’’میں تو جاہل ہوں‘‘
بازار میں کیلے کی قیمتوں میں جیسے آگ لگ گئی ہے اچھی نسل کے کیلے ایک سو بیس روپے درجن تک کے دستیاب ہیں
نئی حکومت پرانے مسائل، پرانے جھگڑے، پرانے وسائل۔۔۔۔کیا نئی منتخب حکومت اس پرانے اثاثے میں نئی تبدیلیاں کر پائے گی؟ یہ سوال پوری پاکستانی قوم کا ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ستائے، مہنگائی کے مارے غریب عوام کی نظریں اب نئی حکومت کی جانب ہیں کیا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا؟
ہماری نئی منتخب حکومت کے ارکان خاصے پڑھے لکھے ہیں مسلم لیگ (ن) کے تو سارے کھلاڑی ہی تقریباً پرانے اور آزمودہ ہیں لیکن پی ٹی آئی کے نئے کھلاڑی ابھی میدان میں اترے ہیں وہ بھی جوش میں ہیں ابھی تک ان کے الیکشن کے جوش ہی کم نہ ہوئے اگرچہ کراچی میں پولنگ کے عمل سے ان کے کچھ جوشیلے کھلاڑی بالآخر میدان میں وارد ہوہی گئے لیکن کیا یہ نئے کھلاڑی پرانے عوام کے دیرینہ مسائل ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے؟ ہارے ہوئے کھلاڑیوں کی ٹیم اے این پی نے جس فراخ دلی سے اپنی شکست قبول کی کہ حیرت سے بہت سوں کے منہ کھل گئے کیونکہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ پٹھان بھائی صرف بندوق کی زبان سے بات کرتے ہیں لیکن اے این پی نے کمال کردیا کہ ایسا ہرگز نہیں کیا۔عدم تشدد کا فلسفہ ابھی زندہ نظر آیا۔ یہ جماعت بندوق کی نہیں اصول کی بات کرتی ہے جس نے عوام کا دل جیتا الیکشن اس کا ہوا، بیگم نسیم ولی خان گو کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکی تھیں لیکن اپنے صاحبزادے کی غیر ذمے دارانہ سیاست کو برداشت نہ کرسکیں ۔ بشیر بلور صاحب کی المناک حادثے کے بعد عوام کی ہمدردی ان کے ساتھ تھی لیکن شاید عوام دہشت گردی کے عذاب جھیل جھیل کر ہلکان ہوچکے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نئی پارٹی کو آزمانے کا موقع ضرور دینا چاہیے۔ بہرحال بہادروں کی طرح دل کشادہ کرکے شکست تسلیم کرنا بڑی بات ہے۔ اے این پی کو اپنی جماعت کو پھر سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے بیگم نسیم ولی خان جیسے پرانے آزمودہ سیاستدانوں کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ پڑھی لکھی جماعت ایم کیو ایم نے بھی نئے حقائق کے پیش نظر اپنی صفوں کو ایک بار پھر سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا خاصا دانش مندانہ اقدام ہے۔۔۔۔ویل ڈن۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری تمام منتخب جماعتیں بہت سمجھدار اور پڑھی لکھی ہیں اس سے پہلے بھی یقیناً پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اچھے بھلے خاندانوں کے لوگ سیٹوں پر بیٹھے تھے لیکن کیا عوام کے مسائل سمجھنے اور انھیں حل کرنے کے لیے بہت ساری ڈگریاں حاصل کرنا، بھرے پیٹ ہونا اچھی فیملی بیک گراؤنڈ کا ہونا ہی ضروری ہے؟ اس بات کا احساس ہمیں چند دنوں پہلے ہی ہوا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے صرف نیت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ بازار میں کیلے کی قیمتوں میں جیسے آگ لگ گئی ہے اچھی نسل کے کیلے ایک سو بیس روپے درجن تک کے دستیاب ہیں، لیکن کیلا ایک ایسا عام پھل ہے جو تقریباً ہر گھر میں کھایا جاتا ہے۔ ایک عام سا پھل کیوں اس قدر مہنگا ہے ۔ مچھلی دو کلومیٹر پر واقع سمندر سے ملتی ہے اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔آخر کیوں ۔ یہ الگ ایشو ہے لیکن ایک کیلے بیچنے والا شخص جو ان پڑھ ہے ، گلی گلی اپنے ٹھیلے کو دھکیلتے کیلے بیچتا ہے صبح سے شام تک آکر اس کا ٹھیلا خالی نہ ہوجائے تو اسے فکر لاحق ہوتی ہے کہ اب یہ مہنگے خریدے کیلے کیسے پار لگاؤں۔۔۔۔وہ اپنے ملک اور اس کے مسائل کو کس طرح سمجھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے بھولے پن میں ان مسائل کو حل بھی کرتا جاتا ہے ذرا ملاحظہ کریں۔
''کیلے کیا حساب ہیں؟''
''اسّی روپے درجن باجی! ''
''ارے اتنے مہنگے۔۔۔۔؟''
''کیا کریں جی، مہنگائی کا تو رونا ہے، سارا دن گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، پھر مہنگی چیز ہر کوئی نہیں خریدتا، ذرا سستا ہو تو بندے خریدیں بھی''۔
''تو تم سستا کیوں نہیں بیچتے؟''
''کیسے بیچوں جی، مہنگے ہی خریدے ہیں اوپر والوں کو خدا عقل دے، مہنگی چیز ذرا کم بکتی ہے چاہے کیلے ہوں یا سونا''۔
''ارے بھائی! تم باتیں بہت بناتے ہو، صحیح دام لگاؤ کیلوں کے''۔
''صحیح دام تو ہماری سرکار نے بجلی کے نہیں لگائے باجی! حکومت خود چاہتی ہے کہ عوام مہنگی بجلی استعمال کرے، اس کا بھر بھر کے بل آئے''۔
ہمیں کچھ دلچسپی ہوئی اس کے اس بیان سے۔
''اچھا وہ کیسے؟''
''دیکھیں میں تو جاہل ہوں بی بی! آپ پڑھی لکھی ہو، دیکھو ناں باہر والوں نے ادھر بجلی والوں کو بلب دیے کہ مفت میں لوگوں میں بانٹو جو بجلی بھی کم خرچ کریں گے اور بل بھی کم آئے گا پر نہیں لیے ناں ہمارے لوگوں نے''۔
''اچھا۔۔۔۔کیوں نہیں لیے؟''
''تاکہ لوگ ٹم ٹم کرتے بلب ڈھیر سارے جلائیں، تو ظاہر ہے ناں کہ بل بھی زیادہ آئے گا۔۔۔۔میں تو جاہل ہوں بی بی!''
''تمہارے کہنے کا مقصد ہے کہ وہ بلب باہر کی کمپنیوں سے نہیں لیے گئے؟''
''میں تو جاہل ہوں بی بی! آپ کو پتہ ہوگا، چائنا والوں نے ہماری حکومت کو کہا کہ ہم تم کو بجلی دیتے ہیں پانچ سو روپے ہر گھر سے لو۔۔۔۔یہ کنڈے شنڈے سے بھی نجات ملے گی، آپ تو جانتی ہو کہ بجلی والوں نے کھانچے فٹ کر رکھے ہیں کنڈے والوں سے اور بل لیتے ہیں سب سے پھر کہتے ہیں کہ نقصان ہوگیا۔۔۔۔ دیکھو ناں حکومت نے عوام کے فائدے کا نہ سوچا اپنے فائدے کا سوچا، اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے اپنے گھر سے بجلی پیدا کر رہے ہیں''۔
وہ خاصا جذباتی ہورہا تھا۔
''اچھا رینٹل پاورز؟''
''ناں بی بی! مجھے کیا پتہ میں تو جاہل ہوں، پر یہ سب حکومت نے اپنے لیے کیا۔۔۔۔سوچو پانچ سوروپے اور پورا گھر۔۔۔۔ہے جی۔۔۔۔میرا ایک کمرے کا گھر ہے تو سو روپے کا بل آیا ہے''۔ اس کے چہرے پر ایک درد تھا۔
''پریشان نہ ہو۔۔۔۔نئی حکومت آئی ہے اب یقیناً کچھ نہ کچھ اچھا ہوگا''۔ ہم نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔
''ناں بی بی! میں جاہل ضرور ہوں پر پاگل نہیں ہوں، اپ دیکھ لینا کچھ نہیں ہونے والا''۔ اس کے چہرے کا درد آنکھوں میں نمی بن کر جھلک رہا تھا ۔
''ارے نہیں۔۔۔۔یہ پرانا دور نہیں ہے، اب کوئی بھی غلط کرتا ہے تو اس کی گردن پکڑلی جاتی ہے''۔
''ناں بی بی! یہ لوگ اپنے پاکستان کی قدر نہیں کرتے، اپنی جیبوں کی فکر کرتے ہیں انھیں کوئی درد نہیں کہ کوئی جیے یا مرے، ہم تو پیدا ہی رونے کے لیے ہوئے ہیں، پانی ہمارا کم کردیا، بجلی چند گھنٹوں کے لیے آتی ہے اور بل دیکھو۔۔۔۔گیس بھی روتی رہتی ہے، مہنگائی دیکھو۔۔۔۔پیاز دیکھو۔۔۔۔خدا کی قسم! ساٹھ روپے کلو تک لایا ہوں، کیا کریں کدھر جائیں؟''
''تم ہی بتاؤ کہ کیا کرنا چاہیے ہمیں اپنے لوگوں کے لیے؟ اپنے ملک کے لیے''۔ اس کی بجھتی آنکھوں میں دیے سے روشن ہوئے۔
''جو چوری کرے کام کرنے میں تو اسے فوراً کان پکڑ کر اتار دو۔۔۔۔ہماری طرح صبح سے شام تک دھوپ میں کیلے بیچے ناں تو دماگ پر سے گرمی اتر جائے۔۔۔۔باجی ! یہ غرور کرتے ہیں، بندے کو بندہ نہیں سمجھتے، جس دن انھوں نے بندے کو بندہ سمجھ لیا ناں بس اسی دن ہمارے ملک کے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے۔۔۔۔میں تو جاہل ہوں، بس اتنا ہی جانتا ہوں''۔ اس نے کہا تو ہمیں احساس ہوا کہ وہ جاہل نہیں ہے۔
ہماری نئی منتخب حکومت کے ارکان خاصے پڑھے لکھے ہیں مسلم لیگ (ن) کے تو سارے کھلاڑی ہی تقریباً پرانے اور آزمودہ ہیں لیکن پی ٹی آئی کے نئے کھلاڑی ابھی میدان میں اترے ہیں وہ بھی جوش میں ہیں ابھی تک ان کے الیکشن کے جوش ہی کم نہ ہوئے اگرچہ کراچی میں پولنگ کے عمل سے ان کے کچھ جوشیلے کھلاڑی بالآخر میدان میں وارد ہوہی گئے لیکن کیا یہ نئے کھلاڑی پرانے عوام کے دیرینہ مسائل ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے؟ ہارے ہوئے کھلاڑیوں کی ٹیم اے این پی نے جس فراخ دلی سے اپنی شکست قبول کی کہ حیرت سے بہت سوں کے منہ کھل گئے کیونکہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ پٹھان بھائی صرف بندوق کی زبان سے بات کرتے ہیں لیکن اے این پی نے کمال کردیا کہ ایسا ہرگز نہیں کیا۔عدم تشدد کا فلسفہ ابھی زندہ نظر آیا۔ یہ جماعت بندوق کی نہیں اصول کی بات کرتی ہے جس نے عوام کا دل جیتا الیکشن اس کا ہوا، بیگم نسیم ولی خان گو کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکی تھیں لیکن اپنے صاحبزادے کی غیر ذمے دارانہ سیاست کو برداشت نہ کرسکیں ۔ بشیر بلور صاحب کی المناک حادثے کے بعد عوام کی ہمدردی ان کے ساتھ تھی لیکن شاید عوام دہشت گردی کے عذاب جھیل جھیل کر ہلکان ہوچکے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نئی پارٹی کو آزمانے کا موقع ضرور دینا چاہیے۔ بہرحال بہادروں کی طرح دل کشادہ کرکے شکست تسلیم کرنا بڑی بات ہے۔ اے این پی کو اپنی جماعت کو پھر سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے بیگم نسیم ولی خان جیسے پرانے آزمودہ سیاستدانوں کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ پڑھی لکھی جماعت ایم کیو ایم نے بھی نئے حقائق کے پیش نظر اپنی صفوں کو ایک بار پھر سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو یقینا خاصا دانش مندانہ اقدام ہے۔۔۔۔ویل ڈن۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری تمام منتخب جماعتیں بہت سمجھدار اور پڑھی لکھی ہیں اس سے پہلے بھی یقیناً پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اچھے بھلے خاندانوں کے لوگ سیٹوں پر بیٹھے تھے لیکن کیا عوام کے مسائل سمجھنے اور انھیں حل کرنے کے لیے بہت ساری ڈگریاں حاصل کرنا، بھرے پیٹ ہونا اچھی فیملی بیک گراؤنڈ کا ہونا ہی ضروری ہے؟ اس بات کا احساس ہمیں چند دنوں پہلے ہی ہوا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے صرف نیت کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ بازار میں کیلے کی قیمتوں میں جیسے آگ لگ گئی ہے اچھی نسل کے کیلے ایک سو بیس روپے درجن تک کے دستیاب ہیں، لیکن کیلا ایک ایسا عام پھل ہے جو تقریباً ہر گھر میں کھایا جاتا ہے۔ ایک عام سا پھل کیوں اس قدر مہنگا ہے ۔ مچھلی دو کلومیٹر پر واقع سمندر سے ملتی ہے اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔آخر کیوں ۔ یہ الگ ایشو ہے لیکن ایک کیلے بیچنے والا شخص جو ان پڑھ ہے ، گلی گلی اپنے ٹھیلے کو دھکیلتے کیلے بیچتا ہے صبح سے شام تک آکر اس کا ٹھیلا خالی نہ ہوجائے تو اسے فکر لاحق ہوتی ہے کہ اب یہ مہنگے خریدے کیلے کیسے پار لگاؤں۔۔۔۔وہ اپنے ملک اور اس کے مسائل کو کس طرح سمجھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے بھولے پن میں ان مسائل کو حل بھی کرتا جاتا ہے ذرا ملاحظہ کریں۔
''کیلے کیا حساب ہیں؟''
''اسّی روپے درجن باجی! ''
''ارے اتنے مہنگے۔۔۔۔؟''
''کیا کریں جی، مہنگائی کا تو رونا ہے، سارا دن گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں، پھر مہنگی چیز ہر کوئی نہیں خریدتا، ذرا سستا ہو تو بندے خریدیں بھی''۔
''تو تم سستا کیوں نہیں بیچتے؟''
''کیسے بیچوں جی، مہنگے ہی خریدے ہیں اوپر والوں کو خدا عقل دے، مہنگی چیز ذرا کم بکتی ہے چاہے کیلے ہوں یا سونا''۔
''ارے بھائی! تم باتیں بہت بناتے ہو، صحیح دام لگاؤ کیلوں کے''۔
''صحیح دام تو ہماری سرکار نے بجلی کے نہیں لگائے باجی! حکومت خود چاہتی ہے کہ عوام مہنگی بجلی استعمال کرے، اس کا بھر بھر کے بل آئے''۔
ہمیں کچھ دلچسپی ہوئی اس کے اس بیان سے۔
''اچھا وہ کیسے؟''
''دیکھیں میں تو جاہل ہوں بی بی! آپ پڑھی لکھی ہو، دیکھو ناں باہر والوں نے ادھر بجلی والوں کو بلب دیے کہ مفت میں لوگوں میں بانٹو جو بجلی بھی کم خرچ کریں گے اور بل بھی کم آئے گا پر نہیں لیے ناں ہمارے لوگوں نے''۔
''اچھا۔۔۔۔کیوں نہیں لیے؟''
''تاکہ لوگ ٹم ٹم کرتے بلب ڈھیر سارے جلائیں، تو ظاہر ہے ناں کہ بل بھی زیادہ آئے گا۔۔۔۔میں تو جاہل ہوں بی بی!''
''تمہارے کہنے کا مقصد ہے کہ وہ بلب باہر کی کمپنیوں سے نہیں لیے گئے؟''
''میں تو جاہل ہوں بی بی! آپ کو پتہ ہوگا، چائنا والوں نے ہماری حکومت کو کہا کہ ہم تم کو بجلی دیتے ہیں پانچ سو روپے ہر گھر سے لو۔۔۔۔یہ کنڈے شنڈے سے بھی نجات ملے گی، آپ تو جانتی ہو کہ بجلی والوں نے کھانچے فٹ کر رکھے ہیں کنڈے والوں سے اور بل لیتے ہیں سب سے پھر کہتے ہیں کہ نقصان ہوگیا۔۔۔۔ دیکھو ناں حکومت نے عوام کے فائدے کا نہ سوچا اپنے فائدے کا سوچا، اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے اپنے گھر سے بجلی پیدا کر رہے ہیں''۔
وہ خاصا جذباتی ہورہا تھا۔
''اچھا رینٹل پاورز؟''
''ناں بی بی! مجھے کیا پتہ میں تو جاہل ہوں، پر یہ سب حکومت نے اپنے لیے کیا۔۔۔۔سوچو پانچ سوروپے اور پورا گھر۔۔۔۔ہے جی۔۔۔۔میرا ایک کمرے کا گھر ہے تو سو روپے کا بل آیا ہے''۔ اس کے چہرے پر ایک درد تھا۔
''پریشان نہ ہو۔۔۔۔نئی حکومت آئی ہے اب یقیناً کچھ نہ کچھ اچھا ہوگا''۔ ہم نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔
''ناں بی بی! میں جاہل ضرور ہوں پر پاگل نہیں ہوں، اپ دیکھ لینا کچھ نہیں ہونے والا''۔ اس کے چہرے کا درد آنکھوں میں نمی بن کر جھلک رہا تھا ۔
''ارے نہیں۔۔۔۔یہ پرانا دور نہیں ہے، اب کوئی بھی غلط کرتا ہے تو اس کی گردن پکڑلی جاتی ہے''۔
''ناں بی بی! یہ لوگ اپنے پاکستان کی قدر نہیں کرتے، اپنی جیبوں کی فکر کرتے ہیں انھیں کوئی درد نہیں کہ کوئی جیے یا مرے، ہم تو پیدا ہی رونے کے لیے ہوئے ہیں، پانی ہمارا کم کردیا، بجلی چند گھنٹوں کے لیے آتی ہے اور بل دیکھو۔۔۔۔گیس بھی روتی رہتی ہے، مہنگائی دیکھو۔۔۔۔پیاز دیکھو۔۔۔۔خدا کی قسم! ساٹھ روپے کلو تک لایا ہوں، کیا کریں کدھر جائیں؟''
''تم ہی بتاؤ کہ کیا کرنا چاہیے ہمیں اپنے لوگوں کے لیے؟ اپنے ملک کے لیے''۔ اس کی بجھتی آنکھوں میں دیے سے روشن ہوئے۔
''جو چوری کرے کام کرنے میں تو اسے فوراً کان پکڑ کر اتار دو۔۔۔۔ہماری طرح صبح سے شام تک دھوپ میں کیلے بیچے ناں تو دماگ پر سے گرمی اتر جائے۔۔۔۔باجی ! یہ غرور کرتے ہیں، بندے کو بندہ نہیں سمجھتے، جس دن انھوں نے بندے کو بندہ سمجھ لیا ناں بس اسی دن ہمارے ملک کے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے۔۔۔۔میں تو جاہل ہوں، بس اتنا ہی جانتا ہوں''۔ اس نے کہا تو ہمیں احساس ہوا کہ وہ جاہل نہیں ہے۔