وزیر بلدیات سندھ کی توجہ کے لیے

علاقائی مسائل حل ہونے سے ایک تو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے، دوسرے صوبائی حکومتوں پر کام کا بوجھ کم ہوتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

نئی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سابق حکومتوں کے مقابلے میں مخلص دکھائی دیتی ہے اور مسائل کے حوالے سے ترجیحات کا تعین بھی ضروری ہے۔ ہر جمہوری حکومت میں ایک با اختیار بلدیاتی نظام کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری جمہوری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت نے نہ بلدیاتی انتخابات کرائے نہ بلدیاتی نظام تشکیل دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کا مزاج وڈیرہ شاہی کا مزاج رہا ہے۔

حکومت خواہ جاگیرداروں کی رہی ہو یا صنعتکاروں کی، دونوں ہی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کو نظرانداز کیا اس کی دو وجوہات رہی ہیں۔ ایک اختیارات کا حصول، دوسرے بلدیاتی بجٹ کی بھاری رقم کا غلط استعمال،کراچی ڈھائی کروڑ انسانوں کا ایک بہت بڑا شہر ہے جس کا بلدیاتی بجٹ بھی اربوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے، اربوں روپوں پر مشتمل اس بجٹ کو صوبائی حکومتیں ایم این اے اور ایم پی ایز کو خریدنے کے لیے استعمال کرتی رہیں۔

جمہوری حکومتیں ایم این ایز، ایم پی ایزکے تعاون پر مجبور ہوتی ہیں اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہرکام کی ایک قیمت ہوتی ہے، ممبران اسمبلی کے تعاون کی بھی ایک بھاری قیمت ہوتی ہے۔ بلدیہ کا بھاری بجٹ ان ممبران کا تعاون خریدنے پر خرچ کیا جاتا رہا پچھلی دو تہائی مینڈیٹ رکھنی والی جمہوریت نے مسلسل دباؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات سے محروم رکھا اور اربوں روپوں پر مشتمل یہ فنڈ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دیا جاتا رہا جو کرپشن کی نذر ہوتا رہا میڈیا کی تنقید کو نظر انداز کرکے فنڈ ہڑپ کیا جاتا رہا۔

جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کو ان کی ضرورتوں کے مطابق فنڈز اور اس کے استعمال کا اختیار دیتی ہیں تاکہ علاقائی مسائل حل ہوتے رہیں۔ علاقائی مسائل حل ہونے سے ایک تو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے، دوسرے صوبائی حکومتوں پر کام کا بوجھ کم ہوتا ہے لیکن دولت کی ناجائز خواہش کی وجہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی بجٹ کو ہضم کرجاتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ تمام جمہوری حکومتوں کے دوران جاری رہا اور علاقائی مسائل التوا میں پڑے رہے، حالیہ انتخابات سے پہلے سندھ کی صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم رکھا جس کی وجہ سے بلدیاتی ادارے کام نہ کرسکے جس کا ایک شرمناک مظاہرہ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیروں کی شکل میں آج تک دیکھا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ رہا ہے کہ بلدیاتی ملازمین خصوصاً ڈی ایم سیز کے ریٹائرڈ ملازمین کو برسوں سے نہ پنشن دی گئی نہ واجبات ادا کیے گئے، اپنی زندگی کا نصف سے زیادہ حصہ بلدیہ کی ملازمت میں گزارنے کے بعد جب ملازم ریٹائر ہوجاتے ہیں تو اچانک ان کی آمدنی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو اس صورتحال سے بچانے کے لیے بلدیاتی انتظامیہ ملازمین کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی تمام پیپر ورک کرکے رکھتی ہے اور جیسے ہی ملازم ریٹائر ہوتا ہے، اس کی پنشن جاری ہوجاتی ہے اور واجبات ادا کر دیے جاتے ہیں لیکن ہمارے بلدیاتی اداروں سے ریٹائر ہونے والوں کو برسوں اپنی پنشن اور واجبات کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔


ہماری نئی حکومت ہر ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ بلدیاتی ادارے حکومتوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، اگر بلدیاتی ادارے غیر فعال ہوجاتے ہیں تو شہری علاقے مسائل کے انبار میں دب جاتے ہیں۔ بلدیاتی ادارے اگرچہ صوبائی حکومتوں کی تحویل میں ہوتے ہیں لیکن ان اداروں کی اچھی اور بری کارکردگی کا اثر مرکزی حکومتوں پر بھی پڑتا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی ادارے مالی آزادی سے محروم ہیں۔ سارا شہر کچرے کے ڈھیر میں بدل گیا ہے یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ شہر کا کچرا اٹھانے کا کام چینی اداروں کو سونپا گیا ہے جس ملک میں یہ صورتحال ہو کہ شہروں کا کچرا اٹھانے کا کام دوسرے ملکوں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہو تو اس ملک کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

کراچی صوبہ سندھ کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس شہر کی اچھی یا بری کارکردگی کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے اور شہری امور کی انجام دہی میں بلدیاتی اداروں کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ شہر کی صورتحال برسوں سے بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی ہے، اس صورتحال کو بدلنے کی ذمے داری اگرچہ صوبائی حکومت کی ہوتی ہے لیکن مرکزی حکومت کو بھی صوبائی حکومتوں کے مسائل سے لا تعلق نہیں رہنا چاہیے۔

حالیہ انتخابات کے نتیجے میں سندھ کی حکومت نے جو حکومت تشکیل دی ہے اس میں سعید غنی کو وزیر بلدیات مقررکیا گیا ہے۔ سعید غنی نامور باپ کے بیٹے ہیں ان سے بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریںگے اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیںگے۔ مرحوم بھٹو کا نام پیپلزپارٹی سے جڑا ہوا ہے امید ہے کہ سندھ کی حکومت بھٹو کے نام پر آنچ آنے نہیں دے گی۔

ہر محکمے کی کارکردگی کا انحصار محکمے کے ملازمین کی کارکردگی پر ہوتا ہے ،کراچی ملک کا ایک سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا شہر ہے، اس شہر کے مسائل بھی بہت اور پیچیدہ ہیں ان مسائل کو حل کرنے میں بلدیہ کی ذمے داری بہت اہم ہوتی ہے ہمارے بلدیاتی وزیر ایک نیک نام باپ کے بیٹے ہیں امید ہے کہ وہ ملکی سیاست سے بالاتر ہوکر کراچی کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریںگے۔ بلدیہ کے مسائل میں ریٹائرڈ ملازمین کا المناک مسئلہ بھی شامل ہے۔

ریٹائرڈ ملازمین کے حوالے سے ان کے مسائل کا ذکر ہم نے مختصراً کردیا ہے لیکن چونکہ یہ مسئلہ اپنی نوعیت کا ایک المناک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین 40،30 سال ملازمت کرنے کے بعد اس قابل نہیں رہتے کہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کوئی اور سروس کرسکیں ان کی زندگی کا دار و مدار ان کی پنشن اور واجبات پر ہوتا ہے۔ ڈی ایم سیز کے ریٹائرڈ ملازمین خصوصاً کورنگی کے ریٹائرڈ ملازمین سخت مشکل میں ہیں امید کی جاتی ہے کہ وزیر بلدیات ڈی ایم سی کورنگی کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلانے کی سنجیدہ کوشش کریںگے۔
Load Next Story