امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان… پاک امریکا تعلقات کی نئی راہیں کھلیں گی
ماہرین امور خارجہ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
پاکستان میں نئی حکومت کے منتخب ہونے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان کو خوش آئند قرار دیا جارہاہے کہ یہ دورہ نہ صرف اس خطے کیلئے مفید ہے بلکہ اس سے پاک امریکا تعلقات کی نئی راہیں بھی کھیلیں گی۔
''امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستا ن اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ
(دفاعی تجزیہ نگار)
امریکاکے ساتھ ہمارا رشتہ حاکم اور محکوم کا رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر امریکا کو رعایت دی اوراس کے ایسے مطالبات بھی مان لیے جن پر خود امریکا حیرت کا شکار ہوا مگر اس سے نقصان پاکستان کو ہوا۔ ہماری بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی کمزوریوں کا رونا رویا مگر اپنی طاقت کو نہیں دیکھا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امریکا ہمارے بغیر افغان جنگ نہیں جیت سکتا۔ امریکا ،افغانستان میں اپنی جنگ ہار رہا ہے جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں، وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی فتح اس کی جھولی میں ڈال دیں۔
ہمیں محکوم بننے کے بجائے سر اٹھا کر چلنا ہوگا اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ اگر ہم اس طرح چلیں گے تو امریکا ہماری خرابیوں کے ساتھ ساتھ ہماری طاقت کو بھی دیکھے گا۔ ہمیں اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس میں ہمیں عارضی نقصان ضرور ہوگا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جن ممالک نے امریکا سے علیحدگی اختیار کی وہ فائدے میں رہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایران ہے۔ ایران ایٹمی طاقت بھی نہیں ہے لیکن امریکا نے اس کا کیا بگاڑ لیا؟ ہمیں سفارتی محاذ پربھی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے سفیر پاکستان کے بجائے امریکا کے پے رول پر رہے اور انہوں نے پاکستان کے لیے موثر کام نہیں کیا۔ہمیں ملک کے اندر بھی مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں ایسا بھی ہوا کہ حکومت اور فوج الگ الگ بات کرتی نظر آئی جس سے دنیا نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ہمیں اپنے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی اور دیکھنا ہوگا کہ ہمارے کون سے لوگ امریکا کیلئے کام کرر ہے ہیں۔ اگر ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو ہمارے بیرونی مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ ہمیں امداد کیلئے امریکا کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ امریکی فنڈ ہمارے کام کے بدلے تھا۔ اگر اس نے فنڈ روک دیا ہے تو ہمیں کام روک دینا چاہیے۔ جب امریکا نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔ فوج ذہنی طور پر تیار ہے، اب اس قوم کو بھی تیار ہونا ہوگا ۔ اگر ہم ان کے محکوم بنے رہیں گے تو معاملات کبھی درست نہیں ہوں گے۔ہمیں بطور غیرت مند قوم مذاکرات کرنے چاہئیں اور اس مرتبہ امریکا کو یہ پیغام بھی گیا ہے کہ اب معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔
وزیراعظم کے جی ایچ کیو جانے پر تنقید کی جارہی ہے حالانکہ یہ مثبت اقدام ہے اور دنیا بھر میں یہ طریقہ ہے کہ سکیورٹی مسائل پر بریفنگ دی جاتی ہے اور سول ملٹری ادارے ساتھ چلتے ہیں۔ ہماری افواج ''بیٹل ہارڈنڈ'' ہیں جن کا مقابلہ مشکل ہے لہٰذا یہ خوش آئند ہے کہ اس وقت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں۔ اگر ہم اتحاد و یگانگت سے چلیں گے تو امریکا سمیت دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔بھارت ،کشمیر میں بربریت کی انتہا کررہا ہے جسے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی تسلیم کیا گیا، بھارت کیلئے کشمیریوں پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔اگر پاکستان اپنے پتے اچھے طریقے سے کھیلے تومسئلہ کشمیر کے حل سمیت بہت سارے مطابات منوا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(تجزیہ نگار)
بین الاقوامی تعلقات کی مضبوطی یہ ہوتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔ امریکا اور بھارت کے تعلقات تجارتی بھی ہیں اور سفارتی بھی۔ بھارت، امریکا کے لیے اسلحہ کی ایک بڑی مارکیٹ ہے اور وہاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری بھی ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے تعلقات کبھی بھی اس نہج پر نہیں رہے۔ ہم نے ہمیشہ امداد کیلئے امریکا کی طرف دیکھا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کے تین ادوار گزرے ہیں جن میں سوویت یونین کے کردار کو ختم کرنے کا دور، پھر سرد جنگ اور تیسرا دور 9/11 کے بعد شروع ہوا۔
60ء کی دہائی میں مغربی بارڈر کی وجہ سے ہماری اہمیت تھی کہ ہمارے ذریعے سوویت یونین کے کردار کو افغانستان میں روکا جاسکتا تھا۔ اسی لیے امریکا نے ہمارے ساتھ CEATO اور SENTO معاہدے کیے جن کا مقصد بھی سویت یونین کو روکنا ہی تھا۔ اس کے بعد 1978ء میں سرد جنگ کا دور شروع ہوا جب سوویت فورسز افغانستان میں آئیں تو ہم امریکا کے اتحادی بن گئے۔ امریکا کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کو استعمال کرکے سوویت یونین کو افغانستان میں الجھایا جائے اور اس کی قوت ضائع کرکے اس کے ٹکرے کیے جائیں۔ ہم نے اس میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور امریکا کو کامیابی دلوائی۔
9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دور شروع ہوا جس میں افغانستان دہشت گردوں کا مرکز تھا اور وہ یہاں سے کارروائیاں کررہے تھے۔ اس سے پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی اور امریکا نے ہمارے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ ان تین ادوار کے درمیانی دورانیہ میں ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ دیکھیں تو امریکا نے ہمیشہ ہمیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور جب ضرورت نہ ہو تو تعلقات سردمہری کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر ہم پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اقتصادی پہلو نہیں ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو افغانستان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوگا؟ ایسا تب ہوسکتا ہے جب افغانستان سے ہٹ کر امریکا کا کوئی دوسرا مفاد ہمارے ساتھ وابستہ ہو۔ ہماری تجارت بھی امریکا کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امریکی تجارتی مارکیٹ میں جو رعایت حاصل تھی وہ بھی ختم ہوچکی ہے جس سے ہماری ایکسپورٹ ختم ہوتی چلی گئی۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ سے یہ تصور کرنا کہ تعلقات بہتر جائیں گے اور برف پگھل جائے گی تو یہ درست نہیں ہے۔ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی بلکہ خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں مزید پریشر آئے گا۔چین کے خلاف امریکا بھارت کو اس خطے میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے۔ سی پیک منصوبہ امریکا کو ایک نظر نہیں بھاتا کیونکہ اس سے چین کی اقتصادی قوت میں مزید اضافہ، امریکا کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ وائٹ ہاؤس میں بھارتی اثرو رسوخ زیادہ ہے جبکہ ہماری لابنگ کمزور ہے۔
وہاں اہم پوزیشنوں پر خدمات سر انجام دینے والے 10 لوگ بھارتی نژاد ہیں جو یقینا اپنے ملک کیلئے لابنگ کرتے ہوں گے جبکہ ہم نان کیرئیر سفیر بھیجتے ہیںجسے وزیراعظم صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے تعینات کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں ہماری لابنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکی پریشر کو صرف اسی صورت میں کم کیا جاسکتا ہے کہ ہم امریکی امدا د کی طرف نہ دیکھیں۔ امریکا نے افغانستان میں بہت مار کھائی ہے۔ وہ اربوں ڈالر کی جنگ ہار گیا مگر ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ طالبان آج بھی افغانستان کے ایک بڑے حصے پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں اور کٹھ پتلی افغان انتظامیہ بالکل بے بس ہے۔ ہماری افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور افغان بارڈر پر مکمل باڑ لگانے کا آغاز کیا۔ ہماری پالیسیوں سے طالبان ہم سے خفا ہوئے۔
اب یہ کہنا کہ طالبان پر ہمارے زیر اثر ہیں اور ہماری مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کریں گے تو یہ درست نہیں۔ امریکا، افغانستان میں ایک کٹھ پتلی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کا مطالبہ تھا کہ وہ امریکی فورسز کی موجودگی میں مذاکرات نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دو مرتبہ ان کو مذاکرات پر رضا مند کیالیکن پہلی مرتبہ ملا عمر کی ہلاکت خبر چلا کر جبکہ دوسری مرتبہ ملا اختر منصور کومار کر مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سے طالبان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور پاکستان پر ان کا اعتماد کم ہوا۔ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے کمرشل مفادات کی وجہ سے طالبان کو مروا رہاہے۔ طالبان نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرلیا ہے لہٰذا اگر امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان اسے محفوظ راستہ دلوانے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
امریکا طالبان سے سیاسی حل پر رضامند ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ جنگ بند نہ کرے بلکہ وہ طالبان کو دباؤ میں لاکر مذاکرات کی طرف لے جانا چاہتا ہے جبکہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اس وقت دباؤ میں ہے لہٰذا وہ اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتا بلکہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس میں امریکی مداخلت رہے تاکہ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکا جاسکے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس لیے کردار ادا کرے۔ شاہ محمود قریشی نے پہلا دورہ افغانستان کرنے کا اعلان کیا مگر سوال یہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کا فائدہ کیا ہوگا؟ وہ اس میں کیا کردار ادا کرسکیں گے؟ کیاوزیر خارجہ دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کریں گے؟افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے انہیں دھوکا دیا اور ہماری وجہ سے ہی ان کی قیادت ماری گئی۔بھارت نے افغانستان میں اپنا سافٹ امیج بہتر کیا ہے۔ بڑی تعداد میں افغان طلبہ بھارت میں سکالر شپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
ا نہی طلبہ نے آگے جاکر افغانستان کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ افغانستان میں عوامی سطح پر بھارت کی ساکھ پاکستان کی نسبت بہتر ہے۔ میرے نزدیک ایسا صرف امریکا کی وجہ سے ہوا اور ہم نے اس کی خاطر سب کو ناراض کرلیا۔ اب ہماری سول و فوجی قیادت طالبان کے حوالے سے افغانستان میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی لہٰذا جب امریکا پر دباؤ آئے گا تو وہ ہم پر دباو ڈالے گا۔ ہم امریکا کے ساتھ برف پگھلنے کی بات کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ ہم اس سے کیا فائدہ اٹھائیں گے؟ کیا اس کا مطلب آئی ایم ایف یا کوئی اور امداد ہے ؟ ٹرمپ نے پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت بات نہیں کی اور نہ ہی نو منتخب وزیراعظم پاکستان کو مبارکباد دی۔ میرے نزدیک اس وقت پاک امریکا تعلقات تاریخ کے کشیدہ ترین دور سے گزر رہے ہیں اور مستقبل قریب میں ان میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیںآرہی۔
محمد مہدی
( ماہر امور خارجہ)
پاک امریکا تعلقات شروع سے ہی نشیب و فراز کا شکار ہیں۔ نئی حکومت کو بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو ماضی کی حکومتوں کورہے مگر ایک بات واضح ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور امریکا کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ کیا باتیں ہوں گی تاہم امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان آنا خوش آئند ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کا راستہ دیا۔حکومت نے پاکستان کے مسائل انہیں بتائے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے حالات بہتر ہوں مگر افغانستان میں بدامنی امریکا کی خواہش ہے اور وہ کسی بھی صورت یہاں سے نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہاں رہ کر بہت سارے ممالک پر اس کی نظر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ امریکی افواج کو افغانستان سے واپس بلا لیں گے مگر انہوں نے اس کے برعکس وہاں فوجی تعداد میں اضافہ کیا اور آج بھی وہ جس قسم کی گفتگو کررہے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوج واپس نہیں بلائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا، پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ اس وقت افغانستان انتخابات کے دور میں داخل ہورہا ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اسے ان انتخابات میں سہولت فراہم کرے تاکہ طالبان بھی اس انتخابی عمل کا حصہ بن جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس سے یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ اگر اگلا صدر گلبدین حکمت یار کو بنایا جائے تو کیا فائدہ ہوگا۔ امریکا کی نظر میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔دنیا نے یہ تسلیم کیا کہ افغانستان کے گزشتہ انتخابات میں پاکستان نے کوئی مداخلت نہیں کی مگر اب امریکا چاہتا کہ افغانستان کے جو گروپ ماضی میں الیکشن کا حصہ نہیں بنے، اس مرتبہ انہیں حصہ بنایا جائے اور پاکستان اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ پاکستان نے طالبان کی قیادت کو مری میں اکٹھا کردیا تھا لیکن اس کے بعد طالبان کی سب سے اہم قیادت کو مار دیا گیا۔ اس لیے پاکستان فکرمند ہے کہ اگر پاکستان دوبارہ انہیں مذاکرات کی میز پر لے آتا ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ معاملات خراب نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت کا افغانستان میں کرادر بھی تشویشناک ہے۔
بھارت ، افغانستان میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، سی پیک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور دہشت گردی میں بھی اس کا ہاتھ ہے جو پاکستان کو برداشت نہیں ہے، اب امریکا کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا پڑے گالیکن اگر امریکا ہمارے نقطہ نظر کو نہ سمجھا تو تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے اور پاکستان اسے فائدہ نہیں دے گا۔ امریکا کو پاکستان کی باتوں کو صرف غور سے سننا ہی نہیں ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا ان باتوں پر عمل بھی کرکے دکھائے۔ اس عمل کی سب سے بنیادی شرط افغانستان میں بھارتی کردار کا خاتمہ ہے۔ یہ کسی حکومت کا نہیں بلکہ قوم کا مسئلہ ہے اور پاکستانی قوم کسی کو بھی ایک حد سے آگے نہیں جانے دے سکتی۔
دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کی سائڈ لائن میٹنگز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کس طرح دیگر اتحادی ممالک کو یہ باور کروائیں گے کہ مسئلہ کہاں ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کے مسائل میں گھس رہی ہیں۔ پاکستان کو مسائل میں کودنے کا کوئی شوق نہیں ہے بلکہ پاکستان نے کہا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر اپنے معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔ امید ہے نئی حکومت پاک امریکا تعلقات مثالی بنانے کیلئے ضرور کوشش کرے گی مگر معاملات برابری کی سطح پر ہی طے ہونے چاہئیں۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار)
امریکا اور پاکستان کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ سے امریکا سے دور ہوجائیں گے۔میرے نزدیک اگر کوئی ملک نیا سٹرٹیجک پارٹنر ڈھونڈھ بھی لے تو پرانے پارٹنر کو بالکل رد نہیں کیا جاتا، اس کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ افغانستان میں امریکا کے بے شمار مفادات ہیں، اسی لیے اس خطے میں اسے ہماری ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اس کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے خود شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے تعلقات کافی حد تک بگڑ چکے ہیں اور اس وقت ایک ڈیڈلاک کی فضا ہے۔ جوفون کال ہوئی اس سے بھی معاملہ خراب ہوا، جس سے ایسا لگا کہ ہم اور امریکا مختلف طریقے سے سوچ رہے ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں تناؤ کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں سی پیک ، دہشت گردی کی جنگ اور طالبان کے ساتھ مصالحتی کردار ہے۔پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے جس پر نہ صرف امریکا بلکہ ہندوستان کو بھی تحفظات ہیں۔ نریندر مودی تو یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ سی پیک کا معاملہ قبول نہیں ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ امریکا ہمیں دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرنے پر تھپکی بھی دیتا ہے اور ''ڈومور'' کا مطالبہ کرکے ہم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا۔
اس کی وجہ سٹرٹیجک نقطہ نظر سے یہ ہے وہ پاکستان کو اتنی تھپکی نہ دیں کہ پاکستان آگے کچھ نہ کرسکے بلکہ وہ پریشر میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اس پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو امریکا کے بعض نمائندوں کی طرف سے بیان آجاتا ہے کہ پاکستان کی بہت قربانیاں ہیں، ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔ تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکا چاہتاہے کہ پاکستان آگے بڑھ کر افغان طالبان کے ساتھ ہماری مصالحت کروائے۔ اس میں افغان طالبان، افغان حکومت اور امریکا تین فریق ہیں۔ اس پر پاکستان بار بار یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ ماضی کے افغان طالبان نہیں ہیں بلکہ یہ تبدیل شدہ طالبان ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں بتائے کہ ان مذاکرات میں جاکر ہمیں کیا ملے گا کیونکہ ہم اس طرح کے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں کہ فائدہ صرف امریکا اور افغان حکومت کو جائے یا ہمارا کردار کم ہوجائے۔
پاکستان نے مری مذاکرات کی کوشش کی جنہیں امریکا، بھارت اور افغان گٹھ جوڑ نے سبوتاژ کیا۔ امریکا بنیادی غلطی یہ کررہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ طالبان، پاکستان کے کنٹرول میں ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ طالبان اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ امریکا ابھی تک خود بھی واضح نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو کیا فائدہ دے سکتا ہے جبکہ طالبان یہ کہتے ہیں کہ وہ جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر کیوں ہاریں؟امریکا اس خطے میں بھارت کی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے جو پاکستان کو کسی بھی طور قابل قبول نہیں تاہم پاکستان، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات خواہاں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں پاکستان کاموقف یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی ہیں اور اس جنگ میں آپ کی وجہ سے ہی کودے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست پاکستان، افواج اور اس قوم نے جتنا اہم کردار ادا کیا، کسی بھی دوسرے ملک نے نہیں کیا۔ اس کی مد میں جو فنڈ ہمیں ملنا چاہیے تھا وہ اس طرح سے نہیں ملا بلکہ آج بھی ہم پہ عدم اعتماد کا اظہار کیاجاتا ہے اور شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا پہلا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ کے خلاف ہمارے کردار کو تسلیم کیا جائے اور اسے قبول کرکے فنڈ میں جو حصہ بنتا ہے وہ ہمیں دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی ہیں مگر بھارت مذاکرات کیلئے بالکل تیار نہیں ہے لہٰذا بھارت کو یہ احساس دلوائیں کہ خطے کی ترقی اور امن و امان کیلئے اسے مذاکرات کی طرف آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کیا جائے جو پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کررہا ہے۔ ہمارے وزراء اعظم نے عالمی اداروں کو بھارتی مداخلت کے شواہد دیے، کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی ہوا مگر اس کے باوجود امریکا، بھارت پر دباؤ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
ہمارا مسئلہ کشمیر کا بھی ہے اور وہاں بھارتی افواج کی بربریت کی انتہا ہوگئی ہے۔ محبوبہ مفتی نے نریندر مودی کو کہا کہ کشمیری بہت آگے جاچکے ہیں لہٰذا مسئلہ کشمیر اب حل کرنا ہوگا،بھارت کا روایتی نقطئہ نظر اب قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا، بھارت پر دباؤ ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرائے کیونکہ ہم اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ امریکا، بھارت اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاک فوج پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں۔ ہم ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ثابت کرکے دکھایا ہے اور گڈ بیڈ طالبان کی اصطلاح کو بھی ختم کیا۔ ہمارے اپنے لوگوں نے بھی افواج پاکستان پر الزامات لگائے جس سے سول ملٹری تناؤ کا پیغام دنیا کو گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس وقت سول، ملٹری تمام ادارے ایک پیج پر ہیں،امید ہے کہ اب معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ جہاں امریکا کے مطالبات ہیں وہیں پاکستان کے بھی مطالبات ہیں اور اس میں واحد راستہ مذاکرات کا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کاپاکستان کے بعد دورہ بھارت ، ہم پر دباؤ ڈال کر اسے خوش کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت مذاکرات کو پاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے پاکستان آنے سے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا تاہم برف پگھلی ہے لہٰذا ابھی مذکرات کے مزید دور شروع ہوں گے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔ امریکا جانتا ہے کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیں گے،وزیراعظم نے ملاقات میں جو انداز اپنایا اس بھی امریکا کو پیغام ملا کہ پاکستان اب کس انداز میں آگے بڑھنا چاہتا ہے لہٰذا اب اسی طرح ہی معاملات آگے چلیں گے۔
جی ایچ کیو میں وزیراعظم کو 6 گھنٹے کی بریفنگ خوش آئند ہے۔ اس سے سول ملٹری توازن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے سول ملٹری قیادت الگ الگ موقف پر تھی جس سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی تھیں۔ امریکا اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے تین کام کرنا پڑیں گے۔ پہلا یہ کہ روکا ہوا فنڈ بحال کرے۔ دوسرا یہ کہ پاک امریکا ڈائیلاگ میں جب تک بھارت اور افغانستان کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک خطے کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کو یہ باور کروایا جائے کہ اگر پاکستان طالبان کے ساتھ معاملات آگے بڑھاتا ہے تو اس کی پوری سرپرستی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی یہ بتایا جائے کہ مذاکرات سے انہیںکیا فائدہ ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات نازک دور میں ہیں لیکن اگر نئی حکومت نے اپنے کارڈ اچھے طریقے سے کھیلے تو فائدہ ہوگا۔
''امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستا ن اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ
(دفاعی تجزیہ نگار)
امریکاکے ساتھ ہمارا رشتہ حاکم اور محکوم کا رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر امریکا کو رعایت دی اوراس کے ایسے مطالبات بھی مان لیے جن پر خود امریکا حیرت کا شکار ہوا مگر اس سے نقصان پاکستان کو ہوا۔ ہماری بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی کمزوریوں کا رونا رویا مگر اپنی طاقت کو نہیں دیکھا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امریکا ہمارے بغیر افغان جنگ نہیں جیت سکتا۔ امریکا ،افغانستان میں اپنی جنگ ہار رہا ہے جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں، وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی فتح اس کی جھولی میں ڈال دیں۔
ہمیں محکوم بننے کے بجائے سر اٹھا کر چلنا ہوگا اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ اگر ہم اس طرح چلیں گے تو امریکا ہماری خرابیوں کے ساتھ ساتھ ہماری طاقت کو بھی دیکھے گا۔ ہمیں اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ اس میں ہمیں عارضی نقصان ضرور ہوگا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جن ممالک نے امریکا سے علیحدگی اختیار کی وہ فائدے میں رہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایران ہے۔ ایران ایٹمی طاقت بھی نہیں ہے لیکن امریکا نے اس کا کیا بگاڑ لیا؟ ہمیں سفارتی محاذ پربھی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے سفیر پاکستان کے بجائے امریکا کے پے رول پر رہے اور انہوں نے پاکستان کے لیے موثر کام نہیں کیا۔ہمیں ملک کے اندر بھی مسائل کا سامنا رہا۔ یہاں ایسا بھی ہوا کہ حکومت اور فوج الگ الگ بات کرتی نظر آئی جس سے دنیا نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ہمیں اپنے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی اور دیکھنا ہوگا کہ ہمارے کون سے لوگ امریکا کیلئے کام کرر ہے ہیں۔ اگر ہم خود کو ٹھیک کرلیں تو ہمارے بیرونی مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ ہمیں امداد کیلئے امریکا کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ امریکی فنڈ ہمارے کام کے بدلے تھا۔ اگر اس نے فنڈ روک دیا ہے تو ہمیں کام روک دینا چاہیے۔ جب امریکا نے امداد بند کرنے کی دھمکی دی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں۔ فوج ذہنی طور پر تیار ہے، اب اس قوم کو بھی تیار ہونا ہوگا ۔ اگر ہم ان کے محکوم بنے رہیں گے تو معاملات کبھی درست نہیں ہوں گے۔ہمیں بطور غیرت مند قوم مذاکرات کرنے چاہئیں اور اس مرتبہ امریکا کو یہ پیغام بھی گیا ہے کہ اب معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔
وزیراعظم کے جی ایچ کیو جانے پر تنقید کی جارہی ہے حالانکہ یہ مثبت اقدام ہے اور دنیا بھر میں یہ طریقہ ہے کہ سکیورٹی مسائل پر بریفنگ دی جاتی ہے اور سول ملٹری ادارے ساتھ چلتے ہیں۔ ہماری افواج ''بیٹل ہارڈنڈ'' ہیں جن کا مقابلہ مشکل ہے لہٰذا یہ خوش آئند ہے کہ اس وقت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں۔ اگر ہم اتحاد و یگانگت سے چلیں گے تو امریکا سمیت دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔بھارت ،کشمیر میں بربریت کی انتہا کررہا ہے جسے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی تسلیم کیا گیا، بھارت کیلئے کشمیریوں پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔اگر پاکستان اپنے پتے اچھے طریقے سے کھیلے تومسئلہ کشمیر کے حل سمیت بہت سارے مطابات منوا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(تجزیہ نگار)
بین الاقوامی تعلقات کی مضبوطی یہ ہوتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔ امریکا اور بھارت کے تعلقات تجارتی بھی ہیں اور سفارتی بھی۔ بھارت، امریکا کے لیے اسلحہ کی ایک بڑی مارکیٹ ہے اور وہاں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری بھی ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے تعلقات کبھی بھی اس نہج پر نہیں رہے۔ ہم نے ہمیشہ امداد کیلئے امریکا کی طرف دیکھا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات کے تین ادوار گزرے ہیں جن میں سوویت یونین کے کردار کو ختم کرنے کا دور، پھر سرد جنگ اور تیسرا دور 9/11 کے بعد شروع ہوا۔
60ء کی دہائی میں مغربی بارڈر کی وجہ سے ہماری اہمیت تھی کہ ہمارے ذریعے سوویت یونین کے کردار کو افغانستان میں روکا جاسکتا تھا۔ اسی لیے امریکا نے ہمارے ساتھ CEATO اور SENTO معاہدے کیے جن کا مقصد بھی سویت یونین کو روکنا ہی تھا۔ اس کے بعد 1978ء میں سرد جنگ کا دور شروع ہوا جب سوویت فورسز افغانستان میں آئیں تو ہم امریکا کے اتحادی بن گئے۔ امریکا کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کو استعمال کرکے سوویت یونین کو افغانستان میں الجھایا جائے اور اس کی قوت ضائع کرکے اس کے ٹکرے کیے جائیں۔ ہم نے اس میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور امریکا کو کامیابی دلوائی۔
9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دور شروع ہوا جس میں افغانستان دہشت گردوں کا مرکز تھا اور وہ یہاں سے کارروائیاں کررہے تھے۔ اس سے پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی اور امریکا نے ہمارے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ ان تین ادوار کے درمیانی دورانیہ میں ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ دیکھیں تو امریکا نے ہمیشہ ہمیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور جب ضرورت نہ ہو تو تعلقات سردمہری کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر ہم پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اقتصادی پہلو نہیں ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو افغانستان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جبکہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوگا؟ ایسا تب ہوسکتا ہے جب افغانستان سے ہٹ کر امریکا کا کوئی دوسرا مفاد ہمارے ساتھ وابستہ ہو۔ ہماری تجارت بھی امریکا کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امریکی تجارتی مارکیٹ میں جو رعایت حاصل تھی وہ بھی ختم ہوچکی ہے جس سے ہماری ایکسپورٹ ختم ہوتی چلی گئی۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ سے یہ تصور کرنا کہ تعلقات بہتر جائیں گے اور برف پگھل جائے گی تو یہ درست نہیں ہے۔ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی بلکہ خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں مزید پریشر آئے گا۔چین کے خلاف امریکا بھارت کو اس خطے میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے۔ سی پیک منصوبہ امریکا کو ایک نظر نہیں بھاتا کیونکہ اس سے چین کی اقتصادی قوت میں مزید اضافہ، امریکا کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ وائٹ ہاؤس میں بھارتی اثرو رسوخ زیادہ ہے جبکہ ہماری لابنگ کمزور ہے۔
وہاں اہم پوزیشنوں پر خدمات سر انجام دینے والے 10 لوگ بھارتی نژاد ہیں جو یقینا اپنے ملک کیلئے لابنگ کرتے ہوں گے جبکہ ہم نان کیرئیر سفیر بھیجتے ہیںجسے وزیراعظم صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے تعینات کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں ہماری لابنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکی پریشر کو صرف اسی صورت میں کم کیا جاسکتا ہے کہ ہم امریکی امدا د کی طرف نہ دیکھیں۔ امریکا نے افغانستان میں بہت مار کھائی ہے۔ وہ اربوں ڈالر کی جنگ ہار گیا مگر ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ طالبان آج بھی افغانستان کے ایک بڑے حصے پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں اور کٹھ پتلی افغان انتظامیہ بالکل بے بس ہے۔ ہماری افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی اور افغان بارڈر پر مکمل باڑ لگانے کا آغاز کیا۔ ہماری پالیسیوں سے طالبان ہم سے خفا ہوئے۔
اب یہ کہنا کہ طالبان پر ہمارے زیر اثر ہیں اور ہماری مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کریں گے تو یہ درست نہیں۔ امریکا، افغانستان میں ایک کٹھ پتلی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کا مطالبہ تھا کہ وہ امریکی فورسز کی موجودگی میں مذاکرات نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دو مرتبہ ان کو مذاکرات پر رضا مند کیالیکن پہلی مرتبہ ملا عمر کی ہلاکت خبر چلا کر جبکہ دوسری مرتبہ ملا اختر منصور کومار کر مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس سے طالبان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور پاکستان پر ان کا اعتماد کم ہوا۔ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنے کمرشل مفادات کی وجہ سے طالبان کو مروا رہاہے۔ طالبان نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرلیا ہے لہٰذا اگر امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان اسے محفوظ راستہ دلوانے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
امریکا طالبان سے سیاسی حل پر رضامند ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ جنگ بند نہ کرے بلکہ وہ طالبان کو دباؤ میں لاکر مذاکرات کی طرف لے جانا چاہتا ہے جبکہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اس وقت دباؤ میں ہے لہٰذا وہ اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتا بلکہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس میں امریکی مداخلت رہے تاکہ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکا جاسکے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس لیے کردار ادا کرے۔ شاہ محمود قریشی نے پہلا دورہ افغانستان کرنے کا اعلان کیا مگر سوال یہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کا فائدہ کیا ہوگا؟ وہ اس میں کیا کردار ادا کرسکیں گے؟ کیاوزیر خارجہ دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کریں گے؟افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے انہیں دھوکا دیا اور ہماری وجہ سے ہی ان کی قیادت ماری گئی۔بھارت نے افغانستان میں اپنا سافٹ امیج بہتر کیا ہے۔ بڑی تعداد میں افغان طلبہ بھارت میں سکالر شپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
ا نہی طلبہ نے آگے جاکر افغانستان کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ افغانستان میں عوامی سطح پر بھارت کی ساکھ پاکستان کی نسبت بہتر ہے۔ میرے نزدیک ایسا صرف امریکا کی وجہ سے ہوا اور ہم نے اس کی خاطر سب کو ناراض کرلیا۔ اب ہماری سول و فوجی قیادت طالبان کے حوالے سے افغانستان میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی لہٰذا جب امریکا پر دباؤ آئے گا تو وہ ہم پر دباو ڈالے گا۔ ہم امریکا کے ساتھ برف پگھلنے کی بات کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ ہم اس سے کیا فائدہ اٹھائیں گے؟ کیا اس کا مطلب آئی ایم ایف یا کوئی اور امداد ہے ؟ ٹرمپ نے پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت بات نہیں کی اور نہ ہی نو منتخب وزیراعظم پاکستان کو مبارکباد دی۔ میرے نزدیک اس وقت پاک امریکا تعلقات تاریخ کے کشیدہ ترین دور سے گزر رہے ہیں اور مستقبل قریب میں ان میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیںآرہی۔
محمد مہدی
( ماہر امور خارجہ)
پاک امریکا تعلقات شروع سے ہی نشیب و فراز کا شکار ہیں۔ نئی حکومت کو بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو ماضی کی حکومتوں کورہے مگر ایک بات واضح ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور امریکا کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ کیا باتیں ہوں گی تاہم امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان آنا خوش آئند ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کا راستہ دیا۔حکومت نے پاکستان کے مسائل انہیں بتائے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے حالات بہتر ہوں مگر افغانستان میں بدامنی امریکا کی خواہش ہے اور وہ کسی بھی صورت یہاں سے نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہاں رہ کر بہت سارے ممالک پر اس کی نظر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ امریکی افواج کو افغانستان سے واپس بلا لیں گے مگر انہوں نے اس کے برعکس وہاں فوجی تعداد میں اضافہ کیا اور آج بھی وہ جس قسم کی گفتگو کررہے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوج واپس نہیں بلائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا، پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ اس وقت افغانستان انتخابات کے دور میں داخل ہورہا ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اسے ان انتخابات میں سہولت فراہم کرے تاکہ طالبان بھی اس انتخابی عمل کا حصہ بن جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس سے یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ اگر اگلا صدر گلبدین حکمت یار کو بنایا جائے تو کیا فائدہ ہوگا۔ امریکا کی نظر میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔دنیا نے یہ تسلیم کیا کہ افغانستان کے گزشتہ انتخابات میں پاکستان نے کوئی مداخلت نہیں کی مگر اب امریکا چاہتا کہ افغانستان کے جو گروپ ماضی میں الیکشن کا حصہ نہیں بنے، اس مرتبہ انہیں حصہ بنایا جائے اور پاکستان اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ پاکستان نے طالبان کی قیادت کو مری میں اکٹھا کردیا تھا لیکن اس کے بعد طالبان کی سب سے اہم قیادت کو مار دیا گیا۔ اس لیے پاکستان فکرمند ہے کہ اگر پاکستان دوبارہ انہیں مذاکرات کی میز پر لے آتا ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ معاملات خراب نہیں کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت کا افغانستان میں کرادر بھی تشویشناک ہے۔
بھارت ، افغانستان میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، سی پیک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور دہشت گردی میں بھی اس کا ہاتھ ہے جو پاکستان کو برداشت نہیں ہے، اب امریکا کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا پڑے گالیکن اگر امریکا ہمارے نقطہ نظر کو نہ سمجھا تو تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے اور پاکستان اسے فائدہ نہیں دے گا۔ امریکا کو پاکستان کی باتوں کو صرف غور سے سننا ہی نہیں ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا ان باتوں پر عمل بھی کرکے دکھائے۔ اس عمل کی سب سے بنیادی شرط افغانستان میں بھارتی کردار کا خاتمہ ہے۔ یہ کسی حکومت کا نہیں بلکہ قوم کا مسئلہ ہے اور پاکستانی قوم کسی کو بھی ایک حد سے آگے نہیں جانے دے سکتی۔
دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کی سائڈ لائن میٹنگز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کس طرح دیگر اتحادی ممالک کو یہ باور کروائیں گے کہ مسئلہ کہاں ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کے مسائل میں گھس رہی ہیں۔ پاکستان کو مسائل میں کودنے کا کوئی شوق نہیں ہے بلکہ پاکستان نے کہا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر اپنے معاملات کو آگے بڑھانا ہے۔ امید ہے نئی حکومت پاک امریکا تعلقات مثالی بنانے کیلئے ضرور کوشش کرے گی مگر معاملات برابری کی سطح پر ہی طے ہونے چاہئیں۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار)
امریکا اور پاکستان کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ سے امریکا سے دور ہوجائیں گے۔میرے نزدیک اگر کوئی ملک نیا سٹرٹیجک پارٹنر ڈھونڈھ بھی لے تو پرانے پارٹنر کو بالکل رد نہیں کیا جاتا، اس کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ افغانستان میں امریکا کے بے شمار مفادات ہیں، اسی لیے اس خطے میں اسے ہماری ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اس کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے پہلے خود شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمارے تعلقات کافی حد تک بگڑ چکے ہیں اور اس وقت ایک ڈیڈلاک کی فضا ہے۔ جوفون کال ہوئی اس سے بھی معاملہ خراب ہوا، جس سے ایسا لگا کہ ہم اور امریکا مختلف طریقے سے سوچ رہے ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں تناؤ کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں سی پیک ، دہشت گردی کی جنگ اور طالبان کے ساتھ مصالحتی کردار ہے۔پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے جس پر نہ صرف امریکا بلکہ ہندوستان کو بھی تحفظات ہیں۔ نریندر مودی تو یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ سی پیک کا معاملہ قبول نہیں ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ امریکا ہمیں دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرنے پر تھپکی بھی دیتا ہے اور ''ڈومور'' کا مطالبہ کرکے ہم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستان نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ہونا چاہیے تھا۔
اس کی وجہ سٹرٹیجک نقطہ نظر سے یہ ہے وہ پاکستان کو اتنی تھپکی نہ دیں کہ پاکستان آگے کچھ نہ کرسکے بلکہ وہ پریشر میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اس پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو امریکا کے بعض نمائندوں کی طرف سے بیان آجاتا ہے کہ پاکستان کی بہت قربانیاں ہیں، ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔ تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکا چاہتاہے کہ پاکستان آگے بڑھ کر افغان طالبان کے ساتھ ہماری مصالحت کروائے۔ اس میں افغان طالبان، افغان حکومت اور امریکا تین فریق ہیں۔ اس پر پاکستان بار بار یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ ماضی کے افغان طالبان نہیں ہیں بلکہ یہ تبدیل شدہ طالبان ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیں بتائے کہ ان مذاکرات میں جاکر ہمیں کیا ملے گا کیونکہ ہم اس طرح کے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں کہ فائدہ صرف امریکا اور افغان حکومت کو جائے یا ہمارا کردار کم ہوجائے۔
پاکستان نے مری مذاکرات کی کوشش کی جنہیں امریکا، بھارت اور افغان گٹھ جوڑ نے سبوتاژ کیا۔ امریکا بنیادی غلطی یہ کررہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ طالبان، پاکستان کے کنٹرول میں ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ طالبان اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ امریکا ابھی تک خود بھی واضح نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو کیا فائدہ دے سکتا ہے جبکہ طالبان یہ کہتے ہیں کہ وہ جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر کیوں ہاریں؟امریکا اس خطے میں بھارت کی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے جو پاکستان کو کسی بھی طور قابل قبول نہیں تاہم پاکستان، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات خواہاں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں پاکستان کاموقف یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی ہیں اور اس جنگ میں آپ کی وجہ سے ہی کودے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست پاکستان، افواج اور اس قوم نے جتنا اہم کردار ادا کیا، کسی بھی دوسرے ملک نے نہیں کیا۔ اس کی مد میں جو فنڈ ہمیں ملنا چاہیے تھا وہ اس طرح سے نہیں ملا بلکہ آج بھی ہم پہ عدم اعتماد کا اظہار کیاجاتا ہے اور شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا پہلا موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ کے خلاف ہمارے کردار کو تسلیم کیا جائے اور اسے قبول کرکے فنڈ میں جو حصہ بنتا ہے وہ ہمیں دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی ہیں مگر بھارت مذاکرات کیلئے بالکل تیار نہیں ہے لہٰذا بھارت کو یہ احساس دلوائیں کہ خطے کی ترقی اور امن و امان کیلئے اسے مذاکرات کی طرف آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ''را'' اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کو ختم کیا جائے جو پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کررہا ہے۔ ہمارے وزراء اعظم نے عالمی اداروں کو بھارتی مداخلت کے شواہد دیے، کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی ہوا مگر اس کے باوجود امریکا، بھارت پر دباؤ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
ہمارا مسئلہ کشمیر کا بھی ہے اور وہاں بھارتی افواج کی بربریت کی انتہا ہوگئی ہے۔ محبوبہ مفتی نے نریندر مودی کو کہا کہ کشمیری بہت آگے جاچکے ہیں لہٰذا مسئلہ کشمیر اب حل کرنا ہوگا،بھارت کا روایتی نقطئہ نظر اب قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا، بھارت پر دباؤ ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرائے کیونکہ ہم اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ امریکا، بھارت اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاک فوج پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں۔ ہم ان سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ثابت کرکے دکھایا ہے اور گڈ بیڈ طالبان کی اصطلاح کو بھی ختم کیا۔ ہمارے اپنے لوگوں نے بھی افواج پاکستان پر الزامات لگائے جس سے سول ملٹری تناؤ کا پیغام دنیا کو گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس وقت سول، ملٹری تمام ادارے ایک پیج پر ہیں،امید ہے کہ اب معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ جہاں امریکا کے مطالبات ہیں وہیں پاکستان کے بھی مطالبات ہیں اور اس میں واحد راستہ مذاکرات کا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کاپاکستان کے بعد دورہ بھارت ، ہم پر دباؤ ڈال کر اسے خوش کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت مذاکرات کو پاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ کے پاکستان آنے سے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا تاہم برف پگھلی ہے لہٰذا ابھی مذکرات کے مزید دور شروع ہوں گے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔ امریکا جانتا ہے کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیں گے،وزیراعظم نے ملاقات میں جو انداز اپنایا اس بھی امریکا کو پیغام ملا کہ پاکستان اب کس انداز میں آگے بڑھنا چاہتا ہے لہٰذا اب اسی طرح ہی معاملات آگے چلیں گے۔
جی ایچ کیو میں وزیراعظم کو 6 گھنٹے کی بریفنگ خوش آئند ہے۔ اس سے سول ملٹری توازن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے سول ملٹری قیادت الگ الگ موقف پر تھی جس سے دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی تھیں۔ امریکا اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے تین کام کرنا پڑیں گے۔ پہلا یہ کہ روکا ہوا فنڈ بحال کرے۔ دوسرا یہ کہ پاک امریکا ڈائیلاگ میں جب تک بھارت اور افغانستان کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک خطے کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان کو یہ باور کروایا جائے کہ اگر پاکستان طالبان کے ساتھ معاملات آگے بڑھاتا ہے تو اس کی پوری سرپرستی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی یہ بتایا جائے کہ مذاکرات سے انہیںکیا فائدہ ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات نازک دور میں ہیں لیکن اگر نئی حکومت نے اپنے کارڈ اچھے طریقے سے کھیلے تو فائدہ ہوگا۔