پاک امریکا تعلقات عمران خان مشکل میں ہیں

یہ امریکی تکبّر اور نخوت کا اظہار تو ہے ہی، ہماری کمزوری کا مظہر بھی ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

ڈاکٹر عادل نجم پاکستان کے ممتاز ماہرِ تعلیم، دانشور اور مصنف ہیں۔ ڈگری تو انھوں نے لاہور کی یو ای ٹی سے سول انجینئرنگ میں لی لیکن سوشل سائنسز پر بھی گہری دستگاہ رکھتے ہیں۔ ممتاز ترین امریکی یونیورسٹی، ایم آئی ٹی، کے فارغ التحصیل ہیں۔ لاہور کی ایک مشہور اور مہنگی نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ صدرِ پاکستان انھیں ''ستارۂ امتیاز'' سے نواز چکے ہیں۔

آجکل بوسٹن یونیورسٹی (امریکا) میں ایک اہم علمی عہدے پر فائز ہیں۔جن حالات میں امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیؤ، نے گزشتہ روز پانچ گھنٹے پر مشتمل پاکستان کا دَورہ کیا ہے اور جو کچھ یہاں انھوں نے فرمایا ہے، اس سارے پس منظر میں پاک، امریکا تعلقات پر تبصرہ کرتے ہُوئے ڈاکٹر عادل نجم کا کہنا ہے:'' پچھلے سات عشروں کے دوران پاک ، امریکا تعلقات میں تین ادوار آئے ہیں: (۱)لیاقت علی خان سے لے کر جنرل ایوب خان تک پاکستان اور امریکا کا باہمی رشتہ Ally(اتحادی۔ دوست)کا تھا(۲) جنرل ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف تک پاکستان اور امریکا کا تعلقClient(گاہک۔ طفیلی۔ مصاحب)کی شکل اختیار کر گیا تھا(۳)اور اب پاک امریکا تعلقات کوAdversary( مخالف۔ دشمن) کا نام دیا جا رہا ہے۔'' ڈاکٹر عادل نجم کے اِس تجزئیے کی رُو سے گذشتہ70برسوں کے دوران پاک، امریکا تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے رفتہ رفتہ کہتری آئی ہے۔

یہ ہماری سفارتی ناکامی ہے۔ اِس کے برعکس سرد جنگ کے سارے عرصے کے دوران بھارت، امریکا تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ اِن تعلقات میں بہتری آتی گئی ۔ حتیٰ کہ اب تو بھارت، امریکا تعلقات ''تُو من شدی، من تُو شدم'' کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔امریکا اب ہر معاملے میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتا ہے۔مائیک پومپیؤ اور جنرل ڈنفورڈ کا دورہ پاکستان و بھارت اس کی تازہ مثال ہے۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ امریکا ہرجائی اور دغا باز ہے۔ موقع و مطلب پرست ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ہم اگر اپنی منجھی کے نیچے بھی ڈانگ پھیریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اعلیٰ سفارتی عہدہ داروں کی غفلتوں کے کارن ہمیں آج یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔

کئی تحقیقی اور غیر جانبدار کتابیں اِس کی گواہ ہیں۔ ہم مگر امریکا کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ اپنی کوئی غلطی اور غفلت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ بار بار امریکی دباؤ کے سامنے سر جھکایا ہے۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکا نے بطورِ تادیب پہلے قدم کے طور پر (نواز شریف کے تیسرے دَور میں) پہلے500ملین ڈالر کی امداد بند کی تھی اور اب باقی 300ملین ڈالر بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ انکار اُس وقت سامنے آیا ہے جب عمران خان کو وزیر اعظم بنے ابھی تین ہفتے بھی نہیں ہُوئے تھے۔

امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیؤ، نے 5ستمبر2018ء کو اسلام آباد میں جب ہمارے اعلیٰ ترین حکام سے ملاقات کی تو یہ ''تادیبی تحفہ'' اُن کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان کی توہین کے مترادف۔ یہ امریکی تکبّر اور نخوت کا اظہار تو ہے ہی، ہماری کمزوری کا مظہر بھی ہے۔ نئے پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواہ کتنا ہی (اصولی) کہتے رہیں کہ ''امریکا نے ہمارا ہی پیسہ روکا ، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف اپنے وسائل سے (اربوں کھربوں) کی رقم خرچ کی جو امریکا نے ہمیں واپس کرنا تھی'' لیکن شاہ محمود قریشی صاحب کے یہ احتجاجی الفاظ امریکی نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہُوئے ہیں۔کاش، دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف (اور فی الحقیقت امریکی مفادات میں) جنگ کرتے ہُوئے ہم نے امریکا کی بات نہ مانی ہوتی۔ صرف اپنے قومی و ملکی مفادات کو پیشِ نگاہ رکھا ہوتا!!

دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف لڑی گئی پاکستان کی کامیاب جنگ اور اِس راہ میں دی گئی 70ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانیاں امریکا تسلیم نہیں کرتا۔ اُسے تو بس یہ جنون ہے کہ وہ افغانستان میں سُرخرو ہوجائے ۔ طالبان کے ہاتھوں کامل شکست سے بچ جائے۔ طالبان کی رخصتی کے بعد افغانستان میں اُس کی قائم کردہ ساری حکومتیں ناکام ہی ہُوئی ہیں۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کو آزادانہ جھنڈے گاڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔افغانستان میں نہ تو طالبان امریکا کی بات مانتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کو افغانستان میں بھارتیوں کے نقوشِ قدم برداشت ہیں۔ امریکا پھر بھی بضد ہے کہ پاکستان ہی طالبان کو ڈَھب پر لا سکتا ہے۔ انھیں مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتا ہے ۔


اب پھر یہی کہا گیا ہے۔ امریکا مگرافغان حکمرانوں کی ہلاکت خیز کرپشن پر قابو پا سکا ہے نہ یہ سمجھ پایا ہے کہ مُلّا محمد عمر کی حکومت کے جبریہ خاتمے کے بعد آخر کیوں کابل کا ہر حکمران ناکام ونا مراد ہُوا ہے؟ابھی پچھلے ہفتے افغان دارالحکومت، کابل، کے دو بڑے منتظمین( وزیر داخلہ واعظ برمک اور پولیس سربراہ صادق مرادی)آپس میں برسرِ مجلس متصادم ہُوئے ہیں تو افغان صدر کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ جھگڑا کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ افغان صدر ، ڈاکٹراشرف غنی، کے تو ا س بات پر بھی آجکل ہاتھ پاؤں پھولے ہُوئے ہیں کہ افغان حکومت کے تین بڑوں نے جو اچانک استعفے دے ڈالے ہیں، اِس خلا کو کیونکر پُر کریں؟ مستعفی ہونے والوں کے نام یہ ہیں: نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمر،افغان انٹیلی جنس ادارے'' این ڈی ایس'' کے سربراہ معصوم ستنکزئی اور وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی!! کیا اس کا ذمے دار بھی پاکستان ہے ؟ بد حواسی میں افغان صدر نے 35سالہ نوجوان، حمد اللہ محبّ، کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر مقرر کر دیا ہے۔

سارا کابل اِس فیصلے پر ششدر ہے۔ قابلیت نہیں ، بلکہ ذاتی وفاداری میرٹ بنی ہے ۔ غزنی کی تازہ شکست اور اس پر طالبان کے قبضے نے امریکا اور اشرف غنی کے پاؤں اکھاڑ دیے ہیں۔ اِس عیدالاضحی پر افغان حکام اور امریکا ، دونوں چاہتے تھے کہ چند ہفتوں کے لیے فریقین سیز فائر کردیں، لیکن طالبان نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ امریکیوں نے اِس کا نزلہ بھی پاکستان پر گرانے کی سعی کی ہے۔طیش میں آکر امریکا ، پاکستان کے نئے حکمرانوں کو دھاندلی، دباؤ اور دھونس سے نیچے لگانا چاہتا ہے۔

ایسا مگر نہیں ہو سکتا کہ یہ عالمی اخلاقیات، سفارتکاری کے اصولوں اور پاکستان کی غیرت کے منافی اقدام ہیں۔ ایسے میں نائب امریکی وزیر دفاع، رینڈل شریور، نے واشنگٹن میں کارنیگی انڈومنٹ تھنک ٹینک میں خطاب کرتے ہُوئے پاکستان کو نئی اور کھلی دھمکی دے ڈالی ہے۔ موصوف نے کہا ہے :(۱)افغانستان میں کامیاب امریکی جنگ کے خاتمے سے پہلے پاکستان کی سیکیورٹی امداد بحال نہیں کی جائے گی(۲) امریکا کی طرف سے پاکستان پر مزید پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں(۳) پاکستان کے چین سے مسلسل بڑھتے معاشی تعلقات پر امریکا کو سخت تحفظات ہیں(۴) بہتر تعلقات کے لیے پاکستان کو ہماری افغان پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔

امریکی نائب وزیر دفاع ،رینڈل شریور، نے جو ''فرمایا''ہے، اِس نے دراصل امریکی بلّی تھیلے سے باہر پھینک دی ہے۔ پاکستان کی چین سے قربت کے خلاف امریکی سوچ ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے؛ چنانچہ عمران خان کی حکومت کے خلاف امریکی عزائم بھی سامنے آ گئے ہیں، اگرچہ ساتھ ہی امریکا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ چلنے کا خواہشمند ہے۔ مسائل تو ہیں۔ پریشان ہونے سے مگر مسائل ختم نہیں ہوں گے ۔ تدابیر اور حکمت اختیار کرنے سے امریکا کے پیدا کردہ مسائل کے پہاڑ سے نمٹا جا سکے گا۔

پاکستان کے ایک نہایت تجربہ کار اور دانشمند سابق سفارتکار جناب منیر اکرم نے خان صاحب کی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وقت ضایع کیے بغیر امریکا کو صاف الفاظ میں شائستگی سے بتا دینا چاہیے کہ(۱) وہ اب بھی دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کے ساتھ ہے (۲) افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بھی وہ امریکی اور افغان کوششوں کے ہمقدم رہنا چاہتا ہے (۳) امن کی خاطر افغان طالبان کو درخواست بھی کر سکتا ہے کہ وہ افغان سیاست کا حصہ بن جائیں۔

مگر پاکستان کو امریکیوں پر یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان میں کامل امن قائم کرنے کا ذمے نہیں اُٹھاسکتا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب جناب منیر اکرم نے مگر یہ بھی خبردار کیا ہے کہ ''اِن تمام خدمات کے باوجود پاکستان کو امریکا سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اِس خطے میں امریکا کی ریجنل اسٹرٹیجی تبدیل ہو جائے گی اور وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے بھرپور تعاون اور محبت کرنا شروع کر دے گا۔'' اہلِ دانش کا یہ بھی مشورہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو امریکی مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر نیا نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینا چاہیے۔
Load Next Story