’’پرانے مسافر پرانا سفر‘‘

گزشتہ الیکشن کا بڑا ہنگامہ برپا رہا۔ ہر الیکشن میں ہنگامہ ہوتا ہی ہے۔ عوام کے لیڈر اور عوام سبھی اس ہنگامے میں...

Abdulqhasan@hotmail.com

گزشتہ الیکشن کا بڑا ہنگامہ برپا رہا۔ ہر الیکشن میں ہنگامہ ہوتا ہی ہے۔ عوام کے لیڈر اور عوام سبھی اس ہنگامے میں شریک ہوتے ہیں اور جس میں جتنا دم ہوتا ہے وہ اتنی ہی اچھل کود کرتا ہے۔ ووٹر ایک ایسا تماش بین ہوتا ہے جو کسی خاموش ماحول میں سرگرم نہیں ہوتا اس کو گرم کرنے کے لیے ایک ہنگامہ برپا کرنا ہوتا ہے۔ ڈھول ڈھمکے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔

زیادہ ہمت اور جرات نہ ہو تو خسروں کے مجرے سے بھی کام چل جاتا ہے۔ بہرحال آپ جس قسم کی اور جتنی بھی رونق کا تصور کر سکتے ہیں وہ کر لیں اور پھر اسے آپ ایک انتخابی ہنگامہ کہہ لیں۔ ایسا ہی ہنگامہ گزشتہ دنوں تک جاری رہا اور الیکشن پر جا کر ختم ہوا جس کے بعد ایک اور ہنگامہ برپا ہوا جو جاری ہے اور آیندہ چند دن یعنی جب تک وزارتیں برپا نہیں ہو جاتیں یہ جاری رہے گا۔ برپا اس لیے کہا ہے کہ ہمارے ہاں وزارت کسی کام کے لیے قائم نہیں ہوتی یہ صرف موج میلے کے لیے برپا ہوتی ہے اور دوسرے الیکشن تک برپا ہوتی چلی جاتی ہے۔

اس میں کوئی اسٹیل ملز صفحہ ہستی سے مٹ جائے ریلوے اپنی آہنی پٹڑیوں سمیت گم ہو جائے یا ہوائی جہاز ہواؤں کو چھو کر واپس آ جائیں اور سفر کی کوفت دور کرنے کے لیے دو ایک مسافروں کو دوران سفر کسی باہر کے ملک کی جیل میں بند کرا دیں جہاں انھیں حرام کھانا کھانا پڑے۔ ہمارے ان پاکستانی مسافروں پر الیکشن کی رونق اس قدر چھائی ہوئی تھی کہ ان مسافروں سے جب پوچھا گیا کہ آپ لوگوں نے جہاز تباہ کرنے کی دھمکی کیوں دی تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو بس ایک مذاق تھا جسے بزدل انگریزوں نے سچ سمجھ لیا۔ بہر حال الیکشن کے نتیجے میں وزارت نہ بھی ملے تو کچھ نہ کچھ تو ملنا چاہیے خواہ وہ حوالات ہی کیوں نہ ہو۔ انگریزوں کی حوالات بہر حال ہماری کسی حوالات سے تو بہتر ہی ہو گی۔

یہ سب باتیں تو ہمارے الیکشن کی طرح بے کار باتیں ہیں۔ اگر ہم نے قوم سے یہ الیکشن مذاق کرنا تھا اور سابقہ حکمرانوں کو ہی حاضر کرنا تھا تو پھر کروڑوں روپے کے سرکاری خزانے کے خرچ اور اربوں روپے کے عوامی خرچ کی کیا ضرورت تھی۔ حکومت کا خزانہ مزید خالی ہو گیا اور ناکام امیدوار گویا زندگی سے ہی ناکام ہو گئے۔ ہمارے کچھ لیڈر تو اس شوق میں سچ مچ ہڈی پسلی تڑوا بیٹھے لیکن جس طرح یہ قومی حادثہ برپا ہوا اس سے ہماری اجتماعی حماقت کا زندہ ثبوت ملتا ہے۔

ایسی نام نہاد سیڑھیاں تو میں بھی چڑھنے پر تیار نہیں لیکن عمر بھر ہڈی پسلی اور جسمانی توانائی کی مسلسل حفاظت کرنے والا یہ سابق عالمی کھلاڑی اور جدید سیاسی لیڈر کیسے ان سیڑھیوں کے مذاق کا اندازہ نہ کر سکا۔ ہڈی کی چوٹ بہت بری ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست روشن خیالی کے شوق میں ایک ضروری ہڈی تڑوا چکے ہیں اور اب ڈانگوں کے سہارے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ خدا نہ کرے اور ہماری دعا ہے کہ وہ معاف کرے۔


اگر عمران خان بھی بخیر و عافیت صحت یاب نہ ہوئے اور ہمیں وہی پرانے عمران خان دکھائی نہ دیے تو پھر یہ خیال درست نکلے گا کہ الیکشن کا یہ نیا سفر اسی راستے سے گزرا جہاں سے ہم کئی انتخابی سفر کر چکے ہیں اور ان میں فوجی آمرانہ سفر بھی شامل ہیں۔ ہمارے کچھ لوگ سیاسی قیادت کی آب حیات پی کر آتے ہیں کہ جب بھی دوبارہ سیاسی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو یہی لوگ پھر سے سامنے آ جاتے ہیں۔

اب فرصت ملے تو کوئی سا اخبار کھول کر دیکھ لیں کہ پرانے چہرے زیادہ ہیں یا نئے چہرے۔ مثلاً واہگہ سرحد سے پاکستان کی طرف سیاست کرنے والے میاں محمد نواز شریف کو پہلے دو بار ہم اسی منصب جلیلہ پر جلوہ گر دیکھ چکے ہیں جس پرماشاء اﷲ وہ اب دو چار دنوں میں پھر سریر آراء ہوں گے۔

میاں صاحب اس زبردست تجربے کو جو انھیں قوم نے دیا ہے کیا گزشتہ پانچ برسوں کی قومی بربادیوں میں کچھ کمی کر سکیں گے۔ انشاء اللہ کیونکہ میاں صاحب کی نیک نیتی پر مجھے ذاتی طور پر یقین ہے بشرطیکہ وہ اپنے ضرورت سے زیادہ روشن خیالوں اور پاکستان 'دوستوں' سے بچ کر رہے۔ اگر آپ اسے پرانا چہرہ ہی نہ سمجھیں تو میاں صاحب پاکستان کی حکمرانی کے تجربات کا ایک نادر تسلسل ہیں۔ وہ اس ملک کے مصائب اور مسائل سے خوب واقف ہیں۔ جیسے ایک ماں بچے کو جانتی ہے میاں صاحب بلاشبہ ایٹم بم کے بعد بھی دھماکے کر سکتے ہیں اور وہ کریں گے بھی اگر وہ ارد گرد کی آفات سے بچے رہے۔

یہ بات بھی وہی ایک اور پرانے چہرے کی ہے لیکن یہ چہرہ عملی تجربات کی ایک لیبارٹری ہے جو پنجاب کی رگ رگ سے واقف ہی نہیں یہ رگیں اس کے وجود سے گزرتی اور اس میں دوڑتی ہیں۔ یہ ہیں میاں محمد شہباز شریف انھوں نے اپنے صوبے پنجاب میں اتنا کام کیا کہ میں نے دوسرے صوبوں کے کئی لیڈروں سے سنا کہ آپ ایک شہبازہمیں بھی دے دیں۔ جواب دیا کہ درست ہے آپ سبھی پاکستان میں ہی ہیں لیکن ہمارے مسائل کا شکار کون شہباز کرے گا۔ اگرچہ دونوں میاں صاحبان پرانے ہیں لیکن حکیموں کی معجون کی طرح ہیں جو جتنی پرانی ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ اثر انگیزہوتی جاتی ہے۔

میں پنجابی ہوں اس لیے پنجابی لیڈروں کی بات آسانی کے ساتھ کر سکتا ہوں اور یہ بات وزارت بن جانے کے بعد ہو گی جب پرانے چہرے اپنی نئی چھب دکھائیں گے۔ فی الحال میں سندھ کی بات کرتا ہوں جہاں سندھ کے قدیم وزیراعلیٰ کو پھر سے وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا ہے۔ وادی سندھ ایک قدیم تاریخی علاقہ ہے برسہا برس کی تاریخ والا وہاں شاہ صاحب زیادہ کار آمد رہیں گے۔ پنجاب اور سندھ میں پاکستان کی آبادی کی اکثریت آ جاتی ہے اور وفاق بھی مکمل ہی سمجھیں اس لیے اب پاکستان کے پرانے سیاستدان اپنی نئی آن بان کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں لیکن ملک کے گوناگوں مسائل کے انبار میں چھپے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی ایک پرانی دیکھی بھالی گزر گاہ سے گزر رہے ہیں پرانے مسافروں کے ہمراہ جن کے ساتھ ہمارا یہ قلمی سفر جاری رہے گا۔
Load Next Story