یقین اور عمل
ہم نے اپنے خوبصورت مکمل مذہب کو اختیارکرنے میں بہت کوتاہی سے کام لیا ہے بلکہ ہم یہ عمل بارہا دہراتے ہیں۔
چلے اچھا ہی ہوا کہ گیرٹ ولڈرز خود ہی گستاخانہ خاکوں کے مقابلے سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس سلسلے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ سب اہل دل نے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالا ، دراصل بات ہی اس قدر متنازعہ تھی کہ جس نے عقل و شعور کو حیران کر رکھا تھا گویا کوئلے سلگاکر اس کی آگ دہکائی جارہی تھی، ظاہر ہے کہ اس کی تپش سے خود گیرٹ کیسی بچ سکتا تھا اور جب اسے اس کی تیزی اور تندی کا احساس ہوگیا تو اس نے قدم پیچھے کرلیے۔ بہر حال دیر آید درست آید۔
اس مسئلے میں پاکستانی حکومت نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراکے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ بھائی کچھ بھی سوچ لو، کرلو ناخن کو گوشت سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، ہمارا مذہب بہترین ہے لیکن ہم نے اس تیز رفتاری کے چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے دور میں اسے کس طرح اختیار کر رکھا ہے مسائل یہاں سے شروع ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک عام سی بات ہے جیسے کہ ایک واٹس ایپ میسج موصول ہوتا ہے کہ جس میں تحریر ہے کہ اس پیغام کو بارہ لوگوں تک پہنچاکر دیکھو دو گھنٹے کے بعد آپ کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا اس کے بعد اس پیغام میں رب العزت کے بابرکت نام بھی تحریر تھے نیچے لکھا تھا کہ مٹانا نہیں، آزمانا ہے۔ ہم کو تو اپنے رب پر یقین ہے اور اسی پیغام پر سب سے اوپر بھی یہی تحریر تھا، بہر حال جب ہمیں یہ پیغام ملا تو سوچا کہ ذرا بھیج کر تو دیکھیں، ٹائم نوٹ کرلیا تھا دو گھنٹوں بعد سوچتے رہے کہ بڑا مسئلہ تھا کیا۔
تو یقین جانیے کہ سمجھ ہی نہ آیا ہماری ایک سینئر صحافی نے اس بات پر ہمیں بڑے پیار سے سمجھاتے واٹس ایپ پر ریکارڈ پیغام بھیجا کہ اس طرح کے پیغامات پر میں یقین نہیں رکھتی اور ہمارے علمائے کرام کی بھی اس بارے میں یہ رائے ہے کہ اس طرح کے پیغامات پر عمل نہ کیا کریں کہ یہ پیغام سات، بارہ یا گیارہ لوگوں کو فارورڈ کرو تو بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا پریشانی ختم ہوجائے گی یہ سب فضول ہے اگر ایسا ہی ہوتا تو ہمارے پیغمبران اور صحابہ کرام کی اپنی زندگی اس قدر جد وجہد سے بھرپور اور ایمان افروز نہ ہوتی کیونکہ زندگی عمل کرنے سے بھی بنتی ہے یقین کے ساتھ عمل کرنے کا مرحلہ بھی ہوتا ہے ۔اس طرح کے پیغامات در اصل خدا پر سے یقین اٹھانے کے لیے ہوتے ہیں اور اگر مسائل اسی طرح پیغامات کو فارورڈ کرنے سے حل ہونے لگے تو کیا بات ہے۔
اپنی سینئر صحافی کی اس بات سے ہمیں خیال آیا کہ سلطنت عثمانیہ پر حملے کی تیاریاں تھیں تو علمائے کرام سے مشورہ لیا گیا کہ سر پر جنگ کھڑی ہے دشمن تیار ہیں کیا کیا جائے۔ جواب ملا کہ آیت کریمہ کا ختم کروایا جائے اور ہوا یوں کہ سلطنت اسلامیہ پارہ پارہ ہوگئی۔ بجائے دشمن سے نمٹنے کے لیے جنگی امور پر تیاری کی جاتی توجہ دی جاتی کہ اس کے لیے ہم کیا کیا تراکیب لڑاسکتے ہیں آیت کریمہ کا ورد جاری رکھا گویا زندگی عمل سے ہی بنتی ہے اور اس عمل کے ساتھ پختہ یقین بھی ہو تو بظاہر صاف ناکامی بھی کسی اور کامیابی کا پیغام سناتی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا لیکن ہماری صاف نیت اور خلوص عمل سے بگڑتی بات بھی بن جاتی ہے۔ ہم میں اخلاقی طور پر اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ اپنے اور اپنے لوگوں کے برے اور غیر اخلاقی عمل پر تنقید کریں اور سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
کچھ عرصہ قبل ہماری ایک عزیزہ کا پاکستان آنا ہوا جو یورپ میں ہی رہائش پذیر ہیں، بچوں کے حوالے سے ان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے ہالینڈ اور نیدر لینڈ کے حوالے سے ہی بڑی عجیب سی باتیں کیں مثلاً ہم نے از رہ مذاق کہاکہ آج کل تو بچے بڑے تیز ہیں، بڑوں کے کان کتر دیتے ہیں ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بڑے حیران رہ جاتے ہیں اس پر وہ بڑا منہ بناکر ذرا غصے سے بولیں ہرگز نہیں ہمارے بچے ایسا کریں تو ہم تو ان کے کان پکڑلیں ہم انھیں ایسا ٹرینڈ کرتے ہیں کہ ان کی بڑوں میں بیٹھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی یہاں تک کہ فیملی فرینڈ تک ہو تھوڑی دیر میں ہی ہم بچوں کو بڑوں کی محفل سے اٹھنے کا اشارہ نہ بھی کریں تو وہ خود ہی اٹھ جاتے ہیں۔
ہم نے حیرت سے پوچھا کہ مغرب میں اور بچوں کا یہ حال تو فرمانے لگیں ہمارے یہاں ادب آداب پر توجہ دی جاتی ہے ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ جیسے وہ کسی مغربی معاشرے کے بارے میں نہیں بلکہ اسلامی مشرقی ماحول و معاشرے کی بات کررہی ہیں۔ لیکن یہ صورتحال امریکا اور برطانیہ کے حوالے سے ذرا مختلف ہے یعنی یوں سمجھ لیں کہ برطانیہ، امریکا اور فرانس اگر شہر ہیں تو ہالینڈ، نیدر لینڈ، رومانیہ وغیرہ اس کے پنڈ ۔ ویسے خدا جانے کیوںکہ ہم نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہوا لیکن کیوں کہ ان کی گفتگو سے صداقت کا عنصر چھلک رہا تھا لہٰذا بات تو لگتی ہے پھر بھی اسلام سے اس قدرکی عداوت۔
ہمارے ماموں مرحوم ایک طویل عرصے برطانیہ میں مقیم رہے اور وہیں ان کا انتقال ہوا، بات کرنے میں کھرے تھے کھل کر گوروں کی تعریف بھی کرتے اور تنقید بھی کرتے تھے اور جب بھی پاکستان آتے یہاں کے ہونے والے جھگڑوں اور ہنگاموں کا بڑی اذیت سے ذکر کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں لوگ بڑی جلدی مار کٹائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خیال غالباً کسی ایک کا نہیں بلکہ وہاں بسنے والے عام لوگوں کا بھی ہے اور شاید اسی جذبے کو کسی نہ کسی صورت میں ٹیپ دیتے دیتے شدت پسندی کا نام دے دیا گیا۔ ان پچھلے پچیس تیس برسوں میں پاکستان ہی نہیں بلکہ عام دوسرے مسلم ممالک کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مالی اعتبار سے اور پھر کمزور سے کمزور ترین معاشی صورتحال کے تحت یہ گنتی گنی جارہی ہے۔ بظاہر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ گنتی درست کیا جائے لیکن ترکی اس قطار میں الگ ہے یہ ایک خوشگوار پہلو ہے۔
کیا ہم اچھے ہیں؟ کیا ہم برے ہیں؟ یہ سوال ہم پر نہیں چھوڑا جارہا بلکہ ہم پر برے اور تنگ نظری کا عالمی طور پر لیبل لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سوال مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھایا جارہا ہے، ایک ناظر کی حیثیت سے ذرا مطالعہ کریں تو نظر آتا ہے کہ ایک طویل عرصہ روس اور امریکا کی سرد جنگ کے درمیان مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو خوبصورت انداز میں استعمال کرنے کے بعد ریپنگ پیپرکی مانند پھینک دیا گیا اور مسلمان دہشت گرد ہیں اس کا اس قدر واویلا کیا گیاکہ شاید خود واویلا کرنے والے بور ہوکر دوسرے شیطانی حربوں کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچتے رہے۔ گیرٹ ولڈرز کی احمقانہ کوششیں اسی کا ایک شاخسانہ تھی۔
ہم نے اپنے خوبصورت مکمل مذہب کو اختیارکرنے میں بہت کوتاہی سے کام لیا ہے بلکہ ہم یہ عمل بارہا دہراتے ہیں جب کرپشن کے حوالے سے ہماری خبریں دنیا بھر میں چھپتی ہیں۔ منی لانڈرنگ، قبضہ گروپ، عزت و غیرت کے نام پر قتل، لوٹ مار، قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیاں اور ہمارے اپنے کردار پر اٹھتی انگلیاں ایک دوسرے پر لعن طعن اور نجانے کیا کچھ، کیا ہمیں مسلمان ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے ہم سے سب کچھ سیکھ لیا ہے جو ہمارا اچھا تھا جو بہترین تھا اور ہمیں وہ سکھادیا ہے جو ان کا برا تھا بد ترین تھا ہم اچھے ہیں کہ جو سکھایا کسی نے سب سیکھ گئے اور جو سکھایا ہمارے دین نے اسے بھول گئے اور بھول میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ گیرٹ ولڈرز جیسے اب بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے یقین کے ساتھ عمل میں بھی خلوص کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
اس مسئلے میں پاکستانی حکومت نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراکے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ بھائی کچھ بھی سوچ لو، کرلو ناخن کو گوشت سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، ہمارا مذہب بہترین ہے لیکن ہم نے اس تیز رفتاری کے چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے دور میں اسے کس طرح اختیار کر رکھا ہے مسائل یہاں سے شروع ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک عام سی بات ہے جیسے کہ ایک واٹس ایپ میسج موصول ہوتا ہے کہ جس میں تحریر ہے کہ اس پیغام کو بارہ لوگوں تک پہنچاکر دیکھو دو گھنٹے کے بعد آپ کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا اس کے بعد اس پیغام میں رب العزت کے بابرکت نام بھی تحریر تھے نیچے لکھا تھا کہ مٹانا نہیں، آزمانا ہے۔ ہم کو تو اپنے رب پر یقین ہے اور اسی پیغام پر سب سے اوپر بھی یہی تحریر تھا، بہر حال جب ہمیں یہ پیغام ملا تو سوچا کہ ذرا بھیج کر تو دیکھیں، ٹائم نوٹ کرلیا تھا دو گھنٹوں بعد سوچتے رہے کہ بڑا مسئلہ تھا کیا۔
تو یقین جانیے کہ سمجھ ہی نہ آیا ہماری ایک سینئر صحافی نے اس بات پر ہمیں بڑے پیار سے سمجھاتے واٹس ایپ پر ریکارڈ پیغام بھیجا کہ اس طرح کے پیغامات پر میں یقین نہیں رکھتی اور ہمارے علمائے کرام کی بھی اس بارے میں یہ رائے ہے کہ اس طرح کے پیغامات پر عمل نہ کیا کریں کہ یہ پیغام سات، بارہ یا گیارہ لوگوں کو فارورڈ کرو تو بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا پریشانی ختم ہوجائے گی یہ سب فضول ہے اگر ایسا ہی ہوتا تو ہمارے پیغمبران اور صحابہ کرام کی اپنی زندگی اس قدر جد وجہد سے بھرپور اور ایمان افروز نہ ہوتی کیونکہ زندگی عمل کرنے سے بھی بنتی ہے یقین کے ساتھ عمل کرنے کا مرحلہ بھی ہوتا ہے ۔اس طرح کے پیغامات در اصل خدا پر سے یقین اٹھانے کے لیے ہوتے ہیں اور اگر مسائل اسی طرح پیغامات کو فارورڈ کرنے سے حل ہونے لگے تو کیا بات ہے۔
اپنی سینئر صحافی کی اس بات سے ہمیں خیال آیا کہ سلطنت عثمانیہ پر حملے کی تیاریاں تھیں تو علمائے کرام سے مشورہ لیا گیا کہ سر پر جنگ کھڑی ہے دشمن تیار ہیں کیا کیا جائے۔ جواب ملا کہ آیت کریمہ کا ختم کروایا جائے اور ہوا یوں کہ سلطنت اسلامیہ پارہ پارہ ہوگئی۔ بجائے دشمن سے نمٹنے کے لیے جنگی امور پر تیاری کی جاتی توجہ دی جاتی کہ اس کے لیے ہم کیا کیا تراکیب لڑاسکتے ہیں آیت کریمہ کا ورد جاری رکھا گویا زندگی عمل سے ہی بنتی ہے اور اس عمل کے ساتھ پختہ یقین بھی ہو تو بظاہر صاف ناکامی بھی کسی اور کامیابی کا پیغام سناتی ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا لیکن ہماری صاف نیت اور خلوص عمل سے بگڑتی بات بھی بن جاتی ہے۔ ہم میں اخلاقی طور پر اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ اپنے اور اپنے لوگوں کے برے اور غیر اخلاقی عمل پر تنقید کریں اور سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
کچھ عرصہ قبل ہماری ایک عزیزہ کا پاکستان آنا ہوا جو یورپ میں ہی رہائش پذیر ہیں، بچوں کے حوالے سے ان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے ہالینڈ اور نیدر لینڈ کے حوالے سے ہی بڑی عجیب سی باتیں کیں مثلاً ہم نے از رہ مذاق کہاکہ آج کل تو بچے بڑے تیز ہیں، بڑوں کے کان کتر دیتے ہیں ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بڑے حیران رہ جاتے ہیں اس پر وہ بڑا منہ بناکر ذرا غصے سے بولیں ہرگز نہیں ہمارے بچے ایسا کریں تو ہم تو ان کے کان پکڑلیں ہم انھیں ایسا ٹرینڈ کرتے ہیں کہ ان کی بڑوں میں بیٹھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی یہاں تک کہ فیملی فرینڈ تک ہو تھوڑی دیر میں ہی ہم بچوں کو بڑوں کی محفل سے اٹھنے کا اشارہ نہ بھی کریں تو وہ خود ہی اٹھ جاتے ہیں۔
ہم نے حیرت سے پوچھا کہ مغرب میں اور بچوں کا یہ حال تو فرمانے لگیں ہمارے یہاں ادب آداب پر توجہ دی جاتی ہے ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہاتھا کہ جیسے وہ کسی مغربی معاشرے کے بارے میں نہیں بلکہ اسلامی مشرقی ماحول و معاشرے کی بات کررہی ہیں۔ لیکن یہ صورتحال امریکا اور برطانیہ کے حوالے سے ذرا مختلف ہے یعنی یوں سمجھ لیں کہ برطانیہ، امریکا اور فرانس اگر شہر ہیں تو ہالینڈ، نیدر لینڈ، رومانیہ وغیرہ اس کے پنڈ ۔ ویسے خدا جانے کیوںکہ ہم نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہوا لیکن کیوں کہ ان کی گفتگو سے صداقت کا عنصر چھلک رہا تھا لہٰذا بات تو لگتی ہے پھر بھی اسلام سے اس قدرکی عداوت۔
ہمارے ماموں مرحوم ایک طویل عرصے برطانیہ میں مقیم رہے اور وہیں ان کا انتقال ہوا، بات کرنے میں کھرے تھے کھل کر گوروں کی تعریف بھی کرتے اور تنقید بھی کرتے تھے اور جب بھی پاکستان آتے یہاں کے ہونے والے جھگڑوں اور ہنگاموں کا بڑی اذیت سے ذکر کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں لوگ بڑی جلدی مار کٹائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خیال غالباً کسی ایک کا نہیں بلکہ وہاں بسنے والے عام لوگوں کا بھی ہے اور شاید اسی جذبے کو کسی نہ کسی صورت میں ٹیپ دیتے دیتے شدت پسندی کا نام دے دیا گیا۔ ان پچھلے پچیس تیس برسوں میں پاکستان ہی نہیں بلکہ عام دوسرے مسلم ممالک کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مالی اعتبار سے اور پھر کمزور سے کمزور ترین معاشی صورتحال کے تحت یہ گنتی گنی جارہی ہے۔ بظاہر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ گنتی درست کیا جائے لیکن ترکی اس قطار میں الگ ہے یہ ایک خوشگوار پہلو ہے۔
کیا ہم اچھے ہیں؟ کیا ہم برے ہیں؟ یہ سوال ہم پر نہیں چھوڑا جارہا بلکہ ہم پر برے اور تنگ نظری کا عالمی طور پر لیبل لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سوال مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھایا جارہا ہے، ایک ناظر کی حیثیت سے ذرا مطالعہ کریں تو نظر آتا ہے کہ ایک طویل عرصہ روس اور امریکا کی سرد جنگ کے درمیان مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو خوبصورت انداز میں استعمال کرنے کے بعد ریپنگ پیپرکی مانند پھینک دیا گیا اور مسلمان دہشت گرد ہیں اس کا اس قدر واویلا کیا گیاکہ شاید خود واویلا کرنے والے بور ہوکر دوسرے شیطانی حربوں کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچتے رہے۔ گیرٹ ولڈرز کی احمقانہ کوششیں اسی کا ایک شاخسانہ تھی۔
ہم نے اپنے خوبصورت مکمل مذہب کو اختیارکرنے میں بہت کوتاہی سے کام لیا ہے بلکہ ہم یہ عمل بارہا دہراتے ہیں جب کرپشن کے حوالے سے ہماری خبریں دنیا بھر میں چھپتی ہیں۔ منی لانڈرنگ، قبضہ گروپ، عزت و غیرت کے نام پر قتل، لوٹ مار، قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیاں اور ہمارے اپنے کردار پر اٹھتی انگلیاں ایک دوسرے پر لعن طعن اور نجانے کیا کچھ، کیا ہمیں مسلمان ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے ہم سے سب کچھ سیکھ لیا ہے جو ہمارا اچھا تھا جو بہترین تھا اور ہمیں وہ سکھادیا ہے جو ان کا برا تھا بد ترین تھا ہم اچھے ہیں کہ جو سکھایا کسی نے سب سیکھ گئے اور جو سکھایا ہمارے دین نے اسے بھول گئے اور بھول میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ گیرٹ ولڈرز جیسے اب بھی منہ چھپائے بیٹھے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے یقین کے ساتھ عمل میں بھی خلوص کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔