی تھی۔ یہ مئی 1999 تھا۔ جنوبی ایشا میں یہ مہینہ گرمی سے بھرپور ہوتا ہے، مگر پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقعہ کوہ ہمالیہ کا سلسلہ یخ بستہ سردی کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ ایسے میں دنیا کے بلند ترین محاذ پر جنگ کی چنگاری بھڑک اُٹھتی ہے۔ یہ ہرگز کوئی معمولی ٹکراؤ نہیں تھا بلکہ دو ایٹمی طاقتیں زور آزمائی میں مصروف تھیں۔ یہ سنگلاخ چٹانیں اقبال کے شعر کی عملی تفسیر بن گئیں:
وہ ہر صورت کارگل کے محاذ جنگ پر پہنچانا چاہتا تھا۔ اس نے رضا کارانہ طور اپنی خدمات پیش کردیں جو قبول کرلی گئیں۔ اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ والدین اس کا سہرا سجانا چاہتے تھے مگر وہ محاذِ جنگ کی طرف لپک رہا تھا۔ والد خورشید خان نے رخصت کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ جیتا رہ میرے شیر!
اسے جس علاقے میں تعینات کیا گیا وہ ہزاروں فٹ بلندی پر واقع ایک برف زار تھا۔ تاحد نگاہ برف ہی برف۔ یہاں سبزہ ناپید تھا، سڑکوں کا وجود تو دور کی بات تھی۔ برف کی دبیز تہہ پر سامان اُٹھا کر چلنا آسان نہ تھا۔
ایک طرف موسم کے تیور تھے کہ گرمی کے مہینے میں یہاں سردی سے برا حال تھا۔ مئی کے مہینے کی شروعات ہوئی کہ گارگل سے سخت لڑائی کی خبریں آنے لگیں۔ سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس محاز پر دشمن کی زبردست گولہ باری ہورہی تھی۔ دن بھر بھاری توپ خانے سے پاکستانی پوسٹوں پر گولہ باری کی جاتی اور رات کو بھارتی فوج آگے بڑھنے کی کوشش کرتی۔ تین مئی کے روز کیپٹن کو افسران نے ریکی کا حکم دیا۔ وہ تین ساتھیوں سمیت روانہ ہوا اور دو روز بعد موسی مستقر سے اپنے کمانڈنگ آفسر کو اپنی کارکردگی بتائی۔ افسران بالا کے حکم پر کیپٹن نے یہاں ایک چوکی قائم کردی جہاں سے وہ بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنانے لگے۔ بھارتی فوج کےلیے یہ چوکی وبال جان بن گئی۔ بھارتی سینا نے تیرہ مئی کو اس چوکی کے مقام پر بھاری توپ خانے سے پانچ گھنٹے مسلسل شدید گولہ باری کی۔ اس گولہ باری کے بعد بھارتی فوج کو یقین تھا کہ پاکستانی فوجی اگر زندہ بھی ہوئے تو اب اس چوٹی پر نہیں ہوں گے۔ اس زعم میں انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئی درجن بھر فوجی چوکی کے عین سامنے اتار دیئے۔ کیپٹن نے اپنے جوانوں کو مقابلے کے تیار ہو جانے کا حکم دیا۔
''دشمن اپنی موت آپ مرنے آگیا ہے،'' کیپٹن نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ وہ سب شدید گولہ باری سے بچنے کےلیے تودوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوج کے اُترتے ہی وہ چوکی پر آگئے اور ساتھیوں کے ہمراہ دشمن پر فائرکھول دیا۔ آدھے مارے گئے اور باقی فوری طور پر راہ فرار اختیار کر گئے۔ کیپٹن نے فرار ہوتے فوجیوں کو مخاطب کرکے کہا، ''میں یہاں پر تم لوگوں کی موت کا پروانہ ہوں!'' کیپٹن کی دھاڑ برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر پوری وادی میں گونج رہی تھی۔ یہ شیر کی دھاڑ تھی جو اس علاقے میں اپنی موجودگی کا پتا دے رہا تھا۔ کارگل کی چوٹیاں اپنے سینوں پر گولہ باری سہتی رہیں۔
جون کی آخری تاریخیں آن پہنچیں۔ کیپٹن کے دل میں جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ کیپٹن ایک گشت کے دوران ''مشکوہ نالے'' میں بھارتی فوج کے کیمپ کا سراغ لگا لیا۔ افسران سے حملے کی اجازت طلب کی جو فوراََ ملی۔ بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آن پہنچا، کیپٹن نے چند افراد منتخب کئے۔
کیپٹن نے ہتھیاروں میں دو بھارتی مشین گنز، سات دستی بم، ایک آر پی جی، چار جی تھری رائفلز اور ایک موٹرولا سیٹ اُٹھائے۔ بائیس جون کی آدھی گزر چکی جب ان سرفروشوں کا یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ جوانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کیپٹن نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ وہ سب ساڑھے چار بجے صبح کے وقت دشمن کے کیمپ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ کڑاکے کی سردی سے ہر چیز جمتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مگر سچے جذبوں اور وطن کی محبت کی گرمی اس سردی کو شکست دے چکی تھی۔ وہ سرفروش تھے، اللہ ہی ملنے کی لو میں یہاں آئے تھے۔ کیپٹن نے دو دو افراد کے گروپ تشکیل دیئے اور تین گروپس کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مختلف پوزیشنوں پرتعینات کردیا۔
''جب تک میں نہ کہوں فائر نہیں ہو گا،'' یہ کہہ کر کیپٹن نے اپنے ساتھ سپاہی عرفان کو لیا اور دشمن کے کیمپ میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ کیمپ کے باہر چوکی سب سے پہلے ان کے سامنے آئی۔ اندر دو فوجی ساری رات فائرنگ کے بعد سو رہے تھے۔ کیپٹن نے سپاہی عرفان کو اشارہ کیا کہ ان لوگوں گلا دبا کر مارنا ہے، کوئی آواز نہ نکلے۔
کیپٹن نے اپنے شکار کو تو ہلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ دوسرا فوجی عرفان کی گرفت سے نکل آیا، وہ آپس میں الجھ گئے۔ مجبوری میں کیپٹن کو گولی چلانی پڑی، گولی چلتے ہی سارا کیمپ بیدار ہو گیا۔ ''پاکستانی سینا آگئی!'' کسی فوجی نے آواز لگائی۔ اتنے میں بھارتی فوج کے کیمپ سے آنے والی گولی عرفان کو آن لگی۔ عرفان زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ فائرنگ تھمی تو وہ عرفان کو لینے آئے۔ عرفان کے جسم سے خون بہہ چکا تھا۔ اُس نے کیپٹن کی طرف دیکھا۔ ''سر آپ میری فکر نہ کریں، میرا وقت آچکا ہے۔'' عرفان نے بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور جان اُس کے سپرد کری جس کی تھی۔
اس دوران بھاری توپ خانے اور جنگی طیاروں نے بمباری کا آغاز کردیا۔ عرفان کو تودے کے پیچھے لٹایا اورخود کیمپ سے پیچھے ہٹنے لگے۔ بمباری تھمی تو دوبارہ سپاہی عرفان کے مقدس جسد خاکی اُٹھانے آئے ہوئے بھارتی فوج عرفان کو لے کر جا چکی تھی۔ وہ اپنی پوزیشن پر واپس آگئے، کیپٹن اپنی وردی پر لگے عرفا ن کے خون کو بار بار چھو کر دیکھتا رہا، اُسے عرفان کی کامیابی پر رشک آ رہا تھا۔
جون گزر گیا، جولائی آچکا تھا۔ آغاز ہی ہنگاموں سے بھرپور تھا۔ 4 جولائی 1999 کو کیپٹن کو ٹائیگر ہل جانے کا حکم ہوا۔ یہاں پاک فوج نے تین چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ ان چوکیوں کے کوڈ نیمز اے، بی اور سی تھے جبکہ انہیں کاشف، وکیل اورکلیم چوکی کے عرفی نام دیئے گئے تھے۔ ''دشمن اے اور بی چوکی کے درمیان گھسنے میں کامیاب ہوگیا،'' افسر نے کیپٹن کو بریف کیا۔ ''سر! میں جان پر کھیل کر دشمن کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دوں گا،''
''کوئی شک؟'' افسر نے بریفنگ کے اختتام پر پوچھا۔ ''نو سر'' کیپٹن کا رُواں رُواں ذوق شہادت سے لبریز ہو چکا تھا۔ کیپٹن نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ کیپٹن نے علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح کیپٹن عمار بھی ٹیم کا حصہ بن چکے تھے۔ کمپنی کے سارے جوان آج کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ بھارتی فوج ٹائیگر ہل کی پوزیشن ہر صور ت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ کیپٹن نے حملے کا آغاز کردیا۔ پہلے ہی حملے میں چار بھارتی زخمی ہونے کے بعد باقی فوجی بھاگ نکلے۔ کیپٹن نے صورت حال پر کنٹرول کرتے ہی آگے جا کر میجر ہاشم سے ملے اور درپیش حالات پر ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ دشمن کی 8 سکھ رجمنٹ نے بھرپور حملہ کر دیا۔
پاک فوج کے سپاہی پوزیشنیں بدل بدل کر بھرپور مقابلہ کرتے رہے، فی الحال اسلحے کی برتری حاوی ہو چکی تھی۔ میجر ہاشم نے توپ خانے کو اپنی ہی پوزیشنز پر گولہ باری کا حکم دے دیا۔ جنگ میں یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دشمن پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ یہاں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، ایک طرف گولے گر رہے تھے تو سامنے دشمن۔ پاکستانی فوج کے جوان ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کر رہے تھے۔ کیپٹن بھی زخمی ہوچکا تھا۔ اسے ایک سکھ فوجی آواز سنائی دے جو گالی دے کر کہ رہا تھا، ''مرگئے سارے!''
کیپٹن نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ وہ سکھ فوجی ایک شہید کے پاک چہرے پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک نظر اپنے اطراف میں پڑی پاک فوج کے جوانوں کی لاشوں پر ڈالی، ایک فوجی کی مشین گن اپنے ہاتھ میں لی اور تاک کر اس فوجی کا نشانہ لیا جو لاشوں کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ کیپٹن کی نشانہ بازی ویسے ہی کما ل تھی۔
کیپٹن نے کچھ بھارتی سپاہیوں کو ڈھیر کیا۔ باقی سمجھے کہ پاک فوج نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور بھاگ نکلے۔ وہ اپنے کیمپ کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کا پیچھا زخمی شیر کر رہا تھا۔ بھارتی فوج کیمپ میں داخل ہوئی۔ کیپٹن بھی ان کے پیچھے کیمپ میں داخل ہو کر ان کو نشانہ بنانے لگا۔ اب بھارتی فوجیوں کو پتا چلا کہ انہیں یہاں تک مار کر لانے والا صرف ایک شخص ہے جس کی فائرنگ کئی بھارتی سپاہی واصل جہنم ہو چکے تھے۔ اب بھارتی فوج کیپٹن کو گھیرنے کی کوشش کررہی تھی۔ جو سامنے آتا، کیپٹن فائر کھول کر اسے نشانہ بناتا۔ یہ اعصاب شکن لمحات تھے۔
اب وہ لمحہ بھی آگیا کہ جب کیپٹن کی مشین گن کا میگزین خالی ہوچکا تھا۔ اتنے میں بھارتی فوج کا کمانڈنگ افسر نکل کر باہر آیا۔ بھارتی فوج کے پچاس کے قریب سپاہیوں نے کیپٹن کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا۔ کمانڈنگ آفسر نے کیپٹن کو ہتھیار ڈالنے کی وارننگ دی۔
کیپٹن کہاں ہتھیار ڈالنے آیا تھا۔ اس نے اپنے قریب کھڑے سی او کے سر پر بندوق کا بٹ مار۔ افسر نے فائر کا حکم دیا۔ دشمن فوجیوں کی بندوقوں کے دہانے کھل گئے۔ پگھلا ہوا سیسہ کیپٹن کے سینے میں اتر رہا تھا۔ اس قدر زخمی ہوجانے کے بعد بھی کیپٹن کی کوشش تھی کہ کسی طرح سی او کو ایک بار پھر نشانہ بنائے۔ وہ دین وملت کو نشانہ بنانے والوں کوایسا سبق سکھانا چاہتا تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ کچھ اور گولیاں کیپٹن کے جسم سے پار ہوئیں تو اس کی پیش قدمی رک گئی۔ شہادت کی منزل آچکی تھی۔
''بیٹا کبھی شہادت کا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سر اور سینہ نہ جھکنے دینا،'' اس کے ذہن کے دریچوں میں خان گلاب کی ہدایت گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہاتھ میں تھامی مشین گن کا سہارا لیا۔ ''یااللہ تیرا شکر! لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ،'' کیپٹن کے جسد خاکی نے آخری ہچکی لی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے جان اللہ کے سپرد کر دی۔ اس کا سر مشین گن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
بھارتی فوج کے جوان اور کمانڈنگ افسر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ اچانک کچھ سپاہیوں نے آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہی تو کمانڈنگ آفیسر نے جوانوں کو سختی منع کیا۔ ''کوئی اس جوان کی لاش کے قریب نہ آئے!'' کمانڈنگ آفیسر آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کے عین سامنے آن کھڑا ہوا۔ وہ کیپٹن کے چہرے پر تبسم دیکھ کر سحر زدہ ہو گیا۔ ''بہت ہی جی دار فوجی تھا۔ اس کی بہادری نے میرا دل جیت لیا۔ اس کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ سری نگر پہنچا دو،'' وہ ٹرانس کے عالم میں بول رہا تھا۔ بھارتی کمانڈنگ افسر نے کپتان کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ اعلی انتظامیہ تک پہنچا دیا اور ساتھ اپنے افسروں سے اس کی بہادری کا اعتراف پاکستانی حکومت تک پہنچانے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔
کیپٹن کی بہادری کا اعتراف اس کے ورثا تک پہنچا دیا گیا: ''آپ کا یہ بہادر افسر یقیناََ آپ کی فوج کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس نے سخت ترین حالات میں جس جرأت، بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ میدان جنگ میں کیا، وہ ہمارے لیے متاثر کن ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ ہماری فوج کیپٹن کو مدتوں فراموش نہیں کر پائے گی۔''
18 جولائی کی آدھی رات گزر چکی تھی۔ کراچی ملیر چھاؤنی کے ایئرپورٹ پر پاک فوج کے سیکڑوں جوان، شہری اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ فضا پر ایک عجب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ سب دہلی سے آنے والی پرواز کا انتظار کر رہے تھے۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ رن وے پر جہاز اترا جس میں سے دو تابوت باہر آئے۔ ایک تابوت میں کیپٹن کا جسد خاکی تھا جبکہ دوسرے فوجی کی شناخت ہونا باقی تھی۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے تابوت جہاز سے اتارے اور مارچ کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے زمین پر رکھ دیئے۔ لوگوں کی آنکھیں فخر کے آنسوؤں سے نم ہو رہی تھیں؛ اور کیوں نہ ہوتیں کہ دھرتی کے بیٹے نے بہادری اور وفا کی وہ مثال قائم کردی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
یہاں سے اس کے تابوت کو پہلے اسلام آباد اور پھر اس کے آبائی علاقے نوا کلے پہنچا دیا گیا۔ وہ نوا کلے کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا۔ نوا کلے کی زمین اپنے سپوت کے انتظار میں بانہیں پھیلائے تھی۔ یہ تھا گارگل کا شیر، کیپٹن کرنل شیر خان۔ دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر کیپٹن کرنل شیر خان کو نشانِ حیدر دیا گیا اور وہ زندہ جاوید ہوگئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
وہ ہر صورت کارگل کے محاذ جنگ پر پہنچانا چاہتا تھا۔ اس نے رضا کارانہ طور اپنی خدمات پیش کردیں جو قبول کرلی گئیں۔ اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ والدین اس کا سہرا سجانا چاہتے تھے مگر وہ محاذِ جنگ کی طرف لپک رہا تھا۔ والد خورشید خان نے رخصت کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ جیتا رہ میرے شیر!
اسے جس علاقے میں تعینات کیا گیا وہ ہزاروں فٹ بلندی پر واقع ایک برف زار تھا۔ تاحد نگاہ برف ہی برف۔ یہاں سبزہ ناپید تھا، سڑکوں کا وجود تو دور کی بات تھی۔ برف کی دبیز تہہ پر سامان اُٹھا کر چلنا آسان نہ تھا۔
ایک طرف موسم کے تیور تھے کہ گرمی کے مہینے میں یہاں سردی سے برا حال تھا۔ مئی کے مہینے کی شروعات ہوئی کہ گارگل سے سخت لڑائی کی خبریں آنے لگیں۔ سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس محاز پر دشمن کی زبردست گولہ باری ہورہی تھی۔ دن بھر بھاری توپ خانے سے پاکستانی پوسٹوں پر گولہ باری کی جاتی اور رات کو بھارتی فوج آگے بڑھنے کی کوشش کرتی۔ تین مئی کے روز کیپٹن کو افسران نے ریکی کا حکم دیا۔ وہ تین ساتھیوں سمیت روانہ ہوا اور دو روز بعد موسی مستقر سے اپنے کمانڈنگ آفسر کو اپنی کارکردگی بتائی۔ افسران بالا کے حکم پر کیپٹن نے یہاں ایک چوکی قائم کردی جہاں سے وہ بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنانے لگے۔ بھارتی فوج کےلیے یہ چوکی وبال جان بن گئی۔ بھارتی سینا نے تیرہ مئی کو اس چوکی کے مقام پر بھاری توپ خانے سے پانچ گھنٹے مسلسل شدید گولہ باری کی۔ اس گولہ باری کے بعد بھارتی فوج کو یقین تھا کہ پاکستانی فوجی اگر زندہ بھی ہوئے تو اب اس چوٹی پر نہیں ہوں گے۔ اس زعم میں انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئی درجن بھر فوجی چوکی کے عین سامنے اتار دیئے۔ کیپٹن نے اپنے جوانوں کو مقابلے کے تیار ہو جانے کا حکم دیا۔
''دشمن اپنی موت آپ مرنے آگیا ہے،'' کیپٹن نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ وہ سب شدید گولہ باری سے بچنے کےلیے تودوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوج کے اُترتے ہی وہ چوکی پر آگئے اور ساتھیوں کے ہمراہ دشمن پر فائرکھول دیا۔ آدھے مارے گئے اور باقی فوری طور پر راہ فرار اختیار کر گئے۔ کیپٹن نے فرار ہوتے فوجیوں کو مخاطب کرکے کہا، ''میں یہاں پر تم لوگوں کی موت کا پروانہ ہوں!'' کیپٹن کی دھاڑ برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر پوری وادی میں گونج رہی تھی۔ یہ شیر کی دھاڑ تھی جو اس علاقے میں اپنی موجودگی کا پتا دے رہا تھا۔ کارگل کی چوٹیاں اپنے سینوں پر گولہ باری سہتی رہیں۔
جون کی آخری تاریخیں آن پہنچیں۔ کیپٹن کے دل میں جذبات اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ کیپٹن ایک گشت کے دوران ''مشکوہ نالے'' میں بھارتی فوج کے کیمپ کا سراغ لگا لیا۔ افسران سے حملے کی اجازت طلب کی جو فوراََ ملی۔ بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آن پہنچا، کیپٹن نے چند افراد منتخب کئے۔
کیپٹن نے ہتھیاروں میں دو بھارتی مشین گنز، سات دستی بم، ایک آر پی جی، چار جی تھری رائفلز اور ایک موٹرولا سیٹ اُٹھائے۔ بائیس جون کی آدھی گزر چکی جب ان سرفروشوں کا یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ جوانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کیپٹن نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ وہ سب ساڑھے چار بجے صبح کے وقت دشمن کے کیمپ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ کڑاکے کی سردی سے ہر چیز جمتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مگر سچے جذبوں اور وطن کی محبت کی گرمی اس سردی کو شکست دے چکی تھی۔ وہ سرفروش تھے، اللہ ہی ملنے کی لو میں یہاں آئے تھے۔ کیپٹن نے دو دو افراد کے گروپ تشکیل دیئے اور تین گروپس کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مختلف پوزیشنوں پرتعینات کردیا۔
''جب تک میں نہ کہوں فائر نہیں ہو گا،'' یہ کہہ کر کیپٹن نے اپنے ساتھ سپاہی عرفان کو لیا اور دشمن کے کیمپ میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ کیمپ کے باہر چوکی سب سے پہلے ان کے سامنے آئی۔ اندر دو فوجی ساری رات فائرنگ کے بعد سو رہے تھے۔ کیپٹن نے سپاہی عرفان کو اشارہ کیا کہ ان لوگوں گلا دبا کر مارنا ہے، کوئی آواز نہ نکلے۔
کیپٹن نے اپنے شکار کو تو ہلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ دوسرا فوجی عرفان کی گرفت سے نکل آیا، وہ آپس میں الجھ گئے۔ مجبوری میں کیپٹن کو گولی چلانی پڑی، گولی چلتے ہی سارا کیمپ بیدار ہو گیا۔ ''پاکستانی سینا آگئی!'' کسی فوجی نے آواز لگائی۔ اتنے میں بھارتی فوج کے کیمپ سے آنے والی گولی عرفان کو آن لگی۔ عرفان زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ فائرنگ تھمی تو وہ عرفان کو لینے آئے۔ عرفان کے جسم سے خون بہہ چکا تھا۔ اُس نے کیپٹن کی طرف دیکھا۔ ''سر آپ میری فکر نہ کریں، میرا وقت آچکا ہے۔'' عرفان نے بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور جان اُس کے سپرد کری جس کی تھی۔
اس دوران بھاری توپ خانے اور جنگی طیاروں نے بمباری کا آغاز کردیا۔ عرفان کو تودے کے پیچھے لٹایا اورخود کیمپ سے پیچھے ہٹنے لگے۔ بمباری تھمی تو دوبارہ سپاہی عرفان کے مقدس جسد خاکی اُٹھانے آئے ہوئے بھارتی فوج عرفان کو لے کر جا چکی تھی۔ وہ اپنی پوزیشن پر واپس آگئے، کیپٹن اپنی وردی پر لگے عرفا ن کے خون کو بار بار چھو کر دیکھتا رہا، اُسے عرفان کی کامیابی پر رشک آ رہا تھا۔
جون گزر گیا، جولائی آچکا تھا۔ آغاز ہی ہنگاموں سے بھرپور تھا۔ 4 جولائی 1999 کو کیپٹن کو ٹائیگر ہل جانے کا حکم ہوا۔ یہاں پاک فوج نے تین چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ ان چوکیوں کے کوڈ نیمز اے، بی اور سی تھے جبکہ انہیں کاشف، وکیل اورکلیم چوکی کے عرفی نام دیئے گئے تھے۔ ''دشمن اے اور بی چوکی کے درمیان گھسنے میں کامیاب ہوگیا،'' افسر نے کیپٹن کو بریف کیا۔ ''سر! میں جان پر کھیل کر دشمن کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دوں گا،''
''کوئی شک؟'' افسر نے بریفنگ کے اختتام پر پوچھا۔ ''نو سر'' کیپٹن کا رُواں رُواں ذوق شہادت سے لبریز ہو چکا تھا۔ کیپٹن نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ کیپٹن نے علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح کیپٹن عمار بھی ٹیم کا حصہ بن چکے تھے۔ کمپنی کے سارے جوان آج کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ بھارتی فوج ٹائیگر ہل کی پوزیشن ہر صور ت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ کیپٹن نے حملے کا آغاز کردیا۔ پہلے ہی حملے میں چار بھارتی زخمی ہونے کے بعد باقی فوجی بھاگ نکلے۔ کیپٹن نے صورت حال پر کنٹرول کرتے ہی آگے جا کر میجر ہاشم سے ملے اور درپیش حالات پر ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ دشمن کی 8 سکھ رجمنٹ نے بھرپور حملہ کر دیا۔
پاک فوج کے سپاہی پوزیشنیں بدل بدل کر بھرپور مقابلہ کرتے رہے، فی الحال اسلحے کی برتری حاوی ہو چکی تھی۔ میجر ہاشم نے توپ خانے کو اپنی ہی پوزیشنز پر گولہ باری کا حکم دے دیا۔ جنگ میں یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دشمن پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ یہاں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، ایک طرف گولے گر رہے تھے تو سامنے دشمن۔ پاکستانی فوج کے جوان ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کر رہے تھے۔ کیپٹن بھی زخمی ہوچکا تھا۔ اسے ایک سکھ فوجی آواز سنائی دے جو گالی دے کر کہ رہا تھا، ''مرگئے سارے!''
کیپٹن نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ وہ سکھ فوجی ایک شہید کے پاک چہرے پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک نظر اپنے اطراف میں پڑی پاک فوج کے جوانوں کی لاشوں پر ڈالی، ایک فوجی کی مشین گن اپنے ہاتھ میں لی اور تاک کر اس فوجی کا نشانہ لیا جو لاشوں کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ کیپٹن کی نشانہ بازی ویسے ہی کما ل تھی۔
کیپٹن نے کچھ بھارتی سپاہیوں کو ڈھیر کیا۔ باقی سمجھے کہ پاک فوج نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور بھاگ نکلے۔ وہ اپنے کیمپ کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کا پیچھا زخمی شیر کر رہا تھا۔ بھارتی فوج کیمپ میں داخل ہوئی۔ کیپٹن بھی ان کے پیچھے کیمپ میں داخل ہو کر ان کو نشانہ بنانے لگا۔ اب بھارتی فوجیوں کو پتا چلا کہ انہیں یہاں تک مار کر لانے والا صرف ایک شخص ہے جس کی فائرنگ کئی بھارتی سپاہی واصل جہنم ہو چکے تھے۔ اب بھارتی فوج کیپٹن کو گھیرنے کی کوشش کررہی تھی۔ جو سامنے آتا، کیپٹن فائر کھول کر اسے نشانہ بناتا۔ یہ اعصاب شکن لمحات تھے۔
اب وہ لمحہ بھی آگیا کہ جب کیپٹن کی مشین گن کا میگزین خالی ہوچکا تھا۔ اتنے میں بھارتی فوج کا کمانڈنگ افسر نکل کر باہر آیا۔ بھارتی فوج کے پچاس کے قریب سپاہیوں نے کیپٹن کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا۔ کمانڈنگ آفسر نے کیپٹن کو ہتھیار ڈالنے کی وارننگ دی۔
کیپٹن کہاں ہتھیار ڈالنے آیا تھا۔ اس نے اپنے قریب کھڑے سی او کے سر پر بندوق کا بٹ مار۔ افسر نے فائر کا حکم دیا۔ دشمن فوجیوں کی بندوقوں کے دہانے کھل گئے۔ پگھلا ہوا سیسہ کیپٹن کے سینے میں اتر رہا تھا۔ اس قدر زخمی ہوجانے کے بعد بھی کیپٹن کی کوشش تھی کہ کسی طرح سی او کو ایک بار پھر نشانہ بنائے۔ وہ دین وملت کو نشانہ بنانے والوں کوایسا سبق سکھانا چاہتا تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ کچھ اور گولیاں کیپٹن کے جسم سے پار ہوئیں تو اس کی پیش قدمی رک گئی۔ شہادت کی منزل آچکی تھی۔
''بیٹا کبھی شہادت کا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سر اور سینہ نہ جھکنے دینا،'' اس کے ذہن کے دریچوں میں خان گلاب کی ہدایت گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہاتھ میں تھامی مشین گن کا سہارا لیا۔ ''یااللہ تیرا شکر! لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ،'' کیپٹن کے جسد خاکی نے آخری ہچکی لی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے جان اللہ کے سپرد کر دی۔ اس کا سر مشین گن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
بھارتی فوج کے جوان اور کمانڈنگ افسر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ اچانک کچھ سپاہیوں نے آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہی تو کمانڈنگ آفیسر نے جوانوں کو سختی منع کیا۔ ''کوئی اس جوان کی لاش کے قریب نہ آئے!'' کمانڈنگ آفیسر آگے بڑھ کر کیپٹن کی لاش کے عین سامنے آن کھڑا ہوا۔ وہ کیپٹن کے چہرے پر تبسم دیکھ کر سحر زدہ ہو گیا۔ ''بہت ہی جی دار فوجی تھا۔ اس کی بہادری نے میرا دل جیت لیا۔ اس کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ سری نگر پہنچا دو،'' وہ ٹرانس کے عالم میں بول رہا تھا۔ بھارتی کمانڈنگ افسر نے کپتان کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ اعلی انتظامیہ تک پہنچا دیا اور ساتھ اپنے افسروں سے اس کی بہادری کا اعتراف پاکستانی حکومت تک پہنچانے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔
کیپٹن کی بہادری کا اعتراف اس کے ورثا تک پہنچا دیا گیا: ''آپ کا یہ بہادر افسر یقیناََ آپ کی فوج کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس نے سخت ترین حالات میں جس جرأت، بہادری اور جواں مردی کا مظاہرہ میدان جنگ میں کیا، وہ ہمارے لیے متاثر کن ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ ہماری فوج کیپٹن کو مدتوں فراموش نہیں کر پائے گی۔''
18 جولائی کی آدھی رات گزر چکی تھی۔ کراچی ملیر چھاؤنی کے ایئرپورٹ پر پاک فوج کے سیکڑوں جوان، شہری اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ فضا پر ایک عجب سی کیفیت طاری تھی۔ وہ سب دہلی سے آنے والی پرواز کا انتظار کر رہے تھے۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ رن وے پر جہاز اترا جس میں سے دو تابوت باہر آئے۔ ایک تابوت میں کیپٹن کا جسد خاکی تھا جبکہ دوسرے فوجی کی شناخت ہونا باقی تھی۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے تابوت جہاز سے اتارے اور مارچ کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے زمین پر رکھ دیئے۔ لوگوں کی آنکھیں فخر کے آنسوؤں سے نم ہو رہی تھیں؛ اور کیوں نہ ہوتیں کہ دھرتی کے بیٹے نے بہادری اور وفا کی وہ مثال قائم کردی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
یہاں سے اس کے تابوت کو پہلے اسلام آباد اور پھر اس کے آبائی علاقے نوا کلے پہنچا دیا گیا۔ وہ نوا کلے کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا۔ نوا کلے کی زمین اپنے سپوت کے انتظار میں بانہیں پھیلائے تھی۔ یہ تھا گارگل کا شیر، کیپٹن کرنل شیر خان۔ دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے پر کیپٹن کرنل شیر خان کو نشانِ حیدر دیا گیا اور وہ زندہ جاوید ہوگئے۔
پاکستان زندہ باد! پاک فوج زندہ باد!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔