میاں برادران سے عوامی توقعات
شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران جب انھوں نے پیر پگاڑا سے ملاقات کی تو پیر صاحب نے میاں صاحب...
شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران جب انھوں نے پیر پگاڑا سے ملاقات کی تو پیر صاحب نے میاں صاحب کو باور کرایا کہ اقتدار بار بار نہیں ملتا لہٰذا اس اقتدار کے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں برادران کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ میاں صاحبان کو ملک کا اقتدار انتہائی مشکل دور میں مل رہا ہے اور لا تعداد اہم مسائل نئے حکمرانوں کی ناکامی کے لیے منہ پھاڑے موجود ہیں۔ نواز شریف خود کہہ چکے ہیں کہ ملک کا خزانہ خالی ہے، جب کہ بجلی کے مسئلے کے حل کے لیے اربوں روپے درکار ہیں۔ اس لیے وہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے کہ یہ مسئلہ کب حل ہو گا۔
پی پی کی حکومت نے اپنے 5 سال میں اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا اسے صرف اور صرف ملک دشمنی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے اور صدر زرداری ملک و قوم پر جتنے بھاری ثابت ہوئے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور 5 سالہ دور کے مزید حقائق تو اب نئی حکومت میں ہی سامنے آئیں گے۔
شریف برادران نے انتخابی مہم میں قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ شیر کو ووٹ دیں اور تیر، بلے اور سائیکل کو مسترد کر دیں۔ کیونکہ بلا ن لیگ کے ووٹ خراب کرے گا اور تیر اور سائیکل کے ووٹ سے ملک میں تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ قوم نے میاں برادران کے کہنے پر عمل کیا اور ملک میں ینگ پارلیمنٹ دیکھنے والوں کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ مسلم لیگ ن کو اپنی حکومت کے لیے کسی سیاسی پارٹی کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔
صدر زرداری بھی نواز شریف کو قبل از وقت وزیر اعظم مان چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کی غیر مشروط حمایت کا کہہ چکے ہیں۔ سندھ میں بھی مسلم لیگ کو کچھ نشستیں ملی ہیں اور سندھ کی تیسری بڑی پارٹی مسلم لیگ فنکشنل میاں صاحب کے ساتھ ہے۔ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت بنے گی۔ بلوچ قوم پرست بلوچ صدر کے مقابلے میں نواز شریف پر اعتماد کر رہے ہیں اور عمران خان کی طرف سے کچھ کھوٹ محسوس ہو رہا ہے، نواز شریف سندھ میں پی پی اور متحدہ کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کی پیش کر چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متوقع وزیر اعلیٰ بھی وفاقی حکومت کے ساتھ چلنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ کیونکہ ایوان کی تمام بڑی پارٹیاں بھی کہہ رہی ہیں کہ کوئی جماعت تنہا کچھ نہیں کر سکتی اور عوام کا بھی خیال ہے کہ ہمارے تمام رہنمائوں کو مل بیٹھ کر ہی ملک کو مشکلات سے نکالنا ہو گا۔
نواز شریف کی سابق حکومتوں میں جو غلطیاں ہوئی تھیں ان سے میاں صاحب سبق حاصل کر چکے ہیں اور اب انھیں اپنا دل مزید وسیع کرنا ہو گا اور دوسروں کی غلطیوں کو بھی نظر انداز کر کے انھیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ شہباز شریف گو کہ اب نواز شریف کے بعد دوسرے بڑے لیڈر ہیں۔ جنھوں نے بلوچستان اور سندھ کے معاملات کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ حقیقت پی پی، ق لیگ اور تحریک انصاف کے علاوہ ہر کوئی مان رہا ہے کہ ان کی پنجاب حکومت کی کارکردگی نے مسلم لیگ ن کو یہ کامیابی دلائی ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک شہباز شریف ملک کا وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں مگر وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں، افسروں کی خبر لینے میں دیر نہیں کرتے، جب کہ نواز شریف اب محتاط ہو گئے ہیں۔
چوہدری برادران اور دوسرے لوگ کیوں ن لیگ کو چھوڑ گئے تھے۔ ان کی وجوہات میں بھی کچھ وزن تھا۔ ق لیگ کے رہنما پرویز الٰہی نے بھی شاید حقیقت تسلیم کر لی ہے اور وہ خاموش ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے ق لیگ کی حکومت میں شریف برادران کی ٹریکٹر ٹرالی بھی چالان نہیں ہونے دی تھی اور شہباز شریف کی حالیہ حکومت سے بھی ق لیگ کو کسی انتقامی کارروائی کی شکایت کا موقع نہیں ملا البتہ سیاسی بیانات انھوں نے ضرور جاری رکھے۔
چوہدری شجاعت نے حال ہی میں ایوان صدر میں نواز شریف کے پاس آ کر ان سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی اس سے قبل نواز شریف اور شہباز شریف بھی عمران خان کی عیادت کو جا چکے ہیں جو بہت اچھی پیش رفت ہے۔ صدر آصف علی زرداری بھی اپنی مدت یقینی طور پر پوری کر لیں گے جس کے بعد وہ عوام میں جائیں گے تو انھیں بھی پتہ چل جائے گا کہ صدارت کے بعد عوام انھیں کتنی عزت دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعد ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف اور پارلیمانی طور پر پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارٹی ہے اور دونوں کے پاس ایک ایک صوبے کی حکومت بھی ہو گی اور وزیر اعظم نواز شریف کو ان دونوں کے ساتھ بلکہ دونوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا جو نواز شریف کا کڑا امتحان ہو گا۔
لال حویلی کا اکلوتا مکین اب پی پی کی مخالفت میں عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بنوانے کے لیے سرگرم ہے اور عمران خان جان بوجھ کر متحدہ سے فاصلے بڑھا چکے ہیں اس لیے یہ خواب ادھورا ہی رہے گا اور اپوزیشن لیڈر متحدہ کی حمایت سے پی پی کا ہو سکتا ہے جو پی پی کا حق بھی نظر آ رہا ہے۔
متحدہ ملک کی اب بھی چوتھی پارلیمانی قوت بنی ہے جسے سندھ کے امن کے لیے صدر زرداری ساتھ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ متحدہ اگر نواز شریف کو وزیر اعظم کا ووٹ دیتی ہے اور سندھ میں پی پی کی حکومت کا حصہ بنتی ہے یا نہیں بنتی تو کراچی میں امن کے خاطر وفاقی حکومت کو بہت کچھ سوچنا ہو گا اور الطاف حسین کے متنازعہ مبارکباد کے بیان کے برعکس سندھ میں گورنر متحدہ ہی کا برقرار رکھ کر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ سندھ میں اصل حکومت پی پی کے وزیر اعلیٰ کی ہو گی جب کہ گورنر کا عہدہ آئینی ہے اور گورنر صوبے میں وفاق کا نمایندہ ہوتا ہے جس کی تبدیلی سے ن لیگ کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہو گا۔
وفاقی حکومت اور کراچی کے صنعتکار بشمول تجارتی حلقے کبھی نہیں چاہیں گے کہ کراچی موجودہ بدامنی کے بعد سیاسی بدامنی اور انتشار کا شکار رہے تا کہ ملک کو معاشی طور پر مزید نقصان برداشت نہ کرنا پڑے۔ اب ن لیگ کو کراچی کی بھی نمایندگی حاصل ہے اور پہلی بار سندھ میں ایسی حکومت بنے گی جسے وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی اور فری ہینڈ حاصل نہیں ہو گا۔ میاں نواز شریف کو سندھ کی صورتحال اور مسائل پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ کیونکہ پی پی نے سندھ کے عوام کو رشوت پر ملازمتیں تو ضرور دی ہیں مگر سندھی عوام کو جو توقعات تھیں وہ کوئی پوری نہیں ہوئی اور ملک کے عوام کی طرح سندھ کے عوام کو بھی بہت زیادہ توقعات ہیں جن پر پورا اترنا شریف برادران کے لیے مشکل تو ہو گا مگر ناممکن نہیں ہے۔
پی پی کی حکومت نے اپنے 5 سال میں اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا اسے صرف اور صرف ملک دشمنی ہی کا نام دیا جا سکتا ہے اور صدر زرداری ملک و قوم پر جتنے بھاری ثابت ہوئے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور 5 سالہ دور کے مزید حقائق تو اب نئی حکومت میں ہی سامنے آئیں گے۔
شریف برادران نے انتخابی مہم میں قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ شیر کو ووٹ دیں اور تیر، بلے اور سائیکل کو مسترد کر دیں۔ کیونکہ بلا ن لیگ کے ووٹ خراب کرے گا اور تیر اور سائیکل کے ووٹ سے ملک میں تبدیلی نہیں آ سکے گی۔ قوم نے میاں برادران کے کہنے پر عمل کیا اور ملک میں ینگ پارلیمنٹ دیکھنے والوں کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ مسلم لیگ ن کو اپنی حکومت کے لیے کسی سیاسی پارٹی کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔
صدر زرداری بھی نواز شریف کو قبل از وقت وزیر اعظم مان چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کی غیر مشروط حمایت کا کہہ چکے ہیں۔ سندھ میں بھی مسلم لیگ کو کچھ نشستیں ملی ہیں اور سندھ کی تیسری بڑی پارٹی مسلم لیگ فنکشنل میاں صاحب کے ساتھ ہے۔ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت بنے گی۔ بلوچ قوم پرست بلوچ صدر کے مقابلے میں نواز شریف پر اعتماد کر رہے ہیں اور عمران خان کی طرف سے کچھ کھوٹ محسوس ہو رہا ہے، نواز شریف سندھ میں پی پی اور متحدہ کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کی پیش کر چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متوقع وزیر اعلیٰ بھی وفاقی حکومت کے ساتھ چلنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ کیونکہ ایوان کی تمام بڑی پارٹیاں بھی کہہ رہی ہیں کہ کوئی جماعت تنہا کچھ نہیں کر سکتی اور عوام کا بھی خیال ہے کہ ہمارے تمام رہنمائوں کو مل بیٹھ کر ہی ملک کو مشکلات سے نکالنا ہو گا۔
نواز شریف کی سابق حکومتوں میں جو غلطیاں ہوئی تھیں ان سے میاں صاحب سبق حاصل کر چکے ہیں اور اب انھیں اپنا دل مزید وسیع کرنا ہو گا اور دوسروں کی غلطیوں کو بھی نظر انداز کر کے انھیں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ شہباز شریف گو کہ اب نواز شریف کے بعد دوسرے بڑے لیڈر ہیں۔ جنھوں نے بلوچستان اور سندھ کے معاملات کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ حقیقت پی پی، ق لیگ اور تحریک انصاف کے علاوہ ہر کوئی مان رہا ہے کہ ان کی پنجاب حکومت کی کارکردگی نے مسلم لیگ ن کو یہ کامیابی دلائی ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک شہباز شریف ملک کا وزیر اعظم بننے کے اہل ہیں مگر وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں، افسروں کی خبر لینے میں دیر نہیں کرتے، جب کہ نواز شریف اب محتاط ہو گئے ہیں۔
چوہدری برادران اور دوسرے لوگ کیوں ن لیگ کو چھوڑ گئے تھے۔ ان کی وجوہات میں بھی کچھ وزن تھا۔ ق لیگ کے رہنما پرویز الٰہی نے بھی شاید حقیقت تسلیم کر لی ہے اور وہ خاموش ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے ق لیگ کی حکومت میں شریف برادران کی ٹریکٹر ٹرالی بھی چالان نہیں ہونے دی تھی اور شہباز شریف کی حالیہ حکومت سے بھی ق لیگ کو کسی انتقامی کارروائی کی شکایت کا موقع نہیں ملا البتہ سیاسی بیانات انھوں نے ضرور جاری رکھے۔
چوہدری شجاعت نے حال ہی میں ایوان صدر میں نواز شریف کے پاس آ کر ان سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی اس سے قبل نواز شریف اور شہباز شریف بھی عمران خان کی عیادت کو جا چکے ہیں جو بہت اچھی پیش رفت ہے۔ صدر آصف علی زرداری بھی اپنی مدت یقینی طور پر پوری کر لیں گے جس کے بعد وہ عوام میں جائیں گے تو انھیں بھی پتہ چل جائے گا کہ صدارت کے بعد عوام انھیں کتنی عزت دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعد ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف اور پارلیمانی طور پر پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارٹی ہے اور دونوں کے پاس ایک ایک صوبے کی حکومت بھی ہو گی اور وزیر اعظم نواز شریف کو ان دونوں کے ساتھ بلکہ دونوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا جو نواز شریف کا کڑا امتحان ہو گا۔
لال حویلی کا اکلوتا مکین اب پی پی کی مخالفت میں عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بنوانے کے لیے سرگرم ہے اور عمران خان جان بوجھ کر متحدہ سے فاصلے بڑھا چکے ہیں اس لیے یہ خواب ادھورا ہی رہے گا اور اپوزیشن لیڈر متحدہ کی حمایت سے پی پی کا ہو سکتا ہے جو پی پی کا حق بھی نظر آ رہا ہے۔
متحدہ ملک کی اب بھی چوتھی پارلیمانی قوت بنی ہے جسے سندھ کے امن کے لیے صدر زرداری ساتھ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ متحدہ اگر نواز شریف کو وزیر اعظم کا ووٹ دیتی ہے اور سندھ میں پی پی کی حکومت کا حصہ بنتی ہے یا نہیں بنتی تو کراچی میں امن کے خاطر وفاقی حکومت کو بہت کچھ سوچنا ہو گا اور الطاف حسین کے متنازعہ مبارکباد کے بیان کے برعکس سندھ میں گورنر متحدہ ہی کا برقرار رکھ کر فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ سندھ میں اصل حکومت پی پی کے وزیر اعلیٰ کی ہو گی جب کہ گورنر کا عہدہ آئینی ہے اور گورنر صوبے میں وفاق کا نمایندہ ہوتا ہے جس کی تبدیلی سے ن لیگ کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہو گا۔
وفاقی حکومت اور کراچی کے صنعتکار بشمول تجارتی حلقے کبھی نہیں چاہیں گے کہ کراچی موجودہ بدامنی کے بعد سیاسی بدامنی اور انتشار کا شکار رہے تا کہ ملک کو معاشی طور پر مزید نقصان برداشت نہ کرنا پڑے۔ اب ن لیگ کو کراچی کی بھی نمایندگی حاصل ہے اور پہلی بار سندھ میں ایسی حکومت بنے گی جسے وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی اور فری ہینڈ حاصل نہیں ہو گا۔ میاں نواز شریف کو سندھ کی صورتحال اور مسائل پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ کیونکہ پی پی نے سندھ کے عوام کو رشوت پر ملازمتیں تو ضرور دی ہیں مگر سندھی عوام کو جو توقعات تھیں وہ کوئی پوری نہیں ہوئی اور ملک کے عوام کی طرح سندھ کے عوام کو بھی بہت زیادہ توقعات ہیں جن پر پورا اترنا شریف برادران کے لیے مشکل تو ہو گا مگر ناممکن نہیں ہے۔