کمیونسٹ سماج کیسا ہوگا

طبقات وجود میں آنے کے بعد ہی ریاست وجود میں آئی۔ تقریبا چھ ہزار سال قبل ریاست کا وجود ہی نہیں تھا۔

zb0322-2284142@gmail.com

پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کمیونزم کیا ہے؟کمیونزم کا مطلب ہے برابری، مساوات، پنچایتی،امداد باہمی یا نسل انسانی وغیرہ وغیرہ۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب طبقات کا خاتمہ ہوگا اور طبقات کا خاتمہ خود بہ خود نہیں ہوگا بلکہ پیداواری قوتیں جب پیداوار نہ کرنے والے حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں گی۔ اس سے قبل یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ طبقہ کیا ہوتا ہے؟ سماج میں بسنے والے ایسے انسانی گروہ جن کے معاشی مفادات یکساں ہوں۔

طبقات وجود میں آنے کے بعد ہی ریاست وجود میں آئی۔ تقریبا چھ ہزار سال قبل ریاست کا وجود ہی نہیں تھا۔ ایسی اسٹیٹ لیس سوسائٹی یا غیر ریاستی سماج لا کھوں برس پر محیط تھا۔ آج کے اعتبار سے معاشرہ بہت پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ تھا، مگرطبقات نہ ہونے کی وجہ سے مل کر پیداوارکرتے تھے اور ملکرکھا لیتے تھے۔ پیداوارکچھ یوں تھی کہ جنگل سے پھلوں کو جمع کرتے، جانور اور پرندوں کا شکارکرتے، دریا اور ندی سے مچھلیاں پکڑتے تھے، یہی ان کی غذا تھی۔

آگ کی دریافت سے گوشت بھون کرکھا لیتے تھے ورنہ اس سے قبل کچا ہی کھا لیتے تھے۔ روسو نے ایسے انسانوں کو ''معصوم وحشی انسان'' کا نام دیا تھا ۔ یقینا ان کی رہائش، کھانا پینا اور طورطریقے پسماندہ تھے لیکن طبقات نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ استحصال۔ جو کچھ شکارکرتے یا پھل توڑتے سب میں بانٹ دیتے تھے۔ ان شکارکیے ہوئے گوشت اور جمع کیے گئے پھلوں کوکوئی ایک یا دو اشخاص سب کو بانٹتا تھا اور وہ بھی اتنا ہی حصہ لیتا تھا جتنا اوروں کو دیتا تھا۔جب ریاست وجود میں آئی تو یہ برابری کے بانٹ کرکھا نے کا نظام ختم ہوگیا۔ بانٹنے وا لوں کو قدیم ہندوستان میں ''بھاگوان'' کہا کرتے تھے یعنی تقسیم کرنے والا۔ جب نجی ملکیت قائم ہوئی تو ریاست وجود میں آئی پھر''بھگوان'' اوپر چلا گیا۔

کسی معصوم وحشی انسانوں کے جتھے میں اگر دو سو آدمی ہوتے تھے اور ان میں سے پانچ افراد شکارکرنے یا پھل بٹورنے جاتے تھے تو وہ شکار یا پھل باقی قبیلے کے تمام افراد میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرتے تھے۔اس وقت اتنے نئے نئے امراض تھے اور نہ اتنے لوگ بھوک سے مرتے تھے۔اب تو اس دنیا کی آدھی دولت کے مالک آٹھ امیر ترین افراد ہیں جب کہ روزانہ اسی کرہ ارض میں صرف بھوک سے پچھتر ہزار انسان مررہے ہیں ۔

یعنی ایک جانب چند لوگ چاند پر پہنچ رہے ہیں تو دوسری جانب افریقہ اور تھرپارکر میں غذائی قلت اور عدم علاج سے چھوٹے چھو ٹے بچے تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار رہے ہیں۔اس لیے ہمیں اس طبقاتی نظام کو اور ریاست جو جبرکا ادارہ ہے کو ختم کرکے سب کو جینے کا حق دینا ہوگا۔ چین کے ایک عظیم دانشور ژن جیا باؤ اپنی کتاب ''نیلی جنت'' میں لکھتے ہیں دسیوں ہزار سال تک چین میں مقامی آبادی کے بقول نیلی جنت قائم تھی یعنی لوگ ہفتے میں دو تین روزکام کرتے تھے اورکام یہ تھاکہ درختوں سے پھل توڑنا، دریاؤں سے مچھلی پکڑنا اورجنگلوں سے شکارکرنا۔


مصنف لکھتے ہیں کہ یہ نیلی جنت کیسی تھی یہ تو مجھے نہیں معلوم مگر یہ معلوم ہے کہ اس وقت طبقات تھے اور نہ ریاست ۔ آگے چل کر مصنف مقامی باشندوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پھر ہمارے ہاں آسمان سے فرشتے نازل ہوئے اور آئین وقانون بنایا۔ جس کے تحت یہ حکم صادرکیا گیا کہ یہ کھاؤ وہ نہ کھاؤ، یہاں جاؤ اور وہاں نہ جاؤ، اس سے ملو اور اس سے نہ ملو، یہاں رہو اور وہاں نہ رہو وغیرہ وغیرہ ۔ اسی روز سے ہماری نیلی جنت کا خاتمہ ہوگیا۔

1906ء میں روس کے عظیم ادیب اور دانشور لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ روس کے عوام میں اتنا شعور آچکا ہے کہ وہ ریاست کے بغیر بھی حکمرانی کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ تو رہیں معلوم تاریخ کی باتیں۔ ہم جاننا چا ہتے ہیں کہ مستقبل کا امداد باہمی ، مساوات یا کمیو نسٹ معاشرہ کیسا ہوگا؟ قدیم کمیونزم کو جدیدکمیونزم میں کیونکر بدلا جاسکے گا۔ ہم جب یہ کہیں گے کہ ریاست کا خاتمہ ہوجائے گا تو آپ فورا سوال کریں گے کہ پھر سارا معا ملہ الٹ پلٹ ہوجائے گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت صرف ایک صدی میں جنگوں، بھوک اور بیماریوں سے پندرہ کروڑ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اس وقت دنیا میں 1542 ارب پتی ( ڈالروں میں ) ہیں۔ ریاست اور ریاستی ذیلی ادارے روزانہ بلاوجہ کھربوں ڈالر اپنے پر خرچ کررہے ہیں۔

ایک ریاست دوسری ریاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اسلحے کا انبار لگا رکھا ہے۔ جب ریاست نہیں ہوگی تو اسلحے کی پیداوار اور تجارت بھی ختم ہوجائے گی۔ سکے ختم کرکے ضروریات زندگی کی اشیاء آپس میں تبادلہ کی جائیں گی۔ ہر شخص اپنے شعبے کے ایک شخص کو ہنر سے آشنا کرے گا، اگر ایک ڈاکٹر اپنی زندگی میں ایک ڈاکٹر بنالے، ایک بڑھئی ایک بڑھئی بنالے تو دنیا میں کوئی ناخواندہ اورکوئی بھی غیر ہنر مند نہیں رہے گا۔ زراعت کی پیداوارکو زرعی دیہی محلہ کمیٹیاں آپس میں ضرورت کے لحاظ سے تبادلہ کرسکتے ہیں۔ صنعتی پیداوارکو مزدورطبقہ خود جب پیداوارکرتا ہے تو اس کی تقسیم اور ترسیل بھی کرسکتا ہے۔

ہر محلے،گا ؤں اورگلی میں مشترکہ باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ بنایا جاسکتا ہے جس میں خواتین کوکچن اور دھوبی گھاٹ سے نجات ملے گی اور وہ تخلیقی کام کریں گی۔ اب تو آدھی آبادی کوکھانا پکانے اورگھر سنبھالنے میں لگا دیا گیا ہے۔ ہر محلہ،گاؤں اورگلی میں ایک کلینک، میٹرنٹی اور ڈسپینسری کھولی جائے گی۔ ان کے اخراجات محلے والے پورے کریں گے۔،کوئی جھگڑا یا نا چاقی ہوئی تو محلہ کمیٹیاں فوری انصاف بھی دیں گے اور صلح بھی کروایں گے۔ یہ صلح صٖفائی اور انصاف رقم کے بغیر لوگ خود آپس میں کریں گے۔ جب طبقات اور طبقاتی استحصال ہی نہیں ہوگا تو بہت کم ہی جھگڑے ہونگے۔ پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طور پر قوموں اور ریاستوںکے درمیان تجارت کیسے ہوگی ۔ قوموں اور ریاستوں کا وجود ہی ختم ہوجائے گا تو پھر دنیا کی سرحدیں بھی ختم ہوجائیں گی ۔ جو جہاں چاہے بس سکتا ہے۔

عظیم ماہر لسانیات پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج سے پچاس برس قبل دنیا میں آٹھ ہزار زبانیں بولی جاتی تھیں جو اب گھٹ کر چھ ہزار سے بھی کم ہوگئی ہیں۔ اس لیے کہ زبانیں اور قومیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں۔ اس وقت دنیا کی سات زبانوں انگریزی، ہسپانوی، روسی، مینڈرین (چینی ) ہندی یا اردو، سوہالی (افریقی) اور انڈونیشین زبانوں میں دوسری زبانیں مدغم ہورہی ہیں۔

ایک تہذیب،ایک ہی تمدن،ایک زبان اور ایک ہی ثقافت ہوجائے گی اوراس وقت مزید اس دنیا میں کیسے بہتری لائی جائے گی وہ اس و قت کے عوام خود طے کریں گے۔ ریڈی میڈ ( مطلق ) کوئی بھی نظام عوام کی مر ضی کے بغیر نہیں چل سکتا ہے۔جیسا کہ دنیا میں درجنوں ممالک میں قائم سوشلسٹ ریاستوں کا خاتمہ بل الخیر ہوا، اس لیے کہ وہاں انقلاب کے بعد کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی نہیں کی گئی۔ اس وقت چین میں پچاس کروڑ عوام دو ڈالر سے کم کماتے ہیں اور دوسری جانب ہر پانچ روزکے بعد ایک ارب پتی پیدا ہورہا ہے۔
Load Next Story