نئی حکومت اور نئی تبدیلیاں

پاکستان کا محل وقوع اور افغانستان میں پاکستان کا وہ کردار جو پاکستان کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا

www.facebook.com/shah Naqvi

جیسے ہی پاکستان میں صدارتی انتخابات کی شکل میں انتخابی عمل مکمل ہوا اس کے اگلے روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان پہنچے گئے۔ جب کہ واشنگٹن کی طرف سے نئی سویلین حکومت کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ اس دورے سے پاک امریکا تعلقات میں تعطل کا خاتمہ ہو گیا ہے جو سفارتی سرد مہری کی شکل میں پچھلے کئی سال سے جاری تھا۔ اس دورے سے کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی جو پاک امریکا تعلقات کے بدترین سطح پر پہنچنے کے بعد ممکن بھی نہیں۔ پچھلے سال اگست میں جب امریکی صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے جن بدترین خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد پاک امریکا تعلقات اگر منفی نہیں تو صفر پر ضرور پہنچ گئے۔ اب پاکستانی وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر واشنگٹن کا دورہ کرکے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان گفت و شنید کو آگے بڑھائیں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ان کا سب سے پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا ہو گا کیونکہ پاکستان کی سلامتی افغانستان کی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے وفد میں امریکی افواج کے سربراہ جنرل ڈنفورڈ اور افغانستان میں امریکا کے نمایندہ خصوصی افغان نژاد زلمے خلیل زاد بھی شامل تھے۔ امریکا بے چینی سے پاکستان کے انتخابی مراحل مکمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ پاکستان اس وقت معاشی اور خارجہ امور کے حوالے سے اگر شدید دباؤ کا شکار ہے تو امریکا کے ہاتھ سے بھی وقت تیزی سے پھسل رہا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں افغان حکومت کو میدان جنگ میں پے در پے شکستیں یہاں تک کہ کابل بھی انتہائی غیر محفوظ ہوکر رہ گیا۔ افغان صدارتی محل پر گولہ باری، نتیجے میں افغان حکومت کے تین اعلیٰ ترین عہدیداروں کا استعفیٰ جس میں افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی شامل تھے۔ اگر امریکی حکومت کی پشت پناہی شامل نہ ہو تو افغان حکومت کسی بھی وقت گر جائے۔

دوسرا اس سے بھی بڑا فیکٹر چین کا سی پیک ہے جو چینی اثرورسوخ کو دنیا اور ہمارے خطے میں تیزی سے پھیلا رہا ہے۔ چین اور روس کی شکل میں طاقت کے نئے مراکز اور کئی دہائیوں کے بعد پاکستان اور روس کی قربت دفاعی اور معاشی شعبے ہیں۔ پاکستان اس مشکل وقت میں اکیلا نہیں، یہ سبھی ممالک اس کے ساتھ ہیں۔ صرف یہی نہیں امریکا کے یورپی اتحادی بھی اس سے نالاں ہیں۔ امریکی بالادستی دنیا اور ہمارے خطے میں شدید خطرات کی لپیٹ میں ہے۔ یہ امریکی بالادستی کو لاحق خطرات ہی تھے جس کے نتتیجے میں ٹرمپ جیسے قدیم سامراجی ذہنیت کے حامل شخص کو اقتدار میں لایا گیا کہ امریکا ٹوٹتی ہوئی بالادستی کو لاحق خطرات سے محفوظ کیا جائے۔

پاکستان کا محل وقوع اور افغانستان میں پاکستان کا وہ کردار جو پاکستان کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی سودے بازی کی پوزیشن امریکا کو بے بس کر دیتی ہے۔ امریکا پاکستان کو ایک حد تک ہی دبا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے اس کے نتائج امریکا کے لیے انتہائی منفی ہوں گے۔ جبھی تو امریکی وزیر خارجہ نے بھارت روانگی سے قبل کہا کہ دوطرفہ تعلقات کو اقتصادی اور تجارتی شعبوں سمیت تمام جہتوں پر استوار کرنے کے بارے میں بات کی گئی اور بقول مائیک پومپیو پاکستان امریکا دونوں فریقین نے امریکا پاکستان تعلقات کو ''ازسرنو ترتیب'' دینے پر اتفاق کیا۔ غیر ملکی میڈیانے بھی اس دورے کے حوالے سے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو بتایا کہ وہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات پر خوش ہیں۔ انھیں امید ہے کہ پاکستان میں نئی لیڈر شپ مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے متفقہ لائحہ عمل نکال سکے گی۔


ٹائمز آف انڈیا نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ پاکستان کے اعلیٰ حکام اور سیاستدانوں نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ پومپیو سے ملاقات کو کینسل کر دیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کو اس کے برعکس مشورہ دیا۔ واشنگٹن اسلام آباد کو ایک خاص حد تک دھکیل سکتا ہے لیکن اس سے حد سے زیادہ نہیں جہاں واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر اور واشنگٹن پوسٹ سے امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھے امید ہے کہ جس بات کی ہم نے آج بنیاد رکھی ہے اس کے نتیجے میں شرائط پوری ہوں گی جس سے کامیابی جاری رکھی جا سکے۔ ایسے میں جب ہم پیشرفت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کے لیے ابھی ہمیں طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ بہت زیادہ بات چیت کرنی ہوگی۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کی مکمل بحالی آسان کام نہیں۔

مرکزی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان ہی کرتار پور بارڈر کھول دے گا جس کے بعد یاتری ویزے کے بغیر گوردوارہ دربار صاحب کے درشن کر سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اور فوج دونوں ہی خطے میں امن کے لیے انڈیا سے بات چیت کرنے کے خواہشمند ہیں۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر ایک اور اہم بات یہ بھی کہی کہ پاکستان کا مغربی بارڈر یعنی افغانستان پر توجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا مشرقی بارڈر پر سکون ہو۔ یہ ایک علامتی اشارہ تھا امریکا کو کہ وہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکا ہو یا چین یا روس سب کے مفاد ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے دہشتگردی اور دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے اور پاکستان اپنے آپ کو محفوظ اور مستحکم تصور کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ان سب ملکوں کے مفاد میں ہے۔

... 2019ء میں افغانستان کے مسئلے کا حل نکل آئے گا جس کا آغاز اس سال نومبر دسمبر سے ہو سکتا ہے۔

... اکتوبر میں پاک امریکا تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997
Load Next Story