سندھن لیگ کومتفقہ اپوزیشن لیڈرلانے میں مشکلات کا سامنا
ارباب رحیم کو نامزد کیا گیا تومشکلات ہوسکتی ہیں، عرفان اللہ مروت بھی خواہشمند ہیں
KARACHI:
سندھ میں پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت کے باوجوداتحادی حکومت بنانے کافیصلہ کیا ہے لیکن مسلم لیگ(ن)کی قیادت میں حزب اختلاف متفقہ لیڈرلانے کیلیے مشکلات میں گھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
پیپلزپارٹی نے کافی غوروخوض کے بعدقائم علی شاہ کوہی تیسری ٹرم کیلیے وزیراعلیٰ سندھ نامزد کردیاہے،اسپیکراورڈپٹی اسپیکر کے عہدے بھی پیپلزپارٹی کے پاس رہیں گے مگراپوزیشن لیڈر کے حوالے سے ن لیگ کے کیمپ میں مکمل خاموشی ہے،متحدہ پیپلزپارٹی سے ہاتھ ملاسکتی ہے،ن لیگ نے اگر ارباب غلام رحیم کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیاتو اس سے صورتحال خراب ہوسکتی ہے،عرفان اللہ مروت بھی اپوزیشن لیڈربننے کے خواہشمند ہیں،ایم کیوایم نے ابھی حکومت میں شمولیت کاباضابطہ اعلان نہیں کیا مگر کہاجاتا ہے کہ اسے 7وزارتوں اوردو مشیروں کی پیشکش کی گئی ہے۔
مگر پیپلزپارٹی نے اب تک انتہائی اہم وزارت داخلہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا،تعلیم، صحت،مقامی حکومتوں،ایکسائز، ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ، زراعت، اطلاعات کی وزارتیں دونوں جماعتوں میں برابربرابر تقسیم ہوسکتی ہیں لیکن اگر متحدہ نے اپوزیشن میں بیٹھنے کاحیران کن فیصلہ کیا تو پیپلزپارٹی میں وزارتوں کے حصول کی دوڑتیز ہوجائے گی۔لندن میں رحمٰن ملک، الطاف حسین ملاقات میں معاملات طے پاچکے ہیں،کراچی میں دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی باضابطہ ملاقات کسی وقت بھی ہوسکتی ہے گوکہ ن لیگ کوفنکشنل لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے مگرپیر پگاراکو ارباب رحیم کی نامزدگی پرتحفظات ہوسکتے ہیں،دونوں میں کبھی بھی تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے اورکئی مواقع پر دونوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی ہے۔
عرفان اللہ مروت کے اپوزیشن لیڈر بننے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ن لیگ اورفنکشنل لیگ سندھ میں پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کیلیے سندھی اپوزیشن لیڈرلاناچاہیںگی۔مسلم لیگ(ن)کی طرف سے ایک اورنام شفقت جاموٹ کاسامنے آسکتاہے،اگر فنکشنل لیگ کو اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کا اختیار دیا گیاتو وہ امتیاز شیخ کو سامنے لاناچاہے گی۔پاکستان تحریک انصاف کے پاس سندھ میں تین صوبائی نشستیں ہیں اورثمرعلی پارلیمانی لیڈر ہونگے، تحریک انصاف ن لیگ کی بجائے فنکشنل لیگ کے امیدوارکو ترجیح دے گی۔ پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم کا اتحادمرکز میں ن لیگ کو ٹف ٹائم دے گااور اس کاانحصاراس بات پر بھی ہے کہ اگلے صدارتی انتخاب تک صدرزرداری اورنوازشریف کے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی نے سادہ اکثریت کے باوجوداتحادی حکومت بنانے کافیصلہ کیا ہے لیکن مسلم لیگ(ن)کی قیادت میں حزب اختلاف متفقہ لیڈرلانے کیلیے مشکلات میں گھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
پیپلزپارٹی نے کافی غوروخوض کے بعدقائم علی شاہ کوہی تیسری ٹرم کیلیے وزیراعلیٰ سندھ نامزد کردیاہے،اسپیکراورڈپٹی اسپیکر کے عہدے بھی پیپلزپارٹی کے پاس رہیں گے مگراپوزیشن لیڈر کے حوالے سے ن لیگ کے کیمپ میں مکمل خاموشی ہے،متحدہ پیپلزپارٹی سے ہاتھ ملاسکتی ہے،ن لیگ نے اگر ارباب غلام رحیم کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیاتو اس سے صورتحال خراب ہوسکتی ہے،عرفان اللہ مروت بھی اپوزیشن لیڈربننے کے خواہشمند ہیں،ایم کیوایم نے ابھی حکومت میں شمولیت کاباضابطہ اعلان نہیں کیا مگر کہاجاتا ہے کہ اسے 7وزارتوں اوردو مشیروں کی پیشکش کی گئی ہے۔
مگر پیپلزپارٹی نے اب تک انتہائی اہم وزارت داخلہ کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا،تعلیم، صحت،مقامی حکومتوں،ایکسائز، ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ، زراعت، اطلاعات کی وزارتیں دونوں جماعتوں میں برابربرابر تقسیم ہوسکتی ہیں لیکن اگر متحدہ نے اپوزیشن میں بیٹھنے کاحیران کن فیصلہ کیا تو پیپلزپارٹی میں وزارتوں کے حصول کی دوڑتیز ہوجائے گی۔لندن میں رحمٰن ملک، الطاف حسین ملاقات میں معاملات طے پاچکے ہیں،کراچی میں دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی باضابطہ ملاقات کسی وقت بھی ہوسکتی ہے گوکہ ن لیگ کوفنکشنل لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے مگرپیر پگاراکو ارباب رحیم کی نامزدگی پرتحفظات ہوسکتے ہیں،دونوں میں کبھی بھی تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے اورکئی مواقع پر دونوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی ہے۔
عرفان اللہ مروت کے اپوزیشن لیڈر بننے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ن لیگ اورفنکشنل لیگ سندھ میں پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کیلیے سندھی اپوزیشن لیڈرلاناچاہیںگی۔مسلم لیگ(ن)کی طرف سے ایک اورنام شفقت جاموٹ کاسامنے آسکتاہے،اگر فنکشنل لیگ کو اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کا اختیار دیا گیاتو وہ امتیاز شیخ کو سامنے لاناچاہے گی۔پاکستان تحریک انصاف کے پاس سندھ میں تین صوبائی نشستیں ہیں اورثمرعلی پارلیمانی لیڈر ہونگے، تحریک انصاف ن لیگ کی بجائے فنکشنل لیگ کے امیدوارکو ترجیح دے گی۔ پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم کا اتحادمرکز میں ن لیگ کو ٹف ٹائم دے گااور اس کاانحصاراس بات پر بھی ہے کہ اگلے صدارتی انتخاب تک صدرزرداری اورنوازشریف کے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔