تحریک انصاف کی حکومت بمقابلہ سندھ بیوروکریسی

تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی شہ پر بیوروکریسی نے تحریک انصاف کے خلاف بھرپور سازشیں شروع کردیں

سندھ میں قانون کے نام پر کی جانے والی بے رحمانہ کارروائیوں کا اصل مقصد تحریکِ انصاف کی حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ابھی تحریک انصاف کی حکومت بنے اور عمران خان کو وزیراعظم کا حلف اٹھائے چند ہفتے بھی نہیں گزرے کہ سندھ میں، جہاں تحریک انصاف کی حکومت نہ بن سکی اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر برسرِ اقتدار آگئی، بیوروکریسی نے تحریکِ انصاف کے خلاف بھرپور سازشیں شروع کردیں۔ چونکہ پیپلزپارٹی کئی ادوار سے سندھ میں حکمرانی کررہی ہے اس لیے یہاں کی بیوروکریسی میں شامل لوگ بھی اسی پارٹی کے پسندیدہ ہیں جو بظاہر کرپشن سے پاک نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر اگر پوری نہیں تو تھوڑی بہت کرپشن ضرور موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وفاق میں حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف نے احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک کی لوٹی گئی دولت پاکستان لانے کا اعلان کیا اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ کوششیں شروع کردیں تو یہ بات سندھ میں تعینات، پیپلز پارٹی نواز بیوروکریسی کو بالکل بھی پسند نہ آئی اور اس نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سازش کے تانے بانے بننے شروع کردیئے۔

ان ہی سازشوں کے تحت سب سے پہلا نشانہ کراچی میں سرکاری مکانات مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز اور پاکستان کوارٹرز کو بنایا گیا جہاں وہ لوگ بڑی تعداد میں مقیم ہیں جو خود یا اُن کے آبا و اجداد قیامِ پاکستان کے وقت، وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ لٹا کر، ہجرت کرکے پاکستان پہنچے اور یہاں آکر انہوں نے اپنی جائیدادوں کے کلیمز تک داخل نہیں کیے تھے۔ ان لوگوں کو جہاں بھی سر چھپانے کا ٹھکانہ ملا، وہاں ڈیرے ڈال دیئے۔ بھارت سے جب ان مہاجرین کی خون آلود ٹرینیں شہر کراچی کے سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن پر پہنچنا شروع ہوئیں تو اُن سے آنے والوں میں کسی کے ہاتھ نہیں تھے تو کسی کا پیر غائب تھا؛ جبکہ متعدد لوگ وطن کی محبت میں اپنی جانیں قربان کرچکے تھے۔

غرض اپنا سب کچھ پاکستان کے نام پر قربان کرکے، بے سروسامانی کے عالم میں یہاں پہنچنے والوں نے کراچی میں ریلوے کالونی، سٹی اسٹیشن، آئی آئی چندریگر روڈ اور کینٹ اسٹیشن کے اطراف میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اور کیونکہ ان کے پاس نہ کوئی جمع پونجی تھی اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندوبست، تو ایسے میں لیاری کے رہنے والوں نے ان مہاجرین کی دل کھول کر مدد کی۔ جی ہاں! یہ وہی لیاری ہے جسے آج گینگ وار کے علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن یہ وہی لیاری بھی ہے کہ جس نے سب سے پہلے 1946 میں فساداتِ دہلی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خون ریزی کے بعد کراچی آنے والے مسلمانوں کو نہ صرف کشادہ دلی سے خوش آمدید کہا بلکہ ان کیلئے ایک پوری بستی بھی آباد کی جسے آج ہم ''بہار کالونی'' کے نام سے جانتے ہیں اور جہاں آج بھارتی صوبہ بہار سے (بعد ازاں) ہجرت کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

غرض کہ اہلیانِ لیاری نے نہ صرف مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا بلکہ لیاری میں رہنے والی بلوچ خواتین نے بھی اپنے علاقوں میں ان گنت تندور لگائے جہاں سے ان مہاجرین کو روٹی اور سالن مفت دیا جانے لگا۔ اسی دوران مسلم لیگ کے کارکنان بھی حرکت میں آگئے اور انہوں نے دھوپ کی تمازت اور بارشوں سے بچنے کیلئے لوگوں میں چٹائیاں اور خیمے تقسیم کیے، جن کے لگ جانے کے بعد شہر کراچی خیموں کا شہر محسوس ہونے لگا۔

قیامِ پاکستان سے قبل کراچی میں سرکاری ملازمین کو مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، پاکستان کوارٹرز، جہا نگیر کوارٹرز میں رہائش فراہم کی جاتی تھی جہاں بیرکس قائم تھیں۔ ان بیرکس میں پکی چھتوں کے بجائے ٹین کی چھتیں تھیں اور ان گھروں کے باورچی خانوں کی چھتوں پر چمنیاں نصب تھیں جو لکڑی جلانے والے چولہوں سے اٹھنے والے دھوئیں کو بیرونی فضا میں تحلیل کرتی تھیں۔ ان سرکاری مکانات میں پانی کے نلکے بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور ہر چار کوارٹرز کے ایک بلاک کیلئے ایک زنگ آلود ٹینک ہوا کرتا تھا جس سے ان خاندانوں کو بمشکل پانی ملا کرتا تھا۔

ان نامساعد حالات کے باوجود، اپنی نسلیں قربان کرکے پاکستان آنے والے سرکاری ملازمین نے (جو قیامِ پاکستان کے بعد حکومتِ پاکستان کے ماتحت آچکے تھے) ان علاقوں میں رہائش اختیار کرلی۔ تب سے آج تک ان کی کئی نسلیں ان سرکاری کوارٹروں میں آباد ہیں۔ اور چونکہ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کرکے یہاں آنے والے یہ تمام سرکاری ملازمین تعلیم یافتہ ہونے کے سبب گریڈ 7 سے گریڈ 16 تک کے عہدوں پر فائز تھے، لہذا ان تمام علاقوں کو پڑھے لکھے لوگوں کے علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

ان علاقوں میں بڑی بڑی نامور شخصیات بھی رہائش پذیر تھیں جبکہ ملک کی کئی اہم شخصیات یا تو اس علاقے ہی میں پیدا ہوئیں یا پھر یہیں پلی بڑھیں۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین، عظیم احمد طا رق، سلیم شہزاد، سید سعید حسن اور علی مختار رضوی؛ معروف کرکٹر ظہیر عباس، محمد سمیع، طلعت حسین، قاضی واجد اور سینکڑوں نامور لوگ شامل ہیں۔ چونکہ ان تمام علاقوں میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مہا جرین آباد تھے لہذا ان کا شمار مہاجروں کے اکثریتی علاقوں میں کیا جانے لگا۔

جب 1979 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کے نام پر مہاجر طلبہ تنظیم وجود میں آئی تو انہوں نے یہاں کے نوجوانوں کو اپنا ہم نوالہ و ہم پیالہ بنالیا؛ اور موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ''مہاجر قومی موومنٹ'' (موجودہ متحدہ قومی موومنٹ) قائم ہوجانے کے بعد، اکتیس سال تک انتخابات میں بھرپور کامیابیوں کے طفیل حکمرانی کے خوب مزے لوٹے۔ اس جماعت میں شامل ایسے لوگ جو پیدل اور سائیکلوں پر سوار رہتے تھے، وہ خود تو ڈیفنس اور دوسرے پوش علاقوں کے بنگلوں میں منتقل ہوگئے مگر ان غریب آبادیوں کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا۔ ہر بار الیکشن کے موقعے پر نت نئے نعروں سے عوام سے ووٹ حاصل کیے، زور زبردستی ووٹ ڈلوائے اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک بار پھر ان آبادیوں میں رہنے والے مہاجرین وطن کو بھول گئے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں ووٹوں کے حصول کیلئے ان آبادیوں کے رہائشیوں میں باقاعدہ طور پر مالکانہ حقوق بھی تقسیم کردیئے جس پر ان علاقوں میں بسنے والے مہاجرین کے مرجھائے ہوئے چہروں پر ایک رونق سی آگئی اور انہوں نے اپنی جمع پونجی سے مخدوش کوارٹروں کی نہ صرف مرمت کرائی بلکہ انہیں بہتر طور پر قابلِ رہائش بنانے کیلئے اپنے گھروں میں کئی کئی کمرے بنوالیے۔

لیکن اس حکومت کے جانے کے بعد اچانک اعلان کردیا گیا کہ یہ مالکانہ حقوق جعلی ہیں۔ یہ اعلان سن کر اپنی جمع پونجی لٹادینے والوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی مگر پھر بھی انہوں نے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر یہاں رہائش جاری رکھی۔ اور پھر اچانک ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر ان سرکاری کوارٹروں کو خالی کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے جس پر ان لوگوں کے سروں پر سوائے آسمان کے اور کوئی چھت نہ رہی اور نہ ہی کوئی ٹھکانہ۔ ان لوگوں کی دنیا لٹ گئی اور وہ پریشانی کے عالم میں کسی ایسے مسیحا کے منتظر رہے جو انہیں بے گھر ہونے کے عذاب سے نجا ت دلائے۔

آخرکار ان کی دعائیں ایک بار پھر رنگ لے آئیں اور 2018 کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگیا۔ ایسے میں ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں نے اپنی اپنی پپڑیاں بجائیں مگر تحریک انصاف کے امیدوار عامر لیاقت حسین نے نہ صرف ان پریشان حال لوگوں کی آس بندھائی بلکہ اپنی کوششوں سے وقتی طور پر مظلوم لوگوں کو بے دخل ہو نے سے بچا بھی لیا، جس پر الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ کو ووٹ دینے والے عوام نے متحدہ (پاکستان) کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور عامر لیاقت حسین یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔


انہوں نے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اپنے سے بندھی عوامی امیدیں پوری کرنے کیلئے بار بار وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے یہ مسئلہ حل کروانے کی استدعا کی مگر مصروفیت کے باعث کپتان اپنے اس کھلاڑی کو وقت نہیں دے پائے جس پر منتخب رکن اسمبلی نے بھی ان سے بے رخی اختیار کرتے ہوئے، باقاعدہ طور پر تحریک انصاف کے خلاف الم بغاوت بلند کردیا۔ اس پر تحریک انصاف کے اپنے ہی ساتھیوں نے، جن میں فیصل واوڈا و دیگر شامل ہیں، ان کے خلاف زہر افشانی شروع کردی۔ اور تو اور، ماضی کے معروف کرکٹر جاوید میاں داد بھی خاموش نہیں بیٹھے اور انہوں نے بھی دیگر رہنماؤں کی طرح عامر لیاقت حسین کو آزاد حیثیت میں یہاں سے الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے پی ٹی آ ئی کے تمام رہنماؤں کو خاموش رہنے کے علاوہ عامر لیاقت حسین کو بھی یہ یقین دہانی کروائی کہ ان علاقوں کے مسائل جلد قانونی انداز میں حل کیے جائیں گے۔ اس کے بعد عامر لیاقت حسین نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ بہرحال، اس طرح بانیان پاکستان کی اولادوں پر بے دخلی کی جو تلوار لٹک رہی تھی، وہ وقتی طور پر ان کے سروں سے ہٹ گئی اور انہوں نے نمازِ شکرانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا 72 واں جشن آزادی اور عیدالاضحی اپنے گھروں پر منانے پر رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی درازئ عمر اور صحت و کامیابی کیلئے دل کھول کر دعائیں مانگیں۔

گو کہ اب تک اس مسئلے کا مستقل حل تو نکالا نہیں جاسکا ہے لیکن پھر بھی آبادیوں میں بسنے والوں کو یقین ہے کہ عامر لیاقت حسین کی کوششوں اور کاوشوں سے ان کے سر چھپانے کا مسئلہ ضرور حل ہوجائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آ نے والے دنوں میں تحریک انصاف کی حکومت، جو بیوروکریسی کے نرغے میں ہے، وہ قیامِ پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ اگر اس نے ان بانیان پاکستان کی اولادوں پر رحم کرتے ہوئے سر چھپانے کے ٹھکانے ان سے نہ چھینے تو آنے والے وقتوں میں یہ حلقہ انتخاب تحریک انصاف کا ایک مضبوط گڑھ ثابت ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر احساس محرومی کے سبب ایک اور الطاف حسین جنم لے کر ان علاقوں سمیت شہر کو یرغمال بناسکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکو مت وجود میں آ نے سے پہلے ہی بیوروکریسی نے، جو احتساب کے نام سے شدید نفرت کر تی ہے، اس پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے یہ گھناؤنی سازش تیار کی تھی جس کا سلسلہ حکومت کے قیام کے بعد بھی جاری رہا۔ مگر اب ان کی سازشیں دھیرے دھیرے دم توڑ رہی ہیں؛ یہاں تک کہ عوام بھی ان سازشوں سے مکمل طور پر واقف ہوچکے ہیں اور انہوں نے ''تنگ آمد بجنگ آمد'' کے مصداق، اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھالیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اب ان سازشوں کا کھل کر مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں جس کے باعث شہر کراچی میں ایک طویل عرصے بعد قائم ہونے والی، امن کی فضا بھی شدید طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ مگر بیوروکریسی یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اب تک اپنی مکروہ سازشوں میں مصروف ہے۔

ان سرکاری کوارٹروں کو خالی کرانے کا گھٹیا منصوبہ ناکام ہوجانے کے بعد دوسرے وار کے طور پر پی آ ئی بی کالونی میں واقع سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کے قدیم کوارٹروں سے لوگوں کو نہ صرف بے دخل کرنے کا ایک اور منصوبہ بنایا گیا بلکہ سندھ بیوروکریسی کے اعلی افسران بغیر کسی نوٹس کے، پولیس کی نفری لے کر ان کوارٹروں کو خالی کرانے پہنچ گئے۔ جواب میں وہاں مقیم لوگوں نے ان سازشیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈنڈے اور پتھر اٹھالیے اور شدید مزاحمت کرتے ہوئے انہیں مار بھگایا جس کے بعد لوگوں کو چھتوں سے محروم کرنے کے ارادے رکھنے والی یہ انتظامیہ واپس نہیں لوٹی۔ اس طرح یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔

مگر سندھ کی ڈھیٹ بیوروکریسی باز نہ آئی اور اس نے پھر سے ایک سازش تیار کرلی۔ اس بار اس کا نشانہ برنس گارڈن میں واقع کراچی عجائب گھر اور اس کے عملے کیلئے بنائے گئے 25 کوارٹرز تھے۔ انہیں صدر پاکستان ایوب خان کے دور میں صدارتی حکم کے تحت تعمیر کیا گیا تھا جہاں ایک طویل عرصے سے محکمہ آثار قدیمہ کے نچلے درجے کے ملازمین آباد ہیں جو 18ویں تر میم کے بعد سے حکومتِ سندھ کے زیرانتظام آچکے ہیں۔ یہ تمام کوارٹرز انتہائی مخدوش حالت میں ہیں جن کے غریب مکین صرف اس لیے وہاں رہ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس رہائش کا متبادل انتظام نہیں جبکہ وہاں رہنے کیلئے ان کی تنخواہوں سے 5 فیصد حصہ (کوارٹرز کی مرمت اور کرائے کے نام پر) منہا کرلیا جاتا ہے۔ اس موقعے پر بھی ان غریبوں کو بے دخل کرنے کیلئے ایک عدالتی حکم کا سہارا لیا گیا جس کے تحت مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ کوارٹرز چونکہ برنس گارڈن کی حدود میں قائم ہیں اس لیے یہ بلدیہ کراچی کی ملکیت ہیں، لہذا کوارٹرز کے مکین دو روز کے اندر اندر اپنے مکانات خالی کردیں ورنہ انہیں مسمار کردیا جائے گا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسی تسلسل میں دیگر تجاوزات، جن میں ایس ایم لاء کا لج، آرٹس کونسل، فیضی رحمین گیلری، آڈیٹوریم، ڈائریکٹر آرکائیو، ورکشاپ، سندھ ولیج اور کیفے سندھ کو غیر قانونی تجاوزات قرار دیا جاچکا تھا لیکن انہیں نہ تو نوٹس دیئے گئے اور نہ ہی انہیں خالی کرانے کیلئے کسی قسم کے اقدامات کیے گئے۔

یہ سرکاری کوارٹرز جن پر اہم بیوروکریٹس اور چند بااثر لوگوں کی رال ٹپک رہی تھی جنہوں نے یہاں ایک کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ غرض 30 اگست کو یہ کوارٹرز خالی کروانے کا اعلان کردیا گیا جس پر کوارٹروں سے بے دخل ہونے والے مکینوں نے، جن میں ضعیف العمر افراد اور بیوہ خواتین اور ان کے خاندان تک شامل تھے، اسی روز قومی عجائب گھر پر تالے ڈال دیئے اور سامنے ہی دھرنا دے کر احتجاج شروع کردیا۔ دریں اثناء یہاں بسنے والے لوگوں نے ان کوارٹروں کو بچانے کیلئے ''کوارٹرز بچاؤ کمیٹی'' بھی قائم کردی جس نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔ اس پر معزز عدالت نے حکم امتناعی جاری کردیا جس کے بعد غریب ملازمین کے خاندانوں میں خوشی کی ایسی لہر دوڑ گئی جیسے انہیں ٹوٹے پھوٹے مکان نہیں بلکہ کوہ نور ہیرا مل گیا ہو۔

صوبہ سندھ کی بیوروکریسی کو یہاں بھی پسپائی ہوئی مگر اس نے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ اب بھی جاری رکھا۔

اب کی بار کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ جگہ ماضی میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بنائی گئی تھی مگر اس علاقے کے اجاڑ بیابان ہونے اور یہاں خطرناک سانپ بچھو ہونے کی وجہ سے کسی نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ بعد ازاں سیلاب زدگان اور بے گھر لوگوں نے اس علاقے کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرکے یہاں جھگیاں ڈال کر اپنے سر چھپانے کا ٹھکانہ کرلیا۔ اور پھر کچے پکے گھروندے تعمیر کرکے اپنے خاندانوں کے ہمراہ رہنا شروع کردیا جہاں آج تک ان کی بھی دوسری یا تیسری نسل آباد ہے۔ اس علاقے کے حوالے سے گو کہ کوئی عدالتی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا مگر، اس کے باوجود، پولیس اور کے ڈی اے انتظامیہ ان دنوں عدالتی احکامات کے نام پر یہ علاقہ خالی کروانے کیلئے کوشاں ہے اور غریب لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں کھلے آسمان تلے دھکیل رہی ہے۔

اس سلسلے میں ان دونوں محکموں کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہے کہ وہ گھروں میں جاکر لوگوں سے زمین کے کاغذات طلب کرتے ہیں۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ ان لوگوں نے ماضی میں پولیس اور اسٹیٹ ایجنٹوں کی ملی بھگت سے یہ زمینیں کچی پرچیوں پر خریدی تھیں لہذا ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ اب وہ ان دونوں محکموں کے اہلکاروں کو یہ کچی پرچیاں دکھاتے ہیں تو مکانات مسمار کرنے والے دونوں محکموں کے لوگ یہ کہہ کر ڈرا تے ہیں کہ یہ زمین فوجی افسر کی ہے لہذا وہ خا لی کردیں ورنہ ان کے مکانات مسمار کرکے یہ اراضی ہر صورت میں ان سے حاصل کرلی جائے گی۔ انہیں بے دخل نے کرنے کیلئے رشوت بھی مانگی جا تی ہے اور نہ دینے کی صورت میں دوسرے روز ان مکانات کو مسمار کردیا جاتا ہے۔

اس سازش کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں گھرانے اپنے سروں پر چھت سے محروم ہوچکے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ طور پر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے مہران ٹاؤن کے مکینوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس، دھرنے دیئے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی کراچی آمد پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس پر جناب ثاقب نثار نے فوری طور پر مکانات مسمار نہ کرنے کی ہدایات جاری کردیں جس پر مہران ٹاؤن کے مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بھرپور انداز میں جشن بھی منایا اور چیف جسٹس پاکستان کے حق میں نعرے بھی بلند کیے۔ مگر چونکہ اب تک سرکاری کوارٹرز کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا اس لیے ان کوارٹروں کے مکینوں کے لبوں پر یہ سوال ہنوز موجود ہے کہ کیا یہی عمران خان کا نیا پاکستان ہے جہاں غریب لوگوں کے گھر اجاڑے جارہے ہیں... جبکہ پوش علاقوں میں، سمندر کنارے اور ہائی ویز پر غیرقانونی طور پر بڑے بڑے بنگلے، حویلیاں اور فارم ہاؤسز بناکر لاکھوں رو پے کمانے والے اب بھی محفوظ ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story