دہشت گردی نئی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ

ملک میں عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ابھی نئی حکومت قائم نہیں ہوئی لیکن صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور تخریب ۔۔۔

ملک میں عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ابھی نئی حکومت قائم نہیں ہوئی لیکن صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔۔ فوٹو: اے ایف پی

ملک میں عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ابھی نئی حکومت قائم نہیں ہوئی لیکن صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ پیر کو بھی شانگلہ کی تحصیل پورن کے گاؤں کولالئی میں ریموٹ کنٹرول سے کیے گئے بم دھماکے سے ایک ڈی ایس پی خان بہادر سمیت پانچ پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ دہشت گردی اور تخریب کاری پاکستان کا آج بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔ خیبرپختونخوا اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

آنے والے چند روز میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں مرکزی حکومت قائم ہو جائے گی اور اس کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی قائم ہو جائیں گی۔ اس حکومت کے سامنے جہاں لوڈشیڈنگ ایک چیلنج ہے وہاں دہشت گردی بھی اتنا ہی بڑا چیلنج ہے۔ اس بار خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے لیے بھی دہشت گردوں پر قابو پانا ایک چیلنج ہو گا۔ ملک میں نئی حکومتیں ضرور قائم ہو رہی ہیں لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ دہشت گرد قوتیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی دھماکا ہو جائے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا کیونکہ نگراں وزراء کو پتہ ہے کہ وہ صرف تین چار روز کے لیے ہیں۔


خیبرپختونخوا دہشت گردی کے اعتبار سے انتہائی حساس علاقہ ہے۔ یہاں صوبائی حکومت کے لیے آئینی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں اور تہذیبی مسائل بھی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے تقریباً ہر بڑے شہر کے ساتھ قبائلی علاقہ ہے۔ ان علاقوں میں صوبائی حکومت کا کنٹرول موجود نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں جتنی بھی خودکش حملے ہوئے یا دھماکے کیے گئے، ان کے ڈانڈے قبائلی علاقوں سے ملتے ہیں۔ یہاں جیلیں توڑ کر فرار ہونے والے افراد بھی قبائلی علاقوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے لیے اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ سیٹلڈ ایریاز کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز سے کیسے محفوظ بناتی ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔

ادھر کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ یہاں کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھا جائے تو نئی جمہوری حکومتوں کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اسے ایک جانب ملکی معیشت کو سنبھالا دینا ہے تو دوسری جانب دہشت گردوں، تخریب کاروں، فرقہ پرستوں اور جرائم پیشہ گروہوں سے نبٹنا ہو گا۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ اگر سیاسی قیادت ایک دوسرے سے دست وگریبان نہ ہوئی تو پھر ہر مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story