اسفندیار شیر پاؤ افضل خان یا محمود خان اچکزئی
’’پشتو‘‘ ایک قانون، ایک دستور اور ایک آئین ہے جس کی دفعات یا روایات ہر دور اور ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہیں اور کوئی...
عام طور پر زبان کی نسبت قوم سے ہوتی ہے، پنجاب کے رہنے والے پنجابی اور ان کی زبان پنجابی کہلاتی ہے، سندھ کے باسیوں کی زبان کا نام سندھی ہے اس طرح کشمیر، بلوچستان وغیرہ کا مسئلہ ہے لیکن پختونوں کا معاملہ قطعی برعکس ہے یہاں اولیت زبان کو حاصل ہے اور پشتو زبان بولنے والوں کا نام پختون ہوتا ہے، ثبوت اور شہادت اس کی یہ ہے کہ اسی نسل اور نژاد کے لوگ جب دوسرے ممالک میں رچ بس کر دوسری زبان بولتے ہیں تو وہ پختون نہیں بلکہ افغان کہلائے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ''پشتو'' صرف الفاظ کے ایک مجموعے کا نام نہیں بلکہ ایک غیر تحریرشدہ آئین اور قانون کا نام ہے۔
اب یہ قانون اچھا ہے یا برا ہے، یہ الگ بات ہے لیکن بہرحال ''پشتو'' ایک قانون، ایک دستور اور ایک آئین ہے جس کی دفعات یا روایات ہر دور اور ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہیں اور کوئی ان میں تبدیلی نہیں کر سکتا ہے حالانکہ آج کل کی نئی دنیا میں یہ ''مجموعہ قوانین'' پختون قوم کے لیے سراسر خسارے پر مبنی ہے اور اسے قتل و قتال تشدد اور جاہلانہ بہادری میں الجھا کر بہت پیچھے دھکیل چکا ہے لیکن پھر بھی ان پر عمل درآمد ہی پختونیت کے لیے لازم ہے کیونکہ ان قوانین سے سرتابی کرنے والا پختون ہونے کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اسے اس قسم کے طعنے سننا پڑتے ہیں کہ تم میں تو کوئی پشتو ہی نہیں ہے، ارے یہ کام پشتو کا ہے جو تم نے کیا ہے۔
تمہارے اندر ذرا بھی پشتو ہوتی تو تم ایسا نہ کرتے وغیرہ وغیرہ، ویسے تو اس قانون اور آئین کی بہت سی دفعات ہیں جو کہیں لکھی ہوئی نہیں ہیں لیکن ہر پختون کو ازبر ہوتی ہیں اور وہ جانتا ہے کہ کن حالات میں کیا کرنا پشتو ہے اور کیا کرنا پشتو نہیں ہے لیکن ان میں جو سب سے پہلی غیر مبدل اور متفقہ دفعہ ہے، وہ ہے کسی بھی حالت میں فرار نہ ہونا، جان دینا لیکن آن نہیں دینا۔ پیٹھ پر گولی کھانا، میدان چھوڑ کر بھاگنا یا خوف زدہ ہو کر فرار حاصل کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں جس کی کوئی معذرت نہیں اور کوئی بھی جواز نہیں ہے اور یہی وہ جرم ہے جس کی سزا گزشتہ الیکشن میں ہمارے کچھ پشتونیت کے دعویداروں کو بھگتنا پڑی، باقی سب کچھ ایک طرف کر دیجیے۔
سیاست اور سیاست کے اسرار و رموز کو گولی ماریئے لیکن پشتون فرار ہونے والوں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا اور پھر اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عام سپاہی اگر فرار ہو جائے تو اتنی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اگر سپہ سالار یا سرکردہ لوگ میدان چھوڑ جائیں تو یہ بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، ہمارے پاس اس وقت چند مثالیں ہیں، اس خطے میں جو خطرناک حالات رونما ہوئے ان کا سامنا سب کو تھا، یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ،کیسے پیدا ہوئے، یہ بحث ایک طرف کر دیجیے لیکن بہرحال یہ حالات پیدا ہو گئے۔
ان میں ''پختون مشران'' کہلانے والے یا مدعی ایک تو آفتاب شیر پائو تھے دوسرے لالہ افضل خان تھے، تیسرے محمود خان اچکزئی تھے اور چوتھے ہمارے اسفندیار ولی خان تھے جن کا رتبہ سب سے بڑا تھا اور دعویٰ اس سے بھی بڑا تھا لیکن باقی تینوں اپنی جگہ موجود رہے ڈٹے رہے لیکن افسوس کہ اسفندیار ولی خان اس امتحان میں ناکام ثابت ہوئے، ہمارا دعویٰ ہے اور خلفیہ حد تک کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جناب اسفندیار ولی خان کا اپنا کوئی دوش نہیں تھا، ہم ان پر فرار اور بھاگنے کا الزام بھی نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جن لوگوں کی اولاد میں سے ہیں ان کو آگ کے دریاؤں میں سے ''ڈوب'' کر زندگی بھر جانا پڑا بلکہ ایک کے بعد ایک آگ کے دریا کو عبور کرنا پڑا۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بلکہ انھوں نے ہزاروں ایسے افراد پیدا کیے جو لاٹھیوں، گولیوں اور ٹینکوں کے آگے ہاتھ باندھ کھڑے ہو جاتے تھے یا لیٹ جاتے تھے اور تعجب کی بات ہے کہ انھیں جوابی کارروائی، جان بچانے یا لڑائی کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی صرف مرنا ہوتا تھا چنانچہ ایسے لوگوں کی اولاد بزدل ہو ہی نہیں سکتی البتہ دھوکا کھا سکتی ہے اور اسفندیار ولی خان کو بھی اپنے بھولے پن میں یہ دھوکا کھانا پڑا، کیونکہ اب تو یہ سوال بھی اکثر ذہنوں میں اٹھ رہا ہے کہ کیا ان کے حجرے میں دھماکا واقعی طالبان یا دشمنوں نے کیا تھا؟ ذمے داریاں قبول کرنے یا ''چور ہے چور ہے'' کی آوازیں بھی کوئی معنی نہیں رکھتیں لیکن یہ بات ضرور معنی رکھتی ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں فائدہ کس کا تھا اور کس نے جھولیاں بھر بھر کر فوائد حاصل کیے کیونکہ اگر وہ برسر میدان ہوتے تو جو کچھ ہو رہا تھا جو لوٹ مچ رہی تھی اور جدی پشتی خدائی خدمت گاروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اور سوداگر لوگ سب کچھ ہاتھ میں لے کر ملبہ اس پر ڈال رہے تھے وہ ان تک پہنچ جاتے اور صحیح صورت حال سے آگاہ کر دیتے لیکن تحریک کے اصل اور جدی پشتی لوگوں سے ان کو دور رکھا گیا اور ایسے نادیدہ فولادی پنجرے میں یا قلعے میں رکھا گیا کہ اصل حالات کی بھنک بھی انھیں نہ ملے اور وہ وہی کچھ دیکھے سنے اور سمجھے جو یہ عناصر کرنا چاہتے تھے۔
عام آدمی، عام خدائی خدمت گار تو کیا پشتی قربانیاں دینے والوں سے بھی ان کو کاٹ کر رکھا گیا، دھماکے کی ابھی فضاء میں گونج باقی تھی کہ انھیں اچک کر بہت دور لے جایا گیا، ان کو اتنا ڈرایا گیا کہ ہیلی کاپٹر تک بھی دوڑ کر گئے اور پھر عوام کے پاس کبھی نہیں لوٹے اور وہ عناصر عوام کی درگت بناتے رہے، اس سے زیادہ کمال فن اور کیا ہو گا کہ آج بدنامیاں، ناکامیاں، محرومیاں سب ان کی ہیں، شکست کا داغ بھی ان کے ماتھے پر ہے اور ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں جب کہ وہ عناصر سینیٹر اور ممبر اور لیڈر بن کر مستحکم ہو چکے ہیں، اب اگر وہ اس نقصان کا ازالہ کرنا چاہتے تو بھی ناممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ہے۔
ایک ٹوٹے پھوٹے برباد شدہ بلکہ تنکا تنکا گھر کو دوبارہ سیمٹنے میں شاید اتنا ہی عرصہ لگے، جتنا عرصہ اسے بنانے میں لگا تھا، چنانچہ پختون قوم اس وقت ایک ایسی کشتی میں بیٹھی ہے جس کا کوئی ملاح نہیں ہے، ایسے گھوڑے پر سوار ہے جس کی لگام ہی نہیں ہے، ایسے مسافر کی طرح ہے جسے منزل کا راستہ ہی دکھائی نہیں دے رہا ہے، اس لیے اب اسے سوچنا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسے رہبر بنانا ہے عملاً کوئی ایسا رہبر موجود نہیں جو پورے قافلے کی رہنمائی کر سکے تین نام موجود ہیں، آفتاب شیر پائو، لالہ افضل خان اور محمود خان اچکزئی، ان میں سے کس کو چننا ہے، یہ پختونوں کی مرضی ہے کیونکہ پختون ایک عجیب و غریب ٹیڑھی کھوپڑی والی قوم ہے، پلک جھپکنے میں یہ کسی کو سر کا تاج بھی بنا سکتے ہیں اور سر کے تاج کو زمین پر پٹخ کر جوتوں تلے کچل بھی سکتے ہیں جیسا کہ ابھی ابھی انھوں نے کیا، اس لیے اس کی رہنمائی کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے جن تین لوگوں کا ہم نے ذکر کیا ان میں افضل خان لالہ تو بہت معمر ہو چکے ہیں۔
آفتاب شیر پائو میں کافی صلاحیتیں موجود ہیں لیکن وہ بہادر ہیں، وفادار ہیں اور کافی تجربہ کار بھی ہیں لیکن پوری قوم کی قیادت کے لیے ان کے پاس جذبہ تو ہے لیکن کوئی ٹھوس اور واضح نظریہ نہیں ہے، وہ ملک کے ایک سیاسی لیڈر تو ہیں لیکن ساتھ ہی ایک عام اور اقتدار کی منزل کے مسافر ہیں، لے دے کر صرف ایک محمود خان اچکزئی ہی صلاحیت رکھتے ہیں جو اگر آزمائے جائیں تو پختون قوم کی قیادت کر سکتے ہیں، ممکن ہے کے پی کے میں کچھ محدود سوچ کے لوگ اس بات پر ناک بھوں چڑھائیں کہ وہ ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھول جاتے ہیں، پختون قومیت سرکاری اور پرانی بلکہ قدیم ''سرحدوں'' کی پابند نہیں ہے بلکہ ان سرحدوں کو پختون قومیت کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہے، ان سرحدوں کو بھول کر اگر دیکھا جائے تو محمود خان اچکزئی ہی ایک ایسے لیڈر نظر آتے ہیں جو نہایت سوچ متعدل مزاج جمہوریت کے علمبردار اور ''پشتو'' کے آئین و دستور کے مطابق پختونوں کے رہنما ہو سکتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ پختون دانش وروں اور خود محمود اچکزئی کو اس نکتے پر ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ بہتر وقت شاید کبھی نہ آئے۔
اب یہ قانون اچھا ہے یا برا ہے، یہ الگ بات ہے لیکن بہرحال ''پشتو'' ایک قانون، ایک دستور اور ایک آئین ہے جس کی دفعات یا روایات ہر دور اور ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہیں اور کوئی ان میں تبدیلی نہیں کر سکتا ہے حالانکہ آج کل کی نئی دنیا میں یہ ''مجموعہ قوانین'' پختون قوم کے لیے سراسر خسارے پر مبنی ہے اور اسے قتل و قتال تشدد اور جاہلانہ بہادری میں الجھا کر بہت پیچھے دھکیل چکا ہے لیکن پھر بھی ان پر عمل درآمد ہی پختونیت کے لیے لازم ہے کیونکہ ان قوانین سے سرتابی کرنے والا پختون ہونے کے دائرے سے نکل جاتا ہے اور اسے اس قسم کے طعنے سننا پڑتے ہیں کہ تم میں تو کوئی پشتو ہی نہیں ہے، ارے یہ کام پشتو کا ہے جو تم نے کیا ہے۔
تمہارے اندر ذرا بھی پشتو ہوتی تو تم ایسا نہ کرتے وغیرہ وغیرہ، ویسے تو اس قانون اور آئین کی بہت سی دفعات ہیں جو کہیں لکھی ہوئی نہیں ہیں لیکن ہر پختون کو ازبر ہوتی ہیں اور وہ جانتا ہے کہ کن حالات میں کیا کرنا پشتو ہے اور کیا کرنا پشتو نہیں ہے لیکن ان میں جو سب سے پہلی غیر مبدل اور متفقہ دفعہ ہے، وہ ہے کسی بھی حالت میں فرار نہ ہونا، جان دینا لیکن آن نہیں دینا۔ پیٹھ پر گولی کھانا، میدان چھوڑ کر بھاگنا یا خوف زدہ ہو کر فرار حاصل کرنا ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں جس کی کوئی معذرت نہیں اور کوئی بھی جواز نہیں ہے اور یہی وہ جرم ہے جس کی سزا گزشتہ الیکشن میں ہمارے کچھ پشتونیت کے دعویداروں کو بھگتنا پڑی، باقی سب کچھ ایک طرف کر دیجیے۔
سیاست اور سیاست کے اسرار و رموز کو گولی ماریئے لیکن پشتون فرار ہونے والوں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا اور پھر اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عام سپاہی اگر فرار ہو جائے تو اتنی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اگر سپہ سالار یا سرکردہ لوگ میدان چھوڑ جائیں تو یہ بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے، ہمارے پاس اس وقت چند مثالیں ہیں، اس خطے میں جو خطرناک حالات رونما ہوئے ان کا سامنا سب کو تھا، یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ،کیسے پیدا ہوئے، یہ بحث ایک طرف کر دیجیے لیکن بہرحال یہ حالات پیدا ہو گئے۔
ان میں ''پختون مشران'' کہلانے والے یا مدعی ایک تو آفتاب شیر پائو تھے دوسرے لالہ افضل خان تھے، تیسرے محمود خان اچکزئی تھے اور چوتھے ہمارے اسفندیار ولی خان تھے جن کا رتبہ سب سے بڑا تھا اور دعویٰ اس سے بھی بڑا تھا لیکن باقی تینوں اپنی جگہ موجود رہے ڈٹے رہے لیکن افسوس کہ اسفندیار ولی خان اس امتحان میں ناکام ثابت ہوئے، ہمارا دعویٰ ہے اور خلفیہ حد تک کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جناب اسفندیار ولی خان کا اپنا کوئی دوش نہیں تھا، ہم ان پر فرار اور بھاگنے کا الزام بھی نہیں لگاتے کیوں کہ وہ جن لوگوں کی اولاد میں سے ہیں ان کو آگ کے دریاؤں میں سے ''ڈوب'' کر زندگی بھر جانا پڑا بلکہ ایک کے بعد ایک آگ کے دریا کو عبور کرنا پڑا۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بلکہ انھوں نے ہزاروں ایسے افراد پیدا کیے جو لاٹھیوں، گولیوں اور ٹینکوں کے آگے ہاتھ باندھ کھڑے ہو جاتے تھے یا لیٹ جاتے تھے اور تعجب کی بات ہے کہ انھیں جوابی کارروائی، جان بچانے یا لڑائی کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی صرف مرنا ہوتا تھا چنانچہ ایسے لوگوں کی اولاد بزدل ہو ہی نہیں سکتی البتہ دھوکا کھا سکتی ہے اور اسفندیار ولی خان کو بھی اپنے بھولے پن میں یہ دھوکا کھانا پڑا، کیونکہ اب تو یہ سوال بھی اکثر ذہنوں میں اٹھ رہا ہے کہ کیا ان کے حجرے میں دھماکا واقعی طالبان یا دشمنوں نے کیا تھا؟ ذمے داریاں قبول کرنے یا ''چور ہے چور ہے'' کی آوازیں بھی کوئی معنی نہیں رکھتیں لیکن یہ بات ضرور معنی رکھتی ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں فائدہ کس کا تھا اور کس نے جھولیاں بھر بھر کر فوائد حاصل کیے کیونکہ اگر وہ برسر میدان ہوتے تو جو کچھ ہو رہا تھا جو لوٹ مچ رہی تھی اور جدی پشتی خدائی خدمت گاروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اور سوداگر لوگ سب کچھ ہاتھ میں لے کر ملبہ اس پر ڈال رہے تھے وہ ان تک پہنچ جاتے اور صحیح صورت حال سے آگاہ کر دیتے لیکن تحریک کے اصل اور جدی پشتی لوگوں سے ان کو دور رکھا گیا اور ایسے نادیدہ فولادی پنجرے میں یا قلعے میں رکھا گیا کہ اصل حالات کی بھنک بھی انھیں نہ ملے اور وہ وہی کچھ دیکھے سنے اور سمجھے جو یہ عناصر کرنا چاہتے تھے۔
عام آدمی، عام خدائی خدمت گار تو کیا پشتی قربانیاں دینے والوں سے بھی ان کو کاٹ کر رکھا گیا، دھماکے کی ابھی فضاء میں گونج باقی تھی کہ انھیں اچک کر بہت دور لے جایا گیا، ان کو اتنا ڈرایا گیا کہ ہیلی کاپٹر تک بھی دوڑ کر گئے اور پھر عوام کے پاس کبھی نہیں لوٹے اور وہ عناصر عوام کی درگت بناتے رہے، اس سے زیادہ کمال فن اور کیا ہو گا کہ آج بدنامیاں، ناکامیاں، محرومیاں سب ان کی ہیں، شکست کا داغ بھی ان کے ماتھے پر ہے اور ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں جب کہ وہ عناصر سینیٹر اور ممبر اور لیڈر بن کر مستحکم ہو چکے ہیں، اب اگر وہ اس نقصان کا ازالہ کرنا چاہتے تو بھی ناممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ہے۔
ایک ٹوٹے پھوٹے برباد شدہ بلکہ تنکا تنکا گھر کو دوبارہ سیمٹنے میں شاید اتنا ہی عرصہ لگے، جتنا عرصہ اسے بنانے میں لگا تھا، چنانچہ پختون قوم اس وقت ایک ایسی کشتی میں بیٹھی ہے جس کا کوئی ملاح نہیں ہے، ایسے گھوڑے پر سوار ہے جس کی لگام ہی نہیں ہے، ایسے مسافر کی طرح ہے جسے منزل کا راستہ ہی دکھائی نہیں دے رہا ہے، اس لیے اب اسے سوچنا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسے رہبر بنانا ہے عملاً کوئی ایسا رہبر موجود نہیں جو پورے قافلے کی رہنمائی کر سکے تین نام موجود ہیں، آفتاب شیر پائو، لالہ افضل خان اور محمود خان اچکزئی، ان میں سے کس کو چننا ہے، یہ پختونوں کی مرضی ہے کیونکہ پختون ایک عجیب و غریب ٹیڑھی کھوپڑی والی قوم ہے، پلک جھپکنے میں یہ کسی کو سر کا تاج بھی بنا سکتے ہیں اور سر کے تاج کو زمین پر پٹخ کر جوتوں تلے کچل بھی سکتے ہیں جیسا کہ ابھی ابھی انھوں نے کیا، اس لیے اس کی رہنمائی کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے جن تین لوگوں کا ہم نے ذکر کیا ان میں افضل خان لالہ تو بہت معمر ہو چکے ہیں۔
آفتاب شیر پائو میں کافی صلاحیتیں موجود ہیں لیکن وہ بہادر ہیں، وفادار ہیں اور کافی تجربہ کار بھی ہیں لیکن پوری قوم کی قیادت کے لیے ان کے پاس جذبہ تو ہے لیکن کوئی ٹھوس اور واضح نظریہ نہیں ہے، وہ ملک کے ایک سیاسی لیڈر تو ہیں لیکن ساتھ ہی ایک عام اور اقتدار کی منزل کے مسافر ہیں، لے دے کر صرف ایک محمود خان اچکزئی ہی صلاحیت رکھتے ہیں جو اگر آزمائے جائیں تو پختون قوم کی قیادت کر سکتے ہیں، ممکن ہے کے پی کے میں کچھ محدود سوچ کے لوگ اس بات پر ناک بھوں چڑھائیں کہ وہ ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھول جاتے ہیں، پختون قومیت سرکاری اور پرانی بلکہ قدیم ''سرحدوں'' کی پابند نہیں ہے بلکہ ان سرحدوں کو پختون قومیت کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہے، ان سرحدوں کو بھول کر اگر دیکھا جائے تو محمود خان اچکزئی ہی ایک ایسے لیڈر نظر آتے ہیں جو نہایت سوچ متعدل مزاج جمہوریت کے علمبردار اور ''پشتو'' کے آئین و دستور کے مطابق پختونوں کے رہنما ہو سکتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ پختون دانش وروں اور خود محمود اچکزئی کو اس نکتے پر ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ بہتر وقت شاید کبھی نہ آئے۔