مسئلہ کشمیر عالمی ضمیر کے لیے چیلنج

پاکستان کی کوئی بھی حکومت مسئلہ کشمیر پر دیرینہ موقف سے انحراف نہیں کرسکتی،سیکریٹری خارجہ

پاکستان کی کوئی بھی حکومت مسئلہ کشمیر پر دیرینہ موقف سے انحراف نہیں کرسکتی،سیکریٹری خارجہ فوٹو فائل

سیکریٹری خارجہ پاکستان جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت مسئلہ کشمیر پر دیرینہ موقف سے انحراف نہیں کرسکتی، مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کا حق خودارادیت ہماری خارجہ پالیسی کا مرکز اور محور ہے۔ مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے ، بھارت کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل میں مسئلہ کشمیر ہی بنیادی نکتہ ہوتا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو پس منظر سے پیش منظر تک لانا، نہ صرف معروضی حقائق کا تزویراتی تقاضا ہے بلکہ بھارت سمیت عالمی برادری کے ضمیر وذہن میں یہ بات بٹھانی ہے کہ کشمیر کا تصفیہ ہونے تک دنیا عالمی امن اور قوموںکی برادری کے مابین انصاف ، حق خود ارادیت اور بنیادی حقوق کے حوالہ سے شعلہ بجاں اور آتش فشانی کیفیت سے نہیں نکل سکے گی۔

مسئلہ کشمیر مفادات سے بالاتر سفارت کاری اور انسان دوستی کی مثالی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے حل ہوچکا ہوتا تو دنیا نا معلوم ترقی و خوشحالی، باہمی تعلقات، امن عالم اور عالمگیریت کے جدید تقاضوں کی لہروںپر کتنا خوش گوار سفر طے کرچکی ہوتی جب کہ برصغیر میں بھارت کے پیدا کردہ جنگ کے خطرات ، مستقل کشیدگی ، اسلحے کی دوڑ ، منافرت اور تنائو کی سیاست میں چانکیہ ازم کی جگہ حقیقت پسندی ، پر امن بقائے باہمی اور انسان دوستی کے تحت کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنے کے امکانات کب کے روشن ہوچکے ہوتے ۔تاہم اس حقیقت سے ذی شعور اور برصغیر کی سیاست اور خطے کی ڈائنامکس پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار کبھی صرف نظر نہیں کرسکتے کہ کشمیر کے تصفیہ کے لیے بھارت نے وزیراعظم ، صدر ، وزیر خارجہ و سیکریٹری خارجہ کی اعلیٰ سطح کی بات چیت کو ایک افسانے سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور کسی خوبصورت موڑ پر لے جاکر ہر بات چیت ناکامی سے دوچار کی گئی۔

اس تناظر میں پاکستان کی چھ عشروں پر محیط دو طرفہ بات چیت سے لے کر کثیر فریقی ، سہ فریقی ، ملٹی لیٹرل یا جامع مذاکرات کی تاریخ کھنگا لی جائے تو ان مکالموں کے پہاڑ سے بھارتی کوشش ہمیشہ چوہا برآمد کرنے کی رہی۔حالانکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہے اصولی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پر امن ، پائیدار اور منصفانہ حل کے لیے بات چیت میں کشمیریوں کے نمایندوں کی شمولیت ضروری ہے اور کوئی فیصلہ کشمیریوں کی امنگوں کے برعکس نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی اور مذاکرات کے کئی دور ہونے کے باوجود معاملہ نشستند وگفتند وبرخاستند سے آگے نہ بڑھ سکا ، تاہم اس پورے دورانئے میں اہل کشمیر کی آواز دبانے کے لیے مظالم کا تسلسل جاری رہا۔

دنیا نے کشمیریوں کی قربانیوں کو فراموش کردیا۔ بھارتی بارڈر اورداخلی فورسزنے اہل کشمیر پر جو ستم ڈھائے اورظلم و بربریت کے جوواقعات ریکارڈ پر آئے اس پر عالمی برادری نے بھی عملی اقدام کے بجائے صرف اشک شوئی کے بیانات پر قناعت کی۔لیکن اب دنیا بدل چکی ہے، کشمیر کا مسئلہ بدستور ان عالمی ایشوز میں سلگتا نظر آتا ہے جسے مورخین اور مبصرین فلیش پوائنٹ قرار دے چکے ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کوخود تسلیم کیا تھا اور وزیراعظم جواہر لال نہرو حسب وعدہ وادی کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے پابند تھے۔اب جب کہ خطے کی سیاسی،اقتصادی،حرکیات کا محور ایک بار پھر کشمیر بننے جارہا ہے چنانچہ سیکریٹری خارجہ پاکستان جلیل عباس جیلانی نے کشمیری قیادت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پرسفارتی کوششوں، بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کے ایجنڈے دفترخارجہ کی کشمیر کے حوالے سے ترجیحات پرجو بریفنگ دی ہے وہ بر وقت اور قوم کی امنگوں سے ہم آہنگ ہے ۔


بریفنگ میں صدر و زیراعظم آزاد کشمیر،سابق صدرسردارمحمدانور اور حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے رہنمائوں نے اپنی اپنی تجاویزاورسفارشات بھی پیش کیں۔ سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی حکومت مسئلہ کشمیر کو جراتمندانہ اندازمیں اجاگر کر رہی ہے اس حوالے سے پوری پارلیمنٹ میں افضل گورو شہید کی پھانسی کی مذمتی قرارداد، نارویجن پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث اور دیگر فورمز پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند ہونا اہم کامیابی ہے۔ صدرآزاد کشمیرنے اجلاس کے اختتام پر سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کا شکریہ ادا کیا۔ بریفنگ میں سردارغلام صادق ،چوہدری یاسین، سردار صغیر چغتائی، مولانا سعید یوسف، طاہر کھوکھر، مولانا امتیاز صدیقی، امان اللہ خان ،رفیق ڈار،ڈاکٹرخالد محمود،محمودساغر،غلام محمدصفی، فرزانہ یعقوب، یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک، محمد پرویز، محمد خطیب، یوسف نسیم ،میرواعظ محمداحمد و دیگر حکامنے شرکت کی۔

ادھر نامزدوزیراعظم نواز شریف سے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے نمایندہ خصوصی ایس کے لامبانے رائیونڈ میں ملاقات کی اور بھارتی وزیراعظم کی طرف سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا۔ ملاقات میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لیے اقدامات پر بات چیت کی گئی، نواز شریف نے تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کے پیغام کا خیر مقدم کیا ۔

بلاشبہ حالیہ انتخابی عمل کے بعد یہ خوش آیند تبدیلی آئی ہے کہ بھارت سمیت دیگر عالمی رہنمائوں نے پاک بھارت تعلقات میں برف پگھلنے کا عندیہ دیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ دو پڑوسی ملکوں کے مابین کشمیر سمیت دیگر تصفیہ طلب معاملات میں میاں نواز شریف اہم کردار ادا کریں گے۔برصغیر اور افغانستان کے امور کے رمز شناس امریکی مبصر بروس ریڈل کے مطابق امریکا، بھارت اور پاکستان کا شعلہ بار ٹرائینگل اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ نواز شریف برصغیر کے کشیدہ ماحول میں بہتری کے آثار پیدا کرسکیں گے۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب ''Avoiding Armageddon '' میں جنگی تباہ کاریوں سے گریز کے پس منظر میں صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف1999میں پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں بریک تھرو کرچکے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا خطے میں کمزور پوزیشن میں ہے، اور بھارت کے امریکا سے تعلقات میں حائل بدگمانیوں اور مشکلات کا سبب بھی پاکستان سے امریکا کی دوستی ہے ۔افغان مسئلہ پر امریکا اور پاکستان مخالف سمتوں میں ہیں۔ ''کشمیر ٹائمز'' کے ایک حالیہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف اگرچہ لبرلز کی نگاہ میں قدامت پسند ہیں تاہم وہ مین اسٹریم سیاست میں اپنا ایک الگ انداز فکر رکھتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کے لیے بیباکانہ پالیسی کے حامی ہیں۔اخبار نے نوز شریف کو پاک بھارت تعلقات کے حوالہ سے محتاط انداز میں آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں گڈ گورننس اور خارجہ پالسی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

مسئلہ کشمیر ایک بار نئی حکومت اور عالمی ضمیر کے لیے ایک چیلنج کی شکل میںسامنے آیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ میاں نواز شریف نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو کوششیں کیں انھیں قدرت نے پھر ایک موقع دیا ہے کہ وہ عالمی قوتوں کے اشتراک عمل سے خطے میں امن،انصاف، جنگی جنون کے خاتمہ، بقائے باہمی،اقتصادی ترقی اور دوطرفہ تجارت سمیت کشمیر کے مسئلہ کا ایسا حل تلاش کریں ، غربت کا راستہ روکیں،تاکہ برصغیر میں کشیدگی کا خاتمہ ہو اورجنت نظیر وادی میںکشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار مل سکے۔
Load Next Story