بند گلی اور بیانیہ
ہماری نفسیات بن گئی کہ امداد آئیگی اور ہم کھائیں گے اور اس امداد کے عوض ہم گروی ہوتے گئے۔
SHARJAH:
کوئی اچھا کام ہو اور نیت بھی صاف ہو مگر طریقہ کار غلط تووہ کام نتیجہ خیز نہیںہوتا۔اسی طرح اگر طریقہ صحیح ہو لیکن نیت صاف نہ ہو توکام بھی سر انجام نہیں پاتا۔ہم ایک مخصوص بیانیہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بیانیہ ہمارا عکس ہے اور ہم اس بیانیے کا۔کچھ خبر نہیں کہ ہم آپس میں الجھ اور سلجھ گئے ہیں۔ وہ رپورٹ ہو یا قائد اعظم کی گیارہ آگست کی تقریر جسے ریکارڈ سے غائب کر دیا گیا۔
یہ قراداد مقاصد جو آج ہمارے آئین کا preamble دیباچہ ہے قائد اعظم کی گیارہ آگست کی تقریر کی نفی کرتا ہے۔ خیر preamble آئین کا حصہ نہیں ہوتا لیکن پھر اس کو حصہ بنانے کے لیے ضیا الحق نے آرٹیکل 2A ڈال کر اسے آئین کا حصہ بنایا یہاں تک کہ لاہور ہائی کورٹ نے کہہ دیا کہ یہ آرٹیکل سپرکانسٹوشینل ہے۔ لیکن جسٹس نسیم شاہ اور ان کی سپریم کورٹ کی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
یوں لگتا ہے جیسے جناح تحریک پاکستان کا حصہ ہی نہ تھے۔ ہمیں پتہ ہے کہ اقتدارکیسے حاصل کیا جاتا ہے، وہ اقتدار جو بھٹو کو ملا تھا، میاں صاحب ہوں یا عمران خان کو۔ یہ تمام اپنے عہد کے بیانیے کے انحرافی نہ تھے، اس کے حامی تھے، لیکن جو اقتدار جنرل ضیاء الحق کو ملا اور جوامریکا کو بھاتا تھا اس میں جمہوریت کا ستون نہ تھا۔ نہ ہی یہ امریکا کا مسئلہ تھا جس نے ایوب کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی۔
سیاستدانوں نے سیاستدانوں کو مات دینے کے لیے فوج کا سہارا لیا۔ جب کہ جنرل ضیاء الحق کو ایک پاپولر لیڈرکا سامنا تھا اور یہاں امریکا بھی جمہوریت اور اس کے مجموعی مفادات میں ٹکراؤ میں تھی تو اس نے جمہوریت کے مینڈیٹ کو مذہب کے مینڈیٹ سے مارا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مار سکا یا نہ مار سکا مگر جو غبار اٹھا وہ نہ جانے کس سمت لے گیا۔
بھٹو ہوں، میاں صاحب ہوں یا عمران سب نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے وعدے کیے ہیں لوگوں کے جذبات اور ان کی حب الوطنی یا اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کو بھی استعمال کیا۔ امریکا کا آشیرباد بھی ان کے ساتھ رہا اور پھر چونکہ اس وقت جمہوریت مستقل نہ تھی بس امریکا کا آشیرباد درکار تھا، تو جمہوریت کوکبھی 58(2)(b) اورکبھی نظریہ ضرورت کے تحت الوداع کیا گیا۔ پھر ادارے کیسے پنپتے؟ کیسے اصول پرست لوگ ابھرتے؟
ہمیں کچھ نہ سمجھ آیا کہ ہم اپنے ملک کی آزادی کوگروی رکھتے جارہے ہیں۔ ہم نے قرضے تو لیے مگر قرضوں کا صحیح استعمال نہ کرسکے ۔لوگوں کی معیار زندگی بہتر نہ بنا سکے۔ اپنی ایکسپورٹ کو بہتر نہ بنا سکے۔ہماری نفسیات بن گئی کہ امداد آئیگی اور ہم کھائیں گے اور اس امداد کے عوض ہم گروی ہوتے گئے۔ ہمارے ذاتی مفادات ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔
ہم کب تک یہ چورن بیچتے رہیں گے، لوگوں کو بہلاتے رہیں گے۔کب تک خود اپنے بنائے ہوئے اس ترقی دشمن بیانیے کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب خان صاحب بیرونی نژاد پاکستانی کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن منتخب کیا توکسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شہلا رضا نے اسی بیانیے کو ابھارا۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں جب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز دیا گیا اس وقت صدر پاکستان جنرل ضیا الحق تھے۔ انھوں نے خود ان کا استقبال کیا اور ان کی تقاریب میں شریک ہوئے۔ یہ مناظر میں نے پی ٹی وی پر دیکھے تھے پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ بینظیر بھٹو ڈاکٹر عبدالسلام سے ملنے سے کترا گئیں، شاید ڈر گئیں کہ کوئی مولوی فتویٰ نہ صادر کردے۔
آج عمران خان نے بھی ہتھیار ڈال دیے کوئی بری بات بھی نہیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ ہمیں پتہ چلا کہ کوئی نیا پاکستان نہیں، جب کہ جناح کی پہلی بنائی ہوئی کیبنٹ میں ہندو، عیسائی اور احمدی وزیر شامل تھے، اگراورکچھ نہیں کرسکتے تو میری ایک التجا چیف جسٹس تک پہنچے کہ یا تو کہہ دیجیے کہ اقلیت 1973ء کے آئین کی رو سے پاکستان کے برابرکے شہری نہیں یا تو پھر اس حوالے سے ایک سوموٹولیجیے اور اگر نہیں تو پھر تاریخ میں آپ کا نام بھی لکھا جائے گا۔
ایک پورا بیانیہ ہے جو عمران خان کے پاس ہے۔وہ کبھی رسموں اورکبھی وسوسوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
یہ تو ان کا ذاتی فعل ہے کہ وہ پیروں کے پاس جائیں یا پھر پیر اس کے پاس آئیں مگر یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم اپنی سوچ پر آزادی رکھتے ہیں اور یہ حق ہم کسی سے چھین نہیں سکتے۔
بہت آسان ہے اس سیڑھی پر چڑھ کرکسی بھی legitimate کو illegitimate کرنا۔ اور یہ اکیسویں صدی ہے جہاں جو ریاست اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہوئے دنیا کے اس نظام میں نہیں ڈھالے گی وہ ریاست نہ ٹھہر پائے گی اور نہ ہی ابھر پائے گی۔
یہ ریاست برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے اقلیتی حیثیت کی بنیاد پر لی تھی ان کو اس بات پر یقین تھا کہ مسلمان ہندوستان میں ہندو انتہا پرستی کا شکار ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور جمعیت علمائے اسلام کانگریس کے ساتھ کھڑی تھی کہ متحدہ ہندوستان سیکیولر ہو۔ آج کے ہندوستان میں وہاں کے مسلمان اور باقی تمام اقلتیں سیکیولر ہندوستان کے طلبگار ہیں جس کو (RSS), (Hindi: "National Volunteer Organization") اور کٹر ہندو پرستی اور مودی کے بیانیے سے خطرہ ہے۔
جب پاکستان کا پرچم بن رہا تھا تو جناح ، عبداللہ ہارون کے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے،اس وقت جھنڈے میں سفید رنگ والی پٹی پتلی تھی تو جناح نے درزی کوکہا کہ اسے اور چوڑا کرو۔ یہ سفید پٹی اقلیتوں کی علامت ہے۔ بہت تیزی سے یہ اقلیت اس ملک سے رخصت ہورہی ہے۔
یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور یہ'' ہم سب ''کے معنیٰ انکلیوسو پاکستان۔ ایک ایسا پاکستان جو سب مذاہب ، سب قوموں اور ثقافتوں کا ہو۔ یعنی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر۔ یہی چیز تصدق جیلانی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آرٹیکل 20 کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہمارے آئین کا تسلسل جڑتا ہے، آزادی کے حوالے سے ہراس تقریر و قرار داد سے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں کی گئی۔ وہ تیئیس مارچ کی قراداد کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کیا ہو گا پاکستان کا مذہب پرستی کے حوالے سے۔
ہمیں اب ریجنل بیلنس کے حوالے سے اس بیانیے کی ضرورت نہیں، ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ہمارے لیے اس کے برعکس یہ بیانیہ ہماری سیکیورٹی ہماری ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں اس رتبے سے isolate کرتا ہے کہ ہم ورلڈ کمیونٹی کا حصہ ہیں ۔ ہم ایک ذمے دار ملک ہیں۔ مان لیجیے یہ رتبہ ہمارے دو پڑوسی ملکوں چین اور ہندوستان کو حاصل ہے اور یہ رتبہ ہمارے اور دو پڑوسی ملک ایران و افغانستان کو حاصل نہیں اور ہم بیچ میں کھڑے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام کے اس ملک کے لیے ہمارے دشمن کے پاس، ہمارے ملک کے خلاف ایٹم بم بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا جتنا یہ بیانیہ کرسکتا ہے۔
اس وقت تو سب ہی ایک صف میں ہیں۔ فوج ، عدلیہ اور پارلیمان ۔ اس وقت تو اداروں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ اور لے لیجیے اپوزیشن کو بھی اعتماد میں کہ وہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزولیکر
چلے تھے یار کہ مل جا ئے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کوئی اچھا کام ہو اور نیت بھی صاف ہو مگر طریقہ کار غلط تووہ کام نتیجہ خیز نہیںہوتا۔اسی طرح اگر طریقہ صحیح ہو لیکن نیت صاف نہ ہو توکام بھی سر انجام نہیں پاتا۔ہم ایک مخصوص بیانیہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ بیانیہ ہمارا عکس ہے اور ہم اس بیانیے کا۔کچھ خبر نہیں کہ ہم آپس میں الجھ اور سلجھ گئے ہیں۔ وہ رپورٹ ہو یا قائد اعظم کی گیارہ آگست کی تقریر جسے ریکارڈ سے غائب کر دیا گیا۔
یہ قراداد مقاصد جو آج ہمارے آئین کا preamble دیباچہ ہے قائد اعظم کی گیارہ آگست کی تقریر کی نفی کرتا ہے۔ خیر preamble آئین کا حصہ نہیں ہوتا لیکن پھر اس کو حصہ بنانے کے لیے ضیا الحق نے آرٹیکل 2A ڈال کر اسے آئین کا حصہ بنایا یہاں تک کہ لاہور ہائی کورٹ نے کہہ دیا کہ یہ آرٹیکل سپرکانسٹوشینل ہے۔ لیکن جسٹس نسیم شاہ اور ان کی سپریم کورٹ کی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
یوں لگتا ہے جیسے جناح تحریک پاکستان کا حصہ ہی نہ تھے۔ ہمیں پتہ ہے کہ اقتدارکیسے حاصل کیا جاتا ہے، وہ اقتدار جو بھٹو کو ملا تھا، میاں صاحب ہوں یا عمران خان کو۔ یہ تمام اپنے عہد کے بیانیے کے انحرافی نہ تھے، اس کے حامی تھے، لیکن جو اقتدار جنرل ضیاء الحق کو ملا اور جوامریکا کو بھاتا تھا اس میں جمہوریت کا ستون نہ تھا۔ نہ ہی یہ امریکا کا مسئلہ تھا جس نے ایوب کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی۔
سیاستدانوں نے سیاستدانوں کو مات دینے کے لیے فوج کا سہارا لیا۔ جب کہ جنرل ضیاء الحق کو ایک پاپولر لیڈرکا سامنا تھا اور یہاں امریکا بھی جمہوریت اور اس کے مجموعی مفادات میں ٹکراؤ میں تھی تو اس نے جمہوریت کے مینڈیٹ کو مذہب کے مینڈیٹ سے مارا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ مار سکا یا نہ مار سکا مگر جو غبار اٹھا وہ نہ جانے کس سمت لے گیا۔
بھٹو ہوں، میاں صاحب ہوں یا عمران سب نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے وعدے کیے ہیں لوگوں کے جذبات اور ان کی حب الوطنی یا اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کو بھی استعمال کیا۔ امریکا کا آشیرباد بھی ان کے ساتھ رہا اور پھر چونکہ اس وقت جمہوریت مستقل نہ تھی بس امریکا کا آشیرباد درکار تھا، تو جمہوریت کوکبھی 58(2)(b) اورکبھی نظریہ ضرورت کے تحت الوداع کیا گیا۔ پھر ادارے کیسے پنپتے؟ کیسے اصول پرست لوگ ابھرتے؟
ہمیں کچھ نہ سمجھ آیا کہ ہم اپنے ملک کی آزادی کوگروی رکھتے جارہے ہیں۔ ہم نے قرضے تو لیے مگر قرضوں کا صحیح استعمال نہ کرسکے ۔لوگوں کی معیار زندگی بہتر نہ بنا سکے۔ اپنی ایکسپورٹ کو بہتر نہ بنا سکے۔ہماری نفسیات بن گئی کہ امداد آئیگی اور ہم کھائیں گے اور اس امداد کے عوض ہم گروی ہوتے گئے۔ ہمارے ذاتی مفادات ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔
ہم کب تک یہ چورن بیچتے رہیں گے، لوگوں کو بہلاتے رہیں گے۔کب تک خود اپنے بنائے ہوئے اس ترقی دشمن بیانیے کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب خان صاحب بیرونی نژاد پاکستانی کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن منتخب کیا توکسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شہلا رضا نے اسی بیانیے کو ابھارا۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں جب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز دیا گیا اس وقت صدر پاکستان جنرل ضیا الحق تھے۔ انھوں نے خود ان کا استقبال کیا اور ان کی تقاریب میں شریک ہوئے۔ یہ مناظر میں نے پی ٹی وی پر دیکھے تھے پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ بینظیر بھٹو ڈاکٹر عبدالسلام سے ملنے سے کترا گئیں، شاید ڈر گئیں کہ کوئی مولوی فتویٰ نہ صادر کردے۔
آج عمران خان نے بھی ہتھیار ڈال دیے کوئی بری بات بھی نہیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ ہمیں پتہ چلا کہ کوئی نیا پاکستان نہیں، جب کہ جناح کی پہلی بنائی ہوئی کیبنٹ میں ہندو، عیسائی اور احمدی وزیر شامل تھے، اگراورکچھ نہیں کرسکتے تو میری ایک التجا چیف جسٹس تک پہنچے کہ یا تو کہہ دیجیے کہ اقلیت 1973ء کے آئین کی رو سے پاکستان کے برابرکے شہری نہیں یا تو پھر اس حوالے سے ایک سوموٹولیجیے اور اگر نہیں تو پھر تاریخ میں آپ کا نام بھی لکھا جائے گا۔
ایک پورا بیانیہ ہے جو عمران خان کے پاس ہے۔وہ کبھی رسموں اورکبھی وسوسوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
یہ تو ان کا ذاتی فعل ہے کہ وہ پیروں کے پاس جائیں یا پھر پیر اس کے پاس آئیں مگر یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم اپنی سوچ پر آزادی رکھتے ہیں اور یہ حق ہم کسی سے چھین نہیں سکتے۔
بہت آسان ہے اس سیڑھی پر چڑھ کرکسی بھی legitimate کو illegitimate کرنا۔ اور یہ اکیسویں صدی ہے جہاں جو ریاست اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہوئے دنیا کے اس نظام میں نہیں ڈھالے گی وہ ریاست نہ ٹھہر پائے گی اور نہ ہی ابھر پائے گی۔
یہ ریاست برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے اقلیتی حیثیت کی بنیاد پر لی تھی ان کو اس بات پر یقین تھا کہ مسلمان ہندوستان میں ہندو انتہا پرستی کا شکار ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور جمعیت علمائے اسلام کانگریس کے ساتھ کھڑی تھی کہ متحدہ ہندوستان سیکیولر ہو۔ آج کے ہندوستان میں وہاں کے مسلمان اور باقی تمام اقلتیں سیکیولر ہندوستان کے طلبگار ہیں جس کو (RSS), (Hindi: "National Volunteer Organization") اور کٹر ہندو پرستی اور مودی کے بیانیے سے خطرہ ہے۔
جب پاکستان کا پرچم بن رہا تھا تو جناح ، عبداللہ ہارون کے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے،اس وقت جھنڈے میں سفید رنگ والی پٹی پتلی تھی تو جناح نے درزی کوکہا کہ اسے اور چوڑا کرو۔ یہ سفید پٹی اقلیتوں کی علامت ہے۔ بہت تیزی سے یہ اقلیت اس ملک سے رخصت ہورہی ہے۔
یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور یہ'' ہم سب ''کے معنیٰ انکلیوسو پاکستان۔ ایک ایسا پاکستان جو سب مذاہب ، سب قوموں اور ثقافتوں کا ہو۔ یعنی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر۔ یہی چیز تصدق جیلانی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آرٹیکل 20 کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہمارے آئین کا تسلسل جڑتا ہے، آزادی کے حوالے سے ہراس تقریر و قرار داد سے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں کی گئی۔ وہ تیئیس مارچ کی قراداد کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کیا ہو گا پاکستان کا مذہب پرستی کے حوالے سے۔
ہمیں اب ریجنل بیلنس کے حوالے سے اس بیانیے کی ضرورت نہیں، ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ہمارے لیے اس کے برعکس یہ بیانیہ ہماری سیکیورٹی ہماری ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ یہ بیانیہ ہمیں اس رتبے سے isolate کرتا ہے کہ ہم ورلڈ کمیونٹی کا حصہ ہیں ۔ ہم ایک ذمے دار ملک ہیں۔ مان لیجیے یہ رتبہ ہمارے دو پڑوسی ملکوں چین اور ہندوستان کو حاصل ہے اور یہ رتبہ ہمارے اور دو پڑوسی ملک ایران و افغانستان کو حاصل نہیں اور ہم بیچ میں کھڑے ہیں۔ بائیس کروڑ عوام کے اس ملک کے لیے ہمارے دشمن کے پاس، ہمارے ملک کے خلاف ایٹم بم بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا جتنا یہ بیانیہ کرسکتا ہے۔
اس وقت تو سب ہی ایک صف میں ہیں۔ فوج ، عدلیہ اور پارلیمان ۔ اس وقت تو اداروں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ اور لے لیجیے اپوزیشن کو بھی اعتماد میں کہ وہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کریں گے۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزولیکر
چلے تھے یار کہ مل جا ئے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل