’’گارجیئس‘‘ اور عمران خان
جب میں جھریوں سے پر چہرے والے آہنی عزم کے مالک 68 سالہ عمران خان کودیکھتا ہوں توبے ساختہ مجھے ’’گارجئیس‘‘ یاد آجاتا ہے
جب میں انٹرمیڈیٹ میں پڑھا کرتا تھا تو اُس وقت کے انگلش کے نصاب میں ایک سبق تھا، جس کا عنوان تو مجھے یاد نہیں مگر اُس سبق میں بیان کی گئی کہانی اچھی طرح یاد ہے۔ کہانی ایک پُرعزم نوجوان کی زندگی اور حصولِ نصب العین کے گرد گھومتی تھی جس کا نام تھا ''گارجئیس'' تھا۔
گارجئیس بچپن سے ہی سخت کوش اور مہم جو طبیعت کا مالک تھا جس کی دِلچسپی پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ جسمانی مہارتیں دِکھانے میں تھی۔ وہ بچپن سے ہی گُھڑ سواری، دوڑ لگانے، لمبی اور اونچی جست لگانے جیسی درجنوں جسمانی سرگرمیوں میں مشّاق تھا۔
ایک دِن اُس نوجوان کے دِل میں ایک انوکھی خواہش نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ میں اپنی جسمانی توانائیوں اور مہارتوں کو ملک و قوم کی خدمت میں صرف کروں، اپنے ملک کا ''شاہی بازی گر'' بن جاؤں اور ملک کی عظمت میں اضافے کا باعث بنوں۔ اُس کی یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ اُس کے شب و روز شاہی بازی گر بننے کے خیالوں میں بسر ہونے لگے اور اُس نے اپنے دِل میں شاہی بازی گر بننے کی ٹھان لی۔ مگر سب سے بڑی مُشکل جو کہ اُس کی راہ میں حائل تھی، وہ یہ تھی کہ اُس کے ملک کے شاہی دربار میں ''شاہی بازی گر'' کے نام کا کوئی عہدہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اِس مسئلے کے حل کےلیے اُس نے ایک ''طویل المیعاد منصوبہ بندی'' کی اور کامیاب ہوا۔
کہتے ہیں کہ جب آہنی عزم کا ساتھ حاصل ہو تو پھر کامیابی کے رستے میں حائل چٹانیں بھی روئی کے گالے ثابت ہوتی ہیں۔ استقلال وہ قوت ہے جو راہِ پُرخار کو بھی گل و گلزار میں بدل دیتی ہے۔ ایمان و ایقان کے گھوڑے کو ایڑ لگائی جائے تو سمندر بھی رستہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہی عزم و استقلال کا راستہ گارجئیس نے اپنایا۔
گارجئیس نے مقصد کے حصول کےلیے نسبتاً لمبا راستہ اپنایا۔
اُس نے سیاست کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اوائل ایام میں اُس کی بات پر کِسی نے کان نہ دھرا مگر اُس نے کوششش ترک نہ کی۔ اُس نے تقاریر کیں اور اچھی تقاریر کیں۔ وہ ایک ہر دلعزیز لیڈر بنتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مقبولیت کی منازل طے کرتے ہوئے بلآخر وہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ اُس کی آواز شاہی ایوانوں میں سُنی جانے لگی؛ اور اُس کے ادا کیے ہوئے الفاظ اربابِ اِختیار کے زیرِ غور آنے لگے۔
یہی وہ وقت تھا جو اُس کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کےلیے موزوں تھا۔ اُس نے شاہی دربار میں ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کا مطالبہ کیا اور پُرزور دلائل کے ساتھ اپنے مطالبے کا دِفاع کیا۔ اپنے مطالبے کی پُشت پناہی میں اُس نے کئی دوسری سلطنتوں کے درباروں کی مثالیں دیں کہ کِس طرح ''شاہی بازی گر'' کی عہدے کی موجودگی نے اُن سلطنتوں کی شان و شوکت اور جاہ و عظمت میں اضافہ کیا۔ اُس نے اس بات کو دلائل سے ثابت کیا کہ ''شاہی بازی گر'' کا عہدہ اُن کی سلطنت کو دوسری سلطنتوں سے ممتاز کر سکتا ہے۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد آخر کار اُس کا مطالبہ ایوانِ شاہی سے پروانہِ منظوری پا گیا۔ شاہی بازی گر کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور اس کی تخلیق کےلیے گارجئیس کی انتھک محنت کے اعزاز میں اُسے ہی پہلا ''شاہی بازی گر'' مقرر کیا گیا۔ بازی گر کی مہارت اور قابلیت دیکھنے کو ایک ہال خوب سجایا اور سنوارا گیا۔ شاہی خاندان کے افراد بازی گر کی مہارتیں دیکھنے کو ہال میں رونق افروز ہوئے۔ آخر کو ہال کے ایک کونے میں سے سلطنت کا پہلا ''شاہی بازی گر'' لاٹھی ٹیکتے ہوئے نمودار ہوا...
گارجئیس نے اپنا مقصد پا لیا۔ گو کہ وہ خود تو عمر کے اس حصے میں تھا جس میں وہ کسی قسم کی بھی جسمانی مہارت دِکھا کر اپنے ملک کا نام اونچا کرنے سے قاصر تھا مگر اُس ایک ایسے عہدے کی بنیاد رکھی تھی جس نے آگے چل کر ملکی وقار کو دوبالا کرنا تھا۔ مقصد کا حصول اُس کی زندگی کی بیش قیمت دہائیاں کھا گیا مگر اُس کی محنت رنگ لائی اور وہ کامیاب ہو گیا۔
جب میں جُھریوں سے پُر چہرے والے مگر آہنی عزم کے مالک 68 سالہ عمران خان کو دیکھتا ہوں تو بے ساختہ مجھے ''گارجئیس'' یاد آ جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے من میں اس ملک کی خوشحالی کا مقصد لے کر میدانِ ِ سیاست میں قدم رکھا۔ شروع میں اس کو نظر انداز کیا گیا۔ پھر ٹھٹھا اُڑایا گیا، بے عزت کیا گیا۔ تب کہیں جا کے لوگوں نے اس کی آواز پر کان دھرنا شروع کیا؛ مگر ''ہنوز دلی دور است '' کے مصداق ابھی تک بہت سے امتحان باقی تھے۔ بقول اقبال
منزل ابھی بہت دور تھی۔ ابھی آگ کے بہت سے دریا پار کرنے تھے۔ ابھی ذات پر بہت سے رکیک حملے سہنا باقی تھے۔ ہنوز بہت سے الزام لگائے جانے تھے جن پر صبر کرنا تھا۔ ابھی تو ''یہودی ایجنٹ'' بھی کہلوایا جانا تھا۔ ابھی تو ''طالبان خان'' کا تحقیری لقب بھی دیا جانا تھا۔ بہت سا کیچڑ تھا جو کہ اُچھالا جانا باقی تھا، مگر عمران خان نے یہ تمام مراحل خندہ پیشانی سے طے کیے اور آخر کو وہ دِن آن پہنچا جب مملکتِ خُداداد کی عوام نے اُس کی آواز پر لبیک کہا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے پر مشتمل جدوجہد رنگ لے آئی اور وہ اپنے مقصد میں کامران ہوا۔
''گارجئیس'' اور ''عمران خان'' کے کرداروں میں مجھے کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ گارجئیس کے ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کے مطالبے کا محرک بھی اپنی سلطنت کی عزت افزائی کی خواہش تھی اور عمران خان کا مقصد بھی پاکستان کو اقوامِ عالم میں ایک پُروقار مملکت کا مقام دِلوانا تھا۔ گو کہ عمران خان کا پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا مقصد گارجئیس کے ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کے مقصد سے ہزار گنا انقلابی اور مقدس تھا، مگر پھر بھی دونوں کرداروں میں جو چیز مشترک ہے، وہ عزم و ہمت اور جذبہِ حب الوطنی ہے۔ دونوں کہانیاں دو ایسے نوجوانوں کی داستانِ حیات ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اپنے مقصد کے حصول کو دیے اور بامراد ٹھہرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گارجئیس بچپن سے ہی سخت کوش اور مہم جو طبیعت کا مالک تھا جس کی دِلچسپی پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ جسمانی مہارتیں دِکھانے میں تھی۔ وہ بچپن سے ہی گُھڑ سواری، دوڑ لگانے، لمبی اور اونچی جست لگانے جیسی درجنوں جسمانی سرگرمیوں میں مشّاق تھا۔
ایک دِن اُس نوجوان کے دِل میں ایک انوکھی خواہش نے انگڑائی لی کہ کیوں نہ میں اپنی جسمانی توانائیوں اور مہارتوں کو ملک و قوم کی خدمت میں صرف کروں، اپنے ملک کا ''شاہی بازی گر'' بن جاؤں اور ملک کی عظمت میں اضافے کا باعث بنوں۔ اُس کی یہ خواہش اتنی شدید تھی کہ اُس کے شب و روز شاہی بازی گر بننے کے خیالوں میں بسر ہونے لگے اور اُس نے اپنے دِل میں شاہی بازی گر بننے کی ٹھان لی۔ مگر سب سے بڑی مُشکل جو کہ اُس کی راہ میں حائل تھی، وہ یہ تھی کہ اُس کے ملک کے شاہی دربار میں ''شاہی بازی گر'' کے نام کا کوئی عہدہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اِس مسئلے کے حل کےلیے اُس نے ایک ''طویل المیعاد منصوبہ بندی'' کی اور کامیاب ہوا۔
کہتے ہیں کہ جب آہنی عزم کا ساتھ حاصل ہو تو پھر کامیابی کے رستے میں حائل چٹانیں بھی روئی کے گالے ثابت ہوتی ہیں۔ استقلال وہ قوت ہے جو راہِ پُرخار کو بھی گل و گلزار میں بدل دیتی ہے۔ ایمان و ایقان کے گھوڑے کو ایڑ لگائی جائے تو سمندر بھی رستہ پیش کر دیتے ہیں۔ یہی عزم و استقلال کا راستہ گارجئیس نے اپنایا۔
گارجئیس نے مقصد کے حصول کےلیے نسبتاً لمبا راستہ اپنایا۔
اُس نے سیاست کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اوائل ایام میں اُس کی بات پر کِسی نے کان نہ دھرا مگر اُس نے کوششش ترک نہ کی۔ اُس نے تقاریر کیں اور اچھی تقاریر کیں۔ وہ ایک ہر دلعزیز لیڈر بنتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ مقبولیت کی منازل طے کرتے ہوئے بلآخر وہ اس مقام پر پہنچ گیا کہ اُس کی آواز شاہی ایوانوں میں سُنی جانے لگی؛ اور اُس کے ادا کیے ہوئے الفاظ اربابِ اِختیار کے زیرِ غور آنے لگے۔
یہی وہ وقت تھا جو اُس کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کےلیے موزوں تھا۔ اُس نے شاہی دربار میں ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کا مطالبہ کیا اور پُرزور دلائل کے ساتھ اپنے مطالبے کا دِفاع کیا۔ اپنے مطالبے کی پُشت پناہی میں اُس نے کئی دوسری سلطنتوں کے درباروں کی مثالیں دیں کہ کِس طرح ''شاہی بازی گر'' کی عہدے کی موجودگی نے اُن سلطنتوں کی شان و شوکت اور جاہ و عظمت میں اضافہ کیا۔ اُس نے اس بات کو دلائل سے ثابت کیا کہ ''شاہی بازی گر'' کا عہدہ اُن کی سلطنت کو دوسری سلطنتوں سے ممتاز کر سکتا ہے۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد آخر کار اُس کا مطالبہ ایوانِ شاہی سے پروانہِ منظوری پا گیا۔ شاہی بازی گر کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور اس کی تخلیق کےلیے گارجئیس کی انتھک محنت کے اعزاز میں اُسے ہی پہلا ''شاہی بازی گر'' مقرر کیا گیا۔ بازی گر کی مہارت اور قابلیت دیکھنے کو ایک ہال خوب سجایا اور سنوارا گیا۔ شاہی خاندان کے افراد بازی گر کی مہارتیں دیکھنے کو ہال میں رونق افروز ہوئے۔ آخر کو ہال کے ایک کونے میں سے سلطنت کا پہلا ''شاہی بازی گر'' لاٹھی ٹیکتے ہوئے نمودار ہوا...
گارجئیس نے اپنا مقصد پا لیا۔ گو کہ وہ خود تو عمر کے اس حصے میں تھا جس میں وہ کسی قسم کی بھی جسمانی مہارت دِکھا کر اپنے ملک کا نام اونچا کرنے سے قاصر تھا مگر اُس ایک ایسے عہدے کی بنیاد رکھی تھی جس نے آگے چل کر ملکی وقار کو دوبالا کرنا تھا۔ مقصد کا حصول اُس کی زندگی کی بیش قیمت دہائیاں کھا گیا مگر اُس کی محنت رنگ لائی اور وہ کامیاب ہو گیا۔
جب میں جُھریوں سے پُر چہرے والے مگر آہنی عزم کے مالک 68 سالہ عمران خان کو دیکھتا ہوں تو بے ساختہ مجھے ''گارجئیس'' یاد آ جاتا ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے من میں اس ملک کی خوشحالی کا مقصد لے کر میدانِ ِ سیاست میں قدم رکھا۔ شروع میں اس کو نظر انداز کیا گیا۔ پھر ٹھٹھا اُڑایا گیا، بے عزت کیا گیا۔ تب کہیں جا کے لوگوں نے اس کی آواز پر کان دھرنا شروع کیا؛ مگر ''ہنوز دلی دور است '' کے مصداق ابھی تک بہت سے امتحان باقی تھے۔ بقول اقبال
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
منزل ابھی بہت دور تھی۔ ابھی آگ کے بہت سے دریا پار کرنے تھے۔ ابھی ذات پر بہت سے رکیک حملے سہنا باقی تھے۔ ہنوز بہت سے الزام لگائے جانے تھے جن پر صبر کرنا تھا۔ ابھی تو ''یہودی ایجنٹ'' بھی کہلوایا جانا تھا۔ ابھی تو ''طالبان خان'' کا تحقیری لقب بھی دیا جانا تھا۔ بہت سا کیچڑ تھا جو کہ اُچھالا جانا باقی تھا، مگر عمران خان نے یہ تمام مراحل خندہ پیشانی سے طے کیے اور آخر کو وہ دِن آن پہنچا جب مملکتِ خُداداد کی عوام نے اُس کی آواز پر لبیک کہا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے پر مشتمل جدوجہد رنگ لے آئی اور وہ اپنے مقصد میں کامران ہوا۔
''گارجئیس'' اور ''عمران خان'' کے کرداروں میں مجھے کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ گارجئیس کے ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کے مطالبے کا محرک بھی اپنی سلطنت کی عزت افزائی کی خواہش تھی اور عمران خان کا مقصد بھی پاکستان کو اقوامِ عالم میں ایک پُروقار مملکت کا مقام دِلوانا تھا۔ گو کہ عمران خان کا پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا مقصد گارجئیس کے ''شاہی بازی گر'' کے عہدے کی تخلیق کے مقصد سے ہزار گنا انقلابی اور مقدس تھا، مگر پھر بھی دونوں کرداروں میں جو چیز مشترک ہے، وہ عزم و ہمت اور جذبہِ حب الوطنی ہے۔ دونوں کہانیاں دو ایسے نوجوانوں کی داستانِ حیات ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اپنے مقصد کے حصول کو دیے اور بامراد ٹھہرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔