گیم چینجر سی پیک کا مستقبل
سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سی پیک کی قومی ترجیح پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو لازوال پاک چین دوستی کا تقاضہ ہے۔
بلاشبہ حکومت کی جانب سے یہ بروقت پیش رفت ہے کہ سی پیک رول بیک نہیں ہوگا ؟ گزشتہ چند روز سے اس سوال نے ایک پینڈورا باکس کھول دیا جس میں میڈیا پاک چین راہداری منصوبے کے مستقبل کے تعین پر بحث ہورہی ہے تاہم یہ صائب فیصلہ سامنے آیا کہ حکومت پاکستان نے سی پیک پر نظرثانی کے حوالے سے برطانوی اخبار کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک قومی ترجیح ہے اور اسے مکمل کیا جائے گا۔
ادھر چین نے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری کے مستقبل اور تعاون کا تعین باہمی مشاورت سے کیا جائے گا اور اس منصوبے پر مشاورت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے مطابق ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے حساس ایشو پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمزکو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کیں لیکن اخبار کی شایع شدہ رپورٹ پر زبردست رد عمل سامنے آیا۔
میڈیا نے مسئلہ کا ہمہ گیر جائزہ لیتے ہوئے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جس کے بعد مشیر برائے تجارت رزاق دائود نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان سے منسوب بیانات سیاق و سباق سے ہٹ کر لیے گئے اور انھیں بگاڑ کر پیش کیا گیا۔
عبدالرزاق دائود نے کہا کہ پاک چین تعلقات ناقابل تسخیر ہیں ، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دورہ کے موقعے پر پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری حکومت کی قومی ترجیح ہے اور سی پیک کے حوالہ سے حکومت کا عزم غیر متزلزل ہے، سی پیک کی آیندہ کی سمت کے بارے میں دونوں اطراف کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ گینگ شوانگ کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مستقبل اور تعاون کا تعین مشاورت سے کیا جائے گا اور اس منصوبے پر مشاورت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے مطابق ہوگی۔ واضح رہے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی حکومت چین کے ساتھ ہونے والے سی پیک معاہدوں پر دوبارہ غور کرے گی اور نئے سرے سے شرائط طے کی جائیں گی۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستانی حکومت چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر نظرثانی کرے گی جس میں قرض کی ادائیگی اور منصوبوں کی مدت بڑھانے پر غور کیا جائے گا جب کہ چین نے اس حوالے سے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کردی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی کونسل کو سی پیک منصوبوں کی مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ادائیگیوں کی تفصیلات معلوم ہو سکے۔ بہر کیف یہ بات حکومتی حلقوں اور خاص طور پر وزرا و مشیروں کے ادراک میں ہونی چاہیے کہ سی پیک پاک چین دوستی کا سیاسی مظہر ہی نہیں دوطرفہ اقتصادی تعاون کا سنگ میل بھی ہے۔
میڈیا نے بار ہا سی پیک کی شفافیت کو یقینی بنانے اور اس گیم چینجر منصوبہ کے تمام پہلوئوں کا پارلیمنٹ اور میڈیا میں پوری ذمے داری کے ساتھ جائزہ لینے کی بات ہوتی رہی ہے، بعض حلقوں نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ اگر اس منصوبہ کے مستقبل کے تعین کے بارے میں ریویو کی بات ہوتی ہے تو اس پر برہمی ، جھنجھلاہٹ یا مخالفت برائے مخالفت مناسب نہیں، ماہرین نے میڈیا ٹاکس میں بتایا کہ میگاپروجیکٹس کی تکمیل اس انداز سے ہوتی ہے کہ اس کے مختلف مراحل پر کام کی رفتار کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، فنی پہلوئوں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے تاکہ شفافیت اور مطلوبہ معیار کی روشنی میں منصوبہ پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے، لہٰذا حکومت نے احسن طریقہ سے وقت ضایع کیے بغیر دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ سی پیک کو رول بیک نہیں کیا جارہا ۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق وزیراعظم کے مشیر صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ سی پیک معاہدوں میں پاکستانی کمپنیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور چینی کمپنیاں ناجائز فائدہ اٹھارہی ہیں لہٰذا سی پیک منصوبوں کو ایک سال کے لیے روک دینا چاہیے۔
برطانوی اخبار کے مطابق وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان ملائیشیا کی طرح اس معاملے کو ہینڈل نہیں کرنا چاہتا، ملائیشیا نے چین کے تعاون سے جاری پائپ لائن پروجیکٹ بند کردیے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ریل لنک معاہدے پر نظرثانی کررہا ہے ، ادھر امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ سی پیک کی رفتار کو سست کرنا نواز شریف کی سابق حکومت کی پالیسی کے برعکس ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لیے تحفہ اور خطے میں گیم چینجر ہے اس منصوبے سے ملک کو بے پناہ فائدہ ہوگا،اسے منجمد کرناکفران نعمت ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس قومی پروجیکٹ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سی پیک کی قومی ترجیح پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو لازوال پاک چین دوستی کا تقاضہ ہے۔
ادھر چین نے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری کے مستقبل اور تعاون کا تعین باہمی مشاورت سے کیا جائے گا اور اس منصوبے پر مشاورت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے مطابق ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ سی پیک کے حساس ایشو پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمزکو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کیں لیکن اخبار کی شایع شدہ رپورٹ پر زبردست رد عمل سامنے آیا۔
میڈیا نے مسئلہ کا ہمہ گیر جائزہ لیتے ہوئے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جس کے بعد مشیر برائے تجارت رزاق دائود نے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان سے منسوب بیانات سیاق و سباق سے ہٹ کر لیے گئے اور انھیں بگاڑ کر پیش کیا گیا۔
عبدالرزاق دائود نے کہا کہ پاک چین تعلقات ناقابل تسخیر ہیں ، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دورہ کے موقعے پر پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری حکومت کی قومی ترجیح ہے اور سی پیک کے حوالہ سے حکومت کا عزم غیر متزلزل ہے، سی پیک کی آیندہ کی سمت کے بارے میں دونوں اطراف کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ گینگ شوانگ کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مستقبل اور تعاون کا تعین مشاورت سے کیا جائے گا اور اس منصوبے پر مشاورت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترجیحات کے مطابق ہوگی۔ واضح رہے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی حکومت چین کے ساتھ ہونے والے سی پیک معاہدوں پر دوبارہ غور کرے گی اور نئے سرے سے شرائط طے کی جائیں گی۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق دائود کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستانی حکومت چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر نظرثانی کرے گی جس میں قرض کی ادائیگی اور منصوبوں کی مدت بڑھانے پر غور کیا جائے گا جب کہ چین نے اس حوالے سے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کردی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اقتصادی کونسل کو سی پیک منصوبوں کی مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ادائیگیوں کی تفصیلات معلوم ہو سکے۔ بہر کیف یہ بات حکومتی حلقوں اور خاص طور پر وزرا و مشیروں کے ادراک میں ہونی چاہیے کہ سی پیک پاک چین دوستی کا سیاسی مظہر ہی نہیں دوطرفہ اقتصادی تعاون کا سنگ میل بھی ہے۔
میڈیا نے بار ہا سی پیک کی شفافیت کو یقینی بنانے اور اس گیم چینجر منصوبہ کے تمام پہلوئوں کا پارلیمنٹ اور میڈیا میں پوری ذمے داری کے ساتھ جائزہ لینے کی بات ہوتی رہی ہے، بعض حلقوں نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ اگر اس منصوبہ کے مستقبل کے تعین کے بارے میں ریویو کی بات ہوتی ہے تو اس پر برہمی ، جھنجھلاہٹ یا مخالفت برائے مخالفت مناسب نہیں، ماہرین نے میڈیا ٹاکس میں بتایا کہ میگاپروجیکٹس کی تکمیل اس انداز سے ہوتی ہے کہ اس کے مختلف مراحل پر کام کی رفتار کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، فنی پہلوئوں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے تاکہ شفافیت اور مطلوبہ معیار کی روشنی میں منصوبہ پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے، لہٰذا حکومت نے احسن طریقہ سے وقت ضایع کیے بغیر دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ سی پیک کو رول بیک نہیں کیا جارہا ۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق وزیراعظم کے مشیر صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ سی پیک معاہدوں میں پاکستانی کمپنیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور چینی کمپنیاں ناجائز فائدہ اٹھارہی ہیں لہٰذا سی پیک منصوبوں کو ایک سال کے لیے روک دینا چاہیے۔
برطانوی اخبار کے مطابق وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان ملائیشیا کی طرح اس معاملے کو ہینڈل نہیں کرنا چاہتا، ملائیشیا نے چین کے تعاون سے جاری پائپ لائن پروجیکٹ بند کردیے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ریل لنک معاہدے پر نظرثانی کررہا ہے ، ادھر امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ سی پیک کی رفتار کو سست کرنا نواز شریف کی سابق حکومت کی پالیسی کے برعکس ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لیے تحفہ اور خطے میں گیم چینجر ہے اس منصوبے سے ملک کو بے پناہ فائدہ ہوگا،اسے منجمد کرناکفران نعمت ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس قومی پروجیکٹ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سی پیک کی قومی ترجیح پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے جو لازوال پاک چین دوستی کا تقاضہ ہے۔