خواجہ صاحب کے خواب اور تعبیریں
خواب اور خیال کی دُنیا کا حقیقت سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔متجسس انسانی فہم و ادراک ہمیشہ سے پیش آمدہ معاملات کے...
خواب اور خیال کی دُنیا کا حقیقت سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔متجسس انسانی فہم و ادراک ہمیشہ سے پیش آمدہ معاملات کے بارے میں جاننے کی جستجو کرتا رہا، اسی لیے مستقبل بینی کو ترقی یافتہ مغربی دُنیا نے باضابطہ فن کا درجہ دے دیا ہے ۔ستاروں کی چالیں ،ہاتھوں کی لکیریں اور نیلے آسمان کی لامتناہی وسعتوں میں بکھری ہوئی کہکشائیں اور روشن ستارے منزلوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حالات وواقعات تعبیر کا بنیادی ذریعہ بھی رہے ہیں ۔ مشرق میں اللہ کے نیک بندوں کو دکھائی دینے والے خواب بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔محترم ومکرم خواجہ غفور ساری زندگی ایسے ہی خواب دیکھتے رہے لیکن یہ اُن کا ذ اتی داخلی معاملہ رہا ۔ خواجہ صاحب کئی دہائیاں پہلے سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئے تھے اور آج تک اللہ سے لَو لگائے ہوئے ہیں۔ راضی بہ رضا ہیں۔
خواجہ صاحب کی عملی زندگی کا میابیوں اور کامرانیوں سے عبارت رہی، معمولی سرکاری نوکری سے آغاز کرکے ایسی بلندیوں اور رفعتوں کو چھوا کہ جس کا صرف تصورہی کیا جا سکتا ہے ۔انگریزی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں ایسی مہارت حاصل کی کہ انگریزوں کی روزمرہ زبان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہے ۔ یہ خواجہ غفور احمد ہیں، جنہوں نے سندھ طاس معاہدے کی تیاری میں وزیر خزانہ جی معین الدین کے معاون کے طور پرواشنگٹن میں تین برس قیام کیا۔ خواجہ صاحب ایسے حسین کہ آج بھی ان کے منورچہرے سے حسن تاباں کی لپٹیں نکلتی محسوس ہوتی ہیں ۔ خواجہ صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور خاص عنایات کی وجہ سے کبھی بھی اپنا دا من آلودہ نہ ہونے دیا۔ سفرفوزوفلاح کے عنوان سے اپنے دو حج اور عمرے کے سفرناموں کی ایسی روح پرور داستان مرتب کی ۔بیت اللہ اور روضہ رسول کے ایسے آداب بیان کیے کہ عقل دنگ رہ گئی ۔یہ ایک سچے توحید پرست عاشق رسول کی داستان ِ حیات کا ایک باب ہے جسے شرف باریابی بھی میسر ہوا۔
پاکستان کی چوٹی کی اشرافیہ کے قدم سے قدم ملا کر چلے، مجال ہے کبھی مرعوبیت کے شکار ہوئے ہوں۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان ،غلام اسحق خاں ، وسیم عون جعفری ، جی معین الدین، قدرت اللہ شہاب نجانے کیسی کیسی ہستیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لیکن کبھی سر جھکایا نہ مرعوب ہوئے، غلام فاروق خان اور غلام اسحق خاں کے ساتھ مل کر واپڈا کی نقش گری میں بنیادی کردار ادا کیا ۔سول سروس اکیڈمی کے ڈائریکٹررہے ،اکبر بگٹی سے وی اے جعفری تک ایسی گفتہ نا گفتنی داستانوں کے چشم دید راوی کہ جسے سن کر آدمی انگلیاں دانتوں میں داب لے، اکل کھرے خواجہ صاحب ہمیشہ سروقد اور سر بلند رہے ۔
پر اسرار علوم سے بھی شغف رہا، چہرہ شناسی، تحریر شناسی اور مستقبل بینی یہ سب کچھ چھپائے رکھا۔ اس میں استثناء یہ کالم نگار رہا جس پرنجانے کیوں اور کیسے مہربان ہوگئے ، بے تکلف دوستوں کی طرح گزشتہ دودہائیوں سے انتہائی حساس ذاتی معلومات پر رازدارانہ گپ شپ بھی کرتے ہیں ۔سابق نگراں وزیراعلیٰ شیخ منظور الہی، مختار مسعود، الہی بخش سومرواور چند ایک دیگر بے تکلف دوست رہ گئے ہیں جن سے فون یا خط سے رابطہ قائم رکھا لیکن اب یہ ذرایع بھی جواب دے چکے ہیں ۔خواجہ صاحب ماشااللہء 92سال بتا چکے ہیں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن 1962میں کرایا تھا ۔اس کے بعد بھر پور زندگی گذاری لیکن ایسی احتیاط کے ساتھ کہ جو صرف خواجہ صاحب جیسے حددرجہ منظم شخص سے ہی ممکن ہے تلاوت کلام پاک اور درود شریف کو عین جوانی سے وظیفہ عمل بنایا جس کا نورانی ہیولہ انھیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
''امرتسر جل رہا ہے''کے مصنف خواجہ افتخار کے برادربزرگ خواجہ غفور ہمارے جیسے عامیوں کی نسبت چوٹی کے اشرافیہ میں زیادہ مشہورومقبول رہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کے ماموں،شریف پورہ ۔امرتسر کے خواجگان کے نامی گرامی فرزند ،خواجہ غفور ملکی تاریخ کے تمام اہم واقعات سے بہت پہلے خواب میں سب کچھ دیکھتے رہے ہیںلیکن یہ ان کے ذاتی واردات قلب کامعاملہ رہا ہے۔جس میں اس کالم نگار کو استثناء حاصل ہے وہ مجھے خطوط کے ذریعے اس طرح کے معاملات میں شریک رکھتے رہے ہیں ۔
انھوں نے 90کی دہائی کے آغاز میں نواز شریف ،غلام اسحق خاں محاذ آرائی کی بہت پہلے پیش گوئی کردی تھی جس کے بعد جنرل آصف نواز کی اچانک موت کا منظرنامہ بھی مکمل جزویات کے ساتھ بیان کیا تھا۔ انھوں نے اس کالم نگار کو یہ حیران کن خبر بھی دی تھی کہ نوازشریف کے خلاف جنگ آزما غلام اسحق خاں بالکل بدلا ہوا آدمی اور ان کے لیے یکسر اجنبی تھاجو جذبات میں مغلوب ہو کر اپنی ساری زندگی کی اُصول پسندی اور راست بازی کو بھلا بیٹھا تھا ۔
یہ کالم نگار نوے کی دہائی کے آغاز پر لاہور سے وفاقی دارالحکومت ،اسلام آبادچلا آیا تھا۔ خواجہ صاحب نے خطوط کے ذریعے ہمیشہ رہنمائی کی اور رابطہ رکھا۔ وہ واحد بزرگ دوست ہیں جنہوں نے پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھی رابطوں کاسلسلہ مسلسل برقرار رکھا۔ اس کالم نگارنے خواجہ صاحب کے اخبار نویس صاحبزادے خواجہ ثاقب غفور شعبہ ابلاغیات میں ایک سال سینئر تھے اور معاصر روزنامہ میں ایک ساتھ کام کیا۔
گذری سرمامیں مدتوں بعد خواجہ صاحب نے طلب کیا ۔معمول کی گپ شپ کے بعد جب پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کسی خواب کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عجیب وغریب خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔یہ گنجلک حل کرلوں تو بتائوں گا ۔تجسس کا مارا یہ کالم نگار بچگانہ ضدپر اتر آیا،ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے لگا کہ دوہائیوں میں خواجہ صاحب کے مزاج میں کسی حد تک دخیل ہوچکاہوں اس لاڈ پیار، ضد اور ہٹ دھرمی کو خواجہ صاحب کمال مہربانی سے خلاف طبع برداشت کر لیتے ہیں۔
خواجہ صاحب نے بتایاکہ خواب میں ایک خوفناک جنگل میں موجود ہوں ۔دیکھتا ہوں کہ دس سے بارہ ہیبت ناک درندے چاروں طرف سے حملہ آورہونے کوہیں، خوف سے میر ابرا حال ہے ۔اچانک دیکھتا ہوں کہ میری طرف دھاڑتے ہوئے لپکنے والے درندے فضا میں خوبصورت بلیوں میں بدل جاتے ہیں جن کی خوبصورت آنکھوں سے رنگ برنگی روشنیاں نکل رہی ہوتی ہیں اور وہ میرے قدموں میں لوٹنے لگتے ہیں پیارے سے میرے پائوں چاٹتے ہیں۔
تعبیر کے بارے میں خواجہ صاحب گومگو کا شکار تھے میرے اصرار پر فرمانے لگے کہ خونخوار جانور میرے دشمن ہیں جنھیں قدرت کاملہ نے بے ضرر پالتوں بلیوں میں بدل دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرے دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی اور وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔خواجہ صاحب کی تعبیر سن کر یہ کالم نگار قہقہہ لگانے سے باز نہ رکھ سکا عرض کی ''اے مردبزرگ، 93سال کی عمر میں اب کون آپ کا دشمن ہوگا آپ تو ایک کمرے تک محدود ہیں اس لیے خواب کی ذاتی تعبیر موثربہ عمل نہیںہے لیکن اگر آپ کی جگہ پاکستان کو رکھ کر تعبیر کیا جائے تو آپ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان تمام درپیش مشکلات سے نکل جائے گااور ہمارے تمام دشمن ناکام ہوجائیں گے۔
یہ سنتے ہی خواجہ صاحب نے فرمایا تعبیر کی اُلجھن حل ہوئی ،یہ واقعی پاکستان ہے جس پر خواب میں چاروں اَور سے آفتیں اور بلائیں خونخوار درندوں کی صورت میں یلغار کررہی تھیں جب کہ قدرت اس کا تحفظ کررہی ہے اور بہت جلد ہم ان تمام مشکلات سے نکل جائیں گے ۔ اسی طرح گزشتہ مہینے ''اسم اعظم''کی برکات سے گنجلک گتھیاں سلجھانے والے جواں سال''مرد بزرگ''جناب عبداللہ بھٹی صاحب سے بھی سرسری ملاقات ہوئی تھی جس میں انھوں نے بڑے یقین سے فرمایا تھا کہ عمران خان نہیں، نواز شریف آ رہے ہیں ، لیکن بدلے ہوئے، یکسرمختلف نواز شریف ، حقیقت یہ ہے کہ اس پیش گوئی کی بالکل سمجھ نہیں آئی تھی کہ آدمی اپنی فطرت کو کیسے بدل سکتا ہے ؟لیکن تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے پہلے اُن کے سیاسی اور انتظامی اقدامات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پُر اسرار روحانی دُنیا سے متعلقہ مردان ِ کار کی پیش گوئیاں حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں ۔
خواجہ صاحب کی عملی زندگی کا میابیوں اور کامرانیوں سے عبارت رہی، معمولی سرکاری نوکری سے آغاز کرکے ایسی بلندیوں اور رفعتوں کو چھوا کہ جس کا صرف تصورہی کیا جا سکتا ہے ۔انگریزی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں ایسی مہارت حاصل کی کہ انگریزوں کی روزمرہ زبان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہے ۔ یہ خواجہ غفور احمد ہیں، جنہوں نے سندھ طاس معاہدے کی تیاری میں وزیر خزانہ جی معین الدین کے معاون کے طور پرواشنگٹن میں تین برس قیام کیا۔ خواجہ صاحب ایسے حسین کہ آج بھی ان کے منورچہرے سے حسن تاباں کی لپٹیں نکلتی محسوس ہوتی ہیں ۔ خواجہ صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور خاص عنایات کی وجہ سے کبھی بھی اپنا دا من آلودہ نہ ہونے دیا۔ سفرفوزوفلاح کے عنوان سے اپنے دو حج اور عمرے کے سفرناموں کی ایسی روح پرور داستان مرتب کی ۔بیت اللہ اور روضہ رسول کے ایسے آداب بیان کیے کہ عقل دنگ رہ گئی ۔یہ ایک سچے توحید پرست عاشق رسول کی داستان ِ حیات کا ایک باب ہے جسے شرف باریابی بھی میسر ہوا۔
پاکستان کی چوٹی کی اشرافیہ کے قدم سے قدم ملا کر چلے، مجال ہے کبھی مرعوبیت کے شکار ہوئے ہوں۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان ،غلام اسحق خاں ، وسیم عون جعفری ، جی معین الدین، قدرت اللہ شہاب نجانے کیسی کیسی ہستیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لیکن کبھی سر جھکایا نہ مرعوب ہوئے، غلام فاروق خان اور غلام اسحق خاں کے ساتھ مل کر واپڈا کی نقش گری میں بنیادی کردار ادا کیا ۔سول سروس اکیڈمی کے ڈائریکٹررہے ،اکبر بگٹی سے وی اے جعفری تک ایسی گفتہ نا گفتنی داستانوں کے چشم دید راوی کہ جسے سن کر آدمی انگلیاں دانتوں میں داب لے، اکل کھرے خواجہ صاحب ہمیشہ سروقد اور سر بلند رہے ۔
پر اسرار علوم سے بھی شغف رہا، چہرہ شناسی، تحریر شناسی اور مستقبل بینی یہ سب کچھ چھپائے رکھا۔ اس میں استثناء یہ کالم نگار رہا جس پرنجانے کیوں اور کیسے مہربان ہوگئے ، بے تکلف دوستوں کی طرح گزشتہ دودہائیوں سے انتہائی حساس ذاتی معلومات پر رازدارانہ گپ شپ بھی کرتے ہیں ۔سابق نگراں وزیراعلیٰ شیخ منظور الہی، مختار مسعود، الہی بخش سومرواور چند ایک دیگر بے تکلف دوست رہ گئے ہیں جن سے فون یا خط سے رابطہ قائم رکھا لیکن اب یہ ذرایع بھی جواب دے چکے ہیں ۔خواجہ صاحب ماشااللہء 92سال بتا چکے ہیں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن 1962میں کرایا تھا ۔اس کے بعد بھر پور زندگی گذاری لیکن ایسی احتیاط کے ساتھ کہ جو صرف خواجہ صاحب جیسے حددرجہ منظم شخص سے ہی ممکن ہے تلاوت کلام پاک اور درود شریف کو عین جوانی سے وظیفہ عمل بنایا جس کا نورانی ہیولہ انھیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔
''امرتسر جل رہا ہے''کے مصنف خواجہ افتخار کے برادربزرگ خواجہ غفور ہمارے جیسے عامیوں کی نسبت چوٹی کے اشرافیہ میں زیادہ مشہورومقبول رہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کے ماموں،شریف پورہ ۔امرتسر کے خواجگان کے نامی گرامی فرزند ،خواجہ غفور ملکی تاریخ کے تمام اہم واقعات سے بہت پہلے خواب میں سب کچھ دیکھتے رہے ہیںلیکن یہ ان کے ذاتی واردات قلب کامعاملہ رہا ہے۔جس میں اس کالم نگار کو استثناء حاصل ہے وہ مجھے خطوط کے ذریعے اس طرح کے معاملات میں شریک رکھتے رہے ہیں ۔
انھوں نے 90کی دہائی کے آغاز میں نواز شریف ،غلام اسحق خاں محاذ آرائی کی بہت پہلے پیش گوئی کردی تھی جس کے بعد جنرل آصف نواز کی اچانک موت کا منظرنامہ بھی مکمل جزویات کے ساتھ بیان کیا تھا۔ انھوں نے اس کالم نگار کو یہ حیران کن خبر بھی دی تھی کہ نوازشریف کے خلاف جنگ آزما غلام اسحق خاں بالکل بدلا ہوا آدمی اور ان کے لیے یکسر اجنبی تھاجو جذبات میں مغلوب ہو کر اپنی ساری زندگی کی اُصول پسندی اور راست بازی کو بھلا بیٹھا تھا ۔
یہ کالم نگار نوے کی دہائی کے آغاز پر لاہور سے وفاقی دارالحکومت ،اسلام آبادچلا آیا تھا۔ خواجہ صاحب نے خطوط کے ذریعے ہمیشہ رہنمائی کی اور رابطہ رکھا۔ وہ واحد بزرگ دوست ہیں جنہوں نے پوسٹ کارڈ کے ذریعے بھی رابطوں کاسلسلہ مسلسل برقرار رکھا۔ اس کالم نگارنے خواجہ صاحب کے اخبار نویس صاحبزادے خواجہ ثاقب غفور شعبہ ابلاغیات میں ایک سال سینئر تھے اور معاصر روزنامہ میں ایک ساتھ کام کیا۔
گذری سرمامیں مدتوں بعد خواجہ صاحب نے طلب کیا ۔معمول کی گپ شپ کے بعد جب پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کسی خواب کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عجیب وغریب خواب دیکھا ہے جس کی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔یہ گنجلک حل کرلوں تو بتائوں گا ۔تجسس کا مارا یہ کالم نگار بچگانہ ضدپر اتر آیا،ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے لگا کہ دوہائیوں میں خواجہ صاحب کے مزاج میں کسی حد تک دخیل ہوچکاہوں اس لاڈ پیار، ضد اور ہٹ دھرمی کو خواجہ صاحب کمال مہربانی سے خلاف طبع برداشت کر لیتے ہیں۔
خواجہ صاحب نے بتایاکہ خواب میں ایک خوفناک جنگل میں موجود ہوں ۔دیکھتا ہوں کہ دس سے بارہ ہیبت ناک درندے چاروں طرف سے حملہ آورہونے کوہیں، خوف سے میر ابرا حال ہے ۔اچانک دیکھتا ہوں کہ میری طرف دھاڑتے ہوئے لپکنے والے درندے فضا میں خوبصورت بلیوں میں بدل جاتے ہیں جن کی خوبصورت آنکھوں سے رنگ برنگی روشنیاں نکل رہی ہوتی ہیں اور وہ میرے قدموں میں لوٹنے لگتے ہیں پیارے سے میرے پائوں چاٹتے ہیں۔
تعبیر کے بارے میں خواجہ صاحب گومگو کا شکار تھے میرے اصرار پر فرمانے لگے کہ خونخوار جانور میرے دشمن ہیں جنھیں قدرت کاملہ نے بے ضرر پالتوں بلیوں میں بدل دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میرے دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی اور وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔خواجہ صاحب کی تعبیر سن کر یہ کالم نگار قہقہہ لگانے سے باز نہ رکھ سکا عرض کی ''اے مردبزرگ، 93سال کی عمر میں اب کون آپ کا دشمن ہوگا آپ تو ایک کمرے تک محدود ہیں اس لیے خواب کی ذاتی تعبیر موثربہ عمل نہیںہے لیکن اگر آپ کی جگہ پاکستان کو رکھ کر تعبیر کیا جائے تو آپ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان تمام درپیش مشکلات سے نکل جائے گااور ہمارے تمام دشمن ناکام ہوجائیں گے۔
یہ سنتے ہی خواجہ صاحب نے فرمایا تعبیر کی اُلجھن حل ہوئی ،یہ واقعی پاکستان ہے جس پر خواب میں چاروں اَور سے آفتیں اور بلائیں خونخوار درندوں کی صورت میں یلغار کررہی تھیں جب کہ قدرت اس کا تحفظ کررہی ہے اور بہت جلد ہم ان تمام مشکلات سے نکل جائیں گے ۔ اسی طرح گزشتہ مہینے ''اسم اعظم''کی برکات سے گنجلک گتھیاں سلجھانے والے جواں سال''مرد بزرگ''جناب عبداللہ بھٹی صاحب سے بھی سرسری ملاقات ہوئی تھی جس میں انھوں نے بڑے یقین سے فرمایا تھا کہ عمران خان نہیں، نواز شریف آ رہے ہیں ، لیکن بدلے ہوئے، یکسرمختلف نواز شریف ، حقیقت یہ ہے کہ اس پیش گوئی کی بالکل سمجھ نہیں آئی تھی کہ آدمی اپنی فطرت کو کیسے بدل سکتا ہے ؟لیکن تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے سے پہلے اُن کے سیاسی اور انتظامی اقدامات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پُر اسرار روحانی دُنیا سے متعلقہ مردان ِ کار کی پیش گوئیاں حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں ۔