آر ٹی ایس سے پریذائیڈنگ افسران کی لاعلمی اور انٹرنیٹ نہ ہونے پر مسائل پیدا ہوئے نادرا رپورٹ
پریذائیڈنگ افسران ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت نہیں رکھتے تھے، نادرا تحقیقاتی رپورٹ
عام انتخابات میں آر ٹی ایس فیل ہونے سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بیشتر پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھے اور وہ ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت نہیں رکھتے تھے جب کہ انٹرنیٹ نہ ہونے پر بھی مسائل پیدا ہوئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عام انتخابات 2018ء میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) فیل ہونے سے متعلق نادرا نے ابتدائی رپورٹ مرتب کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوا دی جب کہ الیکشن کمیشن نے بھی نادرا کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹ کی تصدیق کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آرٹی ایس 25 جولائی کو ٹھیک کام کررہا تھا، 25 جولائی 6 بجے سے 27 جولائی شام 4 بجے تک آرٹی ایس سے نتائج موصولی کا عمل جاری رہا، نادرا نے آر ٹی ایس کے بین الاقوامی معیار کا بیک اپ تیار کیا تھا، رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم اور رزلٹ مینجمنٹ سسٹم میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آر ٹی ایس میں ڈیٹا فیڈ کرنے کا اختیار صرف پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران کو تھا، ابتداء میں آر ٹی ایس کے ذریعے رزلٹ کی آمد جاری تھی، انتخابی عملے کو آرٹی ایس سافٹ ویئر کے استعمال کرنے میں مختلف وجوہات رکاوٹ کا باعث بنیں۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ تھری جی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بھی رزلٹ فارم کی آرٹی ایس ترسیل میں بڑی رکاوٹ رہی، بیشتر پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت نہیں رکھتے تھے اور ان کے پاس اسمارٹ فون بھی دستیاب نہیں تھے، پریذائیڈنگ افسران کی اسمارٹ فون سے لاعلمی، موبائل چارجنگ کے مسائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا پیکجز نہ ہونے کے باعث نتائج آر ٹی ایس کے ذریعے ارسال نہ کیے جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی رات 2 بجے سے قبل غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کا دباؤ بھی ناکامی کا سبب بنا رہا، 2 بجے کی ڈیڈ لائن کے لیے الیکشن کمیشن نے آر ٹی ایس کو بائی پاس کرنے کے احکامات جاری کیے، آر ٹی ایس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا کہ وہ کسی حلقے کے نتائج مرتب کرے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عام انتخابات 2018ء میں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) فیل ہونے سے متعلق نادرا نے ابتدائی رپورٹ مرتب کرکے الیکشن کمیشن کو بھجوا دی جب کہ الیکشن کمیشن نے بھی نادرا کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹ کی تصدیق کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آرٹی ایس 25 جولائی کو ٹھیک کام کررہا تھا، 25 جولائی 6 بجے سے 27 جولائی شام 4 بجے تک آرٹی ایس سے نتائج موصولی کا عمل جاری رہا، نادرا نے آر ٹی ایس کے بین الاقوامی معیار کا بیک اپ تیار کیا تھا، رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم اور رزلٹ مینجمنٹ سسٹم میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آر ٹی ایس میں ڈیٹا فیڈ کرنے کا اختیار صرف پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران کو تھا، ابتداء میں آر ٹی ایس کے ذریعے رزلٹ کی آمد جاری تھی، انتخابی عملے کو آرٹی ایس سافٹ ویئر کے استعمال کرنے میں مختلف وجوہات رکاوٹ کا باعث بنیں۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ تھری جی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بھی رزلٹ فارم کی آرٹی ایس ترسیل میں بڑی رکاوٹ رہی، بیشتر پریذائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت نہیں رکھتے تھے اور ان کے پاس اسمارٹ فون بھی دستیاب نہیں تھے، پریذائیڈنگ افسران کی اسمارٹ فون سے لاعلمی، موبائل چارجنگ کے مسائل اور انٹرنیٹ ڈیٹا پیکجز نہ ہونے کے باعث نتائج آر ٹی ایس کے ذریعے ارسال نہ کیے جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی رات 2 بجے سے قبل غیرحتمی اور غیر سرکاری نتائج کا دباؤ بھی ناکامی کا سبب بنا رہا، 2 بجے کی ڈیڈ لائن کے لیے الیکشن کمیشن نے آر ٹی ایس کو بائی پاس کرنے کے احکامات جاری کیے، آر ٹی ایس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا کہ وہ کسی حلقے کے نتائج مرتب کرے۔