کامریڈ ملک معراج خالد مرحوم کے نام
اس زمانہ میں ہی وہ مارکسزم سے متاثر ہوئے، جس پر بعد میں وہ زندگی بھر قائم رہے۔
آج پنجاب میں پیپلزپارٹی کا چہرہ ہمیشہ سے ایسا دھندلایا ہوا نہیں تھا، کبھی اس کا چہرہ کامریڈز شیخ محمد رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، محمد حنیف رامے اور معراج خالد جیسے درویش صفت سیاست دان بھی تھے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا یہ وہ چہرہ تھا، جس نے اس کو مقبولیت کے ساتھ ساتھ عزت ووقار بھی عطا کیا۔لاہور میں1967ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا اور صرف تین سال بعد1970ء کے الیکشن میں اس نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ تمام سیاسی پنڈت انگشت بدنداں رہ گئے۔شیخ محمد رشید، محمد حنیف رامے اور ملک معراج خالد اللہ کو پیارے ہوچکے ، جب کہ ڈاکٹر مبشر حسن ماشاء اللہ حیات ہیں۔
ان دنوں معراج خالد صاحب بھی بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ وجہ اس کی وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری اور سادگی ہے، جو ہر جگہ زیر بحث ہے۔ عمران خان کی یہ مہم قابل ستایش ہے، لیکن بہت کم لوگوںکو اب یاد ہے کہ ان سے پہلے معراج خالد بھی بطور وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی اس طرح کی مثال قائم کر چکے ہیں۔ سادگی، شرافت اور غریب پروری ان کی پہچان تھی۔ ریگل چوک کے ایک طرف عقب میں واقع لکشمی مینشن کے گراونڈ فلور پر ان کا ایک سادہ سا فلیٹ تھا ، جب کہ چوک کے دوسری طرف دیال سنگھ مینشن کے فرسٹ فلور پر ان کا وکالت کا دفتر تھا۔ دیال سنگھ مینشن کے اسی فلور پر ہی لاہور پریس کلب کا پرانا دفتر تھا، روزانہ سرشام جس کی بالکونی پر سب دوستوں کی محفل سجتی تھی۔ معراج خالد عام طورپر پیدل ہی فلیٹ سے نکلتے ، سڑک پار کرکے دیال سنگھ مینشن کی نکڑ پر واقع کھوکھا سے سگریٹ خریدتے اور سیڑھیاں چڑھ کر دفتر پہنچ جاتے تھے۔ سگریٹ بے تحاشا پیتے تھے۔
یہ وہ زمانہ ہے، جب معراج خالد اور بے نظیر بھٹو کے درمیاں دراڑیں پڑچکی تھیں۔ محترمہ کے حامی ان کو ان ''انکلوں'' میں شمار کرتے تھے، جن کی اب پیپلزپارٹی کو ضرورت نہیں تھی۔ لیکن حقیقی وجہ یہ تھی کہ معراج خالد جیسے لوگوں نے جس طرح کی سوچ کے تحت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی ، وہ سوچ اب پیپلزپارٹی کو بوجھ محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوشلسٹ اکانومی سے تائب ہو چکی تھی اور مارکیٹ اکانومی اب اس کا بھی منشور تھا ۔
ایک روز میں انٹرویو کے لیے ان کے فلیٹ پر پہنچا۔ نگران وزیراعظم تو وہ بعد میں بنے لیکن اس وقت تک وہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی رہ چکے تھے۔لکشمی مینشن ان کے فلیٹ کی حالت دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ( یاد رہے کہ یہ وہی لکشمی مینشن ہے، جس کے ایک فلیٹ میں کسی زمانہ میں سعادت حسن منٹو بھی رہا کرتے تھے۔) ملک صاحب نے خود ہی دروازہ کھولا، بڑی شفقت سے ملے۔ اندر ڈرائنگ روم، جس کو بیٹھک کہنا زیادہ موزوں ہو گا، اس کی حالت بھی واجبی سی تھی۔ کھڑکیاں باہر کی طرف کھل رہی تھیں۔فرنیچر پرانا اور بوسیدہ۔ میں نے ساری زندگی میں کسی سیاست دان کا اس طرح کا سادہ گھر اور سادہ رہن سہن نہیں دیکھا۔ ملک صاحب بیٹھک میں آئے ان کے ایک ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیا اور دوسرے ہاتھ میں پمفلٹ تھا، جس میںسوشلسٹ اصولوں کے تحت پاکستان کے معاشی مسائل کا حل تجویز کیا گیاتھا۔ یہ پمفلٹ انھی کا تحریر کردہ تھا۔
ستمبر میں چونکہ مرد درویش کا یوم پیدایش بھی ہے، لہٰذا اس کی مناسبت سے ان کی ابتدائی زندگی کی ایک ولولہ انگیز جھلک ضرور نذر قارئین کروں گا۔ انھوں نے لاہور کے نواح میں واقع برکی گاؤں کے ایک غریب کاشت کار خاندان میں آنکھ کھولی۔چار بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے تھے۔پڑھنے کا بے حد شوق تھا، لیکن گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔
قریب ترین اسکول بھی ڈیڑھ میل دورتھا۔ وہاں سے امتیازی نمبروں سے مڈل کرنے کی وجہ سے سینٹرل ماڈل اسکول میں داخلہ تو مل گیا، لیکن والدین میں ان کو مزید پڑھانے کی سکت نہیں تھی۔یہ اسکول ان کے گاوں سے 13 میل دور بھی تھا۔ معراج خالد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کریں گے۔ اس طرح کہ اب علی الصبح اٹھیں گے ، مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کریں گے ، اس کو ایک ڈرم میں ڈالیں گے اور ریڑھے پر لاد کر شہر جا کر بیچیں گے، اور وہاں ہی سے فارغ ہو کراسکول چلے جایا کریں گے۔
ان کے بقول ، یہاں نواب مظفر قزلباش کی حویلی میں بھی وہی دودھ پہنچاتے تھے۔ اس زمانہ میں انھوں نے بڑی مشکل سے اسکول کے جوتے خریدے، تو ان کو زیادہ گھسنے سے بچانے کے لیے ایک کپڑے میںلپیٹ کر ریڑھے پر رکھ لیا کرتے اور جب تک مختلف گھروں میں دودھ تقسیم کرتے ، والد کے پرانے دیسی جوتے پہنے رکھتے اور صرف اسکول کے وقت میں ہی اسکول کے جوتے پہنتے تھے۔
اسلامیہ کالج ریلوے روڈ پہنچے تو یہاں بھی دودھ بیچنے کا معمول برقرار رکھا، لیکن اس پر ان کو کبھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔اس زمانہ میں ہی وہ مارکسزم سے متاثر ہوئے، جس پر بعد میں وہ زندگی بھر قائم رہے۔
جب انھوں نے بی اے کیا تو وہ اپنے گاؤںکے پہلے گریجوایٹ تھے۔ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کچھ عرصہ انھوں نے ایک کمپنی میں کلرکی کی، لیکن پھر ایک نئے عزم کے ساتھ یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے لیا، اورایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔1965ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑااور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،بعد میں کنونشن لیگ میں شامل تو ہوگئے، مگر اس طرح کی پارٹی ان کے مزاج سے مطابقت نہیںرکھتی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پیپلزپارٹی بنائی تو معراج خالد نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر نواب مظفر قزلباش کو شکست دی، جن کی حویلی میں کبھی وہ دودھ پہنچایا کرتے تھے۔
ان دنوں معراج خالد صاحب بھی بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ وجہ اس کی وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری اور سادگی ہے، جو ہر جگہ زیر بحث ہے۔ عمران خان کی یہ مہم قابل ستایش ہے، لیکن بہت کم لوگوںکو اب یاد ہے کہ ان سے پہلے معراج خالد بھی بطور وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی اس طرح کی مثال قائم کر چکے ہیں۔ سادگی، شرافت اور غریب پروری ان کی پہچان تھی۔ ریگل چوک کے ایک طرف عقب میں واقع لکشمی مینشن کے گراونڈ فلور پر ان کا ایک سادہ سا فلیٹ تھا ، جب کہ چوک کے دوسری طرف دیال سنگھ مینشن کے فرسٹ فلور پر ان کا وکالت کا دفتر تھا۔ دیال سنگھ مینشن کے اسی فلور پر ہی لاہور پریس کلب کا پرانا دفتر تھا، روزانہ سرشام جس کی بالکونی پر سب دوستوں کی محفل سجتی تھی۔ معراج خالد عام طورپر پیدل ہی فلیٹ سے نکلتے ، سڑک پار کرکے دیال سنگھ مینشن کی نکڑ پر واقع کھوکھا سے سگریٹ خریدتے اور سیڑھیاں چڑھ کر دفتر پہنچ جاتے تھے۔ سگریٹ بے تحاشا پیتے تھے۔
یہ وہ زمانہ ہے، جب معراج خالد اور بے نظیر بھٹو کے درمیاں دراڑیں پڑچکی تھیں۔ محترمہ کے حامی ان کو ان ''انکلوں'' میں شمار کرتے تھے، جن کی اب پیپلزپارٹی کو ضرورت نہیں تھی۔ لیکن حقیقی وجہ یہ تھی کہ معراج خالد جیسے لوگوں نے جس طرح کی سوچ کے تحت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی ، وہ سوچ اب پیپلزپارٹی کو بوجھ محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوشلسٹ اکانومی سے تائب ہو چکی تھی اور مارکیٹ اکانومی اب اس کا بھی منشور تھا ۔
ایک روز میں انٹرویو کے لیے ان کے فلیٹ پر پہنچا۔ نگران وزیراعظم تو وہ بعد میں بنے لیکن اس وقت تک وہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی رہ چکے تھے۔لکشمی مینشن ان کے فلیٹ کی حالت دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ( یاد رہے کہ یہ وہی لکشمی مینشن ہے، جس کے ایک فلیٹ میں کسی زمانہ میں سعادت حسن منٹو بھی رہا کرتے تھے۔) ملک صاحب نے خود ہی دروازہ کھولا، بڑی شفقت سے ملے۔ اندر ڈرائنگ روم، جس کو بیٹھک کہنا زیادہ موزوں ہو گا، اس کی حالت بھی واجبی سی تھی۔ کھڑکیاں باہر کی طرف کھل رہی تھیں۔فرنیچر پرانا اور بوسیدہ۔ میں نے ساری زندگی میں کسی سیاست دان کا اس طرح کا سادہ گھر اور سادہ رہن سہن نہیں دیکھا۔ ملک صاحب بیٹھک میں آئے ان کے ایک ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیا اور دوسرے ہاتھ میں پمفلٹ تھا، جس میںسوشلسٹ اصولوں کے تحت پاکستان کے معاشی مسائل کا حل تجویز کیا گیاتھا۔ یہ پمفلٹ انھی کا تحریر کردہ تھا۔
ستمبر میں چونکہ مرد درویش کا یوم پیدایش بھی ہے، لہٰذا اس کی مناسبت سے ان کی ابتدائی زندگی کی ایک ولولہ انگیز جھلک ضرور نذر قارئین کروں گا۔ انھوں نے لاہور کے نواح میں واقع برکی گاؤں کے ایک غریب کاشت کار خاندان میں آنکھ کھولی۔چار بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے تھے۔پڑھنے کا بے حد شوق تھا، لیکن گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔
قریب ترین اسکول بھی ڈیڑھ میل دورتھا۔ وہاں سے امتیازی نمبروں سے مڈل کرنے کی وجہ سے سینٹرل ماڈل اسکول میں داخلہ تو مل گیا، لیکن والدین میں ان کو مزید پڑھانے کی سکت نہیں تھی۔یہ اسکول ان کے گاوں سے 13 میل دور بھی تھا۔ معراج خالد نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کریں گے۔ اس طرح کہ اب علی الصبح اٹھیں گے ، مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کریں گے ، اس کو ایک ڈرم میں ڈالیں گے اور ریڑھے پر لاد کر شہر جا کر بیچیں گے، اور وہاں ہی سے فارغ ہو کراسکول چلے جایا کریں گے۔
ان کے بقول ، یہاں نواب مظفر قزلباش کی حویلی میں بھی وہی دودھ پہنچاتے تھے۔ اس زمانہ میں انھوں نے بڑی مشکل سے اسکول کے جوتے خریدے، تو ان کو زیادہ گھسنے سے بچانے کے لیے ایک کپڑے میںلپیٹ کر ریڑھے پر رکھ لیا کرتے اور جب تک مختلف گھروں میں دودھ تقسیم کرتے ، والد کے پرانے دیسی جوتے پہنے رکھتے اور صرف اسکول کے وقت میں ہی اسکول کے جوتے پہنتے تھے۔
اسلامیہ کالج ریلوے روڈ پہنچے تو یہاں بھی دودھ بیچنے کا معمول برقرار رکھا، لیکن اس پر ان کو کبھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔اس زمانہ میں ہی وہ مارکسزم سے متاثر ہوئے، جس پر بعد میں وہ زندگی بھر قائم رہے۔
جب انھوں نے بی اے کیا تو وہ اپنے گاؤںکے پہلے گریجوایٹ تھے۔ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کچھ عرصہ انھوں نے ایک کمپنی میں کلرکی کی، لیکن پھر ایک نئے عزم کے ساتھ یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لے لیا، اورایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت شروع کردی۔1965ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑااور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،بعد میں کنونشن لیگ میں شامل تو ہوگئے، مگر اس طرح کی پارٹی ان کے مزاج سے مطابقت نہیںرکھتی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر پیپلزپارٹی بنائی تو معراج خالد نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر نواب مظفر قزلباش کو شکست دی، جن کی حویلی میں کبھی وہ دودھ پہنچایا کرتے تھے۔