انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں کا امتحان
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی عبرتناک شکست کوئی انہونی بات اس لیے نہیں تھی یہ جماعت ایک فوجی آمر کی تخلیق تھی۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں کی عوامی مقبولیت کو جانچنے کا واحد پیمانہ انتخابی نتائج ہوا کرتے ہیں جس کے ذریعے ان تمام جماعتوں کو اپنی عوامی پذیرائی کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ جو انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ انتخابات کے نتائج سے فیصلہ ہوتا ہے کہ کن سیاسی جماعتوں کے سیاسی رویوں، پالیسیوں اور عوامی منشور کو عوام نے پذیرائی بخشی ہے اورکس جماعتوں کی پالیسیوں پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مسترد کردیا۔
جمہوری معاشروں میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اور اس کے قائدین اپنے سیاسی رویوں کو مزید بہتر بناکر عوام دوست بناتے ہیں اور ساتھ اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد کرکے انتخابات کے موقع پر قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کرتے ہیں اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں تاکہ آیندہ پانچ برس بعد ہونے والے انتخابات میں قوم پہلے سے بڑھ کر ان پر اعتماد کرے ۔ ناکامی سے دوچار ہونے والی یا توقع سے کم کامیابی حاصل کرنے والی جماعتیں اپنے سیاسی رویوں اور طرز عمل پر غورو فکر کرتی ہیں اپنے انتخابی منشور کا جائزہ لیتی ہیں اور اس امر کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ آخر عوام نے کس بناء پر انھیں مسترد کیا یا موثر تائید سے محروم رکھا۔ اپنی جزوی یا کلی ناکامی کو تسلیم کرنے اور غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بعد ہی اس جماعت کے لیے بہتر مستقبل کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
11 مئی 2013 کے انتخابات کے بعد الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کی عوامی پذیرائی اب سب کے سامنے ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ماضی کی کارکردگی اورمنشور پر عوام نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ۔ خوش آیند بات کہ اے این پی نے سب سے پہلے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا اور بعد ازاں اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ملک کے تین صوبوں کے عوام کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی اس حوالے سے پیپلز پارٹی میں بھی سوچ و بچار کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی عبرتناک شکست کوئی انہونی بات اس لیے نہیں تھی یہ جماعت ایک فوجی آمر کی تخلیق تھی اس کی تخلیق میں عوامی امنگوں کا کوئی دخل نہیں تھا لہٰذا فوجی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ہی اس جماعت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا۔ یہ ایک فطری عمل تھا جو انتخابات 2013ء میں مکمل ہوگیا۔ لہٰذا اس کی شکست پر نہ کسی کو حیرت ہوئی اور نہ ہی اس جماعت کی لیڈر شپ ناکامی کے اسباب تلاش کرنے میں فکر مند دکھائی دے رہی ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک سب سے سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے دیکھنے میں آرہا ہے۔
جنھیں نہ تو کوئی بڑی ناکامی ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم کراچی میں جس طرح تحریک انصاف کے امیداروں کے حق میں ووٹ ڈالے گئے ہیں اور حلقہ NA-250 کے 43 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کے مطالبے کے حق میں کراچی کے خوشحال علاقوں میں وہاں کے رہنے والوں کا جو شدید ردعمل سامنے آیا ہے اس کا ایم کیو ایم کی جانب سے بہت ہی بغور جائزہ لیا گیا۔
پہلے ہی مرحلے پر کراچی تنظیمی کمیٹی کو توڑدیا گیا۔ پھر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے ورکرز کے اجلاس میں کرپشن، بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث افراد کو مخاطب کیا اور انھیں متنبہ کیا۔ مزید یہ کہ آج سماج میں سرکاری اداروں میں اپنے اثرو رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹھیکیداری اور دیگر منفعت بخش کاموں کے حصول کو اپنا حق تصور کیا جانا معاشرے میں رواج پاچکا ہے۔ اس عمل کو روکنے کا برملا اعلان کیا گیا۔ آخری مرحلے پر ایم کیو ایم کا پالیسی ساز ادارہ مرکزی رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور اب لندن و پاکستان میں نئی رابطہ کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ یہ سب ایسے غیر معمولی اقدامات ہیں کہ جن سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے انتخابی نتائج کے پیش نظر کراچی میںاثر بناتی ہوئی تحریک انصاف کو ایک سنجیدہ چیلنج سمجھ کر مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔
خود احتسابی کا یہی وہ طرز عمل ہے جو انتخابی ناکامی کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو کرنابھی چاہیے۔ ان انتخابات میں اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی اس کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہ سہی لیکن بالکل مایوس کن بھی نہیں رہی ہے تاہم، صوبہ سندھ میں اس کی کارکردگی بہتر نہیں رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کہ جسے خراب کارکردگی کی وجہ سے ملک کے تین صوبوں میں ناکامی کا سامنا کرناپڑا مگر اسے سندھ میں ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہ امر اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ سندھ کے عوام کے سامنے مسلم لیگ (ن) خود کو پی پی پی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں اکثریت میں کامیابی حاصل کرنے پر مطمئن ہے تو دوسری جانب اس کی قیادت کو سندھ سے ایک بار پھر شکست پر غورو فکر کرنا چاہیے۔ کارکردگی کے ساتھ ساتھ سیاسی حکومت عملی اور عوام سے رابطہ انتخابی کامیابی کے حصول کے لیے انتہائی ضروری اقدامات ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنی تمام تر توجہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ تک ہی مرکوز رکھی۔
خیبر پختونخوا میں سیاسی خلاء تحریک انصاف نے پر کیا اور بڑی کامیابی حاصل کی لیکن پنجاب میں ایسا خلاء موجود نہیں تھا اور نہ میاں محمد نواز شریف پرعائد کیے گئے فرینڈلی اپوزیشن کے الزام کو عوامی حمایت حاصل ہوسکی لہٰذا وہاں تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ن) کو نقصان نہیں پہنچا سکی۔انتخابی نتائج سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ کراچی میں کافی سیاسی گنجائش موجود تھی۔ اگر تحریک انصاف کراچی کو پنجاب میں دیے گئے وقت کا نصف بھی دیتی تو کراچی کے نتائج مختلف ہوسکتے تھے ۔ تحریک انصاف انتخابات سے قبل تبدیل شدہ حالات کا صحیح طور پر ادراک نہیں کرسکی اور کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکی۔
جو سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں شامل رہنا چاہتی ہیں انھیں حقیقت پسندانہ تجزیات کرنے ہوں گے۔ بدلے ہوئے حالات میں اپنے رویوں کو بھی بدلنا ہوگا اور اپنے آپ کو عوام کی امنگوں اور ان کی خواہشات کے طابع بنانا ہوگا کیونکہ اب ملک میں جمہوریت کے سوا دوسرے کسی نظام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ سازشوں کے ذریعے حکومتوں کو ختم کرکے اقتدار حاصل کرنے کا دور گزر چکا ہے۔ مسند اقتدار تک پہنچنے کا واحد راستہ جمہوری عمل میں شریک رہ کر عوام کی پذیرائی اور حمایت حاصل کرنے میں ہی پنہا ں ہے۔
جمہوری معاشروں میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اور اس کے قائدین اپنے سیاسی رویوں کو مزید بہتر بناکر عوام دوست بناتے ہیں اور ساتھ اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد کرکے انتخابات کے موقع پر قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کرتے ہیں اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں تاکہ آیندہ پانچ برس بعد ہونے والے انتخابات میں قوم پہلے سے بڑھ کر ان پر اعتماد کرے ۔ ناکامی سے دوچار ہونے والی یا توقع سے کم کامیابی حاصل کرنے والی جماعتیں اپنے سیاسی رویوں اور طرز عمل پر غورو فکر کرتی ہیں اپنے انتخابی منشور کا جائزہ لیتی ہیں اور اس امر کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ آخر عوام نے کس بناء پر انھیں مسترد کیا یا موثر تائید سے محروم رکھا۔ اپنی جزوی یا کلی ناکامی کو تسلیم کرنے اور غلطیوں کی اصلاح کرنے کے بعد ہی اس جماعت کے لیے بہتر مستقبل کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
11 مئی 2013 کے انتخابات کے بعد الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کی عوامی پذیرائی اب سب کے سامنے ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ماضی کی کارکردگی اورمنشور پر عوام نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ۔ خوش آیند بات کہ اے این پی نے سب سے پہلے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا اور بعد ازاں اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی ملک کے تین صوبوں کے عوام کی پذیرائی حاصل نہ ہوئی اس حوالے سے پیپلز پارٹی میں بھی سوچ و بچار کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کی عبرتناک شکست کوئی انہونی بات اس لیے نہیں تھی یہ جماعت ایک فوجی آمر کی تخلیق تھی اس کی تخلیق میں عوامی امنگوں کا کوئی دخل نہیں تھا لہٰذا فوجی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ہی اس جماعت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا۔ یہ ایک فطری عمل تھا جو انتخابات 2013ء میں مکمل ہوگیا۔ لہٰذا اس کی شکست پر نہ کسی کو حیرت ہوئی اور نہ ہی اس جماعت کی لیڈر شپ ناکامی کے اسباب تلاش کرنے میں فکر مند دکھائی دے رہی ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک سب سے سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے دیکھنے میں آرہا ہے۔
جنھیں نہ تو کوئی بڑی ناکامی ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم کراچی میں جس طرح تحریک انصاف کے امیداروں کے حق میں ووٹ ڈالے گئے ہیں اور حلقہ NA-250 کے 43 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کے مطالبے کے حق میں کراچی کے خوشحال علاقوں میں وہاں کے رہنے والوں کا جو شدید ردعمل سامنے آیا ہے اس کا ایم کیو ایم کی جانب سے بہت ہی بغور جائزہ لیا گیا۔
پہلے ہی مرحلے پر کراچی تنظیمی کمیٹی کو توڑدیا گیا۔ پھر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے ورکرز کے اجلاس میں کرپشن، بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث افراد کو مخاطب کیا اور انھیں متنبہ کیا۔ مزید یہ کہ آج سماج میں سرکاری اداروں میں اپنے اثرو رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹھیکیداری اور دیگر منفعت بخش کاموں کے حصول کو اپنا حق تصور کیا جانا معاشرے میں رواج پاچکا ہے۔ اس عمل کو روکنے کا برملا اعلان کیا گیا۔ آخری مرحلے پر ایم کیو ایم کا پالیسی ساز ادارہ مرکزی رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور اب لندن و پاکستان میں نئی رابطہ کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ یہ سب ایسے غیر معمولی اقدامات ہیں کہ جن سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے انتخابی نتائج کے پیش نظر کراچی میںاثر بناتی ہوئی تحریک انصاف کو ایک سنجیدہ چیلنج سمجھ کر مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دی جارہی ہے۔
خود احتسابی کا یہی وہ طرز عمل ہے جو انتخابی ناکامی کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو کرنابھی چاہیے۔ ان انتخابات میں اگرچہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز، صوبہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی اس کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہ سہی لیکن بالکل مایوس کن بھی نہیں رہی ہے تاہم، صوبہ سندھ میں اس کی کارکردگی بہتر نہیں رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کہ جسے خراب کارکردگی کی وجہ سے ملک کے تین صوبوں میں ناکامی کا سامنا کرناپڑا مگر اسے سندھ میں ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہ امر اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ سندھ کے عوام کے سامنے مسلم لیگ (ن) خود کو پی پی پی کے متبادل کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں اکثریت میں کامیابی حاصل کرنے پر مطمئن ہے تو دوسری جانب اس کی قیادت کو سندھ سے ایک بار پھر شکست پر غورو فکر کرنا چاہیے۔ کارکردگی کے ساتھ ساتھ سیاسی حکومت عملی اور عوام سے رابطہ انتخابی کامیابی کے حصول کے لیے انتہائی ضروری اقدامات ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنی تمام تر توجہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ تک ہی مرکوز رکھی۔
خیبر پختونخوا میں سیاسی خلاء تحریک انصاف نے پر کیا اور بڑی کامیابی حاصل کی لیکن پنجاب میں ایسا خلاء موجود نہیں تھا اور نہ میاں محمد نواز شریف پرعائد کیے گئے فرینڈلی اپوزیشن کے الزام کو عوامی حمایت حاصل ہوسکی لہٰذا وہاں تحریک انصاف ،مسلم لیگ (ن) کو نقصان نہیں پہنچا سکی۔انتخابی نتائج سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ کراچی میں کافی سیاسی گنجائش موجود تھی۔ اگر تحریک انصاف کراچی کو پنجاب میں دیے گئے وقت کا نصف بھی دیتی تو کراچی کے نتائج مختلف ہوسکتے تھے ۔ تحریک انصاف انتخابات سے قبل تبدیل شدہ حالات کا صحیح طور پر ادراک نہیں کرسکی اور کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکی۔
جو سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں شامل رہنا چاہتی ہیں انھیں حقیقت پسندانہ تجزیات کرنے ہوں گے۔ بدلے ہوئے حالات میں اپنے رویوں کو بھی بدلنا ہوگا اور اپنے آپ کو عوام کی امنگوں اور ان کی خواہشات کے طابع بنانا ہوگا کیونکہ اب ملک میں جمہوریت کے سوا دوسرے کسی نظام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ سازشوں کے ذریعے حکومتوں کو ختم کرکے اقتدار حاصل کرنے کا دور گزر چکا ہے۔ مسند اقتدار تک پہنچنے کا واحد راستہ جمہوری عمل میں شریک رہ کر عوام کی پذیرائی اور حمایت حاصل کرنے میں ہی پنہا ں ہے۔