وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

پاکستان میں کرپشن اپنی جڑیں بہت مضبوط کرچکی ہے، لہٰذا کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا بہت ضروری ہے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار، جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پائو سمیت بڑے بڑے سیاستدان حالیہ انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن موجود ہے لیکن یہ تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے یا کچھ اورکہ اب تک اپوزیشن جماعتیں متحد نہیں ہوسکیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ پیپلزپارٹی کا طرز عمل ہے۔ موجوہ حالات میںآصف علی زرداری کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی پیپلز پارٹی پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگا رہا ہے۔ یقینا ًکوئی تو ایسی طاقت تو ہے جو آصف علی زرداری کو مسلم لیگ ن کے قریب جانے سے روک رہی ہے اور پھرجب تک فریال تالپور، آصف زرداری اور ان کے قریبی دوست نیب کے مختلف مقدمات میں گھرے ہوئے ہیں۔

پیپلز پارٹی مسلم لیگ کا ساتھ نہیں دے گی۔ مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے سو دن کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی اپنا لائحہ عمل تیارکریں گی۔ چھ ماہ یا ایک سال بعد جب بھی اپوزیشن جماعتیں نے متحد ہوکر احتجاجی تحریک اور دھر نوں کا سلسلہ شروع کیا تو عمران خان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ یہ عمران خان کے لیے گولڈن چانس ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے منشورکے مطابق تیزی سے کام کاآغازکریں۔

یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ انتخابات سے قبل عمران خان کوسوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر جس طرح مقبولیت اور شہرت حاصل تھی اس میں کمی ہورہی ہے۔ اس کی وجہ وہ بلند وبانگ دعوئے اور وعدے تھے جس سے عوام نے تبدیلی کی بے پناہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے اپوزیشن کرنے والے عمران خان کو ان دس دنوں میں اس بات کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کرنا کتنا آسان اور امور مملکت کو چلانا کتنا دشوار کام ہے۔قدم قدم پر آپ کو حالات سے سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔

تحریک انصاف کومختلف محاذ پرشدید تنقید کا سامنا ہے،اس کی وجہ عمران خان کی اپنی پالیساں، حکمت علمی، طرز حکمرانی اور مسلسل یو ٹرن ہے جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو صحافیوں سے یہ درخواست کرنی پڑی کہ میڈیا تین ماہ تک ہم پر تنقید نہ کرے۔وہ میڈیا ہائوسز جنہوں نے تحریک انصاف کی بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی اب ان ان کے پاس بھی عمران خان کے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف عمران خان کے بلند وبانگ دعوی اور وعدے ہیں تو دوسری طرف یو ٹرن کا تسلسل۔

عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن جو بھی حلقہ کھلوانا چاہے گی، انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر جب لاہورکے ایک حلقے کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ ہوا تو عمران خان یوٹرن لیتے ہوئے سپریم کورٹ چلے گے اور یوں اس حلقے کی گنتی کا عمل روک دیا گیا۔ فہمیدہ مرزا جوکروڑوں روپے بینکوں سے قرض لینے کے بعد معاف کرا چکی ہیں جب کہ دوسری وزیر زبیدہ جلال پرکرپشن کے سنگین الزامات ہے وہ بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے خان صاحب نے آٹھ ایسے وزرا کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے جو پرویز مشرف کی ٹیم کا بھی حصہ تھے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے نوجوان قیادت کا دعویٰ کہاں گیا؟ پھر سادگی کا درس دینے والے خان صاحب کا ہیلی کاپٹر سے سفر کرناجس کی وجہ سے انھیں مزید تنقیدکا نشانہ بنایا گیا۔ پھرفواد چوہدری کا یہ بیان کہ ہیلی کاپٹرکا خرچہ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر بنتا ہے یہ بات سوشل میڈیا میں مذاق بن گئی ہے۔

پھرپنجاب کے وزیر اطلاعات اور ثقافت فیاض الحسن چوہان نے خواتین اداکاروں کے بارے میں جوزبان استعمال کی اور ایک چینل پر صحافی بردادی کے بارے میں انتہائی غیر مہذب الفاظ استعمال کیے۔ جس پر پنجاب کی صحافی برادری نے عمران خان سے درخواست کی ہے کہ وہ فوری طور پر فیاض الحسن چوہان سے وزارت کا قلمدان واپس لے کر کسی مہذب شخص کو وزیر اطلاعات و ثقافت بنائیں۔جب کہ کراچی سے منتخب ارکان اسمبلی کا صوبائی اور وفاقی سطح پرخود کو نظر اندازکیے جانے پر احتجاج اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ آنے والا وقت عمران خان کے لیے انتہائی مشکل اور کٹھن ہوگا۔


ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے معاملے پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت تنقیدکی زد میں ہے۔ اس معاملے میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی دوست کے شوہرکا نام بھی لیا جارہا ہے، اس تمام صورتحال میں عمران خان کی خاموشی نے اس معاملے کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ان تمام واقعات سے عمران خان کو نقصان پہنچا ہے۔ بہت سے معاملات پی ٹی آئی کے خود پیدا کیے ہوئے ہیں ابھی تو اپوزیشن نے اپنا حصہ نہیں ڈالا ہے جب اپوزیشن سامنے ہوگی تب کیا ہوگا؟

یقیناً پاکستان میں کرپشن اپنی جڑیں بہت مضبوط کرچکی ہے، لہٰذا کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا بہت ضروری ہے اورعمران خان بھی ہر خطاب میں کڑے احتساب کی بات کرتے رہے ہیں ۔ وہ نوازشریف اورآصف زرداری کو ڈاکو اورچور جیسے القابات سے نوازتے رہے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ آصف زر داری اور ان کے رفقائے خاص کے خلاف گھیرا کب تنگ ہوتا ہے۔ معاملہ صرف گرفتاری سے حل نہیں ہوگا اس کے لیے آپ مکمل ثبوت اور شواہد کے ساتھ عدالتوں میں جانا ہوگا ؟ لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوگا جب ان کی ٹیم تجربہ کار، سنجیدہ ، باکردار اورکرپشن سے پاک دامن لوگوں پر مشتمل ہوگی ۔ اسلام آباد سے اطلاعات تو یہی آرہی ہیں۔

بینظیر بھٹو، نواز شریف،آصف زرداری اور پرویز مشرف کے ارد گرد رہنے والے مخصوص سیاستدانوں، سینئر مشیروں اور تجربہ کار بیوروکریٹس نے عمران خان کو بھی اپنے شکنجے میںگھیر لیا ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ قائد اعظم کے مزار پر حاضری، یو این او کے اجلاس میں شرکت اور اسلام آباد نہ چھوڑنے کا فیصلہ روحانی طور پر طے کیا جائے گا۔ پوری قوم نئے پاکستان کی تعمیر اور تبدیلی کی منتظر ہے، جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل پہ لکھا ہے

جب ظلم وستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے
Load Next Story