تحریک انصاف اور بیوروکریسی میں تنائو
بے شک سیاسی ٹیم تبدیلی ہوئی ہے لیکن بیوروکریسی کی ٹیم وہی رہ گئی ہے۔
ملک چلانے کے لیے بیوروکریسی کی مدد ناگزیر ہے۔ پاکستان کے نظام حکومت میں بیوروکریسی کے تعاون کے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ بابوہمارے نظام میں لازم و ملزوم ہیں۔ ملک میں چاہے مارشل لا ہو یا جمہوریت اصل اختیار سول بیورکریسی کے پاس ہی ہوتا ہے اسی لیے مارشل لا حکومتوں نے بھی سول بیوروکریسی کی مدد سے ہی پاکستان پر حکومت کی ہے۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن سول بیورکریسی کا نظام اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کا نظام حکومت بھی چلتا رہتا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اس کو اپنی اچھی بری پالیسیوں کے نفاذ کے لیے بیوروکریسی کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے صاحب اقتدار کو اتنی سمجھ ہوتی ہے کہ جس سے مرضی لڑو لیکن ان بابوئوں سے نہیں لڑنا۔ ان بابوئوں میں بھی بہت سے گروپ ہیں لیکن پنجاب کا گروپ ہمیشہ ہی سب گروپوں پر بھاری رہا۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بابو بھی پنجاب گروپ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
پنجاب میں نوکری کرنے کی خواہش اور پنجابی بیو رو کریسی سے تعلق بیوروکریسی میں ترقی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس پنجابی بیوروکریسی نے ہمیشہ ہر آنیوالے کو خوش آمدید اور جانیوالے کو خدا حافظ کہا ہے۔ یہ سیاسی ہوتے ہوئے بھی غیر سیاسی اور غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی سیاسی ہوتے ہیں۔ یہی ان کا حسن دلفریب ہے۔
تاہم تحریک انصاف نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بیورو کریسی سے بالعموم اور پنجابی بیوروکریسی سے بالخصوص ایک محاذ آرائی شروع کر دی ہے، یہ محاذ آرائی تو ویسے ن لیگ کے آخری چند ماہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ن لیگ کو گرانے اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے سرکاری بابوئوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس پالیسی کا واحد مقصد ایک ہی نظرآتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح مضبوط ن لیگ کو کمزور کیا جا سکے۔ اسکی رٹ کو ختم کیا جا سکے لیکن یہ پالیسی اس قدر خطرناک اور خوفناک شکل اختیار کر جائے گی۔ کسی کو اندازہ بھی نہ تھا۔
بیوروکریسی کے اندر اس وقت سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہے۔ ان کی تاریخ گواہ ہے کہ انھوںنے کبھی جانیوالے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا لیکن پھر بھی تحریک انصاف ہر بیوروکریٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ ہر وہ بیوروکریٹ جس نے شہباز شریف کے طویل دور اقتدار میں کسی نہ کسی اہم پوزیشن پر کام کیا ہے اس کو شک نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ ان سب بیوروکریٹس کو جو شہباز شریف اور نواز شریف کے دور میں اہم عہدوں پر رہے ہیں۔ انھیں کسی نہ کسی طرح سسٹم سے نکال دیا جائے۔
تحریک انصاف ان بابوئوں سے دوستی کر کے ان کو اپنے ساتھ ملانے کے بجائے انکے ساتھ دشمنی پر اتر آئی ہے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جنھیں پنجابی بیوروکریسی اپنے لیے انتقامی کاروائی سمجھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے نگران دور میں بغیر کسی وجہ کے گریڈ بیس اور اکیس کے متعدد افسران کو پنجاب سے نکال دیا گیا۔ تب بھی یہی موقف دیا گیا کہ یہ سب شریفو ں کے قریب تھے۔ اسلیے غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ان کو پنجاب سے نکالنا ضروری ہے جبکہ مقابلے میں دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں کیا گیا۔
اب جبکہ حکومتیں بن گئی ہیں۔ جو بچ گئے ان کے لیے ایک نئی پالیسی بنا دی گئی ہے کہ جس نے کسی ایک صوبے میں دس سال کام کر لیا اس کو اس صوبے سے نکال دیا جائے۔ اس کو ایسے دیکھا جا رہا ہے کہ جس نے بھی پنجاب میں دس سال شہباز شریف کے ساتھ کام کیا ہے اس کو نکال دیا جائے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سندھ کا جس نے اس پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔
پنجاب سے جن افسران کو نکال کر سندھ بھیجا گیا تھا سندھ نے ان کو لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے مرکز کو شٹ اپ کال دی ہے کہ ہمارے صوبے سے بندہ نکالنے اور بھیجنے سے پہلے ہم سے پوچھا جائے۔ شاید مرکز میں پالیسی بنانے والے اس وقت انتقام کی آگ میں اس قدر غصہ میں ہیں انھیں ن لیگ اور شریف خاندان کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا۔
ویسے بھی ایک عمومی تاثر یہ بن رہا ہے کہ بیوروکریسی میں پٹھان بیوروکریٹ آگے آگئے ہیں اور جن کا پنجاب کی بیوروکریسی سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، اسلیے ان سب کو شک اور نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھ رہے۔ ایک دوست نے کہا کہ دیکھیں ایسا نہیں ہے کہ جہانزیب صاحب کی مثال لے لیں وہ شہباز شریف کے ناک کا بال سمجھے جاتے تھے اور اب انھیں چیئرمین ایف بی آر لگا دیا گیا ہے۔ لیکن میرا دوست شا ید بھول گیا کہ وہ پٹھان بھی ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس بار ان کا پٹھان ہونا ان کے کام آگیا ورنہ ان سے بھی کم برا سلوک نہ کیا جاتا۔
پنجاب کے چیف سیکریٹری اکبر درانی بھی بلوچستان کے پٹھان ہیں۔ وہ نگران دور میں پنجاب کے چیف سیکریٹری لگے۔ وہ کئی دہائیوں پہلے پنجاب میں ایک نہایت جونیئر افسر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اسکے بعد بلوچستان چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ہمیں سمجھنا ہو گہ کہ پنجاب کی مختلف ثقافت کی وجہ سے پنجاب میں کام کرنے کا انداز بھی مختلف ہے۔ پنجاب کو بلوچستان کی طرح نہیں چلایا جا سکتا۔ اسی طرح پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری طا رق مجید نجمی پنجاب سے ہیں۔ شاید انکے لگنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے سسٹم سے آئوٹ تھے۔ وہ انتظای ذمہ داریوں کی بجائے پڑھا رہے تھے۔ یوں سب ہی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور اس اجنبیت نے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ صوبے میں واحد پرانے آدمی سیکریٹری فنانس حامد یعقوب ہیں۔
یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے سیکریٹری اعظم خان پنجابی بیوروکریٹس کے لیے انجان ہیں اسلیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جس طرح صوبوں میں چیف سیکریٹری کو باپ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اسی طرح مرکز میں وزیر اعظم کے سیکریٹری کو بھی باپ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مشیر محمد شہزاد ارباب بھی پٹھان ہیں۔ اور ان کے بھی بیورکریسی میں پنجابی کنکشن نہیں ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیوروکریسی میں یہ احساس محرومی صرف پنجاب میں ہے۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہی دوبارہ آگئی ہے۔ وہاں ایک تسلسل قائم رہا ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت دوبارہ آگئی ہے۔ بے شک سیاسی ٹیم تبدیلی ہوئی ہے لیکن بیوروکریسی کی ٹیم وہی رہ گئی ہے۔ بلوچستان کے حالات بھی مختلف ہیں۔ اس لیے پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
اس سب کا شاید بیوکریٹس کو کم اور حکومت کو زیاد ہ نقصان ہو گا لیکن حال ہی میں پنجاب کے دو ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی جانب سے تقرر و تبادلوں پر احتجاج کرتے ہوئے خط لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کا بہت چرچا ہوا ہے۔ خطوط لکھنے والے دونوں افسران کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس نہیںبلکہ وہ پنجاب مینجمنٹ سروس کے افسران ہیں۔ ان کو پنجاب سے باہر نہیں بھیجا جا سکتا جبکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو افسران کو تو پنجاب بدری کے احکامات بطور سزا روز سنائے جا رہے ہیں، بیچارے پنجاب بدر مارے مارے پھر رہے ہیں، نہ کوئی منزل نہ کوئی ٹھکانہ۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن سول بیورکریسی کا نظام اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کا نظام حکومت بھی چلتا رہتا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اس کو اپنی اچھی بری پالیسیوں کے نفاذ کے لیے بیوروکریسی کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ اسی لیے صاحب اقتدار کو اتنی سمجھ ہوتی ہے کہ جس سے مرضی لڑو لیکن ان بابوئوں سے نہیں لڑنا۔ ان بابوئوں میں بھی بہت سے گروپ ہیں لیکن پنجاب کا گروپ ہمیشہ ہی سب گروپوں پر بھاری رہا۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بابو بھی پنجاب گروپ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
پنجاب میں نوکری کرنے کی خواہش اور پنجابی بیو رو کریسی سے تعلق بیوروکریسی میں ترقی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس پنجابی بیوروکریسی نے ہمیشہ ہر آنیوالے کو خوش آمدید اور جانیوالے کو خدا حافظ کہا ہے۔ یہ سیاسی ہوتے ہوئے بھی غیر سیاسی اور غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی سیاسی ہوتے ہیں۔ یہی ان کا حسن دلفریب ہے۔
تاہم تحریک انصاف نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بیورو کریسی سے بالعموم اور پنجابی بیوروکریسی سے بالخصوص ایک محاذ آرائی شروع کر دی ہے، یہ محاذ آرائی تو ویسے ن لیگ کے آخری چند ماہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ن لیگ کو گرانے اور سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے سرکاری بابوئوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس پالیسی کا واحد مقصد ایک ہی نظرآتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح مضبوط ن لیگ کو کمزور کیا جا سکے۔ اسکی رٹ کو ختم کیا جا سکے لیکن یہ پالیسی اس قدر خطرناک اور خوفناک شکل اختیار کر جائے گی۔ کسی کو اندازہ بھی نہ تھا۔
بیوروکریسی کے اندر اس وقت سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہے۔ ان کی تاریخ گواہ ہے کہ انھوںنے کبھی جانیوالے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا لیکن پھر بھی تحریک انصاف ہر بیوروکریٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ ہر وہ بیوروکریٹ جس نے شہباز شریف کے طویل دور اقتدار میں کسی نہ کسی اہم پوزیشن پر کام کیا ہے اس کو شک نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ ان سب بیوروکریٹس کو جو شہباز شریف اور نواز شریف کے دور میں اہم عہدوں پر رہے ہیں۔ انھیں کسی نہ کسی طرح سسٹم سے نکال دیا جائے۔
تحریک انصاف ان بابوئوں سے دوستی کر کے ان کو اپنے ساتھ ملانے کے بجائے انکے ساتھ دشمنی پر اتر آئی ہے۔ ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جنھیں پنجابی بیوروکریسی اپنے لیے انتقامی کاروائی سمجھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے نگران دور میں بغیر کسی وجہ کے گریڈ بیس اور اکیس کے متعدد افسران کو پنجاب سے نکال دیا گیا۔ تب بھی یہی موقف دیا گیا کہ یہ سب شریفو ں کے قریب تھے۔ اسلیے غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ان کو پنجاب سے نکالنا ضروری ہے جبکہ مقابلے میں دوسرے صوبوں میں ایسا نہیں کیا گیا۔
اب جبکہ حکومتیں بن گئی ہیں۔ جو بچ گئے ان کے لیے ایک نئی پالیسی بنا دی گئی ہے کہ جس نے کسی ایک صوبے میں دس سال کام کر لیا اس کو اس صوبے سے نکال دیا جائے۔ اس کو ایسے دیکھا جا رہا ہے کہ جس نے بھی پنجاب میں دس سال شہباز شریف کے ساتھ کام کیا ہے اس کو نکال دیا جائے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سندھ کا جس نے اس پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔
پنجاب سے جن افسران کو نکال کر سندھ بھیجا گیا تھا سندھ نے ان کو لینے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے مرکز کو شٹ اپ کال دی ہے کہ ہمارے صوبے سے بندہ نکالنے اور بھیجنے سے پہلے ہم سے پوچھا جائے۔ شاید مرکز میں پالیسی بنانے والے اس وقت انتقام کی آگ میں اس قدر غصہ میں ہیں انھیں ن لیگ اور شریف خاندان کے سوا کچھ سوجھ ہی نہیں رہا۔
ویسے بھی ایک عمومی تاثر یہ بن رہا ہے کہ بیوروکریسی میں پٹھان بیوروکریٹ آگے آگئے ہیں اور جن کا پنجاب کی بیوروکریسی سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، اسلیے ان سب کو شک اور نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھ رہے۔ ایک دوست نے کہا کہ دیکھیں ایسا نہیں ہے کہ جہانزیب صاحب کی مثال لے لیں وہ شہباز شریف کے ناک کا بال سمجھے جاتے تھے اور اب انھیں چیئرمین ایف بی آر لگا دیا گیا ہے۔ لیکن میرا دوست شا ید بھول گیا کہ وہ پٹھان بھی ہیں۔ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس بار ان کا پٹھان ہونا ان کے کام آگیا ورنہ ان سے بھی کم برا سلوک نہ کیا جاتا۔
پنجاب کے چیف سیکریٹری اکبر درانی بھی بلوچستان کے پٹھان ہیں۔ وہ نگران دور میں پنجاب کے چیف سیکریٹری لگے۔ وہ کئی دہائیوں پہلے پنجاب میں ایک نہایت جونیئر افسر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اسکے بعد بلوچستان چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ہمیں سمجھنا ہو گہ کہ پنجاب کی مختلف ثقافت کی وجہ سے پنجاب میں کام کرنے کا انداز بھی مختلف ہے۔ پنجاب کو بلوچستان کی طرح نہیں چلایا جا سکتا۔ اسی طرح پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری طا رق مجید نجمی پنجاب سے ہیں۔ شاید انکے لگنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے سسٹم سے آئوٹ تھے۔ وہ انتظای ذمہ داریوں کی بجائے پڑھا رہے تھے۔ یوں سب ہی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور اس اجنبیت نے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ صوبے میں واحد پرانے آدمی سیکریٹری فنانس حامد یعقوب ہیں۔
یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے سیکریٹری اعظم خان پنجابی بیوروکریٹس کے لیے انجان ہیں اسلیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جس طرح صوبوں میں چیف سیکریٹری کو باپ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اسی طرح مرکز میں وزیر اعظم کے سیکریٹری کو بھی باپ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مشیر محمد شہزاد ارباب بھی پٹھان ہیں۔ اور ان کے بھی بیورکریسی میں پنجابی کنکشن نہیں ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیوروکریسی میں یہ احساس محرومی صرف پنجاب میں ہے۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہی دوبارہ آگئی ہے۔ وہاں ایک تسلسل قائم رہا ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت دوبارہ آگئی ہے۔ بے شک سیاسی ٹیم تبدیلی ہوئی ہے لیکن بیوروکریسی کی ٹیم وہی رہ گئی ہے۔ بلوچستان کے حالات بھی مختلف ہیں۔ اس لیے پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
اس سب کا شاید بیوکریٹس کو کم اور حکومت کو زیاد ہ نقصان ہو گا لیکن حال ہی میں پنجاب کے دو ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی جانب سے تقرر و تبادلوں پر احتجاج کرتے ہوئے خط لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کا بہت چرچا ہوا ہے۔ خطوط لکھنے والے دونوں افسران کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس نہیںبلکہ وہ پنجاب مینجمنٹ سروس کے افسران ہیں۔ ان کو پنجاب سے باہر نہیں بھیجا جا سکتا جبکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو افسران کو تو پنجاب بدری کے احکامات بطور سزا روز سنائے جا رہے ہیں، بیچارے پنجاب بدر مارے مارے پھر رہے ہیں، نہ کوئی منزل نہ کوئی ٹھکانہ۔