سوکی اور اقتدار کی غلام گردش
یہ سب کچھ آن سانگ سوکی کے دور اقتدار میں ہورہا ہے اور ان کے اہم اور نمایاں حمایتی ان سے کنارہ کش ہورہے ہیں۔
چند دنوں پہلے کی بات ہے جب رنگون میں (برما) میانمار کے 2 نوجوان صحافیوں کو 7برس قید کی سزا سنائی گئی ۔ اس فیصلے نے بین الاقوامی برادری کے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ششدرکردیا۔
یہ دونوں صحافی دسمبر 2017ء میں گرفتار ہوئے تھے اور ان پر''غداری'' کا الزام ہے۔ ان پر یہ الزام اس لیے لگایا گیا ہے کہ انھوں نے رائٹرکے ذریعے دنیا کو یہ خبردی کہ میانمارکے فوجیوں نے 10روہنگیاؤں کو بے پناہ تشدد کر کے ہلاک کیا اور پھر انھیں اجتماعی قبر میں دفن کردیا جبکہ ان لوگوں میں سے دو جب دفن کیے گئے تو زندہ تھے ۔ اس خبر نے عالمی برادری میں طیش کی لہر دوڑا دی۔
یہ سب کچھ آن سانگ سوکی کے دور اقتدار میں ہورہا ہے اور ان کے اہم اور نمایاں حمایتی ان سے کنارہ کش ہورہے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آن سانگ سوکی نے اس نوعیت کے مظالم کی روک تھام کی بجائے خاموش رہ کر اپنی شخصیت کو داغدارکردیا ہے ۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فوج نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی شخصیت تبدیل ہوچکی ہے ۔
چند برس پہلے وہ انسانی حقوق اور آزادیٔ تحریروتقریر کی ایک شاندار آواز تھیں لیکن آج انھیں ان جرنیلوں میں ''خوبیاں'' نظر آتی ہیں جو کل تک ان کے اور ان کی سیاسی جماعت کے اراکین پر ظلم و ستم کے لیے دنیا میں بد نام تھے اور ساری دنیا کے باضمیر افراد ان جرنیلوں کی مخالفت کرتے تھے ۔
2017ء میں نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے سوکی کے نام ایک کھلا خط لکھا کہ اگر میانمار میں روہنگیاؤں کے خلاف ہونے والے ظلم وستم پر خاموش رہنا، میانمار میں اقتدار پر آپ کے فائز رہنے کی قیمت ہے، تو یقین کریں کہ یہ بہت بھاری قیمت ہے۔ اس خط میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ''سالہا سال سے آپ کی تصویر میری رائٹنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی۔ آپ انصاف اور حق گوئی کی علامت تھیں لیکن اب آپ کی تصویر پرکالک پھرگئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے یہاں روہنگیاؤں کی نسل کشی ہورہی ہے اورکچھ اسے '' قتل عام '' قرار دے رہے ہیں ۔ایک ایسے ملک کی رہنمائی کرنا آپ جیسی انصاف پسند شخصیت کے لیے المناک بات ہے۔ ہم آپ سے استدعا کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں (حکومت) کی رہنمائی کریں اور انھیں درست راستے پر لائیں ۔''
ڈیسمنڈ ٹوٹو کا یہ خط آن سانگ سوکی کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ان پر ہونے والی تنقید میں ہرگزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوا اور پچھلے دنوں جب انھوں نے جرنیلوں کے ناقد صحافیوں کو نہایت کڑوے لہجے میں ''غدار'' کہا تو سننے والوں کو یقین نہیں آیا ۔ گزشتہ مہینے انھوں نے سنگاپورکی ایک تقریب میں اپنی کابینہ کے ان جرنیلوں کی بہت تعریف کی ۔ یہ وہ جرنیل ہیں جن پر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر قتل عام اور انسانوں کے ستھراؤکے الزامات ہیں۔ مغرب میں ''سوکی''کے لاکھوں چاہنے والے ہیں۔ وہ برطانیہ کی بیوہ بہو ہیں۔
وہاں ان کے بیٹے رہتے ہیں اور ان کے محبوب شوہر کی آخری آرام گاہ بھی وہیں ہے۔ وہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے شوہر سے آخری ملاقات کرنے نہیں جاسکی تھیں کیونکہ برما کی حکومت نے شرط لگادی تھی کہ پھر وہ وطن واپس نہ آسکیں گی ۔ ان کے یہی اصول تھے جن کی دنیا گرویدہ تھی اور انھیں بے حد بلند مقام دیتی تھی۔ مجھ ایسے بہت سے لوگ پاکستان میں بھی تھے جو ان کو ایک ایسی عظیم شخصیت تصورکرتے تھے جس نے ذاتی خوشیاں اپنے لوگوں کے حقوق کی لڑائی میں قربان کردیں۔
ہمارے یہاں روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو صرف مذہبی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ لوگ اس تاریخی حقیقت سے صرف نظر کرتے ہیں کہ برمی فوج کے منہ کو آج سے نہیں کئی دہائیوں سے انسانی خون لگا ہوا ہے اور اس میں مذہب اور فرقے کی کوئی تخصیص نہیں ۔ یہاں یہ اہم حقیقت یاد رکھنے کی ہے کہ روہنگیا جس علاقے میں رہتے آئے ہیں وہ علاقہ قیمتی دھاتوں، لکڑی ، زرعی پیداوار اور تازہ پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے،کولمبیا یونیورسٹی میں سوشیولوجی کی پروفیسر ساسکیا ساسن جن کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور اب امریکا میں رہتی ہیں اور وہیں پڑھاتی اور لکچر دیتی ہیں، انھوں نے دنیا کے ان علاقوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، جہاں معدنی ذخائر بہت بھاری مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔
ان علاقوں میں عموماً غریب غربا رہتے ہیں۔ ان ملکوں کے بااثر اور دولت مند طبقات کسی نہ کسی بہانے ان لوگوں کو وہاں سے باہر دھکیلتے رہتے ہیں اور اس کے لیے مختلف بہانے تراشتے ہیں۔ عالمی سطح پر انسانوں کی نقل مکانی ساسن کا خاص موضوع ہے۔ برما کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ برمی فوج روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو مذہبی اور نسلی پردے میں چھپا رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج کے بے پناہ مفادات اس علاقے سے وابستہ ہیں جہاں روہنگیا اب سے نہیں سالہا سال سے رہتے ہیں ۔
ہمارے یہاں عمومی طور سے اس بات پر غور نہیں کیا جارہا کہ برما کی فوج کو اچانک روہنگیاؤں کی نسلی صفائی کا خیال کیوں آیا؟ ان کا کہنا ہے کہ غریب روہنگیاؤں سے ان کی زمینیں اونے پونے خریدنے کا معاملہ جتنی تیز رفتاری سے بڑھا، اس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے برما کی فوجی جُنتا نے 2012ء میں ملکی قوانین تبدیل کیے۔
2012ء میں حکومت نے روہنگیا علاقے کی 17 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کیا تھا لیکن جب 2012ء میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں پر دہشتگرد حملے ہوئے تو طے کیا گیا کہ برما کی اس اقلیت کو اس کی نہایت قیمتی زمینوں سے محروم کرنے کے لیے اس معاملے کو مذہبی رنگ دیا جائے اور ملک کے اندر اور باہر لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ روہنگیا دہشتگرد ہیں جن سے نجات ضروری ہے ۔ اس طرح وحشت اور بربریت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت بھی جاری ہے۔ اس برمی اقلیت کو اپنے گھروں اوراپنی زمینوں سے محروم کرکے 31 لاکھ ایکڑ اراضی فوج نے اپنے من پسند بڑے کاروباری اداروں کے سپرد کردی ہے۔
یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ ایک طرف فوج مذہبی نفرت کی آڑ میں بیش قیمت زمینوں پر قبضہ کررہی ہے، دوسری طرف خطے میں پھیلتے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے روہنگیاؤں کی حالت زار سے فائدہ اٹھایا ہے اور انھیں اپنے حلقۂ اثر میں لینے میں ان عسکریت پسندوں کو زیادہ دشواری نہیں ہو رہی ۔ تیسری طرف برما کا وہ نیا قانون ہے جسکے تحت وہاں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت مل گئی ہے۔ ان خالی زمینوں کو اپنی تحویل میں لینے والے غیرملکی سرمایہ داروں کو 70 سال کی لیزکی سہولیت بھی دے دی گئی ہے۔
اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ برما کی فوج کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر روہنگیاؤں کے قتل، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر مسلمان ملکوں کے نیم دلانہ اور عالمی برادری کا بھرپور احتجاج سستا سودا محسوس ہورہا ہے۔ مذہبی منافرت کی آڑ میں اگر زمینوں اور بے پناہ قدرتی وسائل پر قبضہ ہوتا رہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس پر سے ستم یہ ہوا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بحال کرکے آن سانگ سوکی کو برما کے جمہوری چہرے کے طور پر دکھا یا جارہا ہے۔ سوکی جن پر دنیا کے تمام جمہوریت دوست اور آزادی پسند افراد اورگروہ ناز کرتے تھے، وہ ادھورے اختیارات کے ساتھ ایک غیر مؤثر حکمران کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اس بات نے ان کی شہرت اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
آن سانگ سوکی میری محبوب سیاسی رہنما اور دانشور رہی ہیں۔ اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے ان کی قربانیاں بے مثال تھیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر آپ بلندیوں پر فائز ہوجائیں یا کردیے جائیں تو اس مقام کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ایک واضح نکتۂ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ افسوس کہ سوکی اس مقام کو برقرار نہیں رکھ سکیں تب ہی 2017ء میں بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ان کے نام کھلا خط لکھا اور اس کے بعد سے ان پر ہونے والی تنقیدکی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ آنگ سان سوکی ، کی کتاب ''خوف سے رہائی'' میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے ۔ میں اس کی ورق گردانی کرتی ہوں اور ان کی لکھی ہوئی یہ سطریں میری نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں :
''جابر حکومتیں اپنی ریاست میں آباد قیمتی انسانوں کو انسان شمار نہیں کرتیں ۔ شہریوں کو بے چہرہ ، بے دماغ اور مجبور محض سمجھتی ہیں کہ جب چاہا انھیں استعمال کرلیا گویا خلق خدا حادثے کے طور پر ملک میں آگئی ہے وہ اس ملک کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہیں ۔ لوگوں کی حب الوطنی اپنی سر زمین سے بے پناہ محبت اور خیال ایسی شفاف شے کو آمر حاکموں کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرکے داغدارکردیا گیا ہے ۔ یہ حاکم اپنے بہت ہی محدود مفادات کو ملکی مفادات قرار دے رہے ہیں ۔''
میں سوچتی ہوں کہ یہ جملے لکھنے والی اقتدارکی غلام گردشوں میں کیسے کھو گئی ۔ ہم ان کے والہ و شیدا تھے اور اب دنیا کے ہر کونے سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ آن سانگ سوکی نوبیل امن انعام کی حقدار نہیں، یہ انعام فوراً ان سے واپس لیا جائے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 2012ء میں آنگ سان سوکی کو جو بینظیر بھٹو ایوارڈ دیا گیا تھا ، اسے بھی واپس لیا جائے۔
یہ دونوں صحافی دسمبر 2017ء میں گرفتار ہوئے تھے اور ان پر''غداری'' کا الزام ہے۔ ان پر یہ الزام اس لیے لگایا گیا ہے کہ انھوں نے رائٹرکے ذریعے دنیا کو یہ خبردی کہ میانمارکے فوجیوں نے 10روہنگیاؤں کو بے پناہ تشدد کر کے ہلاک کیا اور پھر انھیں اجتماعی قبر میں دفن کردیا جبکہ ان لوگوں میں سے دو جب دفن کیے گئے تو زندہ تھے ۔ اس خبر نے عالمی برادری میں طیش کی لہر دوڑا دی۔
یہ سب کچھ آن سانگ سوکی کے دور اقتدار میں ہورہا ہے اور ان کے اہم اور نمایاں حمایتی ان سے کنارہ کش ہورہے ہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آن سانگ سوکی نے اس نوعیت کے مظالم کی روک تھام کی بجائے خاموش رہ کر اپنی شخصیت کو داغدارکردیا ہے ۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فوج نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی شخصیت تبدیل ہوچکی ہے ۔
چند برس پہلے وہ انسانی حقوق اور آزادیٔ تحریروتقریر کی ایک شاندار آواز تھیں لیکن آج انھیں ان جرنیلوں میں ''خوبیاں'' نظر آتی ہیں جو کل تک ان کے اور ان کی سیاسی جماعت کے اراکین پر ظلم و ستم کے لیے دنیا میں بد نام تھے اور ساری دنیا کے باضمیر افراد ان جرنیلوں کی مخالفت کرتے تھے ۔
2017ء میں نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے سوکی کے نام ایک کھلا خط لکھا کہ اگر میانمار میں روہنگیاؤں کے خلاف ہونے والے ظلم وستم پر خاموش رہنا، میانمار میں اقتدار پر آپ کے فائز رہنے کی قیمت ہے، تو یقین کریں کہ یہ بہت بھاری قیمت ہے۔ اس خط میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ''سالہا سال سے آپ کی تصویر میری رائٹنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی۔ آپ انصاف اور حق گوئی کی علامت تھیں لیکن اب آپ کی تصویر پرکالک پھرگئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے یہاں روہنگیاؤں کی نسل کشی ہورہی ہے اورکچھ اسے '' قتل عام '' قرار دے رہے ہیں ۔ایک ایسے ملک کی رہنمائی کرنا آپ جیسی انصاف پسند شخصیت کے لیے المناک بات ہے۔ ہم آپ سے استدعا کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں (حکومت) کی رہنمائی کریں اور انھیں درست راستے پر لائیں ۔''
ڈیسمنڈ ٹوٹو کا یہ خط آن سانگ سوکی کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ان پر ہونے والی تنقید میں ہرگزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوا اور پچھلے دنوں جب انھوں نے جرنیلوں کے ناقد صحافیوں کو نہایت کڑوے لہجے میں ''غدار'' کہا تو سننے والوں کو یقین نہیں آیا ۔ گزشتہ مہینے انھوں نے سنگاپورکی ایک تقریب میں اپنی کابینہ کے ان جرنیلوں کی بہت تعریف کی ۔ یہ وہ جرنیل ہیں جن پر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر قتل عام اور انسانوں کے ستھراؤکے الزامات ہیں۔ مغرب میں ''سوکی''کے لاکھوں چاہنے والے ہیں۔ وہ برطانیہ کی بیوہ بہو ہیں۔
وہاں ان کے بیٹے رہتے ہیں اور ان کے محبوب شوہر کی آخری آرام گاہ بھی وہیں ہے۔ وہ موت کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے شوہر سے آخری ملاقات کرنے نہیں جاسکی تھیں کیونکہ برما کی حکومت نے شرط لگادی تھی کہ پھر وہ وطن واپس نہ آسکیں گی ۔ ان کے یہی اصول تھے جن کی دنیا گرویدہ تھی اور انھیں بے حد بلند مقام دیتی تھی۔ مجھ ایسے بہت سے لوگ پاکستان میں بھی تھے جو ان کو ایک ایسی عظیم شخصیت تصورکرتے تھے جس نے ذاتی خوشیاں اپنے لوگوں کے حقوق کی لڑائی میں قربان کردیں۔
ہمارے یہاں روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو صرف مذہبی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ لوگ اس تاریخی حقیقت سے صرف نظر کرتے ہیں کہ برمی فوج کے منہ کو آج سے نہیں کئی دہائیوں سے انسانی خون لگا ہوا ہے اور اس میں مذہب اور فرقے کی کوئی تخصیص نہیں ۔ یہاں یہ اہم حقیقت یاد رکھنے کی ہے کہ روہنگیا جس علاقے میں رہتے آئے ہیں وہ علاقہ قیمتی دھاتوں، لکڑی ، زرعی پیداوار اور تازہ پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے،کولمبیا یونیورسٹی میں سوشیولوجی کی پروفیسر ساسکیا ساسن جن کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور اب امریکا میں رہتی ہیں اور وہیں پڑھاتی اور لکچر دیتی ہیں، انھوں نے دنیا کے ان علاقوں کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، جہاں معدنی ذخائر بہت بھاری مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔
ان علاقوں میں عموماً غریب غربا رہتے ہیں۔ ان ملکوں کے بااثر اور دولت مند طبقات کسی نہ کسی بہانے ان لوگوں کو وہاں سے باہر دھکیلتے رہتے ہیں اور اس کے لیے مختلف بہانے تراشتے ہیں۔ عالمی سطح پر انسانوں کی نقل مکانی ساسن کا خاص موضوع ہے۔ برما کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ برمی فوج روہنگیاؤں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو مذہبی اور نسلی پردے میں چھپا رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج کے بے پناہ مفادات اس علاقے سے وابستہ ہیں جہاں روہنگیا اب سے نہیں سالہا سال سے رہتے ہیں ۔
ہمارے یہاں عمومی طور سے اس بات پر غور نہیں کیا جارہا کہ برما کی فوج کو اچانک روہنگیاؤں کی نسلی صفائی کا خیال کیوں آیا؟ ان کا کہنا ہے کہ غریب روہنگیاؤں سے ان کی زمینیں اونے پونے خریدنے کا معاملہ جتنی تیز رفتاری سے بڑھا، اس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے برما کی فوجی جُنتا نے 2012ء میں ملکی قوانین تبدیل کیے۔
2012ء میں حکومت نے روہنگیا علاقے کی 17 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کیا تھا لیکن جب 2012ء میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں پر دہشتگرد حملے ہوئے تو طے کیا گیا کہ برما کی اس اقلیت کو اس کی نہایت قیمتی زمینوں سے محروم کرنے کے لیے اس معاملے کو مذہبی رنگ دیا جائے اور ملک کے اندر اور باہر لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ روہنگیا دہشتگرد ہیں جن سے نجات ضروری ہے ۔ اس طرح وحشت اور بربریت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اس وقت بھی جاری ہے۔ اس برمی اقلیت کو اپنے گھروں اوراپنی زمینوں سے محروم کرکے 31 لاکھ ایکڑ اراضی فوج نے اپنے من پسند بڑے کاروباری اداروں کے سپرد کردی ہے۔
یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ ایک طرف فوج مذہبی نفرت کی آڑ میں بیش قیمت زمینوں پر قبضہ کررہی ہے، دوسری طرف خطے میں پھیلتے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے روہنگیاؤں کی حالت زار سے فائدہ اٹھایا ہے اور انھیں اپنے حلقۂ اثر میں لینے میں ان عسکریت پسندوں کو زیادہ دشواری نہیں ہو رہی ۔ تیسری طرف برما کا وہ نیا قانون ہے جسکے تحت وہاں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت مل گئی ہے۔ ان خالی زمینوں کو اپنی تحویل میں لینے والے غیرملکی سرمایہ داروں کو 70 سال کی لیزکی سہولیت بھی دے دی گئی ہے۔
اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ برما کی فوج کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر روہنگیاؤں کے قتل، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر مسلمان ملکوں کے نیم دلانہ اور عالمی برادری کا بھرپور احتجاج سستا سودا محسوس ہورہا ہے۔ مذہبی منافرت کی آڑ میں اگر زمینوں اور بے پناہ قدرتی وسائل پر قبضہ ہوتا رہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اس پر سے ستم یہ ہوا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بحال کرکے آن سانگ سوکی کو برما کے جمہوری چہرے کے طور پر دکھا یا جارہا ہے۔ سوکی جن پر دنیا کے تمام جمہوریت دوست اور آزادی پسند افراد اورگروہ ناز کرتے تھے، وہ ادھورے اختیارات کے ساتھ ایک غیر مؤثر حکمران کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ اس بات نے ان کی شہرت اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
آن سانگ سوکی میری محبوب سیاسی رہنما اور دانشور رہی ہیں۔ اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے ان کی قربانیاں بے مثال تھیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر آپ بلندیوں پر فائز ہوجائیں یا کردیے جائیں تو اس مقام کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کو ایک واضح نکتۂ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ افسوس کہ سوکی اس مقام کو برقرار نہیں رکھ سکیں تب ہی 2017ء میں بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ان کے نام کھلا خط لکھا اور اس کے بعد سے ان پر ہونے والی تنقیدکی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ آنگ سان سوکی ، کی کتاب ''خوف سے رہائی'' میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے ۔ میں اس کی ورق گردانی کرتی ہوں اور ان کی لکھی ہوئی یہ سطریں میری نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں :
''جابر حکومتیں اپنی ریاست میں آباد قیمتی انسانوں کو انسان شمار نہیں کرتیں ۔ شہریوں کو بے چہرہ ، بے دماغ اور مجبور محض سمجھتی ہیں کہ جب چاہا انھیں استعمال کرلیا گویا خلق خدا حادثے کے طور پر ملک میں آگئی ہے وہ اس ملک کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہیں ۔ لوگوں کی حب الوطنی اپنی سر زمین سے بے پناہ محبت اور خیال ایسی شفاف شے کو آمر حاکموں کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرکے داغدارکردیا گیا ہے ۔ یہ حاکم اپنے بہت ہی محدود مفادات کو ملکی مفادات قرار دے رہے ہیں ۔''
میں سوچتی ہوں کہ یہ جملے لکھنے والی اقتدارکی غلام گردشوں میں کیسے کھو گئی ۔ ہم ان کے والہ و شیدا تھے اور اب دنیا کے ہر کونے سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ آن سانگ سوکی نوبیل امن انعام کی حقدار نہیں، یہ انعام فوراً ان سے واپس لیا جائے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 2012ء میں آنگ سان سوکی کو جو بینظیر بھٹو ایوارڈ دیا گیا تھا ، اسے بھی واپس لیا جائے۔