آئی ایم ایف سے بچنے کا حل کاروں اور موبائل فون کی درآمد پر پابندی لگانے پر غور
درآمدات پر پابندی سے ایک سال میں 4.5 ارب ڈالرکی بچت ہوگی
حکومت کے معاشی ماہرین آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج سے بچنے کے لیے ایک وسیع البنیاد حکمت عملی کے تحت لگژری کاروں، اسمارٹ موبائل فونزاور پنیر کی درآمد پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے لیکن نومنتخب اقتصادی مشاورتی کونسل کی طرف سے پاکستان کے پھیلتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کوقابوکرنے کیلیے ایسا انقلابی اقدامات اٹھانے کے بارے میں سوچنا نئی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے عزم کو اجاگر کردیتا ہے۔ اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس پچھلے ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر کی زیرصدارت منعقد ہوا ۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کے درجن بھراراکین میں شامل پروفیسر ڈاکٹراشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ اجلاس کا فوکس ایسے غیر روائتی آئیڈیاز پرغور کرنا تھا کہ درآمدات کیسے کم کی جا سکتی ہیں۔ انکا کہنا تھاکہ اقتصادی کونسل کے کسی بھی رکن کی یہ رائے نہیں تھی کہ پاکستان کوآئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں کچھ اقدامات لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ کچھ بھی نہ کرنے کا آپشن ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید انقلابی اقدامات کے طورپر ہم ایک سال تک کیلئے پنیر، کاروں، سمارٹ موبائل فونز اور پھلوں کی درآمدات پر پابندی عائد کرکے ایک سال میں 4.5 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں جبکہ اسی عرصے کے لئے اپنی برآمدات کوبڑھا کر اضافی طورپر 2 بلین ڈالرکا زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بڑی مقدار میں پنیر بیرون ملک سے آرہا ہے، مارکٹیں بھری پڑی ہیں، کیا ایسا ملک جس کے پاس ڈالرز نہیں، وہ پنیر کی بڑی مقداردرآمدکرنے کاکوئی جواز رکھتا ہے؟۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے لیکن نومنتخب اقتصادی مشاورتی کونسل کی طرف سے پاکستان کے پھیلتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کوقابوکرنے کیلیے ایسا انقلابی اقدامات اٹھانے کے بارے میں سوچنا نئی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے عزم کو اجاگر کردیتا ہے۔ اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس پچھلے ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر کی زیرصدارت منعقد ہوا ۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کے درجن بھراراکین میں شامل پروفیسر ڈاکٹراشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ اجلاس کا فوکس ایسے غیر روائتی آئیڈیاز پرغور کرنا تھا کہ درآمدات کیسے کم کی جا سکتی ہیں۔ انکا کہنا تھاکہ اقتصادی کونسل کے کسی بھی رکن کی یہ رائے نہیں تھی کہ پاکستان کوآئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں کچھ اقدامات لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ کچھ بھی نہ کرنے کا آپشن ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید انقلابی اقدامات کے طورپر ہم ایک سال تک کیلئے پنیر، کاروں، سمارٹ موبائل فونز اور پھلوں کی درآمدات پر پابندی عائد کرکے ایک سال میں 4.5 ارب ڈالر بچا سکتے ہیں جبکہ اسی عرصے کے لئے اپنی برآمدات کوبڑھا کر اضافی طورپر 2 بلین ڈالرکا زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بڑی مقدار میں پنیر بیرون ملک سے آرہا ہے، مارکٹیں بھری پڑی ہیں، کیا ایسا ملک جس کے پاس ڈالرز نہیں، وہ پنیر کی بڑی مقداردرآمدکرنے کاکوئی جواز رکھتا ہے؟۔