شجر کاری حیات کو پیاری
حکمراں ہر سال درخت سازی کی مہم کا آغاز کرتے ہیں مگر ان لوگوں سے مشورہ نہیں کرتے جو ہماری زندگی پر دھیان گیان کرتے ہیں۔
KARACHI:
اگست نے اپنا بستر لپیٹ لیا اورکہا کہ اب اگلے برس ملاقات ہوگی۔ جہاں جہاں بھی ساون اور بھادوں کو اپنا جوہر دکھانا تھا تقریباً دکھا چکے ویسے توکراچی میں برسات نہ ہوئی پھوار اور بادلوں کی آمد و رفت جاری رہی ۔ تشنہ کامی یہاں کے درختوں کا مقدر رہا۔ مون سون کی ہواؤں کو سمندر نے اجازت نہ دی کہ اس کے نمکین ترین پانی کو ذرا بھی میٹھا بننے دیا جائے اور بادل پسپا ہوتے چلے گئے۔
البتہ طویل بدلی نے سورج کو چھپانے پر مجبورکیا اورکہا کہ بارش اگر ہوگی توکسی روز آٹھ اکتوبر تک ایک آدھ روزکی ورنہ کراچی کو سوکھا ہی گزرنا ہوگا۔ کیونکہ کراچی والوں نے نئے درخت تو لگائے مگر یہ درخت نارتھ یا ساؤتھ پول کے طول وعرض سے پائے ہوئے تھے جو ساون و بھادوں کو پسند نہیں کیونکہ سیاسی طور پر بھارت اور پاکستان کی دھرتی تقسیم تو ہوئی، آبادی بھی آگے پیچھے ہوئی مگر آسمانی سرحدوں اور ثقافتی مزاج، ہواؤں اور بادلوں نے ان کو نہیں مانا کہ ادھرکے بادل ادھر نہ برسیں اور ادھر کے بادل ادھر نہ برسیں۔
بھارت نے دریاؤں کے پانی کو روک تو لیا مگر جب وہ بند لبریز ہوتے ہیں تو ان کا وہی قدیم قدرتی راستہ ہے جو کسی حاکم کے بس میں نہیں۔ قدرت کی ہوائیں اور درختوں کی آوازیں چیخ چیخ کر پیپل کے پتوں کے پازیب کی آواز میں یہ کہہ رہی ہیں کہ ہماری نسل کو ختم نہ کرو، ہم صرف آرٹس کونسل کراچی میں نہیں بلکہ ایبٹ آباد سے اگر مری کا سفرکرو تو ہماری مٹتی ہوئی نسل کو دیکھ سکتے ہو۔ ہمارے بیچ جو نئی نسل کے مژدۂ حیات ہیں ہمارے پھلوں کے درمیان مٹھاس لیے رائی سے بھی زیادہ ہلکے ہیں اور تمام پرندوں اور زیست سے چرندوں کے لیے بھی حیات کے ضامن ہیں۔ ہم وہی ہیں جن کے سائے میں مہاتما بدھ نے دھیان گیان کیا اور علامہ اقبال نے کہا میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے آخر ہمیں اور ہمارے جیسے درختوں کو کیوں بھول گئے۔
حکمراں ہر سال درخت سازی کی مہم کا آغاز کرتے ہیں مگر ان لوگوں سے مشورہ نہیں کرتے جو ہماری زندگی پر دھیان گیان کرتے ہیں وہ کسی غیر ملکی سے پوچھتے ہیں جہاں مہینوں سورج نہیں نکلتا جو ہزاروں بیماریوں کا دشمن ہے۔ مگر ملک کے حکمرانوں کو مقامی سبز قبا والے ذی حیات کی دیکھ بھال اور ان کی نسل کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ درختوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا وہ پروردگارکی دی گئی ہدایت پر زندگی گزارتے ہیں نہ روز قیامت ان کا کوئی حساب کتاب ہوگا۔
یہ حیات رکھتے ہیں مگر قدرت نے ان کے جسم کو اعصابی اور چوٹ، کٹ اور کٹ جانے سے ہر درد سے محروم کر رکھا ہے اسی لیے درختوں کی قلمیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ درختوں میں کوئی سن کرنے والی دوائی نہیں چل رہی، اسی لیے لوگ پودوں کو اپنی پسند کے اعتبار سے کاٹتے اور چھانٹتے ہیں ان کو قدرت نے بغیر کسی (Anesthesia) اینستھیسیا کے یہ خصوصیت رکھی ہے مگر پودوں کو گملوں میں رکھ کر ان کی آبیاری نہ کرنا اور وقت پر کھاد پانی نہ دینا، یہ ایک ایسا جرم ہے جیسے کسی چڑیا کو قید کرکے اس کو غذا سے محروم کردیا جائے۔
آپ نے اکثر محسوس کیا ہوگا کہ جب آپ کسی باغ یا جنگل کی سیرکو جاتے ہیں تو فرحت محسوس ہوتی ہے یعنی قوت شامہ کے علاوہ دل ودماغ کو سکون ملتا ہے یعنی پودے سانس کے ضامن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شجرکا اجتماع حیات کو قوت بخشتا ہے۔ یعنی شجرکاری حیات کو ہے پیاری۔ یہ عمل لاکھوں برس پر محیط ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ شجرکاری سے منسلک افراد دمے کے مرض کا شکار نہیں ہوتے اور صحت مند رہتے ہیں، مگر درختوں کو دیکھ بھال کے لگانے کی ضرورت ہے ایسا درخت لگانے سے گریزکرنا چاہیے جن میں پولن تو ہوتے ہیں مگر کسی قسم کا پھل نہیں ہوتا، ایسے درخت ہیومن الرجی کا (Allergy) کا سبب بنتے ہیں۔
اسلام آباد شہر ایسی ہی شجرکاری کی آماجگاہ بنا رہا اور لوگوں کو الرجی ہوتی رہی۔ ایسے درختوں پر پرندے بھی اپنا بسیرا کرنا پسند نہیں کرتے رفتہ رفتہ بری امام اور دیگر علاقوں کے درختوں اور خود رو درختوں نے الرجی کے اس سیلاب کو کسی حد تک اسلام آباد میں روکا ہے۔
درختوں کا انسان سے جس قدر تعلق ہے اس سے کہیں زیادہ پرندوں کا ہے کیونکہ یہ تو ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اگر ایسے درخت لگائے گئے جو پرندوں کو پسند نہیں تو یقینا انسانوں کے لیے بھی وہ بہتر نہ ہوں گے کیونکہ پرندے بے زبان درختوں کی زبان جو ان کے پتوں کی حرکت اور شاخوں کے زاویے (Angle) کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ تلیر، گوریا، مینا، طوطے خوش ذائقہ پھل والے درختوں کو بے حد پسند کرتے ہیں ۔
جن میں جنگل جلیبی، گوندنی، نسوڑے، شہتوت اور کراچی کے مخصوص لال بادام، املی، امرود اور دیگر پھل۔ مگر درخت لگانے والے ان درختوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ گاندھی گارڈن اور سینٹرل جیل کراچی میں اصلی اور دیگر پھل دار درختوں کے جھرمٹ ہیں، اس لیے پرندگان کا بسیرا خوب سے خوب تر ہے اور الرجی کی کوئی بھی قسم نہیں۔ مگر پاکستان میں درختوں کے ساتھ ناانصافی ہمیشہ روا رکھی گئی اور خصوصاً کراچی کے ساتھ جب بھی کوئی ترقیاتی کام کیا جاتا ہے تو درختوں کے کاٹنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
اسی لیے پرندوں کی آمد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا خصوصاً 1960 اور 70 کے درمیان جب ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور شہر کے دیگر علاقوں میں ہرگھر درخت یافتہ ہوتا تھا اور گرومندر، ایم اے جناح روڈ پر تو برگد، گولر، پیپل کے درخت میں شاہراہ پر نظر آتے تھے مگر بعض پوش علاقوں میں شجر کاری میں مقامی درختوں کو بالکل نظرانداز کیا گیا۔ البتہ لوگوں نے اپنے گھروں میں دیسی درخت لگا رکھے ہیں اور وہ نیم کے درختوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ حالانکہ ملیرکینٹ کی رہائش گاہ میں جو فوجی رہائشی علاقے ہیں وہاں نیم کے درخت وافر مقدار میں موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شجر کاری کی مہم فوٹو سیشن کا ایک نمائشی عمل ہے جس میں درختوں کی اقسام، ان کا سایہ ان کی میڈیسنل اثرات ان کی لکڑی کی اہمیت اور پرندوں پر اس کے اثرات کا کوئی بھی مطالعہ نہیں کیا جا رہا ہے اس لیے کوے تعداد میں زیادہ اور دیگر پرندوں کی افزائش کے سامان میسر نہیں ۔کوڑا کرکٹ نے چیل اور کوؤں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے لیکن نفیس پرندوں کے لیے پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں کوئی کشش موجود نہیں البتہ رہی سہی وائلڈ لائف مری ایبٹ آباد شاہراہ پر موجود ہے جس کو وسعت دینے کی ضرورت بھی ہے۔
آج کل یہ افواہ گرم ہے کہ پاکستان میں ایک ارب درختوں کو لگایا جائے گا۔ واقعی اگر اتنی بڑی تعداد میں درخت لگانے کا کام ہے تو ہر علاقے کو اس علاقے کے آبائی پودوں سے مزین کرنے کی ضرورت ہے اور امپورٹڈ پلانٹس سے گریزکرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ کراچی سے بلوچستان کے ساحلی علاقے پر ناریل کے درخت لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے دو عدد فوائد ہوں گے ناریل کے ایکسپورٹ اور ناریل کے پانی میں وٹامن ایڈ کرکے ٹانک ایکسپورٹ کرنے کی ضرورت ہے جو زرمبادلہ کو بڑھانے اور ایگری کلچرل انڈسٹری کے فروغ کا باعث بنے گا۔
مگر اس ملک میں جو اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے وہی اہل دانش ہوتا ہے اس کو مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ اس حکومت نے کچھ مشورے طلب کیے ہیں ممکن ہے وہ شجرکاری مہم کو ایک عملی شکل دیں اور فوٹو سیشن سے گریزکریں اور آخری سطور میں ایک اہم مشورہ کہ مدارکے پودے جن کے پتوں اور ڈنڈیوں سے دودھ جیسا مادہ خارج ہوتا ہے جو سائنسی اعتبار سے بہت اہم ہے اس کو مڈآئی لینڈ دو سڑکوں کے درمیان جو درختوں کی جگہ ہے لگانے کی ضرورت ہے۔ اس درخت کی اہمیت کو حکما تو جانتے ہیں مگر پلوشن کے رد عمل میں اس کا ثانی نہیں۔
ملیر کے علاقوں میں ان کی کثیر تعداد ہے اور ان کو پانی کی بہت کم ضرورت ہے اس کے پودے 6-7 فٹ کے ہوتے ہیں یہ سلفیورک ایسڈ یعنی گندھک کے تیزاب کو اور زنک کے دھوئیں کو فوری طور پرکیچڑ میں تبدیل کردیتے ہیں ایک لیٹر (H2S04) گندھک کے تیزاب کو گویا مٹی کا ملبہ بنادیتا ہے اس کے پودے لگانے کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان کا یہ انمول درخت ہے جو بے آب وگیاہ علاقوں میں موجود ہے یہ تجربہ قلم کی تحریر نہیں بلکہ ایک آرٹسٹ جو خواتین کی جیولری کی الیکٹرو پلیٹنگ سے بناتا ہے ،اس کے تجربہ خانے میں کیا گیا عملی مشاہدہ ہے۔
کیونکہ شجرکاری ہر ذی حیات کو پیاری ہے اور ان کی حیات کا جز ہے ایکالوجی کا حصہ ہے لہٰذا مشرق کے حسین وجمیل درختوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے،گل مہر، شمشاد، ہار سنگھار اور املتاس کا حسین پھولوں والا درخت جیسے کوئی حسینہ زرد ہار پہنے کھڑی ہے ناپید ہو رہا ہے، جو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میں خواتین کی بے شمار بیماریوں کا علاج ہوں ۔
اگست نے اپنا بستر لپیٹ لیا اورکہا کہ اب اگلے برس ملاقات ہوگی۔ جہاں جہاں بھی ساون اور بھادوں کو اپنا جوہر دکھانا تھا تقریباً دکھا چکے ویسے توکراچی میں برسات نہ ہوئی پھوار اور بادلوں کی آمد و رفت جاری رہی ۔ تشنہ کامی یہاں کے درختوں کا مقدر رہا۔ مون سون کی ہواؤں کو سمندر نے اجازت نہ دی کہ اس کے نمکین ترین پانی کو ذرا بھی میٹھا بننے دیا جائے اور بادل پسپا ہوتے چلے گئے۔
البتہ طویل بدلی نے سورج کو چھپانے پر مجبورکیا اورکہا کہ بارش اگر ہوگی توکسی روز آٹھ اکتوبر تک ایک آدھ روزکی ورنہ کراچی کو سوکھا ہی گزرنا ہوگا۔ کیونکہ کراچی والوں نے نئے درخت تو لگائے مگر یہ درخت نارتھ یا ساؤتھ پول کے طول وعرض سے پائے ہوئے تھے جو ساون و بھادوں کو پسند نہیں کیونکہ سیاسی طور پر بھارت اور پاکستان کی دھرتی تقسیم تو ہوئی، آبادی بھی آگے پیچھے ہوئی مگر آسمانی سرحدوں اور ثقافتی مزاج، ہواؤں اور بادلوں نے ان کو نہیں مانا کہ ادھرکے بادل ادھر نہ برسیں اور ادھر کے بادل ادھر نہ برسیں۔
بھارت نے دریاؤں کے پانی کو روک تو لیا مگر جب وہ بند لبریز ہوتے ہیں تو ان کا وہی قدیم قدرتی راستہ ہے جو کسی حاکم کے بس میں نہیں۔ قدرت کی ہوائیں اور درختوں کی آوازیں چیخ چیخ کر پیپل کے پتوں کے پازیب کی آواز میں یہ کہہ رہی ہیں کہ ہماری نسل کو ختم نہ کرو، ہم صرف آرٹس کونسل کراچی میں نہیں بلکہ ایبٹ آباد سے اگر مری کا سفرکرو تو ہماری مٹتی ہوئی نسل کو دیکھ سکتے ہو۔ ہمارے بیچ جو نئی نسل کے مژدۂ حیات ہیں ہمارے پھلوں کے درمیان مٹھاس لیے رائی سے بھی زیادہ ہلکے ہیں اور تمام پرندوں اور زیست سے چرندوں کے لیے بھی حیات کے ضامن ہیں۔ ہم وہی ہیں جن کے سائے میں مہاتما بدھ نے دھیان گیان کیا اور علامہ اقبال نے کہا میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے آخر ہمیں اور ہمارے جیسے درختوں کو کیوں بھول گئے۔
حکمراں ہر سال درخت سازی کی مہم کا آغاز کرتے ہیں مگر ان لوگوں سے مشورہ نہیں کرتے جو ہماری زندگی پر دھیان گیان کرتے ہیں وہ کسی غیر ملکی سے پوچھتے ہیں جہاں مہینوں سورج نہیں نکلتا جو ہزاروں بیماریوں کا دشمن ہے۔ مگر ملک کے حکمرانوں کو مقامی سبز قبا والے ذی حیات کی دیکھ بھال اور ان کی نسل کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ درختوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا وہ پروردگارکی دی گئی ہدایت پر زندگی گزارتے ہیں نہ روز قیامت ان کا کوئی حساب کتاب ہوگا۔
یہ حیات رکھتے ہیں مگر قدرت نے ان کے جسم کو اعصابی اور چوٹ، کٹ اور کٹ جانے سے ہر درد سے محروم کر رکھا ہے اسی لیے درختوں کی قلمیں بھی لگائی جاتی ہیں۔ درختوں میں کوئی سن کرنے والی دوائی نہیں چل رہی، اسی لیے لوگ پودوں کو اپنی پسند کے اعتبار سے کاٹتے اور چھانٹتے ہیں ان کو قدرت نے بغیر کسی (Anesthesia) اینستھیسیا کے یہ خصوصیت رکھی ہے مگر پودوں کو گملوں میں رکھ کر ان کی آبیاری نہ کرنا اور وقت پر کھاد پانی نہ دینا، یہ ایک ایسا جرم ہے جیسے کسی چڑیا کو قید کرکے اس کو غذا سے محروم کردیا جائے۔
آپ نے اکثر محسوس کیا ہوگا کہ جب آپ کسی باغ یا جنگل کی سیرکو جاتے ہیں تو فرحت محسوس ہوتی ہے یعنی قوت شامہ کے علاوہ دل ودماغ کو سکون ملتا ہے یعنی پودے سانس کے ضامن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شجرکا اجتماع حیات کو قوت بخشتا ہے۔ یعنی شجرکاری حیات کو ہے پیاری۔ یہ عمل لاکھوں برس پر محیط ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ شجرکاری سے منسلک افراد دمے کے مرض کا شکار نہیں ہوتے اور صحت مند رہتے ہیں، مگر درختوں کو دیکھ بھال کے لگانے کی ضرورت ہے ایسا درخت لگانے سے گریزکرنا چاہیے جن میں پولن تو ہوتے ہیں مگر کسی قسم کا پھل نہیں ہوتا، ایسے درخت ہیومن الرجی کا (Allergy) کا سبب بنتے ہیں۔
اسلام آباد شہر ایسی ہی شجرکاری کی آماجگاہ بنا رہا اور لوگوں کو الرجی ہوتی رہی۔ ایسے درختوں پر پرندے بھی اپنا بسیرا کرنا پسند نہیں کرتے رفتہ رفتہ بری امام اور دیگر علاقوں کے درختوں اور خود رو درختوں نے الرجی کے اس سیلاب کو کسی حد تک اسلام آباد میں روکا ہے۔
درختوں کا انسان سے جس قدر تعلق ہے اس سے کہیں زیادہ پرندوں کا ہے کیونکہ یہ تو ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اگر ایسے درخت لگائے گئے جو پرندوں کو پسند نہیں تو یقینا انسانوں کے لیے بھی وہ بہتر نہ ہوں گے کیونکہ پرندے بے زبان درختوں کی زبان جو ان کے پتوں کی حرکت اور شاخوں کے زاویے (Angle) کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ تلیر، گوریا، مینا، طوطے خوش ذائقہ پھل والے درختوں کو بے حد پسند کرتے ہیں ۔
جن میں جنگل جلیبی، گوندنی، نسوڑے، شہتوت اور کراچی کے مخصوص لال بادام، املی، امرود اور دیگر پھل۔ مگر درخت لگانے والے ان درختوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ گاندھی گارڈن اور سینٹرل جیل کراچی میں اصلی اور دیگر پھل دار درختوں کے جھرمٹ ہیں، اس لیے پرندگان کا بسیرا خوب سے خوب تر ہے اور الرجی کی کوئی بھی قسم نہیں۔ مگر پاکستان میں درختوں کے ساتھ ناانصافی ہمیشہ روا رکھی گئی اور خصوصاً کراچی کے ساتھ جب بھی کوئی ترقیاتی کام کیا جاتا ہے تو درختوں کے کاٹنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
اسی لیے پرندوں کی آمد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا خصوصاً 1960 اور 70 کے درمیان جب ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور شہر کے دیگر علاقوں میں ہرگھر درخت یافتہ ہوتا تھا اور گرومندر، ایم اے جناح روڈ پر تو برگد، گولر، پیپل کے درخت میں شاہراہ پر نظر آتے تھے مگر بعض پوش علاقوں میں شجر کاری میں مقامی درختوں کو بالکل نظرانداز کیا گیا۔ البتہ لوگوں نے اپنے گھروں میں دیسی درخت لگا رکھے ہیں اور وہ نیم کے درختوں کو اہمیت دے رہے ہیں۔ حالانکہ ملیرکینٹ کی رہائش گاہ میں جو فوجی رہائشی علاقے ہیں وہاں نیم کے درخت وافر مقدار میں موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شجر کاری کی مہم فوٹو سیشن کا ایک نمائشی عمل ہے جس میں درختوں کی اقسام، ان کا سایہ ان کی میڈیسنل اثرات ان کی لکڑی کی اہمیت اور پرندوں پر اس کے اثرات کا کوئی بھی مطالعہ نہیں کیا جا رہا ہے اس لیے کوے تعداد میں زیادہ اور دیگر پرندوں کی افزائش کے سامان میسر نہیں ۔کوڑا کرکٹ نے چیل اور کوؤں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے لیکن نفیس پرندوں کے لیے پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں کوئی کشش موجود نہیں البتہ رہی سہی وائلڈ لائف مری ایبٹ آباد شاہراہ پر موجود ہے جس کو وسعت دینے کی ضرورت بھی ہے۔
آج کل یہ افواہ گرم ہے کہ پاکستان میں ایک ارب درختوں کو لگایا جائے گا۔ واقعی اگر اتنی بڑی تعداد میں درخت لگانے کا کام ہے تو ہر علاقے کو اس علاقے کے آبائی پودوں سے مزین کرنے کی ضرورت ہے اور امپورٹڈ پلانٹس سے گریزکرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ کراچی سے بلوچستان کے ساحلی علاقے پر ناریل کے درخت لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے دو عدد فوائد ہوں گے ناریل کے ایکسپورٹ اور ناریل کے پانی میں وٹامن ایڈ کرکے ٹانک ایکسپورٹ کرنے کی ضرورت ہے جو زرمبادلہ کو بڑھانے اور ایگری کلچرل انڈسٹری کے فروغ کا باعث بنے گا۔
مگر اس ملک میں جو اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے وہی اہل دانش ہوتا ہے اس کو مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ اس حکومت نے کچھ مشورے طلب کیے ہیں ممکن ہے وہ شجرکاری مہم کو ایک عملی شکل دیں اور فوٹو سیشن سے گریزکریں اور آخری سطور میں ایک اہم مشورہ کہ مدارکے پودے جن کے پتوں اور ڈنڈیوں سے دودھ جیسا مادہ خارج ہوتا ہے جو سائنسی اعتبار سے بہت اہم ہے اس کو مڈآئی لینڈ دو سڑکوں کے درمیان جو درختوں کی جگہ ہے لگانے کی ضرورت ہے۔ اس درخت کی اہمیت کو حکما تو جانتے ہیں مگر پلوشن کے رد عمل میں اس کا ثانی نہیں۔
ملیر کے علاقوں میں ان کی کثیر تعداد ہے اور ان کو پانی کی بہت کم ضرورت ہے اس کے پودے 6-7 فٹ کے ہوتے ہیں یہ سلفیورک ایسڈ یعنی گندھک کے تیزاب کو اور زنک کے دھوئیں کو فوری طور پرکیچڑ میں تبدیل کردیتے ہیں ایک لیٹر (H2S04) گندھک کے تیزاب کو گویا مٹی کا ملبہ بنادیتا ہے اس کے پودے لگانے کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان کا یہ انمول درخت ہے جو بے آب وگیاہ علاقوں میں موجود ہے یہ تجربہ قلم کی تحریر نہیں بلکہ ایک آرٹسٹ جو خواتین کی جیولری کی الیکٹرو پلیٹنگ سے بناتا ہے ،اس کے تجربہ خانے میں کیا گیا عملی مشاہدہ ہے۔
کیونکہ شجرکاری ہر ذی حیات کو پیاری ہے اور ان کی حیات کا جز ہے ایکالوجی کا حصہ ہے لہٰذا مشرق کے حسین وجمیل درختوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے،گل مہر، شمشاد، ہار سنگھار اور املتاس کا حسین پھولوں والا درخت جیسے کوئی حسینہ زرد ہار پہنے کھڑی ہے ناپید ہو رہا ہے، جو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میں خواتین کی بے شمار بیماریوں کا علاج ہوں ۔