اپنی حفاظت خود کریں
ہماری تربیت میں ابھی تک اتنے سقم ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں تاہم ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔
''اب کی بار میں پاکستان گیا تو میںنے وہاں ایک حیرت انگیز ایجاد دیکھی! '' وہ کہہ رہے تھے، '' جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستانی کتنے اسمارٹ لوگ ہیں!! '' دل ہی دل میں اس تعریف پر فخر محسوس کیا۔ ہیں تو وہ بھی پاکستانی، مگرعرصہ دراز سے دیار غیر میں مقیم ہیں ، ہر سال پاکستان کا ایک چکر ضرور لگاتے ہیں اور پاکستان سے باخبر رہتے ہیں، '' لیکن... '' ان کی بات ابھی جاری تھی، '' ان کی ساری اسمارٹ نیس منفی کاموں کے لیے استعمال ہوتی ہے!! '' ان کی بات کی تکمیل پر میرے فخر کے غبارے کی ساری ہوا نکل چکی تھی۔ یہاں میں نے پہلے بھی لوگوں کو لفظ'' اسمارٹ '' کو دوسروں کی منفی خوبیوں یعنی چالاکی اور ہشیاری کے مطالب میں استعمال ہوتے ہوئے سن چکی ہوں ۔ اب جانے وہ کس ایجاد کے بارے میں انکشاف کرنا چاہ رہے تھے۔
''کس چیز کے بارے میں بتا رہے تھے آپ؟ '' اس سے پہلے کہ وہ ہماری اسمارٹ نیس کی مزید تعریف کرتے۔
'' میں اپنے دوست کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھا اور جونہی میں نے سیٹ بیلٹ باندھنا چاہی تو اس کا کلپ اس سوراخ میں نہیں جا رہا تھا جہاں اسے بند کیا جاتا ہے، میںنے اپنے دوست سے سوال کیا تو اس نے وہاں سے ایک کلپ سا نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور بتایا کہ بیلٹ نہ باندھنا پڑے۔ اس کے لیے ان کے ہاں ان کلپس کا استعمال کیا جاتا ہے!! '' وہ بات ختم کر کے ہنسے۔
'' ہاں وہ پاکستان میںمیرے پاس بھی ہے '' میں نے بتایا۔ ...'' آپ لوگ سیٹ بیلٹ کیوں نہیں باندھتے؟ '' انھوں نے مجھ سے سوال کیا۔
'' عموماً تو باندھ لیتے ہیں، مگر کبھی جو دو چار منٹ کی ڈرائیو پر جانا ہو تو!! '' میں نے جواز تراشا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سیٹ بیلٹ باندھنے سے الجھن ہوتی ہے کیونکہ بچپن سے اس کی عادت جو نہیں ہے۔ ہم صرف وہاں سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں جہاں چیک ہو جانے کا ڈر ہو کیونکہ اس سے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
'' سیٹ بیلٹ کا تعلق آپ کے طے کیے جانے والے فاصلے سے تو ہرگز نہیں ہے، یہ ہماری اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے ہے۔ جب ہم ایسی گاڑیاں لیتے ہیں کہ جن میں سیٹ بیلٹ موجود ہے توہم اسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟ آپ کو علم ہے کہ جن گاڑیوں میں ائیر بیگ ہوتا ہے، کسی حادثے کی صورت میں وہ ائیر بیگ تبھی کھلتا ہے اگر آپ نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی ہو۔ حادثے کا تو کوئی وقت اور جگہ پہلے سے متعین نہیں ہوتی، دو چار منٹ کی ڈرائیو کے دوران بھی ہو سکتا ہے!!''
'' سو تو ہے '' میں نے دل سے اعتراف کیا۔ چھوٹی چھوٹی ایسی کئی چوک ہم کر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بسا اوقات پچھتانا پڑتا ہے۔ میںنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور دل ہی دل میں سوچا کہ واپس جا کر سب سے پہلے اپنے وہ کلپ تلف کروں گی کیونکہ وہ میری ہی زندگی کی حفاظت کے لیے ہیں اور اس لیے کہ اگر میں نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی ہو گی تو خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں نقصان کا احتمال کم ہو جائے ۔
میںنے بعد میں جب بھی اس بارے میں سوچا کہ کسی ملک کا قانون ہو یا نہ ہو، گاڑی چلانے والے ہر شخص کے لیے سیٹ بیلٹ باندھنا اس کی اپنی ہی زندگی اور تحفظ کی ضمانت ہے۔ ہم حادثات اور بیماریوں سے کتنے خوفزدہ ہوتے ہیں، اپنی دعاؤں میں یہ دعا سب سے اہم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحت اور تحفظ سے رکھے، اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر جاتے ہوئے سو سو بار تاکید کرتے ہیں کہ گاڑی احتیاط سے چلائیں، سڑک دیکھ کر پار کریں۔ گھر میں بھی ہم انھیں کہتے ہیں کہ وہ گیلے فرش پر اور بارش میں احتیاط سے چلیں کہ کہیں پھسل نہ جائیں، آرام سے سیڑھیاں چڑھیں اور اتریں، سامنے دیکھ کر چلیں کہ کہیں کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر نہ جائیں، خود بھی ذرا سا چکر آئے تو فوراً کسی چیز کو تھامنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں گر نہ جائیں۔
گھر بناتے ہوئے ہر طرح سے حفاظتی اقدامات کرتے ہیں، سیڑھیاں چاہے بیس ہوں یا چار... ان کے ساتھ حفاظتی جنگلہ لگاتے ہیں، بجلی سے چلنے والی گھریلواستعمال کی اشیا لیتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں کہ ان سے کرنٹ نہ لگے۔ فرنیچر لیتے ہوئے اس کے کونوںکا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سے گٹھنے نہ ٹکرا کر زخمی ہوں ۔ جوتا خریدتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کہیں اس کا تلا پھسلنے والا نہ ہو۔ بیمار پڑتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ، دوا لیتے ہوئے اس کی میعاد چیک کرتے ہیں، زیادہ مسئلہ ہو تو آپریشن کرواتے ہیں... ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق آرام کرتے ہیں۔ یہ سب اقدامات ہم اپنی حفاظت کے لیے ہی تو کرتے ہیں، اس زندگی اور صحت کے لیے جو اللہ تعالی نے ہمیں نعمت کے طور پر عطا فرمائے ہیں۔
دنیا میں ہر جگہ... مگر پاکستان میں خاص طور پر گھر سے نکلنے والا ہر شخص، خواہ وہ پیدل ہو، سائیکل یا بائیک پر، گاڑی، بس ، ویگن یا ٹرک پر، سڑک پر اور اس کے ارد گرد ہونا اس کے لیے سب سے زیادہ بڑا رسک ہے۔ایسے حالات میں جب ہماری جان اور تحفظ سب سے زیادہ خطرے میں ہو، ہمارے لیے سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ پہننا کس قدر اہم ہے، سب سے پہلے اپنا اور پھر دوسروں کا تحفظ مد نظر رکھنا اہم ہے۔ گاڑیاں چلانے والے تو شاید پھر بھی بیلٹ باندھ لیتے ہیں مگر بس، ویگن اور ٹرکوں کے ڈرائیور تو کبھی بیلٹ نہیں باندھتے ، شاید اس لیے بھی کہ حادثے کی صورت میں انھیں دروازہ کھول کر فوری طور پر بھاگنا ہوتا ہے۔
میںنے بہت سی ایسی گاڑیاں بھی دیکھی ہیں جن میں سیٹ بیلٹ سرے سے ہوتی ہی نہیں... ان میں سے عموماً وہ گاڑیاں ہیں جو ہمارے اپنے ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں، یقینا اور اس نکتے کو مدنظر رکھ کر ہی تیار کی جاتی ہیں کہ ہم نے کون سے اس کا استعمال کرنا ہے۔ ہمارے جیسی قوم جو نرمی کی زبان سمجھتی ہی نہیں چاہے اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو... ہمارے لیے تو بالخصوص ایسی گاڑیاں ہونا چاہئیں جو سیٹ بیلٹ باندھے بغیر اسٹارٹ ہی نہ ہوں۔ اگر چہ اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے جو کہ عام طور پر کئی لوگ کرتے بھی ہیں کہ انھوں نے اپنی سیٹ بیلٹ کو مستقل باندھ رکھا ہے اور وہ بندھی ہوئی سیٹ بیلٹ ان کے بیٹھنے کے بعد ان کے پیچھے ہوتی ہے۔ کبھی جو ایسی جگہ آ جائے جہاں '' خطرہ '' ہو کہ چیکنگ ہو سکتی ہے وہاں اسے ہنگامی طور پر کھول کر سامنے باندھ لیا جاتا ہے، '' خطرے '' کا مقام گزر کر دوبارہ وہ اپنی جگہ پر آ جاتی ہے۔ یہی کام بائیک چلانے والے ہیلمٹ کے ساتھ کرتے ہیں۔
ہماری تربیت میں ابھی تک اتنے سقم ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں تاہم ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ ہم کتابوں میں پڑھتے کچھ ہیں اور عمل کچھ اور کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم سیکھتے ہیں ، اس کا اطلاق اپنی زندگیوں پر نہیں کرتے اور پھر بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے اردگرد سب اچھا ہو۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہمارے ارد گرد اسی لیے نظر آتے ہیں کہ ان میں ہم سب حصہ دار ہیں، کاغذ کا ایک معمولی سا ٹکڑا پھینک کر ہم سوچتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑ جائے گا مگر یہ مت بھولیں کہ اس ملک میں میری آپ ہی جیسی سوچ رکھنے والے بیس اکیس کروڑ لوگ رہتے ہیں۔
سب سے اولین درسگاہ، بچے کا گھر اور اس کے والدین ہوتے ہیں، ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کواچھا انسان بننے کے لیے بنیادی اصولوں کی دولت سے مالا مال کریں اور اسے جو کچھ بھی سکھائیں اس کے ساتھ اہم نکتہ یہ ہو کہ جو کچھ وہ اپنے اور اپنے گھر کے لیے پسند کرتا ہے، وہی وہ دوسروں اور اپنے گھر سے باہر یعنی اپنے پورے ملک کے لیے پسند کرے۔ میں کی بجائے ہم اور میرا کی بجائے ہمارا کے الفاظ اور سوچ کو دماغ میں جگہ دیں۔ فائدہ اور نقصان وہ جو ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہو، اگر ہمارا انفرادی عمل کبھی پورے خاندان اور بڑے پیمانے پر ملک کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے تو ہمارا اچھا عمل بھی اسی طرح اجتماعی فائدے اور نیک نامی کا باعث بن سکتا ہے۔
نئے پاکستان میں ہم سب کو نئی سوچ اور نئے قول و فعل کے ساتھ اس بات کا ثبوت دینا ہو گا، دنیا کو بتانا ہو گا کہ اگر ہمیں مناسب اور بہتر قیادت ملے تو ہم ایک بہترین قوم ثابت ہو سکتے ہیں۔
''کس چیز کے بارے میں بتا رہے تھے آپ؟ '' اس سے پہلے کہ وہ ہماری اسمارٹ نیس کی مزید تعریف کرتے۔
'' میں اپنے دوست کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھا اور جونہی میں نے سیٹ بیلٹ باندھنا چاہی تو اس کا کلپ اس سوراخ میں نہیں جا رہا تھا جہاں اسے بند کیا جاتا ہے، میںنے اپنے دوست سے سوال کیا تو اس نے وہاں سے ایک کلپ سا نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور بتایا کہ بیلٹ نہ باندھنا پڑے۔ اس کے لیے ان کے ہاں ان کلپس کا استعمال کیا جاتا ہے!! '' وہ بات ختم کر کے ہنسے۔
'' ہاں وہ پاکستان میںمیرے پاس بھی ہے '' میں نے بتایا۔ ...'' آپ لوگ سیٹ بیلٹ کیوں نہیں باندھتے؟ '' انھوں نے مجھ سے سوال کیا۔
'' عموماً تو باندھ لیتے ہیں، مگر کبھی جو دو چار منٹ کی ڈرائیو پر جانا ہو تو!! '' میں نے جواز تراشا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سیٹ بیلٹ باندھنے سے الجھن ہوتی ہے کیونکہ بچپن سے اس کی عادت جو نہیں ہے۔ ہم صرف وہاں سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں جہاں چیک ہو جانے کا ڈر ہو کیونکہ اس سے جرمانہ ہو سکتا ہے۔
'' سیٹ بیلٹ کا تعلق آپ کے طے کیے جانے والے فاصلے سے تو ہرگز نہیں ہے، یہ ہماری اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے ہے۔ جب ہم ایسی گاڑیاں لیتے ہیں کہ جن میں سیٹ بیلٹ موجود ہے توہم اسے استعمال کیوں نہیں کرتے؟ آپ کو علم ہے کہ جن گاڑیوں میں ائیر بیگ ہوتا ہے، کسی حادثے کی صورت میں وہ ائیر بیگ تبھی کھلتا ہے اگر آپ نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی ہو۔ حادثے کا تو کوئی وقت اور جگہ پہلے سے متعین نہیں ہوتی، دو چار منٹ کی ڈرائیو کے دوران بھی ہو سکتا ہے!!''
'' سو تو ہے '' میں نے دل سے اعتراف کیا۔ چھوٹی چھوٹی ایسی کئی چوک ہم کر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بسا اوقات پچھتانا پڑتا ہے۔ میںنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور دل ہی دل میں سوچا کہ واپس جا کر سب سے پہلے اپنے وہ کلپ تلف کروں گی کیونکہ وہ میری ہی زندگی کی حفاظت کے لیے ہیں اور اس لیے کہ اگر میں نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھی ہو گی تو خدا نخواستہ کسی حادثے کی صورت میں نقصان کا احتمال کم ہو جائے ۔
میںنے بعد میں جب بھی اس بارے میں سوچا کہ کسی ملک کا قانون ہو یا نہ ہو، گاڑی چلانے والے ہر شخص کے لیے سیٹ بیلٹ باندھنا اس کی اپنی ہی زندگی اور تحفظ کی ضمانت ہے۔ ہم حادثات اور بیماریوں سے کتنے خوفزدہ ہوتے ہیں، اپنی دعاؤں میں یہ دعا سب سے اہم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحت اور تحفظ سے رکھے، اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر جاتے ہوئے سو سو بار تاکید کرتے ہیں کہ گاڑی احتیاط سے چلائیں، سڑک دیکھ کر پار کریں۔ گھر میں بھی ہم انھیں کہتے ہیں کہ وہ گیلے فرش پر اور بارش میں احتیاط سے چلیں کہ کہیں پھسل نہ جائیں، آرام سے سیڑھیاں چڑھیں اور اتریں، سامنے دیکھ کر چلیں کہ کہیں کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر نہ جائیں، خود بھی ذرا سا چکر آئے تو فوراً کسی چیز کو تھامنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں گر نہ جائیں۔
گھر بناتے ہوئے ہر طرح سے حفاظتی اقدامات کرتے ہیں، سیڑھیاں چاہے بیس ہوں یا چار... ان کے ساتھ حفاظتی جنگلہ لگاتے ہیں، بجلی سے چلنے والی گھریلواستعمال کی اشیا لیتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں کہ ان سے کرنٹ نہ لگے۔ فرنیچر لیتے ہوئے اس کے کونوںکا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سے گٹھنے نہ ٹکرا کر زخمی ہوں ۔ جوتا خریدتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کہیں اس کا تلا پھسلنے والا نہ ہو۔ بیمار پڑتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ، دوا لیتے ہوئے اس کی میعاد چیک کرتے ہیں، زیادہ مسئلہ ہو تو آپریشن کرواتے ہیں... ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق آرام کرتے ہیں۔ یہ سب اقدامات ہم اپنی حفاظت کے لیے ہی تو کرتے ہیں، اس زندگی اور صحت کے لیے جو اللہ تعالی نے ہمیں نعمت کے طور پر عطا فرمائے ہیں۔
دنیا میں ہر جگہ... مگر پاکستان میں خاص طور پر گھر سے نکلنے والا ہر شخص، خواہ وہ پیدل ہو، سائیکل یا بائیک پر، گاڑی، بس ، ویگن یا ٹرک پر، سڑک پر اور اس کے ارد گرد ہونا اس کے لیے سب سے زیادہ بڑا رسک ہے۔ایسے حالات میں جب ہماری جان اور تحفظ سب سے زیادہ خطرے میں ہو، ہمارے لیے سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ پہننا کس قدر اہم ہے، سب سے پہلے اپنا اور پھر دوسروں کا تحفظ مد نظر رکھنا اہم ہے۔ گاڑیاں چلانے والے تو شاید پھر بھی بیلٹ باندھ لیتے ہیں مگر بس، ویگن اور ٹرکوں کے ڈرائیور تو کبھی بیلٹ نہیں باندھتے ، شاید اس لیے بھی کہ حادثے کی صورت میں انھیں دروازہ کھول کر فوری طور پر بھاگنا ہوتا ہے۔
میںنے بہت سی ایسی گاڑیاں بھی دیکھی ہیں جن میں سیٹ بیلٹ سرے سے ہوتی ہی نہیں... ان میں سے عموماً وہ گاڑیاں ہیں جو ہمارے اپنے ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں، یقینا اور اس نکتے کو مدنظر رکھ کر ہی تیار کی جاتی ہیں کہ ہم نے کون سے اس کا استعمال کرنا ہے۔ ہمارے جیسی قوم جو نرمی کی زبان سمجھتی ہی نہیں چاہے اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو... ہمارے لیے تو بالخصوص ایسی گاڑیاں ہونا چاہئیں جو سیٹ بیلٹ باندھے بغیر اسٹارٹ ہی نہ ہوں۔ اگر چہ اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے جو کہ عام طور پر کئی لوگ کرتے بھی ہیں کہ انھوں نے اپنی سیٹ بیلٹ کو مستقل باندھ رکھا ہے اور وہ بندھی ہوئی سیٹ بیلٹ ان کے بیٹھنے کے بعد ان کے پیچھے ہوتی ہے۔ کبھی جو ایسی جگہ آ جائے جہاں '' خطرہ '' ہو کہ چیکنگ ہو سکتی ہے وہاں اسے ہنگامی طور پر کھول کر سامنے باندھ لیا جاتا ہے، '' خطرے '' کا مقام گزر کر دوبارہ وہ اپنی جگہ پر آ جاتی ہے۔ یہی کام بائیک چلانے والے ہیلمٹ کے ساتھ کرتے ہیں۔
ہماری تربیت میں ابھی تک اتنے سقم ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں تاہم ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ ہم کتابوں میں پڑھتے کچھ ہیں اور عمل کچھ اور کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم سیکھتے ہیں ، اس کا اطلاق اپنی زندگیوں پر نہیں کرتے اور پھر بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے اردگرد سب اچھا ہو۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہمارے ارد گرد اسی لیے نظر آتے ہیں کہ ان میں ہم سب حصہ دار ہیں، کاغذ کا ایک معمولی سا ٹکڑا پھینک کر ہم سوچتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑ جائے گا مگر یہ مت بھولیں کہ اس ملک میں میری آپ ہی جیسی سوچ رکھنے والے بیس اکیس کروڑ لوگ رہتے ہیں۔
سب سے اولین درسگاہ، بچے کا گھر اور اس کے والدین ہوتے ہیں، ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کواچھا انسان بننے کے لیے بنیادی اصولوں کی دولت سے مالا مال کریں اور اسے جو کچھ بھی سکھائیں اس کے ساتھ اہم نکتہ یہ ہو کہ جو کچھ وہ اپنے اور اپنے گھر کے لیے پسند کرتا ہے، وہی وہ دوسروں اور اپنے گھر سے باہر یعنی اپنے پورے ملک کے لیے پسند کرے۔ میں کی بجائے ہم اور میرا کی بجائے ہمارا کے الفاظ اور سوچ کو دماغ میں جگہ دیں۔ فائدہ اور نقصان وہ جو ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہو، اگر ہمارا انفرادی عمل کبھی پورے خاندان اور بڑے پیمانے پر ملک کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے تو ہمارا اچھا عمل بھی اسی طرح اجتماعی فائدے اور نیک نامی کا باعث بن سکتا ہے۔
نئے پاکستان میں ہم سب کو نئی سوچ اور نئے قول و فعل کے ساتھ اس بات کا ثبوت دینا ہو گا، دنیا کو بتانا ہو گا کہ اگر ہمیں مناسب اور بہتر قیادت ملے تو ہم ایک بہترین قوم ثابت ہو سکتے ہیں۔