سی این جی سیکٹر کی بندش سے سب متاثر ہونگے غیاث پراچہ
400 ارب کی سرمایہ کاری ضائع، بیروزگاری و مہنگائی میں اضافہ، ہاتھ کچھ نہیں آئے گا
STOCKHOLM:
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی سپریم کونسل چیئرمین غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا ہے کہ اگر سابقہ حکومت سی این جی ایسوسی ایشن کے مرتب کردہ انرجی ریلیف پلان پر عمل کرتی تو عوام کو کافی حد تک ریلیف مل چکا ہوتا اور معیشت کا پہیہ بھی چل رہا ہوتا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام سیکٹرز کیلیے گیس ٹیرف مساوی، گیس جنریٹرز پر مکمل پابندی اور غیرمعیاری کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس سپلائی بند کرنے کی تجاویز دی تھیں جن پر عمل کرنے سے 550 ایم ایم سی ایف ڈی گیس بچ جاتی جس میں سے اگر 50 فیصد گیس بھی بجلی بنانے کے لیے استعمال کی جائے تو تقریباً 1100 میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے اور بقایا 50 فیصد گیس سی این جی اسٹیشنز اور کارخانوں کو دی جاتی جس سے پنجاب بھرکے تمام اسٹیشنز اور کارخانے ہفتے میں کم از کم 5 دن چل سکتے ہیں اور اس سے حکومت کو اربوں روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوتا۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ صرف شارٹ اور مڈٹرم تجاویز پر عمل کرنے سے بجلی کا مسئلہ 70 فیصد تک حل ہوجائے گا اور تمام کارخانے اور سی این جی سیکٹرز ہفتے میں 7 دن چلیں گے۔
انھوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹر مجموعی پیداوار کا 6.1 فیصد استعمال کرتا ہے جو 256 ایم ایم سی ایف ڈی گیس بنتی ہے جس میں سے 63 ایم ایم سی ایف ڈی خیبر پختونخوا ، 64 ایم ایم سی ایف ڈی سندھ اور 129 ایم ایم سی ایف ڈی پنجاب استعمال کرتا ہے، سندھ اور کے پی کے نے آرٹیکل 158-2(B) کی بنا پر حکم امتناع لے رکھے ہیں لہٰذا وہاں تو سی این جی کو بند نہیں کیا جاسکتا، صرف پنجاب کی 129 ایم ایم سی ایف ڈی گیس لینے سے 500 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ بجلی کا شارٹ فال 7000 میگا واٹ سے زائد ہے یعنی ٹوٹل شارٹ فال کا صرف 7 فیصد بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، تو کیا بجلی کا شارٹ دور ہوجائیگا۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ سی این جی سیکٹر کی بندش سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے، گھریلو صارف کی گیس مہنگی ہو جائے گی کیونکہ گھریلو صارف کو دی جانے والی سبسڈی کا بوجھ سی این جی سیکٹر پر ڈالا جاتا ہے جو 268 ایم ایم بی ٹی یو روپے سی این جی سیکٹر کراس سبسڈی کے نام پر برداشت کرتا ہے، 4 لاکھ افراد بیروزگار اور 35 لاکھ گاڑیاں متاثراوران پر کٹ سلنڈر کی مد میں لگائی گئی انویسٹمنٹ صفر ہوجائیگی، 400 ارب کی سرمایہ کاری تباہ ہو جائے گی، عوام پر سی این جی نہ ملنے کی وجہ سے 23 کروڑ لیٹر ماہانہ پٹرول جس کی مالیت 23 ارب روپے بنتی ہے کا بوجھ پڑ جائیگا، عام آدمی متاثر ہو گا، تمام کمرشل گاڑیاں پٹرول پر چلانے سے کرایوں میں اضافہ،مہنگائی کا سیلاب آجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ طویل مدتی پلاننگ سے دریافت شدہ گیس کو نیٹ ورک میں شامل اور نئی گیس دریافت کرنے کیلیے حکومت آسان پالیسی وضع کرے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی سپریم کونسل چیئرمین غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا ہے کہ اگر سابقہ حکومت سی این جی ایسوسی ایشن کے مرتب کردہ انرجی ریلیف پلان پر عمل کرتی تو عوام کو کافی حد تک ریلیف مل چکا ہوتا اور معیشت کا پہیہ بھی چل رہا ہوتا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام سیکٹرز کیلیے گیس ٹیرف مساوی، گیس جنریٹرز پر مکمل پابندی اور غیرمعیاری کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس سپلائی بند کرنے کی تجاویز دی تھیں جن پر عمل کرنے سے 550 ایم ایم سی ایف ڈی گیس بچ جاتی جس میں سے اگر 50 فیصد گیس بھی بجلی بنانے کے لیے استعمال کی جائے تو تقریباً 1100 میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے اور بقایا 50 فیصد گیس سی این جی اسٹیشنز اور کارخانوں کو دی جاتی جس سے پنجاب بھرکے تمام اسٹیشنز اور کارخانے ہفتے میں کم از کم 5 دن چل سکتے ہیں اور اس سے حکومت کو اربوں روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوتا۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ صرف شارٹ اور مڈٹرم تجاویز پر عمل کرنے سے بجلی کا مسئلہ 70 فیصد تک حل ہوجائے گا اور تمام کارخانے اور سی این جی سیکٹرز ہفتے میں 7 دن چلیں گے۔
انھوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹر مجموعی پیداوار کا 6.1 فیصد استعمال کرتا ہے جو 256 ایم ایم سی ایف ڈی گیس بنتی ہے جس میں سے 63 ایم ایم سی ایف ڈی خیبر پختونخوا ، 64 ایم ایم سی ایف ڈی سندھ اور 129 ایم ایم سی ایف ڈی پنجاب استعمال کرتا ہے، سندھ اور کے پی کے نے آرٹیکل 158-2(B) کی بنا پر حکم امتناع لے رکھے ہیں لہٰذا وہاں تو سی این جی کو بند نہیں کیا جاسکتا، صرف پنجاب کی 129 ایم ایم سی ایف ڈی گیس لینے سے 500 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ بجلی کا شارٹ فال 7000 میگا واٹ سے زائد ہے یعنی ٹوٹل شارٹ فال کا صرف 7 فیصد بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، تو کیا بجلی کا شارٹ دور ہوجائیگا۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ سی این جی سیکٹر کی بندش سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے، گھریلو صارف کی گیس مہنگی ہو جائے گی کیونکہ گھریلو صارف کو دی جانے والی سبسڈی کا بوجھ سی این جی سیکٹر پر ڈالا جاتا ہے جو 268 ایم ایم بی ٹی یو روپے سی این جی سیکٹر کراس سبسڈی کے نام پر برداشت کرتا ہے، 4 لاکھ افراد بیروزگار اور 35 لاکھ گاڑیاں متاثراوران پر کٹ سلنڈر کی مد میں لگائی گئی انویسٹمنٹ صفر ہوجائیگی، 400 ارب کی سرمایہ کاری تباہ ہو جائے گی، عوام پر سی این جی نہ ملنے کی وجہ سے 23 کروڑ لیٹر ماہانہ پٹرول جس کی مالیت 23 ارب روپے بنتی ہے کا بوجھ پڑ جائیگا، عام آدمی متاثر ہو گا، تمام کمرشل گاڑیاں پٹرول پر چلانے سے کرایوں میں اضافہ،مہنگائی کا سیلاب آجائے گا۔ انھوں نے کہا کہ طویل مدتی پلاننگ سے دریافت شدہ گیس کو نیٹ ورک میں شامل اور نئی گیس دریافت کرنے کیلیے حکومت آسان پالیسی وضع کرے۔