نئی حکومت سے گزارشات
قوم نے سیاسی طور پر ان کا ساتھ نہ دے کر انھیں مجبوری کی رسی پر لٹکا دیا ہے
وزیراعظم خیر سے تمام مراحل طے کرچکے ہیں، 2018 کے الیکشن اور نئی انتظامیہ آگئی، اب یہ قوم عمران خان کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے، پرانے سیاسی دیے بجھ گئے کیونکہ انھیں دیے جلانے والی عوام نے اس قابل ہی نہیں سمجھا۔ میں وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے سامنے کچھ حقائق اور مستقبل کے لائحہ عمل کی طرف ہنگامی بنیادوں پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 1990 سے لے کر 2018 تک دو بڑی جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں نے اپنے سیاسی رہنماؤں کا ساتھ دیا مگر افسوس کہ ان سیاسی رہنماؤں نے کچھ بھی نہیں کیا، جس کی تاریخ گواہ ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ مشرف کا دور پھر بہتر تھا، سوشل میڈیا کے اگر اچھے پہلو کو دیکھیں تو ان چند سیاستدانوں کی حرکتیں دیکھ کر شاید قوم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب سیاسی نقشہ بدلنا ہوگا اور عوام نے واقعی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ عمران خان وزیر داخلہ کا عہدہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب کہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے قانونی امور کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے، کیونکہ پرانی سیاسی جماعتیں اگر عوام کے لیے خوش اسلوبی سے سیاسی بصیرت کے تحت فیصلے کرتیں تو انھیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے جو آج وہ دیکھ رہے ہیں۔
قوم نے سیاسی طور پر ان کا ساتھ نہ دے کر انھیں مجبوری کی رسی پر لٹکا دیا ہے کیونکہ جب انسان خودسر ہوجاتا ہے تو پھر وہ غلط فیصلے کرتا ہے، یہی غلطی کچھ سیاستدانوں سے ہوئی کہ انھوں نے ریاست کے مضبوط اور مستحکم اداروں سے ٹیبل ٹینس کھیلنے کی کوشش کی اور انھیں مختلف نام دیے اور یہ سوچ کر یہ فاتح سیاسی میدان میں اترے کہ ہم کھیلنا جانتے ہیں، مگر یہ ترسی ہوئی اور لاچار قوم جو چند سیاست دانوں کے پیروں کی فٹ بال بنی ہوئی تھی اور وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ تھا خاص طور پر کراچی، لاہور، حیدرآباد، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں رہنے والوں نے آخر علم کے مدفون خزانے اپنے ووٹ کی شکل میں نکال دیے۔ شاید وزیراعظم عمران خان نظریہ ضرورت کے تحت کام نہ کریں، وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یقیناً نئے راستے تلاش کریں گے۔
نئی کابینہ سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ماضی کے کچھ سیاستدانوں نے ایسے بیان دیے ہیں کہ قوم ان کی تخلیقی سوچ پر ماتم کرتی رہی، اگر ان کے قول و فعل کے تضاد کو لکھ دیا جائے تو وہ سراسر جھوٹ ثابت ہوں گے، کیونکہ ان چند لوگوں نے انتشار کی سیاست کی اور آخر یہ اپنے سیاسی انجام کو ماضی کی بے ضابطگیوں کے سپرد کر گئے اور اب سب اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ سیاسی بچے جو ابھی سیاست میں طفل مکتب ہیں وہ برسر اقتدار حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کے بڑے تو لوٹا ماری اور کرپشن کی وجہ سے سیاسی انتقام کے گیت گا رہے ہیں، کیونکہ نظریات اور مفادات دو الگ الگ چیزیں ہیں، ماضی مفادات سے لبریز تھا مگر اب محسوس ہو رہا ہے کہ نظریات شاید قوم کا مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ادا کریں۔
عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں، ان سے راقم کی کچھ گزارشات ہیں، اس ملک کا یہ المیہ ہے کہ صحافی، وکیل، ڈاکٹرز بھی سیاست سے وابستہ ہوگئے، یہ ان کا جمہوری حق ہے مگر اپنی سیاسی وابستگی کو اگر عیاں نہ کریں تو ان شعبوں میں بہت اعلیٰ کام سرانجام دیے جاسکتے ہیں کہ یہ تینوں شعبے لائق تحسین ہیں۔ کسی بھی حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اگر اپنا کام عزت و احترام سے کریں تو یہ درخشندہ ستارے ثابت ہوسکتے ہیں، اگر یہ ماضی کی روایات کو نچوڑتے رہے تو یہ مصلحت کا شکار ہوجائیں گے، پھر عوام میں ان کے لیے بے دلی کا تاثر پیدا ہوگا۔
ماضی میں یعنی آج سے 25 سال قبل سے لے کر آج تک وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات صرف حکومتی شامیانے میں کھڑا ہوکر ڈھول بجاتا رہا، حکومت کے خلاف کیا کچھ ہوتا رہا یہ صرف اپنی نوکری پکی کرکے 'سب اچھا ہے' کا جھنڈا بلند کرکے عوامی تحفظات کو نظرانداز کرتا رہا، پھر چینلز کا زمانہ آگیا، اس نے پھر اپنے لیے اور اپنی حکومت کے لیے سب اچھا ہے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ 2018 کے الیکشن تک زور و شور سے جاری رہا۔
کسی حکومت کے وفاقی وزیر اطلاعات کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے، اسے وزیراعظم اور وزیر داخلہ، وزیر صحت سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے، اب عمران خان وزیراعظم بن کر آئے ہیں، میری وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ 25 سال سے ترسی ہوئی قوم کے لیے عمران خان کی بہتری کے لیے روزانہ پرنٹ میڈیا کا مطالعہ ضرور کریں، یقیناً آپ کا اپنا اسٹاف ہوتا ہے مگر ہر خبر آپ تک نہیں آتی ہے۔ آپ کی وزارت کے حوالے سے ہر ایک خبر بہت اہم ہے، اطلاعات و نشریات کا صرف یہی کام ہے، کیونکہ کسی بھی حکومت کا یہ شعبہ بہت اہم ہوتا ہے، آپ خود بھی صحافی ہیں، ناکام سیاستدانوں کی تنقید پر مٹی ڈالیں، عوامی مسائل پر بلاتفریق متعلقہ وزارت سے رابطہ کرکے بتادیں اب وہ متعلقہ وزیر جانے اور ان کا کام۔
ماضی میں چند لٹیرے کرپشن سے آلودہ حکومتوں کے وزرا نے مفادات کی سیاست کی، اپنی حکومت کی واہ واہ میں وزیر اطلاعات و نشریات اس سماج میں رہنے والوں کی دھڑکنیں نہ محسوس کرسکے، مکالموں کی ادائیگی پر گزارا کرتے رہے اور قوم 2008 سے لے کر 2018 تک ان وزرا کی وجہ سے دشوار گزار اذیت ناک اور بے دلی کا تاثر لیے ہوئے سفر کرتی رہی۔ میں تہہ دل سے عمران خان سے کہتا ہوں کہ وہ اطلاعات کی وزارت سے کہہ دیں کہ وہ پرنٹ میڈیا کا مطالعہ ضرور کریں، ہم جیسے مفلس، غریب، نادار، صحافی عوامی ایشوز پر لکھتے ہیں، کیونکہ غریب تو غربت کا ساتھ دے گا۔
ابھی یہ حکومت تنقید کے زمرے میں نہیں آتی، ماضی میں رکشاؤں میں ماؤں نے بچے جنم دیے، اسپتالوں کے باہر گندے فرش پر بچے جنم دیے گئے، پروٹوکول کے نام پر ننھے بچے جان کی بازی ہار گئے اور اس وقت کے نشریات کے وزرا سب حکومت کی بانسری بجاتے رہے، حتیٰ کہ کسی وزیر تک نے کوئی بیان نہیں دیا، صرف اطلاعات کے شعبے نے حکومت بچانے کے لیے آتش بیانی سے کام لیا جو ان وزرا کے لیے باعث شرم تھا۔ یہ ریت بہت پرانی ہے کہ وزارت کا عملہ ''سب اچھا ہے'' کے تحت وزیر سے خبر کو دور رکھتے ہیں اور کچھ خبریں وزیر نظر انداز کرتا ہے۔ فواد چوہدری صاحب راقم آپ سے پھر گزارش کرتا ہے کہ اگر آپ عمران خان کو کامیاب اور عوام کے دل کے قریب دیکھنا چاہتے ہیں تو پرنٹ میڈیا پر چھپنے والے آرٹیکلز کا مطالعہ ضرور کریں کہ وہ آپ کو صدق دل سے سلجھے ہوئے مشورے دیں گے، انھیں نظرانداز نہ کریں۔
لوگ کہتے ہیں کہ مشرف کا دور پھر بہتر تھا، سوشل میڈیا کے اگر اچھے پہلو کو دیکھیں تو ان چند سیاستدانوں کی حرکتیں دیکھ کر شاید قوم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب سیاسی نقشہ بدلنا ہوگا اور عوام نے واقعی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ عمران خان وزیر داخلہ کا عہدہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب کہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے قانونی امور کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے، کیونکہ پرانی سیاسی جماعتیں اگر عوام کے لیے خوش اسلوبی سے سیاسی بصیرت کے تحت فیصلے کرتیں تو انھیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے جو آج وہ دیکھ رہے ہیں۔
قوم نے سیاسی طور پر ان کا ساتھ نہ دے کر انھیں مجبوری کی رسی پر لٹکا دیا ہے کیونکہ جب انسان خودسر ہوجاتا ہے تو پھر وہ غلط فیصلے کرتا ہے، یہی غلطی کچھ سیاستدانوں سے ہوئی کہ انھوں نے ریاست کے مضبوط اور مستحکم اداروں سے ٹیبل ٹینس کھیلنے کی کوشش کی اور انھیں مختلف نام دیے اور یہ سوچ کر یہ فاتح سیاسی میدان میں اترے کہ ہم کھیلنا جانتے ہیں، مگر یہ ترسی ہوئی اور لاچار قوم جو چند سیاست دانوں کے پیروں کی فٹ بال بنی ہوئی تھی اور وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ تھا خاص طور پر کراچی، لاہور، حیدرآباد، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں رہنے والوں نے آخر علم کے مدفون خزانے اپنے ووٹ کی شکل میں نکال دیے۔ شاید وزیراعظم عمران خان نظریہ ضرورت کے تحت کام نہ کریں، وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یقیناً نئے راستے تلاش کریں گے۔
نئی کابینہ سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ماضی کے کچھ سیاستدانوں نے ایسے بیان دیے ہیں کہ قوم ان کی تخلیقی سوچ پر ماتم کرتی رہی، اگر ان کے قول و فعل کے تضاد کو لکھ دیا جائے تو وہ سراسر جھوٹ ثابت ہوں گے، کیونکہ ان چند لوگوں نے انتشار کی سیاست کی اور آخر یہ اپنے سیاسی انجام کو ماضی کی بے ضابطگیوں کے سپرد کر گئے اور اب سب اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ سیاسی بچے جو ابھی سیاست میں طفل مکتب ہیں وہ برسر اقتدار حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کے بڑے تو لوٹا ماری اور کرپشن کی وجہ سے سیاسی انتقام کے گیت گا رہے ہیں، کیونکہ نظریات اور مفادات دو الگ الگ چیزیں ہیں، ماضی مفادات سے لبریز تھا مگر اب محسوس ہو رہا ہے کہ نظریات شاید قوم کا مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ادا کریں۔
عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں، ان سے راقم کی کچھ گزارشات ہیں، اس ملک کا یہ المیہ ہے کہ صحافی، وکیل، ڈاکٹرز بھی سیاست سے وابستہ ہوگئے، یہ ان کا جمہوری حق ہے مگر اپنی سیاسی وابستگی کو اگر عیاں نہ کریں تو ان شعبوں میں بہت اعلیٰ کام سرانجام دیے جاسکتے ہیں کہ یہ تینوں شعبے لائق تحسین ہیں۔ کسی بھی حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اگر اپنا کام عزت و احترام سے کریں تو یہ درخشندہ ستارے ثابت ہوسکتے ہیں، اگر یہ ماضی کی روایات کو نچوڑتے رہے تو یہ مصلحت کا شکار ہوجائیں گے، پھر عوام میں ان کے لیے بے دلی کا تاثر پیدا ہوگا۔
ماضی میں یعنی آج سے 25 سال قبل سے لے کر آج تک وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات صرف حکومتی شامیانے میں کھڑا ہوکر ڈھول بجاتا رہا، حکومت کے خلاف کیا کچھ ہوتا رہا یہ صرف اپنی نوکری پکی کرکے 'سب اچھا ہے' کا جھنڈا بلند کرکے عوامی تحفظات کو نظرانداز کرتا رہا، پھر چینلز کا زمانہ آگیا، اس نے پھر اپنے لیے اور اپنی حکومت کے لیے سب اچھا ہے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ 2018 کے الیکشن تک زور و شور سے جاری رہا۔
کسی حکومت کے وفاقی وزیر اطلاعات کی بڑی ذمے داری ہوتی ہے، اسے وزیراعظم اور وزیر داخلہ، وزیر صحت سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے، اب عمران خان وزیراعظم بن کر آئے ہیں، میری وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ 25 سال سے ترسی ہوئی قوم کے لیے عمران خان کی بہتری کے لیے روزانہ پرنٹ میڈیا کا مطالعہ ضرور کریں، یقیناً آپ کا اپنا اسٹاف ہوتا ہے مگر ہر خبر آپ تک نہیں آتی ہے۔ آپ کی وزارت کے حوالے سے ہر ایک خبر بہت اہم ہے، اطلاعات و نشریات کا صرف یہی کام ہے، کیونکہ کسی بھی حکومت کا یہ شعبہ بہت اہم ہوتا ہے، آپ خود بھی صحافی ہیں، ناکام سیاستدانوں کی تنقید پر مٹی ڈالیں، عوامی مسائل پر بلاتفریق متعلقہ وزارت سے رابطہ کرکے بتادیں اب وہ متعلقہ وزیر جانے اور ان کا کام۔
ماضی میں چند لٹیرے کرپشن سے آلودہ حکومتوں کے وزرا نے مفادات کی سیاست کی، اپنی حکومت کی واہ واہ میں وزیر اطلاعات و نشریات اس سماج میں رہنے والوں کی دھڑکنیں نہ محسوس کرسکے، مکالموں کی ادائیگی پر گزارا کرتے رہے اور قوم 2008 سے لے کر 2018 تک ان وزرا کی وجہ سے دشوار گزار اذیت ناک اور بے دلی کا تاثر لیے ہوئے سفر کرتی رہی۔ میں تہہ دل سے عمران خان سے کہتا ہوں کہ وہ اطلاعات کی وزارت سے کہہ دیں کہ وہ پرنٹ میڈیا کا مطالعہ ضرور کریں، ہم جیسے مفلس، غریب، نادار، صحافی عوامی ایشوز پر لکھتے ہیں، کیونکہ غریب تو غربت کا ساتھ دے گا۔
ابھی یہ حکومت تنقید کے زمرے میں نہیں آتی، ماضی میں رکشاؤں میں ماؤں نے بچے جنم دیے، اسپتالوں کے باہر گندے فرش پر بچے جنم دیے گئے، پروٹوکول کے نام پر ننھے بچے جان کی بازی ہار گئے اور اس وقت کے نشریات کے وزرا سب حکومت کی بانسری بجاتے رہے، حتیٰ کہ کسی وزیر تک نے کوئی بیان نہیں دیا، صرف اطلاعات کے شعبے نے حکومت بچانے کے لیے آتش بیانی سے کام لیا جو ان وزرا کے لیے باعث شرم تھا۔ یہ ریت بہت پرانی ہے کہ وزارت کا عملہ ''سب اچھا ہے'' کے تحت وزیر سے خبر کو دور رکھتے ہیں اور کچھ خبریں وزیر نظر انداز کرتا ہے۔ فواد چوہدری صاحب راقم آپ سے پھر گزارش کرتا ہے کہ اگر آپ عمران خان کو کامیاب اور عوام کے دل کے قریب دیکھنا چاہتے ہیں تو پرنٹ میڈیا پر چھپنے والے آرٹیکلز کا مطالعہ ضرور کریں کہ وہ آپ کو صدق دل سے سلجھے ہوئے مشورے دیں گے، انھیں نظرانداز نہ کریں۔