یوم دفاع اور قومی امنگوں کی ترجمانی

غربت، پسماندگی، ناخواندگی امن واستحکام کے لیے جنگ ابھی جاری ہے اور حکمراں اب صرف عمل کرکے دکھائیں۔

غربت، پسماندگی، ناخواندگی امن واستحکام کے لیے جنگ ابھی جاری ہے اور حکمراں اب صرف عمل کرکے دکھائیں۔ فوٹو : فائل

تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی ملک کا دفاع جب ناقابل تسخیر ہو تو اس کی سلامتی، قوم کی فلاح وبہبود اور نئی نسل کے مستقل کی تعبیریں اس کی تہذیب، نظریہ اور ریاستی استقامت و امن عالم میں اس کے کردار کی شیئرنگ ایک آفاقی پیمانہ بن جاتا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ ملک بھر میں 53 واں یوم دفاعِ پاکستان جوش وخروش، ملی عزائم، سیاسی و عسکری ہم آہنگی کے شاندار تناظر میں منایا گیا، اس موقع پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا جس میں 6ستمبر1965 کی جنگ کے غازیوں اور شہیدوں کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کے دفاع کے لیے پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے، 6 ستمبر 1965 کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے اور نشان حیدر پانے والے شہداء کی یادگاروں پر پھول چڑھانے کے علاوہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کی گئی۔

1965ء کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنیوالے میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) سمیت دیگر شہداء کی آخری آرام گاہوں پر بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا، پاک آرمی کے چاق و چوبند دستوں کی جانب سے سلامی پیش کی گئی، صدر پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف جسٹس آف پاکستان، کمانڈر 4کورپس کی جانب سے گلدستے بھی بھجوائے گئے، لاہور میں میجر شبیر شریف شہید کے مزار پر جے او سی میجر جنرل شاہد نے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔

وطن عزیز کے دفاع کی اس تاریخ ساز جنگ کی دیگر تقریبات کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہداء کی مرکزی تقریب سے اہم خطاب کیا، جس کے دوران وزیراعظم نے ملکی سلامتی، تزویراتی جدلیات اور خطے میں جنگ یا امن کی غیر معمولی سیاسی و عسکری کشمکش کے سیاق وسباق میں وہ بات کی جس کا فسانے میں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا، کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی تھی، یہ بات وزیراعظم نے سٹرٹیجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کے حوالہ سے دوٹوک انداز میں کہی۔

وزیراعظم کا یہ کہنا 'تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو' کے تناظر میں قوم کے دل کو چھوگیا کہ پاکستان اب کسی دوسرے کی جنگ میں نہیں پڑے گا اور ہماری خارجہ پالیسی بھی پاکستان کی بہتری کے لیے ہوگی، سول، ملٹری تعلقات میں کوئی کشمکش نہیں، ہمارا مشترکہ مقصد ملک کو بہتر بنانا اور اسے آگے لے کر جانا ہے، اداروں کو مضبوط کریں گے۔ انھوں نے افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا فوج ایک فعال اور مضبوط ادارہ ہے کیونکہ اس میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں۔

وزیراعظم نے کسی دوسرے کی جنگ میں شمولیت کے اندوہناک مضمرات کا ذکر کسی ملک کا نام لیے بغیر کیا، مگر تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ وزیراعظم کا روئے سخن کس جانب تھا۔ وہ بلاشبہ افغانستان پر روسی جارحیت، طالبان کی افغانستان میں حکومت، اسامہ بن لادن کی خطے میں اضطراب انگیز موجودگی اور بالخصوص نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکا جس وحشیانہ انداز میں عالمی امن کے لیے خود سب سے بڑا خطرہ بنا، وہ نائن الیون کے واقعہ کے انتقام میں بے لگام امریکی جنگی جنون اور ریاستی تشدد کی دردناک کہانی ہے۔


جس میں سارا ملبہ پاکستان پر گرا، جب کہ نائن الیون مہم جوئی میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہ تھا، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ 'آبیل مجھے مار' کے داخلی اسٹرٹیجک مغالطہ کا کیا دھرا تھا، جس میں پاکستان کو دہشتگردی اور انتہاپسندی کے ناقابل بیان دوطرفہ عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ چنانچہ وزیراعظم کا کسی دوسرے کی جنگ میں نہ پڑنے کا پیغام خوش آیند اور ہمہ جہتی ہے، اسے دنیا اگر پاکستان کی نومنتخب حکومت کی نئی صورتحال میں امن پسندی کے باب میں دیکھنے کی کوشش کرے تو امریکا سمیت عالمی قوتوں کا انداز نظر دہشتگردی کی حمایت اور دہشتگرد تنظیموں کی فنڈنگ کے بے بنیاد گلوبل الزامات کی گرد بھی بیٹھ سکتی ہے، ان الزامات کی گرد وہی عالمی رقیب اڑاتے ہیں جو کل ہمارے رازداں و حلیف تھے جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا پاکستان کو افغانستان میں اپنا کلیدی امن کردار ادا کرنے کے لیے ویلکم کرے۔

امن پسند ممالک چاہیں تو پاکستان کی عالمی برادری میں ایک امن پسند اور ذمے دار اسلامی ایٹمی ملک کی شناخت ملنے کی راہ بھی جلد ہموار ہوسکتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معنی خیز پیراڈائم شفٹ پر نیا پاکستان کس قسم کی سیاسی پیش رفت کریگا۔ وزیراعظم کے بقول میرٹ کے نظام میں پیشہ ورانہ صلاحیت مقدم ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میرٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو مدنظر رکھا جائے تو ادارے چلتے ہیں۔ قومیں جنگ سے نہیں اداروں کے بگاڑ سے تباہ ہوتی ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پیش نظر ریاست مدینہ کے اصول ہونے چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ دنیا کے ایک عظیم لیڈر تھے انھوں نے عرب کے بٹے ہوئے قبائل کو یکجا کیا۔ وزیراعظم کے مطابق جب ایک چھابڑی والے، مزدور، سپاہی، کسان سمیت سب کو انصاف، اس کے بنیادی حقوق، مفت علاج، محنت کے ذریعے بڑے عہدے تک رسائی کا موقع ملے گا تو وہ خود کو معاشرے کا حصہ سمجھیں گے اور اس میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ہماری قوم تب ترقی کرے گی جب سب میں احساس پیدا ہوگا۔ وزیراعظم نے غذائی قلت کا شکار بچوں اور مدارس کے 24 لاکھ طلبہ و طالبات پر توجہ دینے کی بات کی اور کہا کہ ہمارے لوگ روزگار کی خاطر بیرون ملک جاتے ہیں لیکن ہم نے ملک کے اندر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ ہمارے پیش نظر کمزور طبقات اور غریب لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ خیالات عمل کی زنجیر میں پرونے کے متقاضی ہیں۔

ادھر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دفاع پاکستان کے لیے ہم سب یک جان ہیں، ملکی ترقی کے لیے جمہوریت کا تسلسل بہت ضروری ہے اور جمہوریت اداروں کی مضبوطی کے بغیر پنپ نہیں سکتی، آج ہم اس مقام پر ہیں کہ جمہوریت میں ہر مکتبہ فکر کے نمایندے موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے گزشتہ روز پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں یوم دفاع پاکستان کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ 6 ستمبر ملکی تاریخ کا اہم دن ہے آج کا دن شہدا پاکستان سے یکجہتی کا دن ہے۔ اس دن پوری قوم نے متحد ہوکر دشمن کے دانت کھٹے کردیے، قوم کا ہر فرد فوج کے ساتھ کھڑا رہا، ہمارے جوانوں اور شہریوں نے جنگ میں قربانیاں دیں، آرمی چیف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے کامیابیاں حاصل کیں لیکن جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی جاری ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غربت، پسماندگی، ناخواندگی امن واستحکام کے لیے جنگ ابھی جاری ہے اور حکمراں اب صرف عمل کرکے دکھائیں۔ پوری قوم منتظر ہے کہ نیا پاکستان عوامی امنگوں کا ترجمان ہو اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو۔
Load Next Story