مرکزکے ساتھ بہترتعلقات کے خواہاں ہیں
خیبرپختون خوا اسمبلی کو جرگہ کے انداز میں چلائیں گے
صوابی کی مردم خیز مٹی نے مختلف ادوارمیں ادب، سیاست، تعلیم اورثقافت کے میدان میں بڑے بڑے شہ سواروں کوجنم دیا ہے،جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے جس نوجوان کا میں ذکرکرنا چاہتا ہوں، ایسے نوجوانوں کے بارے میں پشتو زبان کے معروف شاعر امیرحمزہ شنواری کے ایک شعر کا مفہوم ہے'' کہ یہ جودوچار نوجوان نظر آرہے ہیں، قوم کے لیے نعمت ہیں، مجھے ان کی باوقار دستاریں دیکھ کرخوشی ہوتی ہے''۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم کے بزرگ اپنی نئی نسل سے بہت سی امیدیں باندھتے ہیں پھر دنیا میں کچھ لوگ اتنے خوش قسمت ہوا کرتے ہیں جنہیں قدرت لڑک پن اور جوانی میں''بڑوں'' جیسی عزت اورعہدوں سے نوازتی ہے، ان ہی لوگوں میں ایک نام ہماری آج کی شخصیت کا بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں عام طور پر دوقسم کے انسان بستے ہیں ایک وہ جوحقیقت پسند ہیں اور دوسرے وہ جوکسی نصب العین کے پرستار ہیں، جولوگ اسد قیصر کو قریب سے جانتے ہیں وہ برملا اس بات کااعتراف کریں گے کہ وہ بچ پن سے لے کر اب تک ایک ایسے نصب العین کے پرستار رہے ہیں جس میں امن، مساوات، عدل و انصاف اور ملک و قوم کی یک ساں تعمیر وترقی کا خواب شامل ہے۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے نہیں، جنہوں نے سیاست کو منافع بخش کاروبار کی طرح اپنایا، وہ ان میں سے بھی نہیں جنہوں نے سیاست میں آ کر کئی کئی ایکڑ زمینیں ہتھیائیں، نئے ماڈلوں کی بیش قیمت گاڑیاں حاصل کیں اور محلات کھڑے کیے بل کہ اسد قیصر اپنی ذاتی دولت عوامی خدمت پرخرچ کرنے کے قائل ہیں۔
ایک اور خاص خوبی، جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں، یہ ہے کہ وہ شرافت، حسن اخلاق، پرہیزگاری اور عجز و انکسار کا پیکر ہیں، ان کے نزدیک قدرت نے انسان کوانصاف، علم، اعتدال اور نیکی سے محبت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ خواہشوں کوانسانیت کے راستے میں کھڑی دیوار قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ خواہش ایک حد میں رہے تو فطری ہے اور بے لگام ہو جائے تو ہوس بن جاتی ہے اور ہوس انسان کو درجۂ انسانیت سے نیچے گرا دیتی ہے کیوں کہ ہوس جائز اور ناجائز کا فرق مٹا دیتی ہے۔ ان کی نظرمیں غلام اس کوکہتے ہیں جس نے اپنے خیال اور رائے کی آزادی کھو دی ہو، غلامی کی سب سے خطرناک صورت ذہن اور فکر کی غلامی ہے۔
ضلع صوابی خیبرپختون خوا کا ایک زرخیز اور مردم خیز ضلع سمجھا جاتا ہے، جس نے تاریخ کے ہر دور میں کئی اہم شخصیات کوجنم دیا۔ سیاست اور تعلیم میں ابھرتے ہوئے نوجوان اسد قیصرکا نام بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل پر بہت کم وقت میں دونوں شعبوں میں نام ومقام پیدا کیا۔ وہ 2 جنوری1967 کو مرغز نامی گاؤں میں سرداربہادر کے ہاں پیدا ہوئے، چاربہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، میٹرک تک گاؤں کے سرکاری اسکول ہی سے پڑھے، بی اے گوہاٹی کالج صوابی سے کیا۔
فرسٹ ایئر میں جمعیت طلبائِ اسلام میں شامل ہوئے جب کہ ان کے والد کٹر مسلم لیگی تھے، انہیں جب اس بات کا علم ہوا کہ صاحب زادہ سیاسی طور پر ''گم راہ'' ہو چکا ہے تو اسد قیصر کوگھر سے نکال دیا، یہ دس دن گھر سے باہر یوسفِ بے کاررواں بنے پھرے مگر سُدھرنے والے نہیں تھے، سودا یہاں تک اثر کیے ہوئے تھا جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان بھی گئے۔ جماعت اسلامی کے رکن اور پاس بان کے ڈویژنل صدربھی رہے۔
بچ پن میں مچھلیوں اور پرندوں کا شکار خوب کھیلا، مرغ پالنے کا بھی شوق رہا، اسکول میں والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے، کالج میں ہاکی کھیلی اور ٹیم کے کپتان رہے، اسکول کے زمانے میں عید کے روز پیسے جمع کرکے فلم دیکھنے جہاں گیرہ سینما جایا کرتے تھے، پہلی فلم پشتو کی ''گنڑکپ'' (جیب کترا) دیکھی، والد کو ان کی فلم بینی کا پتا چلا تو وہ درگت بنی کہ چار دن چارپائی سے اٹھ نہیں پائے مگر مڑنے والے تھو ڑی تھے، سینما چھوڑا تو وی سی آر کے دوارے ہو گئے اور فلمیں اور ڈرامے دیکھنا شروع کر دیے۔
سیاست کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ 1993 میں عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور ضلع صوابی کے علاوہ مردان میں بھی ''قائداعظم گروپ آف اسکولز اینڈ کالجز'' کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ اسد قیصر واحد سیاست دان ہیں، جنہوں نے سیاست کے علاوہ تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔ عمران خان کی شخصیت اور سیاسی افکار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ1996 میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور آٹھ سال تک ضلعی صدر رہے، پھر صوبائی سیکرٹری اطلاعات بنائے گئے، اس کے بعد سینیئر نائب صدر اورپھر صوبائی صدر بنا دیے گئے اورآج تک اسی عہدے پر فائز ہیں۔
سیر و سیاحت سے گہری دل چسپی ہے، انگلینڈ، دوبئی اور سعودی عرب کی سیر کر چکے ہیں۔ ادب تو نہیں البتہ موسیقی سے لگاؤ رکھتے ہیں، عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی، محمد رفیع اور لتا منگیشکر کو شوق سے سنتے ہیں، اداکاروں میں امیتابھ بچن اور سیاست میں مولانا مودودی، باچا خان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان سے متاثر ہیں۔ 1999 میں شادی ہوئی، دو بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ ان کا خاندان اب بھی مشترکہ نظام کے تحت ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہے۔ کھانے میں چھوٹا گوشت اور پھلوں میں آم شوق سے کھاتے ہیں۔
موجودہ ملکی سیاست کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا اعتماد کھودیا ہے اب عوام کی نظریں تحریک انصاف پر ہیں کیوںکہ انصاف کے بغیر امن، دیوانے کا خواب ہے، امن کا براہ راست تعلق انصاف اورمعشیت سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری پس ماندگی کا اصل سبب تعلیم کی کمی ہے، ہماری حکومت کی کوشش ہوگی کہ تعلیم کوعام کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
شورش زدہ علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے اسد قیصر کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ مرکزی حکومت کا سبجیکٹ ہے تاہم ہماری صوبائی حکومت کی درخواست ہوگی کہ فوجی آپریشن بندکیا جائے اور مذاکرات کیے جائیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ہماری فوج لوگوں کی نظر میں مجرم نہ بنے۔ ان کے بہ قول تمام خرابیوں کی جڑملک میں غیر مساوی اور طبقاتی نطام ہے جب تک اس نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ان مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
جہاں تک ملک میں عسکریت پسندی کا تعلق ہے تو سب سے پہلے تو اس بات کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ یہ لوگ اس مقام تک کیوں اور کیسے پہنچے؟ انہیں فنڈزاور اسلحہ کہاں سے ملتا ہے ؟ سابق حکومت کہتی رہی کہ انہیں باہر سے پیسہ ملتا ہے تو پھر یہ بھی عوام کو بتائیں کہ ان لوگوں کو پیسہ اور اسلحہ کون دے رہا ہے؟ اس بارے خاموشی کیامعنیٰ رکھتاہے؟ بہ ہرکیف اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے ہم مذاکرات کی راہ اپنائیں گے، تمام مساجد و مدارس کے علماء کواعتمادمیں لے کر ان کی باہمی مشاورت سے مدارس میں ایک نیا تعلیمی نظام رائج کریں گے، جس کے سربراہان علماء ہوں گے تاکہ صوبے میں امن، ترقی وخوش حالی میں ہمارے علماء اوردینی مدارس اپنا اپنا کردارادا کریں، اس سلسلے میں ہم صوبے کے تمام بڑے چھوٹے مدارس کے سربراہوں سے ملاقاتیں کریں گے اوران کے تعاون سے صوبے میں امن کے قیام کویقینی بنائیں گے، ہم مدارس کودین کا قلعہ سمجھتے ہیں، علم ونور کے فروغ کے لیے ان کی خدمات اظہرمن الشمس ہیں، ہم ان کی مشاورت سے فروغ تعلیم کے اقدامات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈرون حملوں اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے خارجہ پالیسی میں تبدیلی وقت کا تقاضہ ہے جس کے لیے ہم صوبائی اسمبلی سے متفقہ قراردادیں سامنے لائیں گے۔ اسد قیصرکے بہ قول ہم مرکزی حکومت سے خوش گوارتعلقات کے خواہاں ہیں اورباہمی تعاون سے تمام مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، صوبے کوکرپشن فری بنانا چاہتے ہیں۔ نام زد سپیکراسمبلی کا کہنا ہے کہ صوابی کے ہرگاؤں کو ایک سال کے اندر اندر گیس فراہم کریں گے جس کے لیے خطیررقم مختص کی جائے گی،
اس کے علاوہ میڈیکل کالج، خواتین یونی ورسٹی اور جدید اسپتال بھی قائم کیاجائے گا، صوابی کو تربیلہ ڈیم سے بجلی کے 67 ٹاورزلگائے جارہے ہیں جن میں اب تک60 ٹاور لگ چکے ہیں اورباقی پرکام جاری ہے، صوابی میں چالیس میگاواٹ کا جو ٹرانسفارمر لگایا گیا ہے اس نے تاحال کام شروع نہیں کیا، اس سلسلے میں متعلقہ حکام کوہدایات دی گئی ہیں کہ تربیلہ ڈیم سے صوابی کو جانے والی لائین پر ٹاورزکاکام اورچالیس میگاواٹ ٹرانسفارمرجلدازجلدچالوکیاجائے جس سے ضلع میں جاری بجلی کے بحران پرکافی حدتک قابوپالیاجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ برداشت نہیں کی جائے گی، صوابی کے اکثردیہات میں دس دس گھنٹوں کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، اگریہ سلسلہ بند نہ کیاگیا تو متعلقہ حکام کے خلاف حکومت بھرپورکارروائی کرے گی اوراس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت اورلاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی، عوام کولوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی نے صوبے میں حکومت سازی کے حوالے سے جوفیصلے کیے ہیں وہ عوام کی فلاح اورصوبے کے وسیع ترمفادکو مدنظر رکھ کرکیے گئے ہیں، ہماری حکومت میںمیرٹ پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا، حکم رانی کا نیااندازمتعارف کریں گے جوکرپشن اوراقربا پروری سے پاک ہوگا، گڈگورننس کی آئینہ دارحکومت دیں گے، عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کوعملی جامہ پہنائیں گے،کسی بھی ممبر اورعلاقے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، انصاف پرمبنی معاشرے کا قیام اور وسائل کا منصفانہ استعمال ہمارا منشورہے، جس پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنائیں گے، ان کے بہ قول پی ٹی آئی پر صوبے کے عوام نے جس اعتمادکا اظہارکیاہے، پارٹی اس پرپورا اترے گی، پس ماندہ علاقوں کی ترقی کو فوقیت دی جائے گی تاکہ وہ جدیددورکی سہولیات سے استفادہ کرسکیں۔
اسدقیصرنے بتایا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں پائدار اور مستحکم جمہوریت کی عمارت بنیادی طورپرتین ستونوں پرکھڑی رہ سکتی ہے جن میں قومی،صوبائی اورمقامی حکومتیں شامل ہیں چناںچہ ملک کی تعمیروترقی میں یہ ہی تین ادارے کام کرتے ہیں، ہمارے ہاں ماضی میں مذکورہ تینوں اداروں میں سے صرف دو موجود تھے، جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے اگرچہ آئین میں ان تینوں اداروں کے اختیارات اور ان کی حدودو قیود کی وضاحت بھی موجود ہے، اگریہ تینوں ادارے اپنی اپنی آئینی حدود کے اندررہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کردیں تواس سے ملک کا پورا جمہوری اورآئینی ڈھانچہ بہ طریق احسن کام کرسکتا ہے مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں ابتدا سے آج تک جمہوری اورآئینی اداروں کوپنپنے نہیں دیا گیا اور غیرسیاسی لوگ ہمیشہ آمریت کواس لیے خوش آمدیدکہتے رہے کہ آمریت ہی میں ان کی زندگی ہوتی ہے، ہماری حکومت کی کوشش ہوگی کہ صوبے میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرائیں۔
تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوسکیں اور صوبے میں مقامی حکومت کی جڑیں مضبوط ہوں، جس سے صوبائی اسمبلی کے ممبران پربھی بوجھ کم ہوجائے گا۔ ان کے بہ قول ہماری جماعت تبدیلی لائے گی، ہم خلق خداکی بے لوث خدمت پریقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی میں وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اختلاف کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، ہماری پارٹی منظم نظریاتی جماعت ہے اورہم عہدوں کے بجائے عوام کی خدمت پریقین رکھتے ہیں۔ اسدقیصرکا کہناہے کہ ماضی میں حکومت کو جو امداد ڈالروں کی شکل میں آرہی تھی، اسے ہڑپ کرنے کے بجائے اگرصوبے کے عوام پر خرچ کیاجاتا،
ان کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے توآج صوبہ اتنا پس ماندہ نہ ہوتا۔ پختون قوم میں انقلابی شعوربیدار ہوچکا ہے، جس کا ثبوت پی ٹی آئی کی شکل میں دنیا دیکھ رہی ہے۔ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صوبے کا سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اورحکومت مل بیٹھ کر تمام مسائل کاپرامن حل نکالیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملٹری فورسز، انٹیلی جنس ادارے اور پولیس، عوام کو اعتماد میں لے کر قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے۔ پاکستان چوں کہ اسلامی دنیامیں واحد ایٹمی قوت ہے، اس لیے عالمی قوتیں پاکستان کے عوام کو لسانی اور مذہبی گروہوں میں بانٹ کر آپس میں لڑانے کی سازش کر رہی ہیں تاکہ پاکستان میں انارکی اور افراتفری پیدا ہو کر اس کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے مسائل پیدا ہو سکیں لہٰذا ہمیں کسی کی ڈکٹیشن لینے کے بجائے اپنے عوام اور ملک کے مفاد میں فیصلے کرکے قدم اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے دورحکم رانی میں اسمبلی میں حزب اقتدار اورحزب اختلاف کا تصور ہی نہیں ہوگا، تمام منتخب نمائندے پختون روایات کی روشنی میں مشترکہ طورپرصوبہ میں قیام امن، ترقی وخوش حالی اورعوام کے بنیادی حقوق کے لیے عملی کرداراداکریں گے تاکہ صوبہ کے عوام کوضروریات زندگی ان کی دہلیز پر میسر آئیں اورہم اسمبلی کوپختون جرگہ کے طورپرچلائیں گے۔
جس میں ہرمسئلے کوگفت و شنید کے ذریعے حل کریں گے اورہرکسی کو اظہار رائے کا حق حاصل ہوگا۔ ان کے بہ قول بہ حیثیت اسپیکراسمبلی کے تمام امورغیر جانب دارانہ اوراحسن طریقے سے چلائیں گے اوراسے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مثالی اسمبلی ثابت کردکھائیں گے، صوبہ کی ترقی اورعوام کی فلاح وبہبودکے لیے تمام ارکان اسمبلی کی باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جائیں گے، ہررکن اسمبلی کو بلاامتیاز ترقیاتی فنڈزملیں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ کراچی میں تحریک انصاف کی سینیئررہ نما زہرہ شاہد حسین کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلح ونگ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف بھرپورکارروائی ہونی چاہیے اورزہرہ شاہدکے قاتل کوفوری طورپرگرفتارکیاجائے ۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے جس نوجوان کا میں ذکرکرنا چاہتا ہوں، ایسے نوجوانوں کے بارے میں پشتو زبان کے معروف شاعر امیرحمزہ شنواری کے ایک شعر کا مفہوم ہے'' کہ یہ جودوچار نوجوان نظر آرہے ہیں، قوم کے لیے نعمت ہیں، مجھے ان کی باوقار دستاریں دیکھ کرخوشی ہوتی ہے''۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم کے بزرگ اپنی نئی نسل سے بہت سی امیدیں باندھتے ہیں پھر دنیا میں کچھ لوگ اتنے خوش قسمت ہوا کرتے ہیں جنہیں قدرت لڑک پن اور جوانی میں''بڑوں'' جیسی عزت اورعہدوں سے نوازتی ہے، ان ہی لوگوں میں ایک نام ہماری آج کی شخصیت کا بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں عام طور پر دوقسم کے انسان بستے ہیں ایک وہ جوحقیقت پسند ہیں اور دوسرے وہ جوکسی نصب العین کے پرستار ہیں، جولوگ اسد قیصر کو قریب سے جانتے ہیں وہ برملا اس بات کااعتراف کریں گے کہ وہ بچ پن سے لے کر اب تک ایک ایسے نصب العین کے پرستار رہے ہیں جس میں امن، مساوات، عدل و انصاف اور ملک و قوم کی یک ساں تعمیر وترقی کا خواب شامل ہے۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے نہیں، جنہوں نے سیاست کو منافع بخش کاروبار کی طرح اپنایا، وہ ان میں سے بھی نہیں جنہوں نے سیاست میں آ کر کئی کئی ایکڑ زمینیں ہتھیائیں، نئے ماڈلوں کی بیش قیمت گاڑیاں حاصل کیں اور محلات کھڑے کیے بل کہ اسد قیصر اپنی ذاتی دولت عوامی خدمت پرخرچ کرنے کے قائل ہیں۔
ایک اور خاص خوبی، جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں، یہ ہے کہ وہ شرافت، حسن اخلاق، پرہیزگاری اور عجز و انکسار کا پیکر ہیں، ان کے نزدیک قدرت نے انسان کوانصاف، علم، اعتدال اور نیکی سے محبت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ خواہشوں کوانسانیت کے راستے میں کھڑی دیوار قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ خواہش ایک حد میں رہے تو فطری ہے اور بے لگام ہو جائے تو ہوس بن جاتی ہے اور ہوس انسان کو درجۂ انسانیت سے نیچے گرا دیتی ہے کیوں کہ ہوس جائز اور ناجائز کا فرق مٹا دیتی ہے۔ ان کی نظرمیں غلام اس کوکہتے ہیں جس نے اپنے خیال اور رائے کی آزادی کھو دی ہو، غلامی کی سب سے خطرناک صورت ذہن اور فکر کی غلامی ہے۔
ضلع صوابی خیبرپختون خوا کا ایک زرخیز اور مردم خیز ضلع سمجھا جاتا ہے، جس نے تاریخ کے ہر دور میں کئی اہم شخصیات کوجنم دیا۔ سیاست اور تعلیم میں ابھرتے ہوئے نوجوان اسد قیصرکا نام بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل پر بہت کم وقت میں دونوں شعبوں میں نام ومقام پیدا کیا۔ وہ 2 جنوری1967 کو مرغز نامی گاؤں میں سرداربہادر کے ہاں پیدا ہوئے، چاربہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، میٹرک تک گاؤں کے سرکاری اسکول ہی سے پڑھے، بی اے گوہاٹی کالج صوابی سے کیا۔
فرسٹ ایئر میں جمعیت طلبائِ اسلام میں شامل ہوئے جب کہ ان کے والد کٹر مسلم لیگی تھے، انہیں جب اس بات کا علم ہوا کہ صاحب زادہ سیاسی طور پر ''گم راہ'' ہو چکا ہے تو اسد قیصر کوگھر سے نکال دیا، یہ دس دن گھر سے باہر یوسفِ بے کاررواں بنے پھرے مگر سُدھرنے والے نہیں تھے، سودا یہاں تک اثر کیے ہوئے تھا جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان بھی گئے۔ جماعت اسلامی کے رکن اور پاس بان کے ڈویژنل صدربھی رہے۔
بچ پن میں مچھلیوں اور پرندوں کا شکار خوب کھیلا، مرغ پالنے کا بھی شوق رہا، اسکول میں والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے، کالج میں ہاکی کھیلی اور ٹیم کے کپتان رہے، اسکول کے زمانے میں عید کے روز پیسے جمع کرکے فلم دیکھنے جہاں گیرہ سینما جایا کرتے تھے، پہلی فلم پشتو کی ''گنڑکپ'' (جیب کترا) دیکھی، والد کو ان کی فلم بینی کا پتا چلا تو وہ درگت بنی کہ چار دن چارپائی سے اٹھ نہیں پائے مگر مڑنے والے تھو ڑی تھے، سینما چھوڑا تو وی سی آر کے دوارے ہو گئے اور فلمیں اور ڈرامے دیکھنا شروع کر دیے۔
سیاست کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ 1993 میں عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور ضلع صوابی کے علاوہ مردان میں بھی ''قائداعظم گروپ آف اسکولز اینڈ کالجز'' کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ اسد قیصر واحد سیاست دان ہیں، جنہوں نے سیاست کے علاوہ تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔ عمران خان کی شخصیت اور سیاسی افکار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ1996 میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور آٹھ سال تک ضلعی صدر رہے، پھر صوبائی سیکرٹری اطلاعات بنائے گئے، اس کے بعد سینیئر نائب صدر اورپھر صوبائی صدر بنا دیے گئے اورآج تک اسی عہدے پر فائز ہیں۔
سیر و سیاحت سے گہری دل چسپی ہے، انگلینڈ، دوبئی اور سعودی عرب کی سیر کر چکے ہیں۔ ادب تو نہیں البتہ موسیقی سے لگاؤ رکھتے ہیں، عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی، محمد رفیع اور لتا منگیشکر کو شوق سے سنتے ہیں، اداکاروں میں امیتابھ بچن اور سیاست میں مولانا مودودی، باچا خان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان سے متاثر ہیں۔ 1999 میں شادی ہوئی، دو بیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ ان کا خاندان اب بھی مشترکہ نظام کے تحت ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہے۔ کھانے میں چھوٹا گوشت اور پھلوں میں آم شوق سے کھاتے ہیں۔
موجودہ ملکی سیاست کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا اعتماد کھودیا ہے اب عوام کی نظریں تحریک انصاف پر ہیں کیوںکہ انصاف کے بغیر امن، دیوانے کا خواب ہے، امن کا براہ راست تعلق انصاف اورمعشیت سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری پس ماندگی کا اصل سبب تعلیم کی کمی ہے، ہماری حکومت کی کوشش ہوگی کہ تعلیم کوعام کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
شورش زدہ علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے اسد قیصر کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ مرکزی حکومت کا سبجیکٹ ہے تاہم ہماری صوبائی حکومت کی درخواست ہوگی کہ فوجی آپریشن بندکیا جائے اور مذاکرات کیے جائیں، ہماری کوشش ہوگی کہ ہماری فوج لوگوں کی نظر میں مجرم نہ بنے۔ ان کے بہ قول تمام خرابیوں کی جڑملک میں غیر مساوی اور طبقاتی نطام ہے جب تک اس نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ان مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
جہاں تک ملک میں عسکریت پسندی کا تعلق ہے تو سب سے پہلے تو اس بات کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ یہ لوگ اس مقام تک کیوں اور کیسے پہنچے؟ انہیں فنڈزاور اسلحہ کہاں سے ملتا ہے ؟ سابق حکومت کہتی رہی کہ انہیں باہر سے پیسہ ملتا ہے تو پھر یہ بھی عوام کو بتائیں کہ ان لوگوں کو پیسہ اور اسلحہ کون دے رہا ہے؟ اس بارے خاموشی کیامعنیٰ رکھتاہے؟ بہ ہرکیف اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے ہم مذاکرات کی راہ اپنائیں گے، تمام مساجد و مدارس کے علماء کواعتمادمیں لے کر ان کی باہمی مشاورت سے مدارس میں ایک نیا تعلیمی نظام رائج کریں گے، جس کے سربراہان علماء ہوں گے تاکہ صوبے میں امن، ترقی وخوش حالی میں ہمارے علماء اوردینی مدارس اپنا اپنا کردارادا کریں، اس سلسلے میں ہم صوبے کے تمام بڑے چھوٹے مدارس کے سربراہوں سے ملاقاتیں کریں گے اوران کے تعاون سے صوبے میں امن کے قیام کویقینی بنائیں گے، ہم مدارس کودین کا قلعہ سمجھتے ہیں، علم ونور کے فروغ کے لیے ان کی خدمات اظہرمن الشمس ہیں، ہم ان کی مشاورت سے فروغ تعلیم کے اقدامات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈرون حملوں اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے خارجہ پالیسی میں تبدیلی وقت کا تقاضہ ہے جس کے لیے ہم صوبائی اسمبلی سے متفقہ قراردادیں سامنے لائیں گے۔ اسد قیصرکے بہ قول ہم مرکزی حکومت سے خوش گوارتعلقات کے خواہاں ہیں اورباہمی تعاون سے تمام مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، صوبے کوکرپشن فری بنانا چاہتے ہیں۔ نام زد سپیکراسمبلی کا کہنا ہے کہ صوابی کے ہرگاؤں کو ایک سال کے اندر اندر گیس فراہم کریں گے جس کے لیے خطیررقم مختص کی جائے گی،
اس کے علاوہ میڈیکل کالج، خواتین یونی ورسٹی اور جدید اسپتال بھی قائم کیاجائے گا، صوابی کو تربیلہ ڈیم سے بجلی کے 67 ٹاورزلگائے جارہے ہیں جن میں اب تک60 ٹاور لگ چکے ہیں اورباقی پرکام جاری ہے، صوابی میں چالیس میگاواٹ کا جو ٹرانسفارمر لگایا گیا ہے اس نے تاحال کام شروع نہیں کیا، اس سلسلے میں متعلقہ حکام کوہدایات دی گئی ہیں کہ تربیلہ ڈیم سے صوابی کو جانے والی لائین پر ٹاورزکاکام اورچالیس میگاواٹ ٹرانسفارمرجلدازجلدچالوکیاجائے جس سے ضلع میں جاری بجلی کے بحران پرکافی حدتک قابوپالیاجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ برداشت نہیں کی جائے گی، صوابی کے اکثردیہات میں دس دس گھنٹوں کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، اگریہ سلسلہ بند نہ کیاگیا تو متعلقہ حکام کے خلاف حکومت بھرپورکارروائی کرے گی اوراس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت اورلاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی، عوام کولوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی نے صوبے میں حکومت سازی کے حوالے سے جوفیصلے کیے ہیں وہ عوام کی فلاح اورصوبے کے وسیع ترمفادکو مدنظر رکھ کرکیے گئے ہیں، ہماری حکومت میںمیرٹ پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا، حکم رانی کا نیااندازمتعارف کریں گے جوکرپشن اوراقربا پروری سے پاک ہوگا، گڈگورننس کی آئینہ دارحکومت دیں گے، عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کوعملی جامہ پہنائیں گے،کسی بھی ممبر اورعلاقے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، انصاف پرمبنی معاشرے کا قیام اور وسائل کا منصفانہ استعمال ہمارا منشورہے، جس پر ہر صورت عمل درآمد یقینی بنائیں گے، ان کے بہ قول پی ٹی آئی پر صوبے کے عوام نے جس اعتمادکا اظہارکیاہے، پارٹی اس پرپورا اترے گی، پس ماندہ علاقوں کی ترقی کو فوقیت دی جائے گی تاکہ وہ جدیددورکی سہولیات سے استفادہ کرسکیں۔
اسدقیصرنے بتایا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں پائدار اور مستحکم جمہوریت کی عمارت بنیادی طورپرتین ستونوں پرکھڑی رہ سکتی ہے جن میں قومی،صوبائی اورمقامی حکومتیں شامل ہیں چناںچہ ملک کی تعمیروترقی میں یہ ہی تین ادارے کام کرتے ہیں، ہمارے ہاں ماضی میں مذکورہ تینوں اداروں میں سے صرف دو موجود تھے، جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے گئے اگرچہ آئین میں ان تینوں اداروں کے اختیارات اور ان کی حدودو قیود کی وضاحت بھی موجود ہے، اگریہ تینوں ادارے اپنی اپنی آئینی حدود کے اندررہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کردیں تواس سے ملک کا پورا جمہوری اورآئینی ڈھانچہ بہ طریق احسن کام کرسکتا ہے مگربدقسمتی سے ہمارے ہاں ابتدا سے آج تک جمہوری اورآئینی اداروں کوپنپنے نہیں دیا گیا اور غیرسیاسی لوگ ہمیشہ آمریت کواس لیے خوش آمدیدکہتے رہے کہ آمریت ہی میں ان کی زندگی ہوتی ہے، ہماری حکومت کی کوشش ہوگی کہ صوبے میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرائیں۔
تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوسکیں اور صوبے میں مقامی حکومت کی جڑیں مضبوط ہوں، جس سے صوبائی اسمبلی کے ممبران پربھی بوجھ کم ہوجائے گا۔ ان کے بہ قول ہماری جماعت تبدیلی لائے گی، ہم خلق خداکی بے لوث خدمت پریقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی میں وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اختلاف کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، ہماری پارٹی منظم نظریاتی جماعت ہے اورہم عہدوں کے بجائے عوام کی خدمت پریقین رکھتے ہیں۔ اسدقیصرکا کہناہے کہ ماضی میں حکومت کو جو امداد ڈالروں کی شکل میں آرہی تھی، اسے ہڑپ کرنے کے بجائے اگرصوبے کے عوام پر خرچ کیاجاتا،
ان کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جاتے توآج صوبہ اتنا پس ماندہ نہ ہوتا۔ پختون قوم میں انقلابی شعوربیدار ہوچکا ہے، جس کا ثبوت پی ٹی آئی کی شکل میں دنیا دیکھ رہی ہے۔ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صوبے کا سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اورحکومت مل بیٹھ کر تمام مسائل کاپرامن حل نکالیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملٹری فورسز، انٹیلی جنس ادارے اور پولیس، عوام کو اعتماد میں لے کر قانون کی عمل داری کو یقینی بنائے۔ پاکستان چوں کہ اسلامی دنیامیں واحد ایٹمی قوت ہے، اس لیے عالمی قوتیں پاکستان کے عوام کو لسانی اور مذہبی گروہوں میں بانٹ کر آپس میں لڑانے کی سازش کر رہی ہیں تاکہ پاکستان میں انارکی اور افراتفری پیدا ہو کر اس کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے مسائل پیدا ہو سکیں لہٰذا ہمیں کسی کی ڈکٹیشن لینے کے بجائے اپنے عوام اور ملک کے مفاد میں فیصلے کرکے قدم اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے دورحکم رانی میں اسمبلی میں حزب اقتدار اورحزب اختلاف کا تصور ہی نہیں ہوگا، تمام منتخب نمائندے پختون روایات کی روشنی میں مشترکہ طورپرصوبہ میں قیام امن، ترقی وخوش حالی اورعوام کے بنیادی حقوق کے لیے عملی کرداراداکریں گے تاکہ صوبہ کے عوام کوضروریات زندگی ان کی دہلیز پر میسر آئیں اورہم اسمبلی کوپختون جرگہ کے طورپرچلائیں گے۔
جس میں ہرمسئلے کوگفت و شنید کے ذریعے حل کریں گے اورہرکسی کو اظہار رائے کا حق حاصل ہوگا۔ ان کے بہ قول بہ حیثیت اسپیکراسمبلی کے تمام امورغیر جانب دارانہ اوراحسن طریقے سے چلائیں گے اوراسے ملک کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مثالی اسمبلی ثابت کردکھائیں گے، صوبہ کی ترقی اورعوام کی فلاح وبہبودکے لیے تمام ارکان اسمبلی کی باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جائیں گے، ہررکن اسمبلی کو بلاامتیاز ترقیاتی فنڈزملیں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ کراچی میں تحریک انصاف کی سینیئررہ نما زہرہ شاہد حسین کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلح ونگ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف بھرپورکارروائی ہونی چاہیے اورزہرہ شاہدکے قاتل کوفوری طورپرگرفتارکیاجائے ۔