کچھ مشورے اور چھوٹی خبر
آپ اپنے پاکستان کی خدمت کے جذبے پر ان کو غالب نہ آنے دیں تو یہ آپ کے اور پاکستان کے حق میں یقینا بہت بہتر ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کے کرم سے ملک میں انتخابات بخیروخوبی پایہ تکمیل تک پہنچ گئے اور اب انشاء اللہ یکم جون کو نئی قومی اسمبلی کے ارکان حلف بھی اٹھالیں گے۔ انتخاب سے قبل اور بعد اس موضوع پر تمام لکھنے والوں نے اپنا اپنا حق ادا کیا اور بڑے بھرپور انداز میں تمام متعلقہ امور پر خوش دلی اور نیک نیتی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مگر اب بھی کچھ نکات ایسے ہیں کہ گویا ذہن پر چپک کر رہ گئے ہیں۔
اس لیے جیتنے والوں اور ہارنیوالوں سب کو ہی وسیع بنیادوں پر مخلص افراد کے مشوروں کی ضرورت ہے اور خوش فہمی ملاحظہ ہو کہ ہم بھی خود کو تمام اہل وطن کے لیے مخلصوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس لیے پہلا مشورہ ایک سیاستدان کی خدمت میں جوکہ خود ان کے ایک عالمانہ بیان کی روشنی میں ہے وہ یہ کہ انھوں نے غالباً 5 مئی کو (انتخاب سے قبل) ایک جلسہ عام میں ارشاد فرمایا تھا کہ ''جو لوگ خود کو لبرل کہتے ہیں وہ اپنے نام اقلیتوں میں درج کرالیں'' وہ جن کو پاکستانی عوام نے گزشتہ 65 سال سے سیاسی اقلیت قرار دیا ہوا ہے اور ہنوز سلسلہ جاری ہے تو اب انھیں سوچنا چاہیے کہ عوام نے انھیں اکثریت کا درجہ نہیں دیا اور وہ سیاسی اقلیت بن ہی چکے ہیں۔
دوسرا مشورہ ہم اپنے بہادر، دلیر پاکستانی سیاست کے افق پر نمودار ہونیوالے لیڈر عمران خان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ''گر قبول افتد زہے عزوشرف'' کہ وہ انشاء اللہ جلد روبصحت ہوکر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز خیبرپختونخوا صوبے سے کریں گے اور وہاں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر اس صوبے کے ناگفتہ بہ حالات کو جتنی کم مدت میں درست کرسکتے ہیں کریں اور اپنے مستقبل کے روشن امکانات پیدا کریں۔
کیونکہ ان کی سیاسی بقاء کا دارومدار صرف اس محدود کارکردگی پر ہے جو وہ اس صوبے میں انجام دیں گے۔ ناقص کارکردگی اور وعدے پورے نہ کرنے والوں کا حشر تو وہ ان انتخابات میں دیکھ ہی چکے ہیں کہ کیسے کیسے سیاسی بت پاش پاش ہوگئے۔ لہٰذا اپنی پوری صلاحیت اور توانائی وہ اپنے کاندھوں پر آنیوالی ذمے داریوں کو نبھانے پر صرف کریں اور فی الحال کراچی سر کرنے کی مہم کو ملتوی کردیں کیونکہ اگر وہ اپنے موجودہ امتحان میں کامیاب و سرخرو ہوگئے تو کراچی خود بخود ان کی جھولی میں ہوگا اور انھیں زیادہ محنت کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
تیسرا مشورہ ہم اپنے نو منتخب پر عزم وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ وہ جو انھوں نے فرمایا کہ ''ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے'' یقینا ایک مستحسن اور مثبت قدم پاکستان کے مفاد میں ہوگا مگر خدارا ! وہ پیپلز پارٹی والی مفاہمت سے پھر گریز فرمائیں کیونکہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سب کو خوش کرنے کے چکر میں غلط کو غلط نہ کہا جائے اور پھر ہو یہ کہ ''غلط صحیح پر غالب آجائے'' اور غلطیوں کا سلسلہ بڑھتا جائے۔
اس سلسلے میں ہمارا پرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ مفاد پرست جو ادھر ادھر سے اچھے بھلے آزاد حیثیت سے ایوان کی زینت بن کر ملک و قوم کی خدمت کا اعزاز حاصل کرنیوالے اپنی آزادانہ حیثیت کو کچھ ذاتی مفادات کی خاطر چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہورہے ہیں (اس سے آپ کی طاقت اور حیثیت میں تو یقینا اضافہ ہوسکتا ہے)یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں بھی پاکستان کی کئی اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں۔ یہ آپ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی سیاست کو اپنے مقاصد اور مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
کیونکہ سوچنے کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے بل بوتے پر بلا کسی جماعت کی پشت پناہی کے انتخابات کے تمام اخراجات ازخود برداشت کیے اپنی انتخابی مہم پر کتنا خرچ کیا یہ الگ بات ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اپنی لگائی ہوئی رقم معہ سود وصول کرنا بھی ان کے اولین مقاصد سے دور نکل جائیں (بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے بھی ایسے ہی موقع پرست اور ابن الوقت لوگ تھے) لہٰذ احتیاط لازم ہے۔ویسے تو ماشاء اللہ آپ بھی میدان سیاست کے پرانے کھلاڑی اور اسمبلی کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مگر یہ پیشہ ور سیاستدان ان کو سمجھنا بھی کھیل نہیں۔ آپ اپنے پاکستان کی خدمت کے جذبے پر ان کو غالب نہ آنے دیں تو یہ آپ کے اور پاکستان کے حق میں یقینا بہت بہتر ہوگا۔ قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ اب وہ بھی مسائل سے تنگ آچکے ہیں اگر ان کے مسائل اس بار بھی حل نہ ہوئے تو خدانخواستہ کوئی دوسری یعنی منفی صورت حال پیش آسکتی ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو قدم قدم پر اپنے تمام ارادوں میں کامیابی عطا فرمائے آمین۔گزشتہ دنوں محترم طاہر القادری صاحب نے ملکی مسائل بالخصوص لوڈشیڈنگ کے پس پشت کچھ ایسے مقاصد کا ذکر کیا ہے جو آنیوالی حکومت نے اگر انھیں کم سے کم مدت میں حل کردیا تو ان کی کارکردگی پر مہر تصدیق ثبت ہوجائے گی اور ان کی نیک نامی، نیک نیتی وعدوں کی بروقت تکمیل پر پرزور واہ واہ کا باعث بنے گی۔
قادری صاحب کے خیال میں باالفاظ دیگر کچھ قومی مسائل خود ساختہ اور مصنوعی ہیں۔ چلیے مشورے تو بہت ہوگئے اور پھر ہمارے مشوروں کی اہمیت بھی کیا؟ بڑے بڑے مشیران اس ملک میں ہیں ان سے کب کون مشورہ کرتا ہے؟اب آتے ہیں ایک چھوٹی سی خبر کی طرف خبر تو اگرچہ چھوٹی سی ہے مگر بات بہت بڑی۔ ایک کالمی خبر گزشتہ دنوں نظر سے گزری کہ چین کے وزیر اعظم نے پاکستان کے مختصر دورے میں ہمارے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس سے خطاب فرمایا جوکہ چینی زبان میں تھا جب کہ سینیٹ کے چیئرمین اور دیگر ارکان نے اپنی تقاریر انگریزی میں کیں۔
لیجیے بڑی چھوٹی سی خبر ہے ہم نے کیا تمام اخبار پڑھنے والوں نے پڑھی بھی ہوگی، مگر چھوٹی خبر بڑی بات اس لیے ہے کہ ہمارے ایوان بالا میں چینی زبان سمجھنے والے کتنے ہوں گے؟ مگر چین کے وزیر اعظم نے اپنی زبان میں اظہارخیال کو ترجیح دے کر لوگوں کو بتادیا کہ اپنی زبان، اپنی روایات اور اپنے قومی اقدار پر فخر کرنا کسی زندہ قوم کے لیے کیا اہمیت اور معنی رکھتا ہے۔ ان کی تقریر سن کر بھی ہمارے ایوان بالا کے چیئرمین اور ارکان کے کان پر ذرا جوں نہ رینگی کہ وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار اپنی قومی زبان میں کرتے۔ اس صورت حال کو کیا کہا جاسکتا ہے کہ مہمان اپنی قومی زبان میں بات کر رہا ہے اور آپ اس کیسامنے اپنے قدیم آقاؤں (بلکہ موجودہ) کی زبان دانی پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔
کوئی قوم کیا اپنے قومی ورثے، معاشرتی اقدار، قومی زبان، قومی یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی سے منہ موڑ کر قوم کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قوم ہے بھی کہاں؟ بقول ایک تجربہ کار صحافی ہم 65 سال میں بھی قوم نہ بن سکے ہم قوم نہیں ایک ریوڑ ہیں جس کے گلہ بان کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ اس ریوڑ کو کس طرح لے جائے؟ کہنے کو تو ہمارا قومی ترانہ بھی ہے، پرچم بھی، قومی کھیل بھی، پھول بھی اور قومی لباس بھی ہے مگر ہم ان سب کا کتنا احترام کرتے ہیں اور ان کی حقیقت کو کس قدر تسلیم کرتے ہیں، ایک قوم ہونے پر، پاکستانی ہونے پر کتنا فخر کرتے ہیں؟ کوئی بڑے سے بڑا حادثہ ہمیں قوم بنانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ایک قوم بننے کے لیے کیا کوشش کرتے ہیں۔
یہاں تو ہمارے دانشور، اینکر پرسن، مصنف، سیاستدان بالخصوص حکمران اپنی اپنی بقراطیت دکھانے اپنے اپنے زاویوں سے قوم میں تفریق پیدا کرنے، ہر طرح کا تعصب بڑھانے اور آپس میں سب کو لڑا کر مسند اقتدار پر براجمان رہنے کی دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہماری تو ساری صلاحیت قوم کو منتشر کرنے اور اختلافات کو ہوا دینے پر صرف ہورہی ہے۔ مستقبل قریب میں کوئی مسیحا قوم کو اس بیماری سے صحت یاب کرتا نظر نہیں آرہا۔
اس لیے جیتنے والوں اور ہارنیوالوں سب کو ہی وسیع بنیادوں پر مخلص افراد کے مشوروں کی ضرورت ہے اور خوش فہمی ملاحظہ ہو کہ ہم بھی خود کو تمام اہل وطن کے لیے مخلصوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس لیے پہلا مشورہ ایک سیاستدان کی خدمت میں جوکہ خود ان کے ایک عالمانہ بیان کی روشنی میں ہے وہ یہ کہ انھوں نے غالباً 5 مئی کو (انتخاب سے قبل) ایک جلسہ عام میں ارشاد فرمایا تھا کہ ''جو لوگ خود کو لبرل کہتے ہیں وہ اپنے نام اقلیتوں میں درج کرالیں'' وہ جن کو پاکستانی عوام نے گزشتہ 65 سال سے سیاسی اقلیت قرار دیا ہوا ہے اور ہنوز سلسلہ جاری ہے تو اب انھیں سوچنا چاہیے کہ عوام نے انھیں اکثریت کا درجہ نہیں دیا اور وہ سیاسی اقلیت بن ہی چکے ہیں۔
دوسرا مشورہ ہم اپنے بہادر، دلیر پاکستانی سیاست کے افق پر نمودار ہونیوالے لیڈر عمران خان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ''گر قبول افتد زہے عزوشرف'' کہ وہ انشاء اللہ جلد روبصحت ہوکر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز خیبرپختونخوا صوبے سے کریں گے اور وہاں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر اس صوبے کے ناگفتہ بہ حالات کو جتنی کم مدت میں درست کرسکتے ہیں کریں اور اپنے مستقبل کے روشن امکانات پیدا کریں۔
کیونکہ ان کی سیاسی بقاء کا دارومدار صرف اس محدود کارکردگی پر ہے جو وہ اس صوبے میں انجام دیں گے۔ ناقص کارکردگی اور وعدے پورے نہ کرنے والوں کا حشر تو وہ ان انتخابات میں دیکھ ہی چکے ہیں کہ کیسے کیسے سیاسی بت پاش پاش ہوگئے۔ لہٰذا اپنی پوری صلاحیت اور توانائی وہ اپنے کاندھوں پر آنیوالی ذمے داریوں کو نبھانے پر صرف کریں اور فی الحال کراچی سر کرنے کی مہم کو ملتوی کردیں کیونکہ اگر وہ اپنے موجودہ امتحان میں کامیاب و سرخرو ہوگئے تو کراچی خود بخود ان کی جھولی میں ہوگا اور انھیں زیادہ محنت کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔
تیسرا مشورہ ہم اپنے نو منتخب پر عزم وزیر اعظم میاں نواز شریف کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں کہ وہ جو انھوں نے فرمایا کہ ''ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے'' یقینا ایک مستحسن اور مثبت قدم پاکستان کے مفاد میں ہوگا مگر خدارا ! وہ پیپلز پارٹی والی مفاہمت سے پھر گریز فرمائیں کیونکہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سب کو خوش کرنے کے چکر میں غلط کو غلط نہ کہا جائے اور پھر ہو یہ کہ ''غلط صحیح پر غالب آجائے'' اور غلطیوں کا سلسلہ بڑھتا جائے۔
اس سلسلے میں ہمارا پرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ مفاد پرست جو ادھر ادھر سے اچھے بھلے آزاد حیثیت سے ایوان کی زینت بن کر ملک و قوم کی خدمت کا اعزاز حاصل کرنیوالے اپنی آزادانہ حیثیت کو کچھ ذاتی مفادات کی خاطر چھوڑ کر آپ کے گرد جمع ہورہے ہیں (اس سے آپ کی طاقت اور حیثیت میں تو یقینا اضافہ ہوسکتا ہے)یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں بھی پاکستان کی کئی اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں۔ یہ آپ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی سیاست کو اپنے مقاصد اور مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
کیونکہ سوچنے کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے بل بوتے پر بلا کسی جماعت کی پشت پناہی کے انتخابات کے تمام اخراجات ازخود برداشت کیے اپنی انتخابی مہم پر کتنا خرچ کیا یہ الگ بات ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اپنی لگائی ہوئی رقم معہ سود وصول کرنا بھی ان کے اولین مقاصد سے دور نکل جائیں (بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے بھی ایسے ہی موقع پرست اور ابن الوقت لوگ تھے) لہٰذ احتیاط لازم ہے۔ویسے تو ماشاء اللہ آپ بھی میدان سیاست کے پرانے کھلاڑی اور اسمبلی کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مگر یہ پیشہ ور سیاستدان ان کو سمجھنا بھی کھیل نہیں۔ آپ اپنے پاکستان کی خدمت کے جذبے پر ان کو غالب نہ آنے دیں تو یہ آپ کے اور پاکستان کے حق میں یقینا بہت بہتر ہوگا۔ قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں کیونکہ اب وہ بھی مسائل سے تنگ آچکے ہیں اگر ان کے مسائل اس بار بھی حل نہ ہوئے تو خدانخواستہ کوئی دوسری یعنی منفی صورت حال پیش آسکتی ہے۔ پوری قوم دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو قدم قدم پر اپنے تمام ارادوں میں کامیابی عطا فرمائے آمین۔گزشتہ دنوں محترم طاہر القادری صاحب نے ملکی مسائل بالخصوص لوڈشیڈنگ کے پس پشت کچھ ایسے مقاصد کا ذکر کیا ہے جو آنیوالی حکومت نے اگر انھیں کم سے کم مدت میں حل کردیا تو ان کی کارکردگی پر مہر تصدیق ثبت ہوجائے گی اور ان کی نیک نامی، نیک نیتی وعدوں کی بروقت تکمیل پر پرزور واہ واہ کا باعث بنے گی۔
قادری صاحب کے خیال میں باالفاظ دیگر کچھ قومی مسائل خود ساختہ اور مصنوعی ہیں۔ چلیے مشورے تو بہت ہوگئے اور پھر ہمارے مشوروں کی اہمیت بھی کیا؟ بڑے بڑے مشیران اس ملک میں ہیں ان سے کب کون مشورہ کرتا ہے؟اب آتے ہیں ایک چھوٹی سی خبر کی طرف خبر تو اگرچہ چھوٹی سی ہے مگر بات بہت بڑی۔ ایک کالمی خبر گزشتہ دنوں نظر سے گزری کہ چین کے وزیر اعظم نے پاکستان کے مختصر دورے میں ہمارے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس سے خطاب فرمایا جوکہ چینی زبان میں تھا جب کہ سینیٹ کے چیئرمین اور دیگر ارکان نے اپنی تقاریر انگریزی میں کیں۔
لیجیے بڑی چھوٹی سی خبر ہے ہم نے کیا تمام اخبار پڑھنے والوں نے پڑھی بھی ہوگی، مگر چھوٹی خبر بڑی بات اس لیے ہے کہ ہمارے ایوان بالا میں چینی زبان سمجھنے والے کتنے ہوں گے؟ مگر چین کے وزیر اعظم نے اپنی زبان میں اظہارخیال کو ترجیح دے کر لوگوں کو بتادیا کہ اپنی زبان، اپنی روایات اور اپنے قومی اقدار پر فخر کرنا کسی زندہ قوم کے لیے کیا اہمیت اور معنی رکھتا ہے۔ ان کی تقریر سن کر بھی ہمارے ایوان بالا کے چیئرمین اور ارکان کے کان پر ذرا جوں نہ رینگی کہ وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار اپنی قومی زبان میں کرتے۔ اس صورت حال کو کیا کہا جاسکتا ہے کہ مہمان اپنی قومی زبان میں بات کر رہا ہے اور آپ اس کیسامنے اپنے قدیم آقاؤں (بلکہ موجودہ) کی زبان دانی پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔
کوئی قوم کیا اپنے قومی ورثے، معاشرتی اقدار، قومی زبان، قومی یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی سے منہ موڑ کر قوم کہلانے کی مستحق ہوسکتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قوم ہے بھی کہاں؟ بقول ایک تجربہ کار صحافی ہم 65 سال میں بھی قوم نہ بن سکے ہم قوم نہیں ایک ریوڑ ہیں جس کے گلہ بان کو خود بھی معلوم نہیں کہ وہ اس ریوڑ کو کس طرح لے جائے؟ کہنے کو تو ہمارا قومی ترانہ بھی ہے، پرچم بھی، قومی کھیل بھی، پھول بھی اور قومی لباس بھی ہے مگر ہم ان سب کا کتنا احترام کرتے ہیں اور ان کی حقیقت کو کس قدر تسلیم کرتے ہیں، ایک قوم ہونے پر، پاکستانی ہونے پر کتنا فخر کرتے ہیں؟ کوئی بڑے سے بڑا حادثہ ہمیں قوم بنانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ایک قوم بننے کے لیے کیا کوشش کرتے ہیں۔
یہاں تو ہمارے دانشور، اینکر پرسن، مصنف، سیاستدان بالخصوص حکمران اپنی اپنی بقراطیت دکھانے اپنے اپنے زاویوں سے قوم میں تفریق پیدا کرنے، ہر طرح کا تعصب بڑھانے اور آپس میں سب کو لڑا کر مسند اقتدار پر براجمان رہنے کی دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہماری تو ساری صلاحیت قوم کو منتشر کرنے اور اختلافات کو ہوا دینے پر صرف ہورہی ہے۔ مستقبل قریب میں کوئی مسیحا قوم کو اس بیماری سے صحت یاب کرتا نظر نہیں آرہا۔