میکے میں لوڈشیڈنگ
یوم تکبیر پر میاں نواز شریف کی تقریر سن کے میرے دل میں جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ پورا جگ بھر کے سردائی پی جائے۔
یوم تکبیر پر میاں نواز شریف کی تقریر سن کے میرے دل میں جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ پورا جگ بھر کے سردائی پی جائے۔ یہ ماحول کا اثر بھی تھا، روایت کا بھی اور موسم کا بھی۔ سامنے دکھائی دینے والے مسائل کے آکٹوپس نے ایسا جپھا مارا ہوا تھا کہ ہاتھ، قمیض کے کف اور ٹشو پیپرز کے استعمال کے باوجود تشویش قطرہ قطرہ ٹپک رہی تھی۔ میاں صاحب حقیقت کی دنیا میں کھڑے تھے۔ اس دنیا میں بلٹ ٹرین نہیں بلکہ دو گھنٹے کی اضافی بجلی تھی جسے پیار اور پچکار سے اپنے دام میں لانا ہے۔ گرمی کے موسم کا ابھی تو بس آغاز ہے۔ بے چینیوں کا ایک طویل عرصہ باقی ہے۔ اس حدت کی شدت کا تو پتہ ہے پر زندگی کی مدت نامعلوم۔ ان زلفوں کے سر ہونے تک جانے کون کون جیتا ہے۔ اتنی امید بھری آنکھوں نے پہلے کسی حکومت کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ اسے ایک بہت بڑا اور بہت کڑا امتحان درپیش ہے۔
اہلیہ کو ایئرپورٹ چھوڑ کے میں جب تک دفتر پہنچا وہ اپنے میکے میں لینڈ کر چکی تھیں۔ کہنے کو تو وہ اپنی والدہ کی عیادت کے لیے گئی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ وہ اپنے اکلوتے بھائی کی دلجوئی کے لیے گئی ہیں جس نے حسب عادت اس بار بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ ایک بار وزارت کا چسکا لگ جائے تو کون ہو گا جو پھر سے کوشش نہ کرے۔ اس نے بھی کی لیکن اس دفعہ اس کے سونامی بیٹ کو شیر نگل گیا ہے۔ اب وہ دھاندلی کے ثبوتوں کا پلندہ اٹھائے اسلام آباد کے چکر لگا رہا ہے۔ اس کار لاحاصل میں اور بھی درجنوں لوگ اپنا وقت اور صلاحیت برباد کر رہے ہیں اور گرمی بہت ہے۔
اگلے ہی روز فون آیا ''آپ نے اچھا نہیں کیا ہے۔ آپ کو پتہ ہے یہاں کتنی گرمی ہے اور درجہ حرارت کیا ہے؟''
''48 ڈگری سینٹی گریڈ'' میں نے کہا ''لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے۔۔۔۔ فاطمہ گل؟''
''فاطمہ گل'' میں نے طنزیہ کہا تھا کیونکہ یہ ترکی ڈراما میری جان کو آیا ہوا ہے۔ یہ دکھایا جا رہا ہو تو ٹی وی میری مرضی سے نہیں چلتا۔ اس کی وجہ سے میں ہر روز بہت اعلیٰ معیار کی سیاسی بک بک سننے سے محروم ہو جاتا ہوں۔
''آپ کا قصور تو ہے''۔ اہلیہ نے کہا۔
''وہ کیسے؟''
''آپ مجھے روک سکتے تھے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ میں اداس ہو جاؤں گا۔ کہہ سکتے تھے کہ میں چائے صرف تمہارے ہاتھ کی پیتا ہوں۔ لیکن دل چاہتا تو روکتے۔ آپ نے تو مجھے اس تندور میں جھونکنا تھا سو جھونک دیا''۔
اب اس بات کا میں کیا جواب دیتا۔ پچاس ڈگری کو چھوتا ہوا درجہ حرارت اور بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دیکھ کے انسانی پارہ تو ویسے ہی آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں بحث کر کے کیا میں نے خانگی زندگی کو فرائی کرنا تھا۔
یہ بس ایک دن کا اثر تھا۔ اسی سے اندازہ کریں کہ وہ لوگ جو گزشتہ کئی برسوں سے اس حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ صبر کی کس معراج پر ہوں گے۔ اس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اسی وجہ سے نئی حکمرانی کے حق میں فیصلہ دینے پر مائل ہوا ہے۔ اقتدار کی مسند پر جو کانٹے ہیں انھیں آنکھوں سے چننا ہو گا۔ مایہ ناز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے ایک جگہ لکھتا ہے ''یہ چیک کرنے کا بہترین طریقہ کہ کسی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ ہے کہ اس پر بھروسہ کر کے دیکھا جائے''۔ سو عوام بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔ پچھلی دو باریوں کے ادھورے پن کی رعایت سمجھ لیں یا پذیرائی، لوگوں کی آس بہت بڑی ہے۔ پوری نہ ہوئی تو مایوسی بہت ظالم ہو گی۔ اتنی ظالم کہ یہی مایوسی حکومت کی مدت بھی متعین کرے گی۔ لہٰذا پانچ برس، پانچ برس کی رٹ لگانے والے جملہ احباب ذرا محتاط رہیں۔
ایسی باتیں لکھ کے میں جو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آنے والے حکمرانوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ انھیں اس خوف کا اندازہ ہے۔ حلف اٹھاتے ہی راتوں کی نیندیں اڑ جائیں گی۔ کئی مسئلے اور ہر مسئلے کے کئی کئی مرحلے۔ ایک دریا کے پار اتریں گے تو ایک اور دریا کا سامنا ہو گا۔ تیرتے تیرتے یہ سب منیر نیازی بن جائیں گے۔ میں کون ہوں اور کہاں ہوں؟
سب نے ریٹائر ہونے کی عمر میں ایک ڈھیر سارے بکھیڑے مول لیے ہیں۔ آپ غور کریں یہ کسی ایک آدھ صوبے کی بات نہیں ہے۔ تمام کے تمام حکمرانوں کی نوجوانی کا یہی عالم ہے۔ ساٹھ سے نیچے کوئی بھی نہیں۔ صدیوں کا تجربہ رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ کیسی عجیب بلکہ مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ اب کی بار ساری انتخابی مہم کا زور تبدیلی اور نوجوان قیادت پر تھا۔ جوش میں ایک دوسرے کے نعرے بھی چرائے گئے اور ڈنڈ بیٹھکیں بھی نکال کے دکھائی گئیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے اور اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ تمام کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ ہوں گی۔ کوئی مرکز میں اور کوئی صوبے میں۔ اگر کوئی رہ گیا تو اس کی تڑیوں کی فکر نہ کریں وہ بھی آ جائے گا۔ اقتدار کا چھوٹا موٹا، سچا جھوٹا حصہ حاصل کرنا ہر ایک کی منزل اور مقدر ہے۔ یہ داغ اس دفعہ سب پر لگے گا۔
آئیے! اب اسی گرمی اور اسی لوڈشیڈنگ کا روشن پہلو بھی دیکھ لیں۔ یہ جو اسٹاک مارکیٹ میں آپ کو ناقابل بیان تیزی دکھائی دے رہی ہے یہ اسی کی پیداوار ہے۔ بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو تیل اور گیس کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ حکومتی ایجنڈے میں پہلی ترجیح یہی ہے کہ اس طلب کو پورا کیا جائے۔ اسے پورا کرنا ہو گا تو بجلی، تیل اور گیس کی کمپنیوں کو پیسہ بھی دینا ہو گا اور سہولتیں بھی۔ یہ چیز ان کے نفع میں اضافے کا باعث بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اسٹاک مارکیٹ کا رخ کر رہا ہے۔ البتہ آنے والے حکمران اس بات سے زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ یہ تیزی اسی آس اور امید کا ایک رخ ہے جو ان سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ پوری نہ ہوئی تو بڑی مار پڑے گی اور بہت جلد پڑے گی۔
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
باقی رہی بات اہلیہ کی تو وہ ان کا مذاق تھا۔ میکے کی تو دھوپ بھی چھاؤں ہوتی ہے پھر وہاں کی لوڈشیڈنگ کیسے بری لگ سکتی ہے۔ ویسے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔کتنی ہی طویل رفاقت ہو، کتنی ہی محبت ہو، ہم آہنگی ہو اور اس کا اظہار بھی ہو لیکن کیا یہ درست نہیں ہے کہ بیوی کو اس سارے التفات سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کچن میں اس کے ہاتھ سے انڈا گر جائے اور ٹوٹے نہ؟
اہلیہ کو ایئرپورٹ چھوڑ کے میں جب تک دفتر پہنچا وہ اپنے میکے میں لینڈ کر چکی تھیں۔ کہنے کو تو وہ اپنی والدہ کی عیادت کے لیے گئی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ وہ اپنے اکلوتے بھائی کی دلجوئی کے لیے گئی ہیں جس نے حسب عادت اس بار بھی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ ایک بار وزارت کا چسکا لگ جائے تو کون ہو گا جو پھر سے کوشش نہ کرے۔ اس نے بھی کی لیکن اس دفعہ اس کے سونامی بیٹ کو شیر نگل گیا ہے۔ اب وہ دھاندلی کے ثبوتوں کا پلندہ اٹھائے اسلام آباد کے چکر لگا رہا ہے۔ اس کار لاحاصل میں اور بھی درجنوں لوگ اپنا وقت اور صلاحیت برباد کر رہے ہیں اور گرمی بہت ہے۔
اگلے ہی روز فون آیا ''آپ نے اچھا نہیں کیا ہے۔ آپ کو پتہ ہے یہاں کتنی گرمی ہے اور درجہ حرارت کیا ہے؟''
''48 ڈگری سینٹی گریڈ'' میں نے کہا ''لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے۔۔۔۔ فاطمہ گل؟''
''فاطمہ گل'' میں نے طنزیہ کہا تھا کیونکہ یہ ترکی ڈراما میری جان کو آیا ہوا ہے۔ یہ دکھایا جا رہا ہو تو ٹی وی میری مرضی سے نہیں چلتا۔ اس کی وجہ سے میں ہر روز بہت اعلیٰ معیار کی سیاسی بک بک سننے سے محروم ہو جاتا ہوں۔
''آپ کا قصور تو ہے''۔ اہلیہ نے کہا۔
''وہ کیسے؟''
''آپ مجھے روک سکتے تھے۔ آپ کہہ سکتے تھے کہ میں اداس ہو جاؤں گا۔ کہہ سکتے تھے کہ میں چائے صرف تمہارے ہاتھ کی پیتا ہوں۔ لیکن دل چاہتا تو روکتے۔ آپ نے تو مجھے اس تندور میں جھونکنا تھا سو جھونک دیا''۔
اب اس بات کا میں کیا جواب دیتا۔ پچاس ڈگری کو چھوتا ہوا درجہ حرارت اور بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دیکھ کے انسانی پارہ تو ویسے ہی آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں بحث کر کے کیا میں نے خانگی زندگی کو فرائی کرنا تھا۔
یہ بس ایک دن کا اثر تھا۔ اسی سے اندازہ کریں کہ وہ لوگ جو گزشتہ کئی برسوں سے اس حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ صبر کی کس معراج پر ہوں گے۔ اس ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اسی وجہ سے نئی حکمرانی کے حق میں فیصلہ دینے پر مائل ہوا ہے۔ اقتدار کی مسند پر جو کانٹے ہیں انھیں آنکھوں سے چننا ہو گا۔ مایہ ناز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے ایک جگہ لکھتا ہے ''یہ چیک کرنے کا بہترین طریقہ کہ کسی پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ ہے کہ اس پر بھروسہ کر کے دیکھا جائے''۔ سو عوام بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔ پچھلی دو باریوں کے ادھورے پن کی رعایت سمجھ لیں یا پذیرائی، لوگوں کی آس بہت بڑی ہے۔ پوری نہ ہوئی تو مایوسی بہت ظالم ہو گی۔ اتنی ظالم کہ یہی مایوسی حکومت کی مدت بھی متعین کرے گی۔ لہٰذا پانچ برس، پانچ برس کی رٹ لگانے والے جملہ احباب ذرا محتاط رہیں۔
ایسی باتیں لکھ کے میں جو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آنے والے حکمرانوں کے تیور بتا رہے ہیں کہ انھیں اس خوف کا اندازہ ہے۔ حلف اٹھاتے ہی راتوں کی نیندیں اڑ جائیں گی۔ کئی مسئلے اور ہر مسئلے کے کئی کئی مرحلے۔ ایک دریا کے پار اتریں گے تو ایک اور دریا کا سامنا ہو گا۔ تیرتے تیرتے یہ سب منیر نیازی بن جائیں گے۔ میں کون ہوں اور کہاں ہوں؟
سب نے ریٹائر ہونے کی عمر میں ایک ڈھیر سارے بکھیڑے مول لیے ہیں۔ آپ غور کریں یہ کسی ایک آدھ صوبے کی بات نہیں ہے۔ تمام کے تمام حکمرانوں کی نوجوانی کا یہی عالم ہے۔ ساٹھ سے نیچے کوئی بھی نہیں۔ صدیوں کا تجربہ رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ کیسی عجیب بلکہ مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ اب کی بار ساری انتخابی مہم کا زور تبدیلی اور نوجوان قیادت پر تھا۔ جوش میں ایک دوسرے کے نعرے بھی چرائے گئے اور ڈنڈ بیٹھکیں بھی نکال کے دکھائی گئیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے اور اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ تمام کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ ہوں گی۔ کوئی مرکز میں اور کوئی صوبے میں۔ اگر کوئی رہ گیا تو اس کی تڑیوں کی فکر نہ کریں وہ بھی آ جائے گا۔ اقتدار کا چھوٹا موٹا، سچا جھوٹا حصہ حاصل کرنا ہر ایک کی منزل اور مقدر ہے۔ یہ داغ اس دفعہ سب پر لگے گا۔
آئیے! اب اسی گرمی اور اسی لوڈشیڈنگ کا روشن پہلو بھی دیکھ لیں۔ یہ جو اسٹاک مارکیٹ میں آپ کو ناقابل بیان تیزی دکھائی دے رہی ہے یہ اسی کی پیداوار ہے۔ بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو تیل اور گیس کی طلب بھی بڑھتی ہے۔ حکومتی ایجنڈے میں پہلی ترجیح یہی ہے کہ اس طلب کو پورا کیا جائے۔ اسے پورا کرنا ہو گا تو بجلی، تیل اور گیس کی کمپنیوں کو پیسہ بھی دینا ہو گا اور سہولتیں بھی۔ یہ چیز ان کے نفع میں اضافے کا باعث بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اسٹاک مارکیٹ کا رخ کر رہا ہے۔ البتہ آنے والے حکمران اس بات سے زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ یہ تیزی اسی آس اور امید کا ایک رخ ہے جو ان سے منسوب کی جاتی ہے۔ یہ پوری نہ ہوئی تو بڑی مار پڑے گی اور بہت جلد پڑے گی۔
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
باقی رہی بات اہلیہ کی تو وہ ان کا مذاق تھا۔ میکے کی تو دھوپ بھی چھاؤں ہوتی ہے پھر وہاں کی لوڈشیڈنگ کیسے بری لگ سکتی ہے۔ ویسے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔کتنی ہی طویل رفاقت ہو، کتنی ہی محبت ہو، ہم آہنگی ہو اور اس کا اظہار بھی ہو لیکن کیا یہ درست نہیں ہے کہ بیوی کو اس سارے التفات سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کچن میں اس کے ہاتھ سے انڈا گر جائے اور ٹوٹے نہ؟