عارف علوی ملک کے 13ویں صدر منتخب

ڈاکٹر عارف علوی کے صدر منتخب ہونے کے بعد موجودہ حکومت کا سیٹ اپ مکمل ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی کے صدر منتخب ہونے کے بعد موجودہ حکومت کا سیٹ اپ مکمل ہو گیا ہے۔ فوٹو : آن لائن

تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی ملک کے13ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق عارف علوی نے353 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے، ن لیگ اور ہم خیال جماعتوں کے امیدوار فضل الرحمان 185الیکٹورل ووٹ لے کر دوسرے اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن 124ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔

عارف علوی نے قومی اسمبلی، سینٹ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپوزیشن امیدواروں کو شکست دی جب کہ انھیں سندھ میں شکست ہوئی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مجموعی طور پر 430 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے۔ عارف علوی نے 212، مولانا فضل الرحمان نے 131 جب کہ پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے 81 ووٹ حاصل کیے، چھ ووٹ مسترد ہوئے۔عارف علوی 9 ستمبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

نو منتخب صدر عارف علوی نے کامیابی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہتر انداز میں صدر کے عہدے پر کام کروں گا، دعا ہے کہ پانچ سال میں غریب کی قسمت بدلے، منتخب ہونے کے بعد صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ سارے ملک کا صدر ہوں، مجھ پر پارٹی کا حق ہے، اتحادی جماعتوں کا مجھے منتخب کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں، کوشش کروں گا ہر غریب کے پاس چھت' روٹی اور کپڑا ہو، میری سیاسی جدوجہد ایوب خان کے دور سے رہی ہے، عمران خان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے بڑی ذمے داری دی، وزیراعظم کی طرح پروٹوکول نہیں لوں گا، کوشش ہوگی ہر بیروزگار کو روزگار فراہم ہو، ہر آدمی کی دہلیز تک انصاف جانا چاہیے، مریضوں کا علاج ہونا چاہیے جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں انھیں اسکولوں میں ہونا چاہیے، میری جہاں ضرورت پڑے گی' میں حاضر ہوں گا، پاکستان کی بہتری کے لیے ہرممکن اقدامات کروں گا۔

ڈاکٹر عارف علوی کے صدر منتخب ہونے کے بعد موجودہ حکومت کا سیٹ اپ مکمل ہو گیا ہے اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران قوم سے کیے گئے وہ اپنے وعدوں اور دعوئوں کو عملی صورت میں ڈھالیں۔ چاروں صوبوں میں صوبائی حکومتیں اپنے عہدے سنبھالنے کے بعد اپنے فرائض اور ذمے داریاں بخوبی سرانجام دے رہی ہیں۔ صدارتی الیکشن آخری مرحلہ تھا جو بخیروخوبی سرانجام پایا' اس الیکشن میں اپوزیشن متحد نہ ہونے کے باعث اپنا متفقہ امیدوار سامنے نہ لا سکی جس کے باعث حکومت پر وہ دبائو دیکھنے میں نہیں آیا جس کی سیاسی تجزیہ نگار امید کر رہے تھے۔

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے الگ الگ امیدوار کھڑے کیے' مولانا فضل الرحمن اپوزیشن اور اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے 185 جب کہ اعتزاز احسن نے 124 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے اس طرح مجموعی طور پر اپوزیشن کے دونوں امیدواروں نے309ووٹ حاصل کیے جب کہ حکومت کے امیدوار عارف علوی نے 353 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے' اس طرح جیتنے والے امیدوار اور ہارنے والے دونوں امیدواروں کے مشترکہ ووٹ میں 44 ووٹوں کا فرق سامنے آیا' اگر اپوزیشن اپنا متفقہ امیدوار سامنے لے آتی تو حکومت پر اچھا خاصا دبائو پڑتا مگر ایسا نہ ہو سکا۔


پنجاب اسمبلی میں 354 میں سے 351ارکان نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں 18ووٹ مسترد ہوئے' ووٹ ڈالنے والے تمام ارکان سیاستدان اور عوامی منتخب نمایندے ہیں' اگر وہ ووٹ پر درست مہر نہیں لگا سکے اور ان کی لاپروائی سے ووٹ مسترد ہوئے تو ایسے ارکان کی اہلیت اور ذہنی سطح کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔

عارف علوی نے صدر منتخب ہونے کے بعد میڈیا سے جو گفتگو کی وہ وہی باتیں ہیں جو پی ٹی آئی کی قیادت اقتدار سنبھالنے کے بعد کرتی چلی آ رہی ہے اس میں کوئی نئی بات شامل نہیں تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منشور اور دعوئوں پر عمل درآمد کے لیے کیا پالیسی اختیار کرتی ہے اور ملک کو درپیش داخلی اور خارجی سطح پر مشکلات سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بروئے کار لاتی ہے۔

ایک جانب اسے داخلی سطح پر درپیش دہشت گردی' توانائی کے بحران' کمزور اور کرپٹ سرکاری انفرااسٹرکچر' تعلیم اور صحت کے علاوہ بہت سے پیچیدہ اور گمبھیر مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ خارجی سطح پر امریکا' بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جنم لینے والی پیچیدگیوں سے بھی نمٹنا ہے۔

اب تک پی ٹی آئی کی حکومت سادگی اور کفایت شعاری پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ نظام حکومت چلانے کے لیے تجربہ کار اور ماہر افراد کے انتخاب کی جانب توجہ دے رہی ہے' اگر حکومتی طبقے نے خلوص نیت اور ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیے تو امید ہے کہ پاکستان موجودہ بحران سے نکل کر خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔

 
Load Next Story